بجلی کی وزارت
مرکزی وزیر جناب منوہر لال نے آج نئی دہلی میں ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے بجلی کے وزراء کی کانفرنس کی صدارت کی
مرکزی وزیر جناب منوہر لال نے پاور تھون-II کا آغاز کیا
ریاستیں ریاستی بجلی کی افادیت کی فہرست تیار کریں گی
وزارت ڈیسکام کی جامع درجہ بندی شائع کرے گی
Posted On:
12 NOV 2024 7:54PM by PIB Delhi
نئی دہلی میں 12 نومبر 2024 کو ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے بجلی کے وزراء کی کانفرنس منعقد ہوئی۔ بجلی و مکانات اور شہری امور کے مرکزی وزیر جناب منوہر لال نے کانفرنس کی صدارت کی۔ اس کانفرنس میں بجلی اور نئی اور قابل تجدید توانائی کے وزیر مملکت جناب شری پد یسو نائک بھی موجود تھے۔ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ، 3 نائب وزرائے اعلیٰ اور ریاستوں کے 12 بجلی کے وزراء نے ریاستوں کے پرنسپل سیکرٹریوں، سیکرٹری (بجلی)، سیکرٹری (ایم این آر ای ) اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے سکریٹری کے ساتھ اس کانفرنس میں شرکت کی۔
کانفرنس کے دوران، ڈیسکامس کی آپریشنل کارکردگی اور مالی فعالیت ، آر ڈی ایس ایس کا جائزہ، اسمارٹ میٹرنگ، بجلی (صارفین کے حقوق) کے ضابطوں کو نافذ کرنے کے بہترین طور طریقے ، پی ایم -سوریہ گھر یوجنا، وسائل کی مناسبیت کی منصوبہ بندی، توانائی کے ذخیرہ قابل تجدید توانائی، نیشنل ٹرانسمیشن پلان، ای وی چارجنگ انفراسٹرکچر، ریاستی جینکوس / ٹرانسکوز/ ڈیسکامس کی فہرست کاربن مارکیٹ، نیشنل گرین ہائیڈروجن وغیرہ پر تفصیلی غور و خوض کیا گیا۔ ریاستوں نے ان متعلقہ مسائل میں سے ہر ایک پر اپنی رائے اور تجاویز پیش کیں۔
کانفرنس کے دوران مدھیہ پردیش اور آسام کی ریاستوں نے بھی اسمارٹ میٹر کے بہترین طریقوں پر ایک پریزنٹیشن پیش کی۔
اپنے خطاب میں بجلی اور ہاؤسنگ اور شہری امور کے مرکزی وزیر جناب منوہر لال نے تمام معززین کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ آج سب سے زیادہ مانگ کی حد 250 گیگاواٹ ہے اور اجتماعی کوششوں سے مؤثر طریقے اس مانگ کو پورا کیا گیا ہے۔ تاہم بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر استعداد بڑھانے کے لیے کوششوں کی ضرورت ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ تقسیم کاری کے شعبے کا مالی استحکام مزید تشویش کا باعث ہے، جو ملک میں بجلی کے شعبے کی مجموعی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے ذکر کیا کہ ۔ مالی سال 2023-24 میں عارضی کھاتوں کے مطابق اے سی ایس- اے آر آر فرق بہتر ہو کر 21 پیسے / کلو واٹ فی گھنٹہ ہو گیا ہے جب کہ مالی سال 2022-23 میں یہ فرق 45 پیسے کلو واٹ فی گھنٹہ تھا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ریاستوں کو حکومت کے واجبات اور سبسڈی کی بروقت ادائیگی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ سرکاری واجبات کے لیے ریاستیں حکومت کی ادائیگی کے لیے مرکزی طریقہ کار قائم کر سکتی ہیں۔ بقایا جات اور تمام سرکاری دفاتر کو مارچ 2025 تک پیشگی ادائیگی والے اسمارٹ میٹر پر لایا جانا چاہیے۔ ریاستوں سے کہا گیا کہ وہ ڈیسکام قرضوں کو کم کرنے کے طریقوں پر کام کریں۔
انہوں نے ذکر کیا کہ سمارٹ میٹر کو فروغ دینے کے لیے ریاستوں کی طرف سے پیشگی ادائیگی کرنے والے صارفین کو 5فیصد چھوٹ فراہم کی جا سکتی ہے نیز صارفین کو مؤثر طریقے سے منسلک کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ڈیسکامس کو آر ڈی ایس ایس کے تحت منظور شدہ کاموں پر تیزی سے عمل آوری کے لیے کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔
پاورتھون کے مرحلہ-2 کا آغاز کرتے ہوئے، عزت مآب وزیر نے ذکر کیا کہ اس سے ڈیسکامس کوسر دست درپیش مسائل سے نمٹنے کے لیے اے آئی پر مبنی اختراعی حل لانے میں مدد ملے گی۔ پاور تھون -2 کے تحت مسابقتی عمل کے ذریعے، 40 ممکنہ ٹیکنالوجی سلوشنز کو 37 کروڑ روپے کی مجموعی مالی امداد کے ساتھ تیار کیا جائے گا۔ جب کہ مرحلہ-1 میں پہلے سے شناخت حلوں میں اضافے کے لیے ڈیسکامس کو 6 کروڑ روپے تک کی مالی مدد بھی فراہم کی جائے گی۔
اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ صحت مند مسابقت پیدا کرنے کے لیے ڈیسکامس کی درجہ بندی کے لیے ایک مشترکہ درجہ بندی کا طریقہ کار تیار کیا گیا ہے۔ پہلی درجہ بندی جنوری 2025 تک شائع کی جائے گی۔
عزت مآب وزیر نے اس بات پر زور دیا کہ ڈیسکامس کو بجلی کے قوانین کے تحت صارفین کے حقوق کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنا چاہیے اور صارفین کو خدمات میں خامی کی صورت میں معاوضہ فراہم کرنا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ڈیسکامس کو پی ایم سوریہ گھر یوجنا کے تحت چھتوں پر تنصیب کاری کو فروغ دینا چاہیے۔
انہوں نے ذکر کیا کہ بجلی کی بڑھتی ہوئی مانگ کے ساتھ ساتھ اس شعبے میں سرمایہ کاری کی ضرورت میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اس شعبے کی آپریشنل افادیت کو بہتر بنانے کی بھی ضرورت ہے جس کے لیے ریاستیں فہرست سازی کے لیے افادیت کی نشاندہی کر سکتی ہیں۔
اس بات کا ذکر کیا گیا کہ بجلی کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے وسائل کی مناسبیت اہم ہے اور ریاستوں کو وسائل کی مناسبیت کے منصوبے کے مطابق صلاحیت کو منسلک کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاستیں مانگ کی تکمیل کی بنیاد پر اپنی بجلی کی خریداری کو بھی بہتر بنا سکتی ہیں۔ مزید یہ کہ زیادہ مانگ کی مدت کے دوران مانگ کو پورا کرنے کے لیے ہنگامی منصوبہ بھی بنایا جائے گا۔
اس میں ذکر کیا گیا کہ بجلی کی وزارت کو کوئلہ کی وزارت کے ساتھ مل کر تھرمل پلانٹس سے کوئلے کے ذرائع کو جوڑنے کے عمل کو معقول بنانے پر کام کرے گی۔ فلائی ایش کو موثر طریقے سے ٹھکانے لگانے کے لیے، ترک شدہ کوئلے کی کانوں کی بیک فلنگ کو جلد از جلد شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی تجویز کیا گیا کہ نیشنل میرٹ آرڈر ڈسپیچ پر عمل کیا جائے تاکہ ڈیسکامس کی سپلائی کی مجموعی لاگت کو کم کیا جا سکے۔
عزت مآب وزیر نے کہا کہ ریاستوں کو نیوکلیئر پر مبنی بجلی پلانٹ پر توجہ دینی چاہیے۔ 2032 تک 8 گیگا واٹ صلاحیت سے 20 گیگا واٹ تک بڑھنے کا امکان ہے۔ وہ ریاستیں جو کوئلے کے ذرائع سے دو ر ہیں ان مقامات پر نیوکلیئر پاور پلانٹس لگانے پر غور کریں جہاں کوئلے پر مبنی تھرمل پاور پلانٹس کے کام کاج کی مدت مکمل ہو گئی ہے۔
عزت مآب وزیر نے اس بات پر زور دیا کہ ریاستوں کو قابل تجدید توانائی سے بھرپور علاقوں میں پمپڈ سٹوریج پروجیکٹس (پی ایس پیز) اور بیٹری انرجی سٹوریج سسٹم (بی ای ایس ایس) بھی شروع کرنے چاہئیں جو گرڈ میں غیر شمسی اوقات میں زیادہ مانگ کو پورا کرنے اور قابل تجدید توانائی کے وسائل کے بہتر انضمام میں مدد کریں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریاستوں کو پی ایس پی پر توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ صلاحیت 2032 تک تقریباً پانچ گیگا واٹ سے بڑھ کر 27 گیگا واٹ ہو جائے گی۔ انہوں نے ذکر کیا کہ وزارت وائبلٹی گیپ فنڈنگ اسکیم کے تحت 12 گیگا واٹ فی گھنٹہ کی بی ای ایس ایس صلاحیت کی تنصیب کاری کی حمایت کر رہی ہے اور ریاستوں کو کسی بھی طرح کے واٹر سیس چارجز اور بجلی کی پیداوار سے متعلق اس طرح کے دیگر چارجز لگانے سے گریز کرنا چاہئے ۔
