نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

قومی انسانی حقوق کمیشن کے یوم تاسیس کی تقریب کے موقع پر نائب صدر جمہوریہ ہند کے حظاب کا متن

Posted On: 18 OCT 2024 3:36PM by PIB Delhi

آپ سب کو صبح بخیر!

معزز سامعین وحضرات اور انسانی حقوق کے کاز میں شامل میرے دوست۔ میرا ایک وہ دور اقتدار تھا جسے میں کبھی بھلا نہیں سکوں گا، کیونکہ یہ ہر پلیٹ فارم پرمجھے یاد آتا ہے، مغربی بنگال  ریاست کے گورنر کے طور پر میرے عہدے کی مدت دوران انسانی حقوق کی حالت کے بارے میں مجھے یاد دلاتا  ہے،لیکن خواتین و حضرات، مغربی بنگال میں پولنگ کے بعد تشدد ملک کے منظر کی صحیح عکاسی نہیں کرتا ہے، یہاں کی حالت مختلف ہے، لیکن جب بھی کوئی مجھے ریاست مغربی بنگال کے سابق گورنر کے طور پرمجھے یاد کرتا ہے میں ہمیشہ انسانی حقوق کے قومی کمیشن کے عظیم تعاون کو یاد کرتا ہوں،جس نے قانون کی حکمرانی کی بجائے حکمران کی صورتحال کو مزید واضح کیا ہے۔ انسانی حقوق کے قومی کمیشن کے سابق رکن جناب راجیو جین کی جانب سے پیش کی گئی ایک رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مکمل رپورٹ میں تمام مسائل سے نمٹا گیا اور اس کے تعلق سے آگے راستے کا بھی اشارہ دیا گیا۔

دوستو! مجھے آج یہاں ہندوستان کے قومی انسانی حقوق کمیشن کے 31 ویں یوم تاسیس کے موقع پر آکر بے حد خوشی ہو رہی ہے۔ آج، ہم نہ صرف ایک ادارے کی یاد منا رہے ہیں، بلکہ اس بنیادی قدر کی یاد منا رہے ہیں جو اس ادارے کا کلیدی جزو ہے، ہندوستان کے آئین کا اٹوٹ  حصہ ہے اور ہمارے معاشرے اور ثقافت کے لیے لازم و ملزوم ہے۔

اس سال انسانی حقوق کے عالمی دن کا موضوع ‘مساوات – عدم مساوات کو کم کرنا اور انسانی حقوق کو آگے لے جانا ہے۔’ مساوات کو سمجھنا ہوگا، کیونکہ یہ اس طرح کی تعریف سے بھی پرے  ہے۔ تاہم اس کی اصل بات یہ ہے کہ تمام انسان آزاد پیدا ہوئے ہیں اور وقار اور حقوق میں برابر ہیں۔ مذہب، نسل، رنگ، جنس، حیثیت، یا دیگر پہلو سطحی ہیں۔ کسی بھی شکل میں امتیازی سلوک انسانی حقوق کے بنیادی پہلوؤں کے لیے چیلنج ہے۔ انسانی حقوق  کی عوامی ردعمل کے ساتھ بہترین طریقے سے محفوظ  طور پر آبیاری کی جاسکتی ہے اور اسے پروان چڑھایا جاتا ہے۔ عوام سے بڑھ کر انسانی حقوق کا کوئی محافظ نہیں ہو سکتا، جب ایسی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں تو ہمیں ثابت قدم رہنے کی ضرورت ہے۔

دوسروں کے انسانی حقوق کا احترام کرنا ایک انسانی فریضہ ہے۔ یہ حقوق ناقابل تسخیر ہیں۔ ہمارے آئین کا دیباچہ جس میں تمام شہریوں کے لیے انصاف، آزادی، مساوات کا حصول انسانی حقوق کا نچوڑ ہے۔ مختلف تاثرات اور نظریات کے احترام کے ساتھ بھائی چارے کےجذبات رکھنے کی ضرورت ہے۔

انسانی حقوق کی تعریف دو طرح سے کی جا سکتی ہے۔ سب سے پہلے ہیٹ کے نقطہ پرانسانی حقوق کی وضاحت کرنے کا تنگ نظریہ کا قانونی طریقہ ہے۔ ہم اس میں شامل ہوجاتے ہیں ایک بہت ہی چھوٹی سی الگ تھلگ مثال کو سسٹم کے مطابق بناتے ہیں جو کہ ایک قانونی طریقہ ہے۔ تصور افراد کو ان کے موروثی وجود کے ذریعہ کچھ حقوق فراہم کرتا ہے۔ لہذاکسی قانون کی ضرورت نہیں،ہم انسانی حقوق کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں۔ ہم بنیادی حقوق کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں، ہم انسانیت کے لیے ناگزیر ہیں، فرد کے لیے ناگزیر ہیں اور اس لیے میرے مطابق، پوری عاجزی کے ساتھ ہمیں انسانی حقوق کو اس نظریے سے دیکھنا چاہیے کہ یہی ہمارا طریقہ ہے، یہی ہندوستانی طریقہ ہےاورجس کے ساتھ ہم 5000 سال سے زیادہ عرصے سے جی رہے ہیں۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا دعویٰ نہیں کر سکتا ہے۔

جب ہم ان حقوق کے ارتقاء میں جاتے ہیں، تو وہ بنیادی طور پر سیاسی حقوق سے شروع ہوئے، جس میں زندگی اور آزادی کا حق شامل ہے ۔ دوسرے حقوق میں بتدریج اضافہ ہوا۔ اس ملک میں عدلیہ نے ان حقوق میں بہت سی جہتیں شامل کی ہیں، لیکن ایک اور طریقہ بھی ہے اور وہ ہے انسانی حقوق کے بارے میں تہذیبی سوچ کا طریقہ۔ یہ نامیاتی طریقہ ہے۔ یہ انسانوں کو مجموعی طور پر نامیاتی حصے کے طور پر دیکھتا ہے، جس میں سماج اور پراکرتی یا فطرت شامل ہےاور نظام کو مجموعی طور پر امن رہنا ہے۔ یہ‘سروم شانتی’سے عبارت ہے۔ ہم نے اپنی زندگیوں کو صدیوں سے مختلف مشکلات کے باوجود اس فرمان کے ذریعے ترتیب دیا ہے۔ ہمارے لیے بحیثیت قوم انسانی حقوق کی پرورش زندگی کا ایک طریقہ ہے۔

