نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav g20-india-2023

این اے ایس سی کمپلیکس نئی دہلی میں سی ایس آئی آر کے  83ویں یوم تاسیس کی تقریبات سے نائب صدرجمہوریہ  کے خطاب کا متن

Posted On: 26 SEP 2024 3:06PM by PIB Delhi

آپ سب کو صبح بخیر۔

میرے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات نہیں ہو سکتی کہ اس کمرے میں موجود ہر شخص میرے لیے ایک رول ماڈل ہے۔ آپ کا تعاون ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، خاموشی سے آپ کا تعاون آخری قطار میں کھڑے آخری شخص کے ساتھ گونج رہا ہے، آپ کی کوششیں بھارت کو بدل رہی ہیں۔ میرے لیے یہاں آنے کا ایک بہترین موقع ہے ۔یہ ایک بہت ہی ممتاز پریمیم پلاٹینم زمرہ ہے جو کہ بھارت کی ترقی کی تاریخ کو بیان کر رہا ہے جو کہ پوری انسانی آبادی کے چھٹے حصے کا مسکن ہے۔

 

حکومت ہند کے پرنسپل سائنٹیفک مشیر پروفیسر اجے کے سود  پدم شری کے اعزاز سے بجا طور پر نوازے گئے ہیں۔ ان کا خطاب اگرچہ وقت کی تنگی کے سبب مختصر تھا تاہم بے حد پر مغز اور  روشنی سے بھرپور تھا۔ انہوں نے اشارہ دیا کہ بھارت کے پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کے لیے تمام متعلقہ فریقوں کے ساتھ تال میل اور ہم آہنگی کا موقف پیدا کیا جا رہا ہے۔

 

ڈاکٹر کے رادھا کرشنن، ان کا لیکچر معقولیت پر مبنی اور پرمغز ہو گا، مہارت کی  ٹیم یہاں مہارت کی ٹیم ایک ایسی شے ہے جو پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ ہم آہنگی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنے نقطہ نظر کو اپنے پاس رکھیں، ہم آہنگی کا مطلب ہے کہ دوسرے کے نقطہ نظر کو آواز دینے کے لئے وافر جگہ موجود ہو۔ اسے احترام کے ساتھ سنا جاتا ہو، دوسرے کے نقطہ نظر کو رد نہیں کیا جاتا۔ ٹیم کی بڑائی اس کا انتہائی شاندار ارتقاء ہے، پھر، انڈین اسپیس اوڈیسی اور آپ کی زندگی کے اسباق۔

 

میں نے اپنی ٹیم کو اسے ریکارڈ کرنے کی ہدایت دی ہے، میں راجیہ سبھا اور پارلیمنٹ کے   پلیٹ فارم کے ذریعے لاکھوں لوگوں کی طرح اس پر ایک نظر ڈالوں گا۔

 

سائنسی اور صنعتی تحقیق کی کونسل (سی ایس آئی آر) کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر این کلیسیلوی، عام طور پران کے بارے میں  ہم کہتے ہیں کہ یہ  ہمیشہ حرکت میں رہتی ہیں، وہ دن گزر گئے، اب وہ ہمیشہ حرکت میں رہتی ہیں، ہمیشہ جذبے، مشن اور لگن کے ساتھ کام میں لگی رہتی ہیں۔

 

مجھے وہ دورہ اچھی طرح یاد ہے جہاں وہ گئی ہوئی تھیں، مجھے خود یہ دیکھنے کا موقع ملا کہ ان کی ٹیم نے جو کچھ تیار کیا ہے اس سے ہنر مندی کے ساتھ ہوا بازی کا منظر کس طرح تبدیل ہو جائے گا۔ مجھے ان کی غیر موجودگی میں دہرادون اور ایک اور ادارے کا دورہ کرنے کا موقع ملا، ہمیں اس پر فخر ہے کیونکہ وہ فراخ دلی اور ایثار کے جذبے کے ساتھ اپنی سوا سب کو اس کا سہرا دیتی ہیں۔ ہندوستانی تہذیبی اخلاقیات کے اس عکس سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا ہوں۔

