خواتین اور بچوں کی ترقیات کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav

حکومت نے خواتین کےتحفظ ، سکیورٹی اور تفویض اختیارات کے فروغ کے لیے کئی اقدامات کئے

Posted On: 18 DEC 2024 3:54PM by PIB Delhi

‘‘پولیس’ اور ‘عوامی نظم و نسق’ دستور ہند کے ساتویں شڈول  کے تحت ریاستی موضوعات ہیں اور شہریوں کی زندگی اور املاک کے تحفظ، خواتین کے خلاف جرائم کی تحقیقات اور مقدمہ چلانے کی ذمہ داری متعلقہ ریاستی حکومتوں پر ہے؛ وہ اس طرح کے جرائم سے نمٹنے کے لئے مکمل طور پر مختار ہیں۔ تاہم، حکومت خواتین اور بچوں کی حفاظت اور سکیورٹی کو سب سے زیادہ ترجیح دیتی ہے اور اس حوالے سے کئی اقدامات کئے  ہیں۔

  • نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے  رپورٹ کردہ ڈیٹا کے  مطابق، جو کہ 2022 تک اس کی ویب سائٹ  https://ncrb.gov.in/en/crime-india پر دستیاب ہے، 2021 اور 2022 میں خواتین کے خلاف جرائم کی تعداد بالترتیب 428278 اور 445256 تھی۔ جرائم کی رپورٹنگ میں اضافہ حکومت کے مختلف اقدامات کی وجہ سے ہو سکتا ہے جنہوں نے عوام میں  بیداری   بڑھائی ہے، جن میں خواتین کی ہیلپ لائن 181، ایمرجنسی ریسپانس سپورٹ سسٹم (ای  آر ایس ایس --112)، زیرو ایف آئی آر، ای-ایف آئی آر اور متاثرہ خواتین کو ادارہ جاتی مدد فراہم کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔
  • خواتین کو بااختیار بنانے  اور ان کی حفاظت کو فروغ  دینے کے لئے حکومت نے کئی اقدامات کئے  ہیں۔ کچھ حالیہ قوانین اور پالیسیوں کی فہرست جو براہ راست اور بالواسطہ طور پر خواتین کی حفاظت سے متعلق ہیں درج ذیل ہے:
  • حکومتِ ہند نے فوجداری انصاف کے نظام کو جدید بنانے اور بہتر کرنے کے مقصد سے بھارتیہ نیائے سنہیتا (بی این ایس )، بھارتیہ  ناگرک  سُرکشا سنہیتا (بی این ایس ایس) اور بھارتیہ ساکشیہ ادھینیم (بی ایس اے) وضع کئے ہیں  جویکم جولائی 2024 سے نافذ العمل ہیں۔  بی این ایس  2023 میں، خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم جو پہلے تعزیرات ہند (آئی پی سی)، 1860 میں منتشر تھے، کو یکجا کر کے بی این ایس  کے باب پانچ میں جمع کیا گیا ہے۔ بی این ایس  نے خواتین اور بچوں سے متعلق قوانین کو مضبوط کرنے کے لئے نئے ضابطے   متعارف کرائی ہیں، خاص طور پر، سیکشن 111 جو "منظم جرائم" ، سیکشن 69 جو شادی کے جھوٹے وعدے پر جنسی تعلقات قائم کرنے، ملازمت، ترقی یا  شناخت کو چھپانے سے ، سیکشن 95 جو بچے کو مزدوری یا  جرم کو انجام دینے کے لیے   استعمال کرنے سے متعلق ہے، وغیرہ۔