حقوق کے بارے میں سوچنے کا تہذیبی طریقہ سیاسی حقوق سے معاشی حقوق اور پھر شعور کی آزادی جیسے دیگر حقوق کا اضافہ نہیں ہوا۔ بنیادی، قدیم، نامیاتی، اصل کو ہمارے ویدوں اور صدیوں سے ہمارے کام کاج کے طریقہ کار میں دیکھا جا سکتا ہے، یہ سکھ سب کے لیے، سب کی بھلائی کے لیے، سب خوشی کے لیے ہے۔ یہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ہم کرہ ارض پر ٹرسٹیز کی طرح آتے ہیں، استحصال کرنے والوں کے طور پر نہیں۔ ہم اپنے لیے نہیں، بلکہ سب کے لیے جیتے ہیں، ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ ہم صرف مل کرہی اس کرہ ارض کو بچاسکتے ہیں اور خوش  رہ سکتے ہیں، کیونکہ یہ وجودی چیلنج کسی فرد واحد کے لیے نہیں ہے۔

یہ نسل، ذات پات، رنگ، یا جغرافیائی حدود کے کسی بھی عنصر سے بالاتر ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے بھی یہی صورتحال ہے۔  چیئرمین نے ‘سرو سکھینا بھونتو’ پر توجہ مرکوز کی۔ جو این ایچ آر سی کا نصب العین ہے۔ کیا شاندار نصب العین ہے! ہماری تہذیبی اخلاقیات سے نکلنے والا ایک نعرہ ہے، جسے ہم نے جیا ہے اور اس سے نکلتا ہے۔ ہم نے پوری تاریخ میں اس کی مثال دی ہے اورکچھ بے رحم، لاپرواہ، ہماری تہذیب کو پامال کرنے والے اور بہت ہی مشکل حالات کے باوجودبھی قوم ثابت قدم رہی۔ یہی بھارت ہے، یہی بھارت ہے۔

ہمارے صحیفے ہمارے چارٹرس تھے اور ہیں اور  وہ علم و حکمت کے ذخیرے ہیں، وہ انسانی طرز زندگی کے ذخیرے ہیں۔ ان میں اضافہ کرنے کے لیے مستقبل میں برسوں تک کوشش کرنی پڑے گی۔ جب علم کی بات آتی ہے تو یہ صحیفےحتمی ہیں اوردرست ہیں، ہر روز ان حقوق کے بارے میں بات کی جاتی ہے  جو معاشرے اور تہذیب نے عطا کیے ہیں۔

ہماری تہذیب نے ان حقوق کو یقینی بنانے کے لیے ادارے بنائےہیں۔ اس ملک میں کسی بھی دور حکومت میں حکومت کرنے والوں کو عوام کی آواز سننی پڑتی تھی۔ ہمارے بابا، ہمارے بزرگ، ان اخلاقیات،املاک اور ان تمام چیزوں پر حقیقی طور سے عبور رکھتے تھے جو بڑے پیمانے پر انسانیت کی فلاح و بہبود کو تشکیل دیتی ہیں۔

بھوک سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہمارے مندروں میں اوپن کچن چلا کرتے تھے ۔مندربھوک سے نجات دلانے کے لیے اوپن کچن چلاتے تھے۔ تعلیم مفت تھی،لہٰذا تعلیم کا حق حاصل تھا۔ دوستو! اگر آپ ہندوستانی آئین کو دیکھیں تو اس میں22 پینٹنگز ہیں۔ پہلا گروکل ہے، یہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ہمارا معاشرہ اس بات پر فکر مند ہے کہ ہر کسی کو تعلیم تک رسائی حاصل ہو۔ آپ نے اپنی استطاعت کے مطابق دکشینہ دی ہے، لیکن کوئی ٹیوشن فیس نہیں تھی۔ اگر آپ نے تعلیم حاصل کی تو آپ اپنے استاد کوبطور احترام گرو دکشنیہ کا انعام دے سکتے ہیں، لیکن یہ لازمی عنصر نہیں تھا،یہ ایک اختیاری عنصر تھا۔ یہ عظمت اوراحترام آپ کی ایمانی قوت سے نہیں بلکہ آپ کی روح سے نکلنے والی آواز کی عظمت تھی۔ ہر شخص کواپنے عقیدے پر چلنے کی اجازت تھی ۔ ہمارے ملک کو دیکھئے  جوآیا، اس کا استقبال کیا گیا، کسی نے واحدانیت کے جذبے کو اپنا لیا اور لوگوں  نے اس ملک میں اپنے آپ کویہاں گھر کی طرح محسوس کیا جس طرح وہ دوسرے ملکوں میں اپنے گھر میں محسوس کرتے تھے۔

ایک ایسا ملک جہاں انہیں ایسے حالات میں رہنا پڑا جو کہ ناقابل بیان تھے، وہ بھی منظر تھا ۔دوستو! اس سلسلے کو اسی طرح اور آگے بھی جاری رکھ سکتا ہوں،لیکن فہرست لامتناہی ہے۔ ایک طرح سے انسانی حقوق ہمارے اخلاقی تانے بانے، ہمارے طرز زندگی کا بہت ہی اوٹوٹ حصہ ہیں اور صرف ماضی ہی کیوں؟ ہماری عصری طرز حکمرانی پر بھی نظر ڈالیئے۔جو اسی فلسفے کو کئی معنی میں اجاگر کرتا ہے ۔