 

ڈاکٹر جی مہیش وہ سی ایس آئی آر کے یوم تاسیس کی تقریب کے چیئرپرسن ہیں، ہم ان لوگوں کی موجودگی سے مطمئن اور افتخار محسوس کر رہے ہیں جنہوں نے سی ایس آئی آر کی مضبوط بنیاد رکھی جنہوں نے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر اس کی سربراہی کی۔ ڈاکٹر ماشیلکر یہاں موجود ہیں۔

 

ڈاکٹر سمیر برہما چاری ہمارے درمیان موجود ہیں لیکن سائنس سب کچھ تلاش اور دریافت کرنے کے لیے ہے۔ یہاں موجود ہر شخص، خاص طور پر اگلی صف میں بیٹھے تمام اشخاص ہمارے لیے قابل احترام ہیں، کیونکہ تعلیم کی طرح، تعلیم کبھی ختم نہیں ہوتی جب آپ کسی ادارے کو چھوڑ دیتے ہیں، تعلیم زندگی بھر سیکھنے کا نام ہے جیسا کہ انہوں نے قانونی طور پر سی ایس آئی آر کو چھوڑ دیا ہے لیکن اس ادارے سے ان کا رشتہ برقرار ہے۔

 

مجھے سنٹرل الیکٹرانکس لمیٹڈ کے چیئرپرسن جناب جین کا ذکر کرنا بھی ضروری ہےوہ ایک معزز وزیر ہیں جو اس شعبے کے بارے میں بہت پرجوش ہیں، وہ یہاں آنا چاہتے تھے لیکن میں نے انہیں منع کیا، براہ کرم آپ ایسا نہیں کریں گے، وہ بہت زیادہ ضروری کاموں میں مشغول تھے۔

 

معزز سائنسداں، محققین، عملے کے افراد  اور معزز سامعین! ملک کی پوری سائنسی برادری کو میرا سلام، ہم اس زمرے میں ان کے تعاون کو سراہتے ہیں جو انہوں نے وکست بھارت بنانے کے لیے کیا ہے جو آج ہمارے سامنے نظر آرہا ہے۔ یہ دن صرف سی ایس آئی آر کے لیے نہیں بلکہ ایک بے حد خاص دن ہے۔ یہ ملک کے لیے ایک بہت ہی خاص دن ہے کیونکہ اگر ہم اپنے تاریخی پس منظر میں جائیں تو ہم دیکھیں گے کہ صدیوں پہلے ہمارے بھارت میں سائنسی صلاحیت موجود تھی۔ ہم عالمی رہنما تھے، سائنسی علوم کی بات کی جائے تو ہم دنیا کا مرکز تھے، ہم نے جس طرح کی دریافتیں اور ایجادات کیں اس نے دنیا کا سر فخر سے بلند کیا، ہم اپنا راستہ کہیں کھو گئے، ہم وہ راستہ دوبارہ حاصل کر رہے ہیں۔

 

یہ آپ کے ادارے کا یوم تاسیس ہے، لیکن یہ بھارت کی مضبوط بنیادوں سے منسلک ہے، آپ کرہ ارض پر سب سے زیادہ متحرک، فعال جمہوریت کی ان بنیادوں کو مضبوط کر رہے ہیں۔ آپ ایک ایسی قوم کی بنیادیں مضبوط کر رہے ہیں جو اتنے عروج پر ہے جیسا پہلے کبھی نہیں تھااور یہ عروج ہرگز رکنے والا نہیں ہے، ملک کا عروج بڑھتا ہی جا رہا ہے اور ترقی یافتہ بھارت کی منزل اگر پہلے نہیں تو 2047 تک ضرور مل جائے گی۔

 