  • جسم فروشی کے مقصد کے لئے بچیوں  کو خریدنا (سیکشن 99)، اجتماعی عصمتدری  (سیکشن 70) اور ٹریفکنگ کے شکار شخص کا استحصال، (سیکشن 144) کے حوالے سے سزا میں اضافہ کیا گیا ہے۔ مزید برآں، خواتین کے خلاف بعض سنگین جرائم جیسے کہ جسم فروشی کے مقصد کے لئے بچیوں کو خریدنا (بی این ایس ) کے دفعہ  99)، منظم جرائم (سیکشن 111)، بھیک مانگنے کے مقصد کے لئے بچے کو اغوا یا معذور کرنا (سیکشن 139) میں لازمی کم از کم سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ نیز، بی این ایس  2023 کے دفات  75 اور 79 خواتین کی بے حرمتی کے خلاف اضافی قانونی تحفظ فراہم کرتے ہیں، جن میں  دست دارزی جنسی  تعلق کے لیے درخواست ، ، جنسی نوعیت کے تبصرے اور خواتین کی عفت کی توہین کرنے والے الفاظ، اشارے یا عمل شامل ہیں۔ ایسی خواتین جو کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کا سامنا کر رہی ہوں، ان کے پاس ان دفعات کے تحت شکایت درج کرنے کا اختیار ہے۔
  • اس کے علاوہ، بی این ایس ایس  کے دفعہ 398 کے تحت ضابطہ   جو گواہ کے تحفظ اسکیموں، بیان کو درج  کرانے میں متاثرہ فرد پر مرکوز  پروویژن  فراہم کرتے ہیں،[بی این ایس کی دفعہ (سیکشن 176(1)، سیکشن 179، سیکشن 193(3) اور 195)]  گواہوں کو خطرے سے بچانے کی اہم ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے  اور  ڈرانا دھمکانہ   اور بی ایس اے کی دفعہ  2(1)(d) جو اب  ای میلز، کمپیوٹرز، لیپ ٹاپ یا اسمارٹ فونز پر   دستاویزات، پیغامات اور الیکٹرانک یا  ریکارڈ کو مجاز بناتی  دستاویزوں  کی تشریح کے تحت   ڈیجیٹل آلات پر جمع وائیس میل پیغامات کو  خواتین کو استحصال سے بچانے کے لیے بھی  حوالے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
  • مزید برآں، لیبر کوڈز میں مجموعی طور پر ایسی دفعات شامل ہیں جو خواتین کی افرادی قوت  میں عزت کے ساتھ شمولیت کو فروغ دینے اور آجرین کی طرف سے مناسب حفاظتی اقدامات کے ساتھ ان کی شرکت کو یقینی بناتی ہیں۔ پیشہ ورانہ تحفظ، صحت اور کام کرنے کی صورتحال سے متعلق  کوڈ، 2020، قوانین کو یکجا کرتا ہے اور ان میں ترمیم کرتا ہے جو کارکنوں کی حفاظت، صحت، اور کام کرنے کے حالات  کو منظم کرتا ہے، اور اس میں خاص طور پر خواتین کی کام کی جگہ پر حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے دفعات شامل ہیں۔
  • خواتین اور بچوں کی ترقی کی  وزارت نے حال ہی میں شی-باکس  پورٹل متعارف کرایا ہے، جو 'کام کی جگہ پر خواتین کے ساتھ جنسی ہراسانی (روک تھام، پابندی، اور ازالہ) ایکٹ، 2013' (SH ایکٹ) کی مختلف دفعات کو شامل کرتا ہے۔ یہ پورٹل ملک بھر میں حکومت یا نجی شعبے میں تشکیل شدہ داخلی کمیٹیوں (آئی سیز) اور مقامی کمیٹیوں (ایل سیز) سے متعلق معلومات کا مرکزی ذخیرہ فراہم کرتا ہے جو عوامی طور پر دستیاب ہے۔ یہ پورٹل شکایات درج کرنے اور ایسی شکایات کی حیثیت کو ٹریک کرنے کے لیے ایک مشترکہ پلیٹ فارم بھی فراہم کرتا ہے۔ پورٹل میں ایک خصوصیت شامل ہے جہاں اس پر درج شکایات کو خود بخود متعلقہ کام کی جگہوں کے ایل سی/ آئی سی  کو مرکزی وزارتوں/ محکموں، ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں  اور نجی شعبے میں بھیج دیا جائے گا۔ پورٹل میں ہر کام کی جگہ کے لیے ایک نوڈل آفیسر کی تقرری کی گنجائش بھی ہے جو شکایات کی حقیقی وقت نگرانی کے لیے باقاعدگی سے ڈیٹا/ معلومات کو اپ ڈیٹ کرنے کو یقینی بنائے گا۔