پالیسیاں انسانی حقوق کے نظریے سے چلتی ہیں۔ جب کووڈ-19 نے ہم سب کو اور پوری دنیا کو متاثرہ کیا تو یہ پورے کرہ ارض کے لیے ایک غیر امتیازی چیلنج تھا۔ بڑے بڑے اور عظیم ملکوں کو نقصان پہنچا۔ اس صورت حال  میں حکومت نے اس ملک میں اس بات کو یقینی بنایا کہ کوئی بھی شخص بھوکا نہ سوئے، چاہے اس کا ذریعہ معاش کچھ بھی ہو۔دوستو! 850 ملین لوگوں کو مفت اناج دیا گیا، انہیں  اس چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے بااختیار بنایا گیااور جو سلسلہ یکم اپریل 2020 کو شروع ہوا وہ آج تک جاری ہے اور مجھے حیرت ہے کہ دنیا میں لوگ اس ملک میں  اناج کے بحران کی بات کرتے ہیں؟ اس ملک میں850 ملین لوگوں کو مفت راشن کی سہولت حاصل ہو رہی ہے اور یہ ان کے رنگ، ذات، نسل، مذہب، جغرافیائی محل وقوع یا دیگر پہلوؤں سے قطع نظر ہے۔ میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ جو لوگ ہندوستان کی بھوک کی صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہیں انہیں غور کرنے اور توبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اخلاقی تانا بانا  اس ملک میں حکمرانی کو چلا رہا ہے۔ میں اس موقع پر اس سب کی عکاسی نہیں کرنا چاہتاہوں، اس ملک میں انسانی حقوق پر اتنی توجہ دی گئی ہے کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا وہ اب ایک زمینی حقیقت ہے۔

اگر کسی بیوہ کو دو گھنٹے قطار میں کھڑا ہونا پڑے اور اس کے مرحوم شوہر کی خدمت کے بدلے پنشن حاصل کرنے کے لیے تکلیف اٹھانی پڑے تو یہ اس کے لیے وقار کو ٹھیس لگنے جیسا ہے۔ اب مزید ایسا نہیں ہے، وہ پنشن گھر بیٹھے حاصل کرسکتی ہے اور اس طرح  بھارت عالمی براہ راست ڈیجیٹل منتقلی میں 50%سے زیادہ کا رول ادا کرتا ہے ۔ ایسا فوری طور پر ظاہر ہوتا ہے، کوئی لیکیج نہیں، کوئی کوتاہی نہیں۔  دنیا کو بس یہ جاننے کی ضرورت ہے۔ میں پہچان نہیں مانگ رہا ہوں، صرف آپ کو بتا رہا ہوں۔ براہ راست فائدے کی منتقلی بدعنوانوں پر اثر انداز ہوتی ہے اور آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ دوستو! اس ملک میں پاور آف کاریڈورس نےبدعنوانی کو بے اثر کر دیاہے۔ بدعنوانی اب ملازمت کے معاہدے کا پاس ورڈ نہیں ہے۔

بدعنوانی آپ کو قانون کے محافظ بننے کی سمت لے جاتی ہے، وہ دن گئے جب کچھ لوگ سمجھتے تھے کہ وہ قانون سے بالاتر ہیں۔ اس ملک میں قانون کے سامنے مساوات کا مظاہرہ اس حد تک ہوا ہے کہ انسانی حقوق پروان چڑھ رہے ہیں اور پھل پھول رہے ہیں، اتنا بڑا ملک، اتنے تنوع کے ساتھ، دنیا کو اس کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے۔

ایک اور سنگین مسئلہ یہ ہے کہ وہ اسے جانتے ہیں، وہ اسے کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ میں اس پر بعد میں بات کروںگا۔

زیادہ عرصہ نہیں گزرا، ہمارے ملک اور دنیا میں اور دنیا کی ریاستوں کے بڑے حصوں میں یہ اب بھی ہوتا ہے۔ عوامی مقامات پر رفع حاجت کرنے والی خواتین کی رسوائی  ہمارےایک ارب 40 کروڑ لوگوں کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے ، ہمیں انسانی حقوق کے اس اہم پہلو کا خیال رکھنا ہوگا، جس کا سامنا دن میں کم از کم دو بار کرنا پڑتا ہے اور اب دیکھیں ہمارا منظران نشاد زد علاقوں سے بھرا ہوا ہے جہاں 100فیصد اس لعنت سے چھٹکارہ حاصل کیا جاچکا ہے۔اس سلسلے میں کام جاری ہے اور دنیا کو اس پر یقین کرنے کے لیےاس کودیکھنا ہوگا۔

یہ کیسی یکسر تبدیلی تھی ۔ پالیسیوں سے قطع نظر پیسے نے ہر گھر میں بیت الخلاء کو یقینی بنایا ، جو ہر گھر کا ایک بنیادی حق ہے ،جس کا کسی آئینی نسخے یا قانون کے مطابق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس وقت یہ ایک زمینی حقیقت ہے، جو ہماری خواتین کو اور دوسروں کو بھی عزت سے ہمکنار کر رہی ہے، جو انسانی حقوق کا سب سے قیمتی پہلو بھی ہے۔ دوستو! یہ مثالی ہے۔

تکنیک کو شامل کئے جانے نے ایک برابری کی صورت حال پیدا کی ہے اور ہر ایک کو قانون کے سامنے مساوی بناتے ہوئے ناجائز طریقوں کو روکنے میں مدد کی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ملک قانون کے ماحولیاتی نظام کے سامنے اس طرح کی مساوات کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ وہ قانون سے بالاتر ہیں، قانون کی پہنچ سے باہر ہیں، قانون سے استثنیٰ حاصل کر رہے ہیں، وہ قانون کی گرفت میں ہیں اور اس ملک میں سب کا احتساب صرف اور صرف قانون کے مطابق ہے۔ ایک بڑی تبدیلی جس کو  دنیا کو محسوس کرنا ہے ،اس اسکو رپر شاید ہمارا ملک ایک ہندسہ کی صورتحال میں ہے۔

ہمارے ملک میں قانون کا مضبوط بازو استثنیٰ کے ماحول کو ختم کرتا ہے۔ دوستو، کیا آپ کو لگتا ہے کہ ایک ایسا ملک جس کے پاس حقوق کا ایسا جامع تصور  ہے جو  سب کا خیال رکھتا ہے؟ کیا ہمیں کسی واعظ کی ضرورت ہے؟ کیا ہمیں انسانی حقوق کے بارے میں لیکچر دینے کی ضرورت ہے؟ ہم تمام خیالات کا استقبال کرتے ہیں، ہم لچکدار ہیں لیکن ہمیں انسانی حقوق کے پہلو پر لیکچر دینےیا خطبہ دینے کی ضرورت نہیں ہے، یقیناً نہیں۔ دوستوں، مجھے مجبوراً ایک بدقسمت پہلو  کا بھی ذکر کرنا پڑے گا۔  بدقسمتی سے، اس عظیم تہذیب کے بصورت دیگر بے داغ ریکارڈ پر داغ لگا۔ مجھے اسے  باور کرانا پڑے گا،  آپ دیکھیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے پاس حقوق انسانی کے نام پر لوگوں کو ہراساں کرنے کے لئے بہانے موجود نہیں ہیں۔