میں یہاں جو کچھ دیکھ رہا ہوں وہ آپ کی سرگرمیاں اور متعلقہ مسائل کی سرگرمیاں ہیں۔ یہ اس بات کی توثیق ہے کہ ہم سائنس کی دنیا میں اپنی ماضی کی قدیم عظمت کو دوبارہ حاصل کرنے کے راستے پر گامزن ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا، آپ کا تعاون خاموشی کے ساتھ ہے، میں لفظ ‘‘سائلو’’ کو مثبت معنوں میں استعمال کر رہا ہوں، آپ کی سرگرمیاں سائلو میں ہیں، لیکن وہ فزیکل طور پر، مثبت اور مفید طور پر ایک ارب چالیس کروڑ افراد کی زندگیوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

 

سی ایس آئی آر کو راشٹر  کے لیے سائنسی اور تصوراتی لحاظ سے  ایک محرک کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ سی ایس آئی آر میں سی کا مطلب کیٹالسٹ یعنی محرک، ایس کا مطلب سائنٹفیکلی یعنی سائنسی طور پر ، آئی کا مطلب امیجینیٹولی یعنی  تخیلاتی طور پر اور آر کا مطلب  راشٹر یعنی ملک۔

 

معزز سامعین! یہ میرے لیے بہت بڑا اعزاز اور افتخار ہے اور ہمیشہ یہ میری یادوں میں نقش رہے گا کہ میں سی ایس آئی آر کے 83 ویں یوم تاسیس کی تقریب سے  وابستہ رہاہوں۔ یہ ماضی کی کامیابیوں کو یاد کرنے اور ان کی تعریف کرنے کا اور آگے دیکھنے کا موقع ہے۔ ایک روڈ میپ کو سامنے لانے کا موقع ہے تاکہ ملک کی ترقی عالمی عروج کے ساتھ زیادہ نمایاں طور پر شامل ہوسکے، کیونکہ بھارت کا مطلب وسودھیو کٹم بکم ہے۔

 

ایک سفر جو 1960 میں شروع ہوا تھا، تب میں چوتھی جماعت کا طالب علم تھا اور اب ہم کہاں پہنچ چکے ہیں، آپ سب کی محنت اور لگن کا اعتراف اور بین ثبوت ہے۔ میں آپ کو درپیش مشکلات سے بخوبی واقف ہوں، آپ جن تکلیفوں  کو برداشت کرتے ہیں، آپ جن مشکل حالات سے دوچار ہوتے ہیں،مواقع اور مناسب شناخت کی کمی کے شکار ہوتے ہیں، کیوں کہ پہلے جو ایک ایکوسسٹم موجود تھاوہاں آپ اپنا تعاون دے رہے تھے لیکن صحیح طور پراس کی قدر دانی نہیں کی جارہی تھی۔ آپ کے تعاون کو تسلیم نہیں کیا جا رہا تھا۔یہ امر یہاں بے حد خوش آئند ہے کہ  پچھلے کچھ سالوں میں، سائنسی برادری کی شناخت اور قدرو منزلت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس میں کئی طریقوں سے اضافہ ہوا ہے جس میں حکومت کی اس پر سنجیدہ توجہ بھی شامل ہے۔ وزیر اعظم کا دل اور روح سائنسی برادری کے ساتھ گہرائی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ عالمی سطح پر سائنس کے وہ پہلو جو انسانیت کے لیے اہمیت رکھتے ہیں، آپ کی طاقت، قابلیت اور پیدا کرنے کی صلاحیت پر ان کا یقین  بالکل واضح ہے۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ ہم اچھے وقت میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔

 