  • نربھیا فنڈ کے تحت، حکومت نے کام کی جگہ پر خواتین کی حفاظت کو بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے ہیں:
  • 'مشن شکتی' کے تحت 'سبمل' سب اسکیم کے تحت ون  اسٹاپ سینٹرز (او ایس سیز) کا جزو، جو خواتین کی حفاظت، سکیورٹی اور بااختیار بنانے کے لیے ایک جامع اسکیم ہے، نربھیا فنڈ کے تحت نافذ کیا گیا ہے۔ او ایس سیز خواتین کو جنسی تشدد یا دیگر تشویشات کا سامنا کرنے والی خواتین کو ایک ہی چھت کے نیچے پولیس کی سہولت، طبی امداد، قانونی امداد اور قانونی مشاورت، نفسیاتی مشاورت، عارضی پناہ گاہ فراہم کرتے ہیں جو پانچ دن تک ہوتی ہے۔ یہ بتایا گیا ہے  کہ 36 ریاستوں/مرکز کے زیر انتظامات علاقوں   میں 802 او ایس سیز  کام  کر رہے ہیں  جہاں اب تک 10.12 لاکھ سے زائد خواتین کو امداد فراہم کی جا چکی ہے۔
  • نربھیا فنڈ کے تحت ایک مکمل طور پر فعال، 24×7×365 ٹول فری خواتین ہیلپ لائن-181 (ڈبلیو ایچ ایل ) 35ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں  میں عملی طور پر فعال ہیں  سوائے مغربی بنگال کے، جو تشدد  کی  شکار خواتین اور پریشانی میں مبتلا خواتین کو ملک بھر میں ایمرجنسی اور غیر ایمرجنسی مدد  فراہم کرتی ہے۔ یہ ہیلپ لائن 112 کے ساتھ مکمل طور پر مربوط ہے۔ ضرورت مند خواتین اور پریشانی میں مبتلا خواتین کو مدد اور تعاون فراہم کرنے کے لیے ایمرجنسی ریسپانس سپورٹ سسٹم (112-ای آر ایس ایس -) تمام 36 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں  میں مختلف ایمرجنسیوں کے لیے قائم کیا گیا ہے، جس میں فیلڈ/پولیس وسائل کو کمپیوٹر مدد سے بھیجا جاتا ہے ۔ اب تک، خواتین کی ہیلپ لائنز نے 1.95 کروڑ سے زائد کالز موصول ہوئی ہیں۔  اور 81.64 لاکھ سے زائد خواتین کی مدد کی ہے۔
  • اس کے علاوہ، نربھیا فنڈ کے تحت، مرکزی حکومت نے ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں  کو تمام پولیس اسٹیشنز میں خواتین کے ہیلپ ڈیسک (ڈبلیو ایچ ڈیز) قائم کرنے/مضبوط کرنے کے لیے امداد فراہم کی ہے۔ اب تک، 14658 خواتین ہیلپ  ڈیسک پولیس اسٹیشنز میں قائم کیے جا چکے ہیں، جن میں سے 13,743 خواتین کی زیر نگرانی ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کی روک تھام اور متاثرین کی مدد کے لیے 827 اینٹی ہیومن ٹریفکنگ یونٹس بھی قائم کیے گئے ہیں۔
  • سائبر فورینسک کم ٹریننگ لیبز 33 ریاستوں/مرکزی کے زیر انتظام علاقوں میں  قائم کی گئی  ہیں اور 24,264 افراد کو سائبر سے متعلق معاملات کو حل کرنے کی تربیت دی گئی ہے۔