بھارت جو طویل عرصے تک حقوق انسانی کا محافظ رہا ہے،  تین سنگین خلاف ورزیوں کا سامنا کرنا پڑا جس نے نسلوں کو داغدار کر دیا: وحشت ناک بٹوارا، جارحانہ  ایمرجنسی، اور 1984 کے ہولناک فسادات۔ یہ تکلیف دہ واقعات شہری آزادی  کی کمزوری اور انسانی وقار کے تحفط کے لیے ضرورییاد دہانی کراتے ہیں۔  البتہ  پھر ہم ایک ایسی قوم ہیں جو   جلد ہی حالات کو  درست کر لیتے ہیں اور سبق حاصل کر لیتے ہیں۔

انسانی حقوق کے تئیں ہماری گہری وابستگی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے، 2015 سے ہر سال  26 نومبر کو یوم آئین منانے کے ذریعے قابل ستائش اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ یہ ہم سب کو یاد دلائے گا کہ ہم اپنی تمہید سے  ظاہر ہونے والی عظیم اقدار کے حصول کے لیے جانفشانی سے کام کریں۔ اس طرح انسانی حقوق کی پرورش اور ان کے پھلنے پھولنے کے لیے ماحول پیدا ہوتا ہے۔

اس سال ایک اور اہم قدم اٹھایا گیا- 25 جون کو 'سمودھان ہتیہ دیوس' کے طور پر منایا جائے گا تاکہ سخت گیر ایمرجنسی کے نفاذ کو نشان زد کیا جا سکے۔ اس کا مقصد ان لاکھوں لوگوں کے جذبے کا احترام کرنا تھا جنہوں نے اس وقت کی ظالم حکومت کے ہاتھوں ناقابل بیان ظلم و ستم کا سامنا کرنے کے باوجود جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کی۔ اس سے ہر بھارتی  میں انفرادی آزادی اور جمہوریت کے دفاع کے لازوال  شعلہ  کو زندہ رکھنے میں مدد ملے گی۔

قوم اور اس کے نوجوانوں کو خاص طور پر واقف کرایا جانا چاہیے کہ 25 جون 1975 کو اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے آمرانہ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک پر ایمرجنسی نافذ کرکے  ہماری جمہوریت کی روح کا گلا گھونٹ دیا تھا جس کے نتیجے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی تھی۔ لاکھوں لوگوں کو بلا قصور جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا اور میڈیا کی آواز کو خاموش کر دیا گیا اور اعلیٰ ترین سطح کی عدلیہ اس طرح ناکام ہو گئی جو پہلے کبھی نہیں ہوئی اس لیےیہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ ان کو اس ملک میں متعصبانہ زاویے سے نہیں دیکھا جا رہا ہے۔ اس ملک میں ہم واقعات اور حالات کو صرف ایک زاویے سے دیکھتے ہیں اور وہ ہے  وطن پرستی کا زاویہ، آئین کا زاویہ۔

دوستو، آئین انسانی حقوق کے لیے ہمارا  قطبی ستارہ ہے۔ ہر سال 26 نومبر کو یوم آئین منانا انسانی حقوق کو پروان چڑھانے کے ہمارے فرض کییاد دلاتا ہے۔ اس ملک کے ہر فرد بالخصوص نوجوانوں کو جمہوریت اور قوم کے لیے اس فرض شناس فریضے کییاد دلائی جائے گی۔ آئین ہتیا دیوس، اسی طرح ہر سال 25 جون کو انسانی حقوق کو درپیش خطرات اور چیلنجوں کییاد دہانی کے طور پر کام کرے گا جب کہ ایک قوم اور انسانیحقوق کے نگہبان کے طور پر بھارت کا ریکارڈ خاصا قابل ذکر ہے، اور میںیہ بات انتہائی تحمل کے ساتھ کہہ رہا ہوں۔ میں کم سے کم الفاظ استعمال کر رہا ہوں۔ اس منظر نامے میں، کم و بیش ایک منظم انداز میں  کچھ نقصان دہ قوتیں موجود ہیں، جو ہمیں غیر منصفانہ طور پر راغب کرنے کی  کوشش کرتی ہیں۔ یہ قوتیںضرورت سے زیادہ  سرگرم ہیں۔ ان کا ایک ایجنڈا ہے جو انسانی اقدار اور انسانی حقوق کی فکر سے بہت دور ہے۔ دوستو، یہ ایک مذموم سازش  ہے کہ، تمام قابل فہم مواقع پر، یہ طاقتیں جو بھارت کے خلاف ہیں، ہمارے انسانی حقوق کے منصفانہ ریکارڈ کو داغدار کرنے کے لیے قومی اور بین الاقوامی فورموں سے فائدہ اٹھاتی ہیں اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے  اپنے  ہنر پر فخر کرتی ہیں۔ میں اپنے آپ سے ایک سوال کرتا ہوں۔ ان کو یہ حق کس نے دیا ہے؟ اور یہ سب سے زیادہ مبہم ہے،  اس میں شاید ہی کوئی حقیقت ہو ۔ زمینی حقیقت بہت مختلف ہے، جیسا کہ میں نے بھوک کی صورتحال کے بارے میں اشارہ کیا تھا۔ ان میں سے کچھ  ایسا سوچتے ہیں اور یہ نوآبادیاتی ذہنیت ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ انہیں ہماری جیسی تہذیبوں کی نکتہ چینی کرنے کا حق،حالات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا اور  ہماری ترقی میں رکاوٹ ڈالنے کا حق دیا گیا ہے۔ ان قوتوں کو ایسے اقدامات سے بے اثر   بنانا ہوگا جو مثال کے طور پر، اگر میں ایسا کہوں، بھارتی  تناظر میں  اسے ، 'پرتیگھات' کہا جا سکتا ہے۔

وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ وہ انڈیکس بنانے اور دنیا میں سب کی درجہ بندی کرنے کے حقدار ہیں۔ یہ مشق سامراجی ہیکڑی کا اظہار ہے۔ کسی قوم کو برے رنگ میں دکھانے کے لیے ان کے پاس قوموں کی فہرست ہوتی ہے۔ میں انہیں دعوت دیتا ہوں کہ  وہ اس ملک میں آئیں ،اگریہاں  کوئی آسمانی روح ہے، آسمانی ماحولیاتی نظام ہے، تویہ دنیا کے کسی بھی حصے سے زیادہ یہاں موجود ہے۔ ہم سنتوں اور سادھوؤں، ثقافت اور تہذیب، ہمدردی اور غمخواری کا ملک ہیں۔

کووڈ کے دوران، ایک چیلنج کا سامنا کرتے ہوئے، ہم نے دوسرے سو ممالک کی مدد کی۔ دنیا میں جہاں بھی کوئی بحران آتا ہے ،انخلاء کی ضرورت ہو یا زلزلہ، یہ ملک ہمیشہ آگے  رہا ہے۔

توسیع پسندی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بدترین شکل ہے، یہ ملک کبھی توسیع پسندی پر یقین نہیں رکھتا ، بلکہ  یہ خود توسیع پسندی کا شکار رہا ہے۔ اس ملک کے وزیر اعظم نے ایک عالمی پلیٹ فارم پر دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ "ہم توسیع پسندی کے دور میں نہیں جی رہے ہیں، ہمیں مسائل اور تنازعات کو بحث اور سفارت کاری سے حل کرنا ہے۔" یہ بھارت ہے۔ یہ شیطانی قوتیں ایک ایسے ایجنڈے سے چلتی ہیں، جو مالیاتی طور پر ایسے لوگوں کے ذریعہ چلائی جاتی ہے، جو اپنے لئے نام کمانا چاہتے ہیں، انہیں شرمندہ کرنے کا وقت ہے۔ وہ اس ملک کے معاشی نظام کے ساتھ تباہی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتے اور یہ کوئی راز نہیں ہے۔ پہلا جزوی طور پر کامیاب، دوسرا گر گیا، غبارہ پنکچر ہو گیا۔

دوستو،انسانی حقوق، ایک تصور کے طور پر ہمیں اندر کی طرف دیکھنے کے لیے ابھارنا چاہیے۔ آپ کی زندگی میں آئے دن ایسے مواقع آتے ہیں، جب آپ بوڑھے، معذور، ضرورت مند لوگوں کا ہاتھ تھام کر انسانی حقوق کی خدمت کر سکتے ہیں اور آپ یہ کام کونسلنگ کے ذریعے بھی کر سکتے ہیں، لوگوں کو مشاورت کی ضرورت ہے۔ دنیا کے ہر ملک کو انسانی حقوق کی پیمائش اپنے ملک کی سیاسی مجموعی معیشت کی فلاح و بہبود کے پیمانہ پر کرنی چاہیے۔

پچھلی دہائی میں، ہندوستان کی اقتصادی ترقی، جو تیزی سے بڑھ رہی ہے، اور اب رک نہیں سکتی، اہرام  کی شکل  کی نہیں ہے۔ یہ سطح مرتفع کی شکل کی ہے۔ سب کو فائدہ مل رہا ہے، جو آخری قطار میں ہے، اسے بھی سستی رہائش، گیس کنکشن، نل کا پانی، انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی، روڈ کنیکٹیویٹی مل رہی ہے  اور  کسی امتیازی کی بنیاد پر نہیں ہے۔

اس ملک میں کبھی بھی کسی ترقیاتی منصوبے کو ایسے حالات سے نہیں لگایا گیا، جو انسانی حقوق کے حتمی مقصد کی خدمت کرنے والے شاندار نہ ہوں۔ ایک ایسا ملک جہاں ایک فرد کے لیے بھی ووٹ کا حق استعمال کرنے کے انتظامات کیے گئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے یہ یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں کہ جو لوگ پہاڑی علاقوں میں ہیں یا مشکل خطوں میں ہیں یا چیلنج سے دو چار  ہیں، ان کے گھر میں بجلی کی فراہمی  موجود ہے۔  اس طرح ہمارے انسانی حقوق  اور اس کے لحاظ کا ریکارڈ ہے۔ دوستو، دنیا کو دیکھو، دنیا بھر میں دیکھو۔ جب انسانی حقوق کے تحفظ کی بات آتی ہے، خاص طور پر اقلیتوں، پسماندہ اور معاشرے کے کمزور طبقات کے لیے، تو آپ بھارت کو دوسری قوموں سے آگے دیکھیں گے۔

مجھے بتائیں کہ دنیا کا کون سا ملک اپنی اقلیتوں کے ساتھ بھارت جیسا سلوک کرتا ہے؟ ہم نے کئی ممالک میں اقلیتوں کی حالت دیکھی ہے۔ جغرافیائی طور پر، جب ان کی آبادیاتی ساخت کی بات آتی ہے، تو کئی قوموں کے نام مکمل طور پر مٹ چکے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ پیچھے رہ جانے والے چھوٹے طبقے کو اس ملک میں پناہ لینا پڑی۔ انسانی حقوق کو دوسروں پر طاقت اور اثر و رسوخ دکھانے کے لیے خارجہ پالیسی کے آلے کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کیاجانا چاہیے۔