اب، ایک ایکو نظام موجود ہے جہاں ہمارے سائنس دان اپنی توانائی کو مکمل طور پر استعمال کرسکتے ہیں اور اسے وسعت دے سکتے ہیں، اپنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اپنی اختراعی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ملک کے لیے اپنا تعاون پیش کر سکتے ہیں۔ میں حیران نہیں ہوا، کیونکہ یہ میری توقع تھی، لیکن جب میں موضوعاتی نمائش سے گزرا تو حیرت انگیز چیزیں ہو رہی ہیں۔ تصور کریں کہ اگر بانس سے آپ لکڑی کا فرش بنا سکتے ہیں۔ تصور کریں کہ اگر بانس سے آپ کے پاس کوئی ایسی چیز تیار ہوسکتی ہے جو ساگوان کی لکڑی سے کہیں زیادہ مضبوط یا اس کے مساوی ہو، اس کی زندگی 4 دہائی یا اس سے زیادہ ہو۔ یہ کسان کی مدد کرتا ہے اور یہ دولت پیدا کرتا ہے۔ میں صرف ایک چیز کا حوالہ دے رہا ہوں، ایسی بہت سی باتیں تھیں جنہوں نے  مجھے بہت زیادہ  متاثر کیا۔

 

یہ ترقی اور پیش رفت میرے اعتماد اور ملک کے اس اعتماد کی تصدیق کرتی ہے کہ بھارت عالمی سطح پر شمار کیا جانے والا اہم ملک ہے۔ آپ کے شاندار کارناموں نے مجھے یہ بتانے کا حوصلہ دیا ہے کہ تحقیق اور ترقی میں ہم آگے بڑھ رہے ہیں،یہ وقت کی بات ہے جب ہمیں اس وقت اپنا حصہ ملے گا، اب بھی ہمیں بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ کئی توانائی کو آپس میں ملانا پڑتا ہے، انہیں مستعدی کے ساتھ اکٹھا کرنا پڑتا ہے، انہیں مل جل کر کام کرنا پڑتا ہے، مالیاتی ان پٹ کی صحیح مقدار ہونی چاہیے۔

 

مجھے بہت خوشی ہے کہ پرنسپل سائنٹفک مشیر جو ان کے ذہن میں سب سے اوپر ہے، آپ کو شاید معلوم نہ ہو اور ہوسکتا ہے کہ میڈیا میں اس کا احاطہ نہ کیا گیا ہو، لیکن جب آپ کی سائنسی برادری کے لیے سب کچھ محفوظ کرنے کی بات آتی ہے تو وہ آپ کے سرکردہ بہی خواہ ہیں۔

 

میں مرکزی بجٹ 25-2024 کا ایک مختصر حوالہ دیتا ہوں۔ انہوں نے اپنا پاؤں نیچے رکھا ہوگا، مجھے یقین ہے کہ جب بجٹ تیار ہوتا ہے تو ہمیشہ اس کے دعویدار بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے آپ کی برادری کے لیے خوب لڑا اور  واجب الادا بجٹ مل گیا اور اس میں اس کے بعد بھی اضافہ ہو سکتاہے۔ یہ اختراع، تحقیق و ترقی اور انوسندھان پربہت زیادہ زور دیتا ہے۔ قومی تحقیقی فاؤنڈیشن شروع کی گئی ہے۔ میں اسے اسی پر چھوڑتا ہوں۔ آپ بخوبی یہ جانتے ہیں کہ جب ایک آغاز ہو جا ہے، یہاں تک کہ ایک چھوٹا بچہ بھی، تویہ برسوں میں نہ رکنے کے ساتھ پوری شکل اختیار کرتا ہے۔ میری طرف سے انہیں مبارکباد، حکومت کے پاس آپ کے وکیل ہونے کے لیے، آپ ایک قابل وکیل ہیں۔ میں بہت خوش ہوں۔

 