  • گھناؤنے جنسی جرائم کی شکار بدقسمت خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو انصاف فراہم کرنے کو یقینی بنانے کے لیے، حکومت نے 2019 سے ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں  کو فاسٹ ٹریک اسپیشل کورٹس ( ایف ٹی ایس سیز) قائم کرنے کے لیے مالی امداد فراہم کر رہی  ہے۔ اب تک 790 فاسٹ ٹریک اسپیشل کورٹس (ایف ٹی ایس سیز) کی منظوری دی گئی ہے، جن میں سے 750،  بشمول  408 خصوصی پی او سی ایس او (ای-پی او  سی ایس  او) عدالتیں 30 ریاستیں /مرکز کے زیر  انتظام علاقے  فعال ہیں، جنہوں نے ملک بھر میں پی او سی ایس او ایکٹ کے تحت 2,87,000 سے زائد عصمت دری کے معاملات اور زیادتیوں کو نمٹایا ہے۔
  • عوامی مقامات کےتحفظ کو یقینی بنانے جہاں  خواتین کام کرتی اور رہتی ہیں، سیف سٹی پروجیکٹس کے تحت مختلف اجزاء 8 شہروں (جیسے احمد آباد، بنگلور، چنئی، دہلی، حیدرآباد، کولکتہ، لکھنؤ اور ممبئی) میں نافذ کیے گئے ہیں۔ خواتین کے لیے محفوظ نقل و حمل کو یقینی بنانے کے لیے، ریلوے اور سڑک کے نقل و حمل کے منصوبے جیسے انٹیگریٹڈ ایمرجنسی ریسپانس مینجمنٹ سسٹم (آئی ای آر ایم ایس)، کونکن ریلوے پر ویڈیو نگرانی کا نظام ، مصنوعی ذہانت  پر مبنی  (اے آئی ) چہرے کی شناخت  کا نظام (ایف آر ایس) جیسے ریل اور سڑک نقل حمل کے پروجیکٹوں کو کمانڈ سمیت ویڈیو نگرانی نظام کے ساتھ  مربوط کیا گیا ہے۔  وزارتِ ریلوے کے تحت ٹرین میں سوار خواتین مسافروں کی حفاظت کے لیے ٹیبز شامل ہیں، اور ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام  علاقوں میں کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کے ساتھ گاڑیوں کی نگرانی کا پلیٹ فارم جیسے منصوبے، اور کچھ ریاستی مخصوص منصوبے جیسے اتر پردیش روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن ( یو پی ایس آر ٹی سی)، بنگلور میٹروپولیٹن ٹرانسپورٹ کارپوریشن (بی ایم ٹی سی )، تلنگانہ اسٹیٹ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن ( ٹی ایس آر ٹی سی) وغیرہ، وزارتِ روڈ ٹرانسپورٹ اینڈ ہائی ویز کے تحت نافذ کیے گئے ہیں۔
  • بیورو آف پولیس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ (بی پی آر اینڈ ڈی) نے بھی کئی اقدامات اٹھائے ہیں جن میں تفتیشی افسران، استغاثہ کے افسران اور میڈیکل افسران کے لیے تربیتی اور ہنرمندی کے فروغ  کے پروگرام شامل ہیں۔ بی پی آر اینڈ ڈی نے پولیس اسٹیشنوں میں خواتین کے ہیلپ ڈیسک کے لیے کام کاج کے معیاری طور طریقے  (ایس او پیز ) بھی تیار کیے ہیں تاکہ ان کی مؤثر کارکردگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم کی روک تھام اور تشخیص کے دوران پولیس کے مناسب برتاؤ اور رویے کی مہارتوں پر زور دیا گیا ہے اور جرم کے شکار افراد کے ساتھ بات چیت میں ان کی حساسیت کو بڑھایا گیا ہے۔ خواتین کی حفاظت پر ویبینارز، پولیس اہلکاروں کی صنفی حساسیت  وغیرہ بھی بی پی آر اینڈ ڈی کی جانب سے منعقد کیے گئے ہیں۔