غلط  بات کا الزام لگانا اور شرمندہ کرنا سفارت کاری کی گھٹیا شکل ہے۔ آپ کو صرف وہی تبلیغ کرنی ہے، جس پر آپ عمل کرتے ہیں۔  دوستو، اگر کوئی واقعہ ہو جائے تو اسے غیر متناسب طریقے سے  بڑھا کر پیش  کیا جاتا ہے، تیزی سے ٹریک کیا جاتا ہے، اور بیانیہ اڑنے لگتے  ہیں۔ آوازیں چاروں طرف سے اٹھتی ہیں، مالی طاقت سے ایندھن ملتا ہے۔ یہی وہ وقت ہے جب ہمارے نوجوانوں اور میڈیا کو چوکنا رہنا چاہیے۔ ہمیں انسانی حقوق کے ہر پہلو کے بارے میں چوکنا رہنا ہوگا۔ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ ہم 1.4 بلین لوگوں کا ملک ہیں، ایک الگ تھلگ واقعہ ہمیں بیان نہیں کرسکتا، لیکن ان کے واقعات پر توجہ نہیں دی جاتی۔ نیلسن کو اس سے زیادہ یاد نہیں کیا گیا، جب میں ان قوموں کے بارے میں سوچتا ہوں، جنہوں نے نیلسن کی نظریں انسانی حقوق کی ایسی بھیانک خلاف ورزیوں کی طرف موڑ دی تھیں، میں اس پر مزید غور نہیں کرنا چاہتا، لیکن صرف یورپ میں ہونے والے واقعات کی فہرست بندی کرنا چاہتا ہوں۔ آپ اسے تلاش کر لیں گے۔ ہمارے اسکول کے نظام کو دیکھیں، ہمارے پاس اس قسم کی فائرنگ نہیں ہے، جس کا کچھ ممالک، جو بہت ترقی یافتہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، مستقل بنیادوں پر تجربہ کرتے ہیں۔

دوستو، ان لوگوں کے ساتھ جو قریب سے جڑے ہوئے ہیں، نقطہ نظر کلینیکل تجزیہ سے خوش کن جہالت کی طرف موڑتا ہے، جو ہمیں انسانی حقوق کے نقطہ نظر کی سیاسی نوعیت کے بارے میں نتائج اخذ کرنے کی اجازت دیتا ہے اور میں آپ کو ایک حالیہ واقعہ کی یاد دلاتا ہوں، ایک ایسا واقعہ جو اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ اس طرح کے انسانی حقوق نہیں ہونے چاہئیں۔ یہ عملی طور پر انسانی حقوق کو ختم کرنے کا ایک مصداق ہے۔ دنیا نے  اس کو دیکھا ہے، اور کچھ لوگوں  نے اس ملک میں بھگتا ہے۔

ہمارے پڑوس میں ہندوؤں کی حالت زار کا سب سے مایوس کن پہلو نام نہاد اخلاقی مبلغین، انسانی حقوق کے محافظوں کی گہری خاموشی ہے۔ وہ بالکل بے نقاب ہو چکے ہیں۔ وہ کسی ایسی چیز کے کرائے کے قاتل ہیں، جو انسانی حقوق کے سراسر خلاف ہے۔ لڑکوں، لڑکیوں اور عورتوں کی بربریت، تشدد، صدمے کے تجربات کو دیکھیں۔ دیکھو ہمارے مذہبی مقامات کی بے حرمتی ہو رہی ہے۔ ہم بہت بردبار ہیں اور اس طرح کی زیادتیوں کے بھی روادار رہے ہیں۔ یہ مناسب نہیں ہے۔ میں ملک کے ہر فرد سے کہتا ہوں کہ وہ سنجیدگی سے غور کریں، سوچیں کہ اگر آپ ان میں سے ایک  ہوتے۔

شواہد، واقعہ کے بعد ایک واقعہ، اس بات کا ڈھیر لگا رہا ہے کہ خفیہ ریاستی عناصر بڑھتی ہوئی طاقتوں کے خلاف قانون سازی میں مصروف ہیں۔ کسی نہ کسی طرح، ایسا لگتا ہے کہ وہ بین الاقوامی نظام میں تہذیبی ریاستوں کے عروج کو ہضم نہیں کر پا رہے ہیں، جو اپنی شناخت  پر قائم  ہیں۔

مجھے اس مسئلے سے تھوڑا الگ  انداز میں سوچنے  دیں۔ کیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل انسانی حقوق کے احساس کی عکاسی کرتی ہے، جب وہ انسانیت کے چھٹے حصے کو اس سے دور رکھتی ہے؟ اس کی کارکردگی کا حساب  کتاب  ہونا چاہیے۔ دوستو، انسانی حقوق کی بات کو سیاسی منصوبوں کے لیے کیلیبریٹ کیا جاتا ہے۔ کوئی پروجیکٹ حاصل کریں، پیسے حاصل کریں، کچھ لوگوں کو ملازمت دیں۔ آپ کی تعریف تب ہی ہوتی ہے جب آپ اس ملک کے بارے میں منفی بات کرتے ہیں۔ میں دنیا کے ایک ایسے ادارے کو جانتا ہوں، جو اپنے عروج پر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ انہیں آئیوی لیگ کے ادارے کہتے ہیں۔ ایک کتاب لکھی گئی ہے، جس کا نام  ‘اسنیکس  ان گنگیز ’ ہے۔

ایک مشہور شخصیت، عالمی شہرت یافتہ دلائی لامہ جی کو مدعو کیا گیا تھا۔ دعوت نامہ منسوخ کر دیا گیا۔ جس نے دعوت کی کال لی اسے دروازہ دکھا دیا گیا اور ہمیں وہاں سے یہ تبلیغ ملی کہ ہمارے بڑے اداروں میں داخلے میرٹ سے نہیں بلکہ مراعات یافتہ شجرہ نسب کے نظام سے ہوتے ہیں۔ میں پیدل اسکول گیا، چھ کلومیٹر کا سفر کرکے اسکالرشپ پر تعلیم حاصل کی، کسان خاندان سے آیا ہوں، میں آپ کے سامنے ہوں۔

دروپدی مرمو، ایک قبائلی خاتون جس نے ہر طرح کے چیلنجز کا سامنا کیا، اس ملک کی خاتون اول اور پہلی قبائلی صدر  ہیں  اور وزیر اعظم نریندر مودی چھ دہائیوں کے بعد تاریخی تیسری مدت کے لیے، اور تین دہائیوں کے بعد مکمل اکثریت کے ساتھ پہلی مدت کے لیے وزیراعظم ہیں، جنہوں  نے  اس ملک کا منظرنامہ بدل دیا ہے وہ خود  ایک پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایک  او بی سی ہیں۔ ان کے پاس اپنی جوانی کی واحد یاد چائے  بیچنا ہے جب ٹرین آتی تھی وہ جلدی  پیسہ کمانے کے لئے ایسا کرتے  تھے۔