ملک کی ترقی کا انجن، دنیا کا کوئی بھی ملک ، سائنس اور ٹیکنالوجی سے چلتا ہے اور اسے تقویت تحقیق اور ترقی سے ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیق اور ترقی پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ میں اس پلیٹ فارم سے آپ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ آگے آئیں اور تحقیق اور ترقی میں دل کھول کر سرمایہ کاری کریں۔ میں اس دن کا انتظار کر رہا ہوں جب ہمارے کارپوریٹس سرفہرست 20 عالمی کارپوریٹس میں شامل ہوں گے جو اس وقت تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ ابھی کوئی بھی نہیں ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمارے کارپوریٹس کافی تعاون نہیں کر رہے ہیں، وہ کافی تعاون کر رہے ہیں۔ آٹوموبائل اور انفارمیشن ٹکنالوجی میں، بہت کچھ کیا جا رہا ہے لیکن ہماری ملک کے حجم، اس کی صلاحیت، اس کی پوزیشن اور ترقی کی رفتار کو دیکھتے ہوئے، ہمارے کارپوریٹس کو تحقیق اور ترقی میں مشغول ہونے کے لیے مزید آگے آنے کی ضرورت ہے۔

 

معزز سامعین! تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری دیرپا ہوتی ہے اور براہ کرم اس بات کو نوٹ کرلیں کہ اس کا ایک اور اہم پہلو ہے: سافٹ سفارت کاری، اگر آپ کو کچھ ملتا ہے تو قومیں آپ کے پاس آتی ہیں۔ ہمارے پاس طاقت، تحقیق اور ترقی ان دنوں سیکیورٹی کے ساتھ اتنی مربوط ہے اس لیے سرمایہ کاری قوم کے لیے ہے، سرمایہ کاری ترقی کے لیے ہے، سرمایہ کاری پائیداری کے لیے ہے۔

 

میں خاص طور پر ایک پہلو سے متعلق فکر مند ہوں اور اس پہلو پر خوش قسمتی سے میرے لیے سی ایس آئی آر کے ایک سروے میں اس کے لئے آواز دی گئی تھی، سروے کے نمونہ کا سائز 3,000 تھا۔ ہمیں تحقیق اور ترقی کے لیے زبانی جمع خرچ نہیں کرنا چاہیے، ہمارا تعاون کافی ہونا چاہیے، نتیجہ کافی ہونا چاہیے، مصنوعی یا سطحی نہیں ہونا چاہئے۔ ہم تحقیق اور ترقی کے لیے اتنا کہنے پر فخر نہیں کر سکتے۔ تعلیمی اداروں میں تحقیق یا ترقی کرنے والے کو صرف علمی معلومات کے حصول تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ تحقیقی عمل  نقلی نہیں ہے۔ تحقیق تحقیق ہوتی ہے، اس لیے میں متعلقہ تمام لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اس کے لیے معیاری طریقۂ کار اپنائیں ۔ اس انسانی وسائل یا ادارے میں سرمایہ کاری کریں جو تحقیق اور ترقی میں مستند طور پر مشغول ہو۔ دونوں مختلف چیزیں ہیں، جب میں کسی ایک آئی آئی ٹی میں گیا – تمام آئی آئی ٹی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، میں اس وجہ سے آئی آئی ٹی کا نام نہیں لے رہا ہوں – میں حیران رہ گیا کہ تحقیق اور ترقی بہترین تھی، یہ کام پروفیسرز اور طلباء کر رہے تھے۔ لہٰذا ہمیں چوکنا رہنا ہو گا کہ محض فزیکل وسائل کے پابند ہونے کی وجہ سے ہم یہ کہتے ہوئے فخر نہیں کر سکتے کہ ‘‘اوہ، میں نے تحقیق اور ترقی کے لیے اتنا خرچ کیا ہے’’

 

معزز سامعین!تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری،  ٹھوس نتائج سے منسلک ہونا ضروری ہے اور سامنے کی صف میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ٹھوس نتیجہ کیا ہے۔

 