  • تشویش میں مبتلا اور تشدد کا شکار خواتین کے لیے نفسیاتی و سماجی مشاورت کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے، خواتین و بچوں کی ترقی  کی وزارت نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیرو سائنسز (این آئی ایم ایچ اے این سی) کی خدمات حاصل کی ہیں تاکہ ملک بھر میں ون اسٹاپ سینٹرز ( او ایس سیز) کے عملے کو ‘استری منو رکشا ’ کے نام سے ایک منصوبے کے تحت خواتین کو تشدد اور پریشانی کا سامنا کرنے والی خواتین کی نفسیاتی و ذہنی صحت کی دیکھ بھال کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بنیادی اور جدید تربیت فراہم کی جا سکے۔
  • مزید برآں، خواتین و بچوں کی ترقی کی وزارت ‘مشن شکتی’ کے تحت سب اسکیم ‘سامرتھیہ ’  کا انتظام بھی کرتی ہے جس میں شکتی سدن کا جز مشکل صورت حالات میں  خواتین کی راحت اور بحالی کے لیے ہے۔
  • مشن شکتی کا ایک اور جزو سکھی نیواس (ورکنگ ویمنز ہوسٹل) خواتین کے لیے محفوظ اور آسانی سے قابل رسائی  رہائش فراہم کرتا ہے، جس میں جہاں ممکن ہو وہاں ان کے بچوں کے لیے ڈے کیئر کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے، شہری، نیم شہری یا حتیٰ کہ دیہی علاقوں میں جہاں خواتین کے لیے روزگار کے مواقع موجود ہوں۔ حکومت نے اس اسکیم کے تحت ریاستوں کو ورکنگ ویمن ہوسٹل قائم کرنے کے لیے مالی امداد فراہم کرنے کے لیے موجودہ مالی سال میں 5000 کروڑ روپے مختص کیے ہیں، جو ریاستوں کو خصوصی امداد کی اسکیم (ایس اے ایس سی آئی ) کے تحت دی جائے گی۔
  • حکومت، قومی کمیشن برائے خواتین (این سی ڈبلیو) اور ریاستوں میں اس کے ہم منصب اداروں کے ذریعے سیمنارز، ورکشاپس، آڈیو-ویژوئل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا وغیرہ کے ذریعے عوام میں خواتین کی حفاظت اور سکیورٹی کے بارے میں آگاہی پھیلا رہی ہے، اور ساتھ ہی مختلف قوانین اور پالیسیوں کی دفعات کے بارے میں بھی آگاہ کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ، خواتین و بچوں کی ترقی  کی وزارت اور وزارتِ داخلہ نے وقتاً فوقتاً ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں  کو خواتین کی حفاظت اور سکیورٹی کے حوالے سے مختلف مسائل پر مشورے جاری کیے ہیں۔ رجسٹرڈ شکایات کے حوالے سے، این سی ڈبلیو اس معاملے کو متعلقہ فریقوں  ، خاص طور پر پولیس حکام کے ساتھ اٹھاتا  ہے تاکہ شکایات کا ازالہ کیا جائے اور ان کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔

 یہ معلومات خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزیر مملکت محترمہ ساوتری ٹھاکر نے آج راجیہ سبھا میں ایک سوال کے جواب میں فراہم کی

****

ش ح۔ ف ا ۔ خ م

U-4266


(Release ID: 2085972) Visitor Counter : 18


Read this release in: English , Hindi , Tamil