میں 1.4  بلین کے اس ملک میں ان تین اعلیٰ عہدوں کی وضاحت کر رہا ہوں،  اگر یہ تبدیلی انسانی حقوق کے حامی نہیں ہے، اگر یہ تبدیلی انقلابی نہیں ہے، ٹھیک ہے، میں یہ سمجھنے میں ناکام ہوں کہ اس کی تعریف کیسے کی جائے۔ عوام پر مبنی حکمرانی ہمارا منتر ہے، ہمارا فلسفہ ہے۔ آخری میل کی ترسیل، سب سے کمزور کی فلاح و بہبود ہے۔ آپ ہماری سول سروسز دیکھیں، آپ حیران رہ جائیں گے، خاص طور پر ملک سے باہر کے لوگ جو وہاں جاتے ہیں، پسماندہ لوگ اتنی ترقی حاصل کرچکے ہیں۔

مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ والد ایک تھانے میں پینٹر تھے اور ایک لڑکی وہاں سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے طور پر آئی اور یہ مثالیں الگ تھلگ نہیں، بہت سی ہیں۔ میری والدہ باضابطہ طور پر تعلیم یافتہ نہیں تھیں، میرے والد پانچویں جماعت سے آگے نہیں گئے، میں آپ کے سامنے ہوں۔ یہ اس ملک میں انسانی حقوق میں بڑی تبدیلی کی وضاحت کرتا ہے۔

دوستو، جب آپ ان پیش رفتوں کو نظر انداز کرتے ہیں اور بھارت کو  شبیہ  کو برے انداز میں پیش کرنے کے لیے مصنوعی مسائل کا استعمال کیا جاتا ہے، تو میں صرف ان کی عقل پر افسوس ہی کر سکتا ہوں جو عقلی نقطہ نظر سے دور ہیں۔ جب آپ چمپئن ہونے کا دعویٰ کرنے والے اور انسانی حقوق کی وکالت کرنے والوں کی سطح کو کھرچتے ہیں، تو ایسی حقیقتوں کا ملنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ ہمارے پاس ایک نظام ہے، اور عدلیہ سمیت اداروں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہمیں چوکس رہنا ہوگا۔ چیلنج کرنے کی کوشش کرنے والے اس ملک کو غیر مستحکم کرنے کے مذموم محرکات سے متاثر ہیں۔ وہ ہماری ترقی کو ناقابل ہضم پاتے ہیں، وہ اپنی روح یا دماغ کے مطابق کام نہیں کر رہے، ان کے ساتھ مالی ہیرا پھیری کی جا رہی ہے۔ اس میں سے زیادہ تر چیزوں میں کمی آئی ہے۔ اس ملک میں ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ہم ایک قوم ہیں اس صدی سے ہمارا تعلق ہے۔ اور ہم 2047 تک ایک ترقی یافتہ ملک بن جائیں گے، جو اپنے لوگوں کو، ہر لحاظ سے، انسانی حقوق سے لطف اندوز کرنے کے قابل بنائے گا۔

ملکی طور پر ہمیں ایسے عناصر سے ہوشیار رہنا چاہیے، جو انسانی حقوق کو اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ میں سیاستدانوں کی برادری سے مخاطب ہوں۔ شہری ترمیمی ایکٹ - یہ ایک مسئلہ کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ ایکٹ اس ملک کے کسی شہری کو اس کی شہریت سے محروم نہیں کرتا۔ یہ ایکٹ دنیا کے کسی بھی فرد کو اس ملک کی شہریت لینے کا سہارا لینے سے محروم نہیں کرتا ہے۔ یہ ایکٹ ان لوگوں کو شہریت دینے کے لیے ایک مثبت قدم ہے جن کا شکار کیا جا رہا ہے، ظلم کیا جا رہا ہے اور یہ ایک مذہب تک محدود نہیں، کئی مذاہب تک پھیلا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ اس طرح کے پرسکون پہلو کو چیلنج کرنا ہے۔ ٹھیک ہے، ہمارے پاس ایک ایسی صورت حال ہے، جو خفیہ ریاستی عناصر صرف اس طرح سے تشکیل پاتے  ہیں۔  لہذا، جب یہ نظر آئے تو اسے بے رحمی سے مٹادینا چاہئے ۔

اس اہم مثال کو دیکھیں، جس کا میں نے اشارہ کیا ہے، سی اے اے میں پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے ذریعہ اجتماعی طور پر ظاہر کی گئی سماجی عظمت کا اس سے بہتر کوئی اشارہ نہیں ہو سکتا۔ بے وطن پناہ گزینوں کو ہمارے پڑوس سے اپنے ضمیر کی پیروی کرنے کا انتخاب کرنے کے "گناہ" کا ارتکاب کرنے پر سخت جبر کے تحت بھارت کی طرف آنا پڑا۔ ان کے پاس یہاں رہنے کا آپشن تھا، انہوں نے ضمیر کا "گناہ" اس وقت کیا ، جب وہ دن دھاڑے بھگت رہے تھے اور اس کی مخالفت ہو رہی ہے۔ یہ بام تسکین بخش دوا ہے ،انسانی حقوق کی تختی پر اس کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ سانپ کا دانت کتنا تیز ہو سکتا ہے؟

دوستو، یہ دوغلا پن ایک مذموم سیاسی ایجنڈا کو بے نقاب کرتا ہے، جس میں ایک اور پہلو بھی شامل ہے جو انسانی حقوق کے پھلنے پھولنے اور پروان چڑھنے سے متعلق ہے اور وہ ہے اس ملک میں آبادیاتی توازن۔ تاریخ گواہ ہے کہ قومیں اس مسئلے پر توجہ نہ دے کر اپنی شناخت مکمل طور پر کھو چکی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی حقوق کے نقطہ نظر سے اس کے عالمی اثرات ہیں۔

زلزلے کے جھٹکے تقریباً تمام جگہوں پر محسوس کیے جا رہے ہیں، زیادہ ان ممالک میں، جنہوں نے اس خطرے کی حمایت کی ہے۔ انہیں اس کی گرمی محسوس ہورہی ہے۔ دنیا میں اور خاص طور پر ملک میں آبادیاتی آب و ہوا کی تبدیلی ایک ایسا مسئلہ ہے ،جس سے فوری طور پر منظم انداز میں حل کرنے کی ضرورت ہے۔ دوستو، میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ آبادیاتی موسمیاتی تبدیلی ایک چیلنج ہے، جس سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔

اگر دنیا کو امن اور ہم آہنگی سے رہنا ہے، تو قوموں کو اپنی قومیت پر یقین رکھنا ہوگا اور اپنی شناخت کو بچانا ہوگا۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ آپ تعریف کریں گے اور میرے ساتھ ایک ہو جائیں گے۔ یہ پہلے ہی ایک وجودی چیلنج کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ آئیے اس کو ناکارہ بنائیں، اس طرح انسانی حقوق کی شاندار خدمت کریں۔

ایک اور پہلو انسانی حقوق کو ان لوگوں کے لیے سیل نہیں کیا جانا چاہیے، جو قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں، جو قانون کو چیلنج کرتے ہیں، جو آتشیں اسلحے کا استعمال کرتے ہیں، جو دہشت پھیلاتے ہیں۔ جب آپ ان کے ساتھ قانون کے مطابق معاملہ کرتے ہیں، تو انسانی حقوق کی بات پر ان کے  بہت سے دوست ہو جاتے ہیں۔ پولیس نے کہاں گولی ماری، کیسے ماری،  یہ نہیں دیکھتے  کس کو ماری، کس حالت میں ماری، کیوں ماری۔

سوسائٹی کو قانون کی ان خلاف ورزی کرنے والوں کے  ذریعہ یرغمال یا  اسیر نہیں  بنایا جا سکتا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ان بدمعاش عناصر سے نمٹنے کے لیے آگے آنا ہوگا، جو نہ صرف معاشرے کے لیے کھلی توپیں ہیں، بلکہ انسانی حقوق کے لیے بھی شدید خطرہ ہیں۔ خوش قسمتی سے، یہ اس ملک میں مؤثر طریقے سے کیا جا رہا ہے۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے رویوں کو دھمکیاں دیتے ہیں، امن و امان کو چیلنج کرتے ہیں، ان طبقات سے بڑا انسانی حقوق کا دشمن کوئی نہیں ہو سکتا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ معاشرے کے یہ بدمعاش عناصر، قانون کی خلاف ورزی کرنے والے، جو بڑے پیمانے پر معاشرے کے لیے خطرہ ہیں، انسانی حقوق کے اداروں کے ذریعے چھپائے جاتے ہیں۔

دوستو، میں اس موقع پر میں آپ کے لیے دو خیالات چھوڑنا چاہتا ہوں ۔ سب سے پہلے، اگر آپ قانون کے پریکٹیشنر ہیں، تو آپ میں سے کچھ ضرور ہیں، اور میں خود بھی کئی دہائیوں سے معاشرے کے کمزور طبقات کے حقوق اور وقار کے لیے لڑ تا رہا ہوں۔ اس کے علاوہ، ان لوگوں کے خلاف لڑیں، جو بظاہر ان کے لیے لڑنا چاہتے ہیں لیکن کسی اور کے لیے لڑ رہے ہیں، ان کو بے نقاب کریں۔ کبھی بھی کسی کو مذموم سیاسی عزائم کے لیے گفتگو اور ضمانتی حقوق کا استعمال نہ کرنے دیں اور یہ ہو رہا ہے۔ میں صرف سیاسی نقطہ نظر سے دیکھنا چاہتا ہوں۔ پھر میرے لیے کیا ہے؟ اور پھر میں اپنے جواب کو معتدل کرتا ہوں۔ جب بات قوم پرستی کی ہو، جب بات قوم کی ہو، جب ترقی کی ہو، جب انسانی حقوق کی ہو تو براہ کرم ایسا نہ کریں۔ اپنی سیاست کریں، جانب دار بنیں، لیکن ان مسائل پر، براہ کرم غیر جانب دار رہیں۔

دوسرا، اگر آپ کو قانونی تعلیم حاصل ہے یا آپ تحقیق میں دلچسپی رکھتے ہیں، تو ان لوگوں پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے وقت نکالیں ،جو ہمیں پڑھانا چاہتے ہیں لیکن جاہل ہیں، جو ہمیں موضوع نہیں بلکہ  تلقین عقیدہ سکھانا چاہتے ہیں۔ ان پر قابو پائیں، انہیں بے نقاب کریں۔ دنیا کے کسی بھی حصے کو دیکھیں ، اور آپ  پائیں گے کہ انہیں بھارت سے بہت سے اسباق لینے ہوں گے، جس نے صدیوں سے انسانی حقوق کی نشو ونما کی ہے۔

دوستو، ہم نے آخری میل کے فرد کی دیکھ بھال کے بارے میں بہت اچھی کہانیاں سنی ہیں، لیکن ہم درست طرز حکمرانی کا نمونہ تلاش کرنا چاہتے ہیں، جو انسانی حقوق کے اس  نفاذ  کے قابل بنائے۔ اس کا مطالعہ کریں، ایک کو تیار کریں، پالیسی سازی میں حصہ ڈالیں، اور سیاست میں بھی اس کو عملی جامہ پہنانا چاہیے۔

دوستو ، جب ہم این ایچ آر سی کے قیام کا جشن منا رہے ہیں، تو آئیے ہم انسانی حقوق، اپنے ہم وطنوں کے حقوق، نسلوں اور صدیوں سے ہمارے اندر موجود تصور، سب کی بھلائی کے لیے دعا کرتے ہوئے 'سروے سکھنا سنتو' کے تئیں اپنی وابستگی کی تجدید کریں۔

میں اپنی بات  ختم کرتا ہوں، ہمیشہ یاد رکھیں، انسانی حقوق کا تحفظ، پھلنا پھولنا اور پائیداری ہمارے ہاتھ میں ہے۔ یہ ہماری  اجتماعی اور معاشرتی  ذمہ داری ہے ،جسے ہر حال میں  ہمیں پوری کرنی چاہئے۔

آپ کے وقت کے لئے آپ کا شکریہ!

************

U.No:1448

ش ح۔اک، ش م، ش ب۔ق ر، ش ت، ا ک م



(Release ID: 2066172) Visitor Counter : 21


Read this release in: English , Hindi , Kannada