دوستو، کہنا کافی ہے، لیکن میں قوم کی حالت پر توجہ دے کر اپنی بات ختم کروں گا، آج قوم کی حالت میرے خوابوں سے باہر ہے۔ میں نے اس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ میں نے زمین کا تصور نہیں کیا تھا جیسا کہ آج ہے، میرے پاس وہ غور و فکر نہیں تھا۔ میں 1989 کا ذکر کر رہا ہوں، جب میں لوک سبھا کے لیے منتخب ہوا تھا۔ 1990 میں میں مرکزی وزیر تھا۔ میں چار پہلوؤں پر توجہ دوں گا۔

 

 

ایک، ہم وزراء کونسل کے رکن کے طور پر جموں و کشمیر کے سری نگر گئے۔ ہم ڈل جھیل کے قریب ایک ہوٹل میں ٹھہرے، سب کچھ پھیکا پڑ گیا، بیس روحیں بھی سڑک پر نظر نہ آئیں، افسردگی اور ناامیدی کی کیفیت تھی اور راجیہ سبھا میں جس کی صدارت میں فی الوقت بطور چیئرمین کرتا ہوں، میں اعلان کیا گیا کہ پچھلے سال دو کروڑ سیاح جموں و کشمیر گئے۔ بیس کا ہندسہ کہاں ہے؟ دو کروڑ، دفعہ 370، آئین کی ایک عارضی دفعہ - عارضی قرار دی جانے والی واحد دفعہ، کچھ لوگوں نے  اسے مستقل اپنا لیا، جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے آئین کے تحت حلف اٹھایا تھا۔ یہ دفعہ اب وہاں موجود نہیں ہے، اسے ختم کردیا گیا ہے۔

 

دوسرا، مجھے یہ تکلیف اس لیے سہنی پڑی کیونکہ، ایک طالب علم کے طور پر ‘‘ہمیں پڑھایا گیا تھا کہ بھارت سونے کے چڑیا ہے’’ ایک وزیر کے طور پر مجھے یہ موقع ملا کہ ہمارا سونا فزیکل طور پر ہوائی جہاز سے اٹھایا گیا، جو ہماری مالی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے دو سوئس بینکوں میں رکھا جائے، کیونکہ ہمارا زرمبادلہ تقریباً ایک بلین امریکی ڈالر تھا۔ اب یہ چھ سو بلین امریکی ڈالر سے زیادہ ہے، یاد رکھیں۔ ہم چیزیں دینے کے بجائے واپس لے رہے ہیں۔ مجھے تکلیف تب ہوئی جب عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) ہمیں مشورے نہیں دیتے تھے بلکہ ہمیشہ ہمیں ہدایت دیتے تھے کہ ‘‘ایسا کرو ورنہ...’’ اور اب اسی ادارے آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ ہندوستان عالمی سطح پر سرمایہ کاری کے لئے پسندیدہ مقام ہے۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی ڈیجیٹائزیشن اور اس کی ترقی جو چھ سالوں میں ہوئی ہے، بصورت دیگر چار دہائیوں یا اس سے زیادہ میں حاصل نہیں کی جا سکتی۔ڈیجیٹلائزیشن کا جو کام ہمارے ملک میں ہوا ہے، اس کے لئے عالمی بینک کے مطابق ہم ایک رول ماڈل ہیں۔

 

