خلا ء کا محکمہ
azadi ka amrit mahotsav

خلائی اسٹارٹ اپس کے وینچر فنڈ کیلئے 1,000 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں:مرکزی وزیر جتیندر سنگھ


‘ایک ہندسہ سے اب ہم خلائی شعبہ میں 200 سے زیادہ اسٹارٹ اپس ہیں’

خلائی شعبہ میں100فیصدایف ڈی آئی کی اجازت

Posted On: 06 OCT 2024 8:27PM by PIB Delhi

وینچر فنڈ ٹو اسپیس اسٹارٹ اپس کے لیے 1,000 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ بات آج یہاں سائنس اور ٹکنالوجی کے مرکزی وزیر مملکت (آزادانہ چارج)، ارتھ سائنسز کے وزیر مملکت (آزادانہ چارج)، ایم او ایس پی ایم او، محکمہ جوہری توانائی، خلائی محکمہ، عملہ، عوامی شکایات اور پنشن کے وزیر جتیندر سنگھ نے کہی۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ مودی 3.0 حکومت کے پہلے 100 دنوں کے اندر لیا گیا تھا، جو اس اعلی ترجیح کا اشارہ ہے جو وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں حکومت خلائی شعبہ کو دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خلائی سکیٹر سرفہرست ان  تین یا چارشعبوں میں سے ایک ہے جس کی شناخت حکومت کی تیسری مدت 3.0 میں توجہ کے ساتھ کی گئی ہے۔

میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ تقریباً چار سال پہلے ایک انقلابی قدم کے طور پر خلائی سیکٹر کو نجی کمپنیوں کے لیے کھولنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جب کہ نیو انڈیا اسپیس لمیٹڈ(این آئی ایس ایل) ایک نیا پی ایس یو اور آئی این-ایس پی اے سی ای انڈیا کو نجی شعبہ کے ساتھ انٹرفیس کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ اس کا نتیجہ حیرت انگیز رہا ہے کیونکہ آج ایک ہندسہ کے اسٹارٹ اپس سے لے کر خلائی سیکٹر کے 200سے زائد اسٹارٹ اپس تک چھلانگ بہت کم عرصہ میں ہی لگ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف یہی نہیں، ہندوستان کے کچھ اسپیس اسٹارٹ اپس عالمی صلاحیت کے حامل ہیں اور اپنی نوعیت کے اولین اسٹارٹ اپس  میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر  ہندوستان کے پہلے نجی راکٹ ‘وکرم –ایس’ کا حوالہ دیا۔

ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے بتایا کہ یہ کوئی چھوٹی کامیابی نہیں ہے کہ اسرو- آئی ایس آر او (انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن) کا قیام 1969 میں ہوا جب امریکہ نے اپنے پہلے انسان نیل آرمسٹرانگ کو چاند کی سطح پر اتارا۔ تاہم، 60 سال سے بھی کم عرصے میں ہندوستان کا چندریان 3 دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے پہلے چاند کے قطب جنوبی پر پہنچ گیا ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہندوستان نہ صرف خلائی شعبہ میں صف  اول میں ہے بلکہ دوسرے ممالک کےلئے بیش قیمت پیش کش کرنے کی پوزیشن میں بھی ہے۔

ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے مزید انکشاف کیا کہ خلائی شعبہ میں حکومت کی طرف سے 100فیصد ایف ڈی آئی کی اجازت ہے جو کہ نئی پہل اور نئے کاروباری افراد کے لیے ایک بہت بڑا فروغ ثابت ہوا ہے، جب کہ ہندوستان میں اسٹارٹ اپس کی تعداد 2014 میں350(تین سوپچاس)سے بڑھ کر 1.5 (ڈیڑھ) لاکھ سے زیادہ ہوگئی ہے، اس طرح ہندوستان اس سیکٹر کے عالمی نظام میں تیسرے نمبر پر آگیا ہے۔ خلائی شعبہ کے اسٹارٹ اپس نے بھی ہندوستان کی مستقبل کی معیشت میں قدروں کو شامل کرنے میں بہت زیادہ حصہ ڈالنا شروع کردیا ہے جو تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ نازک پانچ سے پہلے پانچ تک بڑھتے ہوئے اور چند برسوں میں چوتھے اور تیسرے نمبر تک پہنچنے کا امکان ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image001T5HD.jpg

فوٹو - مرکزی وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ اتوار کو نئی دہلی میں مودی حکومت 3.0 کے پہلے 100 دنوں کی کچھ اہم خصوصیات کے بارے میں میڈیا کو بریف کرتے ہوئے۔

‘گگن یان’کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ روبوٹ ‘ویوم مترا’ کے ساتھ آخری آزمائشی پرواز اس سال کے آخرمیں یا اگلے سال شروع ہو جائے تاکہ اگلے سال یعنی 2025 کے دوران پہلے ہندوستانی انسان کو‘ گگن یان’کے ذریعے خلا میں بھیجا جا سکے۔

ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ ہندوستان کے خلائی شعبے کی ایک انوکھی خصوصیت یہ ہے کہ وہ لوگ بھی جن کا خلاء سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے اور جو ہندوستان کے صرف عام شہری ہیں وہ بھی اس کامیابی پر مفتخرمحسوس کررہے ہیں کہ ہندوستان اب ایک قوم بن کر ابھرا ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ اس کی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ ہم صرف راکٹ لانچ کرنے تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ خلائی ٹیکنالوجی نے انفراسٹرکچر اور ترقیاتی شعبوں میں بھی اہم کردار ادا کرنا شروع کر دیا ہے جن میں زراعت، سڑکیں اور عمارتیں، اسمارٹ سٹیز، شہری ترقیات، لینڈ ریونیو ریکارڈ، صحت کی دیکھ بھال وغیرہ شامل ہیں۔

*****

ش ح۔ظ ا۔ ع ن

U NO: 951



(Release ID: 2062723) Visitor Counter : 14


Read this release in: English , Marathi , Hindi