انہوں نے ذکر کیا کہ آج بھارت کے پاس سب سے بڑا مطابقت پذیر گرڈ ہے، لیکن قابل تجدید توانائی کو منصوبہ بند صلاحیت کے مطابق نکالنے کے لیے مضبوط ترسیلی نظام کی ضرورت ہے۔ آئی ایس ٹی ایس ترسیلی لائنوں کے مطابق کم از کم 10 سال تک بین ریاستی ٹرانسمیشن کے لیے بھی جامع منصوبہ کی ضرورت ہے۔ ریاستیں گرین انرجی کوریڈورز فیز-III کے لیے ٹرانسمیشن پروجیکٹوں کی نشاندہی کریں اور ٹرانسمیشن لائنوں کے لیے آر او ڈبلیو کے سلسلے میں معاوضے کی ادائیگی کے لیے نظر ثانی شدہ رہنما خطوط اپنائیں اور آر او ڈبلیو کے زیر التواء مسائل کو جلد از جلد حل کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ریاستوں کو چاہیے کہ وہ ایس ایل ڈی سی کی افرادی قوت کی مناسبیت کے رہنما خطوط کو اپنائیں اور اپنے لوڈ ڈسپیچ مراکز کی ضروری تنظیم نو کریں۔
انہوں نے مزید ذکر کیا کہ بجلی کے شعبے میں ٹکنالوجی کا استعمال کیا جانا چاہئے اور ریاستوں کے ذریعہ سائبرسیکیوریٹی کے ضروری رہنما خطوط پر عمل کیا جانا چاہئے۔ بڑھتی ہوئی معیشت کی وجہ سے مانگ میں مسلسل اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے ریاستوں کے ذریعہ بجلی کی مانگ سے متعلق قیاس آرائی کو ترجیحی بنیاد پر لیا جانا چاہئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تمام ریاستوں کو اپنے کوئلے پر مبنی بجلی کے پلانٹ کے 40فیصد تک لچکدار آپریشن کو یقینی بنانا چاہیے۔
اپنے اختتامی کلمات میں، بجلی و نئی اور قابل تجدید توانائی کے وزیر مملکت نے ذکر کیا کہ حکومت ہند 2030 تک 500 گیگا واٹ غیر فوسل فیول پاور حاصل کرنے، توانائی کے ذخیرہ کرنے کے حل کو بڑھانے، اور مزید قابل تجدید توانائی کو گرڈ میں ضم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ قابل تجدید توانائی کے انخلاء کے لیے ٹرانسمیشن کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ کو پہلے ہی حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ تاہم، قابل تجدید توانائی کو صارفین تک پہنچانے کے لیے، بین ریاستی ٹرانسمیشن کے لیے بھی ایک جامع منصوبہ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ریاستوں سے درخواست کی کہ وہ وقتاً فوقتاً اپنے ڈاون اسٹریم نیٹ ورکس کی ترقی کی پیش رفت کا جائزہ لیں تاکہ بین ریاستی ٹرانسمیشن سسٹم (آئی ایس ٹی ایس ) نیٹ ورک کے ساتھ صف بندی کو یقینی بنایا جا سکے۔
سکریٹری (بجلی) جناب پنکج اگروال نے اپنے خطاب میں بجلی کے شعبے میں اہم خدشات کو اجاگر کیا۔ انہوں نے ریاستوں پر زور دیا کہ وہ اصلاحاتی اقدامات کو لاگو کرنے میں تعاون جاری رکھیں تاکہ بجلی کے شعبے کی افادیت کو بہتر بنایا جا سکے ۔ انہوں نے ریاستوں سے آر ڈی ایس ایس کے تحت کاموں کو بروقت نافذ کرنے کی درخواست کی جس سے تقسیم کاری کے شعبے کو فعال بنانے میں مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ ، انہوں نے ریاستوں سے وسائل کی مناسبیت کے منصوبے پر عمل درآمد کرنے اور پیداوار اور ترسیل کے شعبے میں جاری پروجیکٹوں میں زیر التوا معاملات کو حل کرنے پر بھی زور دیا۔
****
ش ح۔ ش ب۔ خ م
U NO:2411
(Release ID: 2072952)
Visitor Counter : 5