ایک اور پہلو یہ تھا کہ ہمارے پاس ایک ایسا نظام تھا جہاں بجلی کی راہداریوں میں بدعنوانی عروج پر تھی، کوئی بھی چیز بغیر کسی بچولیے کے کام نہیں کر سکتی تھی، رشوت ستانی آپ کے موقع ، اسی طرح نوکری یا ٹھیکہ پانے کے لئے پاس ورڈ کی حیثیت رکھتی تھی۔ اب بجلی کی گزرگاہیں پوری طرح صاف ہو چکی ہیں، کم از کم انسانی آبادی کے چھٹے حصے  کے مسکن سے بچولیا غائب ہو گیا ہے۔ کیا ہم اپنے آس پاس بچولیے کو دیکھتے ہیں؟ نہیں، تمام لین دین انسانی انٹرفیس کے بغیر ڈیجیٹل طور پر ہو رہا ہے۔ یہ وہ تبدیلی ہے جس کا میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ یہ تبدیلی میں خود دیکھ رہا ہوں۔ ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے تھے جہاں امتیازی سلوک روا تھا، کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ قانون ان کے لیے نہیں ہے ، وہ قانون سے محفوظ ہیں۔ وہ قانون کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں، یہ ایک تصور تھا جو ان کو معلوم نہیں تھا لیکن اب مراعات یافتہ طبقہ قانون کی گرمی محسوس کر رہا ہے اور کیوں نہیں؟ قانون کے سامنے برابری جمہوریت کا ایک لازمی ستون ہے۔ اگر کچھ لوگ دوسروں سے زیادہ حقوق حاصل کریں تو ہم کسی قوم کو جمہوری قوم کیسے کہہ سکتے ہیں؟ یہی نوجوان ذہنوں کے لیے فائدہ مند ہے اور اس کے نتیجے میں ہمارے نوجوان کافی توانا ہیں۔

 

چوتھا نکتہ جو میں بنانا چاہتا ہوں وہ معیشت کے بارے میں ہے۔ میں آپ کو یہ بھی نہیں بتا سکتا کہ 1990 میں ہندوستانی معیشت کا حجم لندن یا پیرس شہر سے چھوٹا تھا۔ تصور کریں۔ ایک دہائی پہلے ہمارا شمار کمزور پانچ ملکوں  میں ہوتا تھا۔ ایک کمزور  معیشت، عالمی برادری کے لیے تشویش  کی بات تھی ۔ اب ہم ایک مضبوط معیشت بن چکے ہیں، ہم دنیا کی پانچ عظیم معیشتوں میں شامل ہیں، ہم پانچویں سب سے بڑی معیشت ہیں، دو سالوں میں جاپان اور جرمنی سے آگے، تیسری بڑی معیشت بننے کی راہ پر گامزن ہیں۔ ہمارا اقتصادی عروج ایک سطح مرتفع کی طرح ہے جو ہر کسی کو متاثر کررہا ہے۔

 

اس سارے معاملے میں سائنس کا حصہ ہے، ٹیکنالوجی کا حصہ ہے، اگر ٹیکنالوجی نہیں ہوتی تو بدعنوانی ہوتی، شفاف اور جوابدہی کے ساتھ حکمرانی نہیں ہوتی۔ہمارے جمہوری ملک کے لئے ڈیجیٹائزیشن اور تبدیلی کا عمل ممکن نہیں ہوتا۔ لوگ ٹیکنالوجی میں ماہر ہیں، وہ شاید زیادہ پڑھے لکھے نہ ہوں، لیکن وہ جانتے ہیں کہ انٹرنیٹ کیسے استعمال کرنا ہے، کس طرح خدمات سے فائدہ اٹھانا ہے۔ اس کا مطلب ہے عظیم میراتھن مارچ برائے وکست بھارت @2047۔ آپ بڑے شراکت دار ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آپ اسکرین پر نظر نہ آئیں، لیکن آپ اس کے محرک ہیں۔ آپ کوچوبیس گھنٹے ساتوں دن تعاون کرنا پڑے گا۔

 

آپ کے لیے میری نیک تمنائیں،سی ایس آئی آر مہارت، تعلیمی لیاقت اور جدید تحقیق کی مثال فراہم کرتا ہے۔ مستقبل قریب میں ہم بلا شبہ بھارت کو سائنس اور ٹکنالوجی کے شعبوں میں عالمی سطح پر علمبردار کے طور پر ابھرتے ہوئے دیکھیں گے جو ہماری ترقی کی کہانی میں ایک نیا باب رقم کرنے میں ہماری مدد کرے گا۔

 

بہت بہت شکریہ

 

 

*******

ش ح۔ م ع ۔ول

 (U: 478)



(Release ID: 2059060) Visitor Counter : 13


Read this release in: English , Hindi , Kannada