بجلی کی وزارت
وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قابل قیادت میں بجلی کی وزارت نے پہلے 100 دنوں کے دوران نمایاں سنگ میل حاصل کیے ہیں: جناب منوہر لال
مرکزی اورریاستی ترسیلی نظاموں کے لیے قومی بجلی منصوبہ 2023 تا 2032 کو حتمی شکل دے دی گئی ہے
خاص طور پر کمزور قبائلی گروپ (PVTG) کےتیراسی ہزار پانچ سو چھیانوے گھرانوں کو جو دور دراز علاقوں میں واقع ہیں بجلی فراہم کی گئی ہے
انچاس ہزار پانچ سو بارہ زرعی فیڈرز جہاں زراعت کا بوجھ 30 فیصد سے زیادہ ہے انہیں پہلے ہی الگ کر دیا گیا ہے
Posted On:
23 SEP 2024 6:38PM by PIB Delhi
‘‘وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قابل قیادت میں بجلی کی وزارت نے نئی حکومت کے پہلے سو دنوں کے دوران قابل ذکر سنگ میل حاصل کیے ہیں’’، مرکزی وزیر برائے بجلی اور ہاؤسنگ اور شہری امور نے آج نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں تبصرہ کیا۔
مرکزی وزیر نے یہ بھی کہا کہ وزارت نے بجلی کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے، صلاحیت میں اضافہ کرنے، کنیکٹیویٹی بڑھانے اور بین الاقوامی رسائی کو وسعت دینے کے وژن کے ساتھ اپنا سو دن کا منصوبہ تیار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس مدت کے دوران بجلی کے شعبہ میں حاصل کی گئی کامیابیاں وزارت کی پالیسی اصلاحات اور نئے اقدامات متعارف کرانے کے تئیں وزارت کی خصوصی توجہ کوظاہرکرتی ہیں جوبھارت کے بجلی کے شعبہ کو مضبوط اور بااختیار بنانے میں اہم رول ادا کریں گے ۔
بجلی کے قومی منصوبہ (نیشنل الیکٹرسٹی پلان)پر اظہار خیال کرتے ہوئے مرکزی وزیر نے کہا کہ مرکزی اورریاستی ترسیلی نظاموں کے لیے قومی بجلی منصوبہ 2023 تا 2032 کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔اس منصوبے کا مقصد 2032 تک 458 گیگا واٹ کی انتہائی مانگ کو پورا کرنا ہے۔
گزشتہ منصوبہ 22-2017کے تحت، تقریباً 17,700 سی کے ایم لائنیں اور 73 جی وی اے تبدیلی کی صلاحیت سالانہ شامل کی گئی۔ نئے منصوبے کے تحت ملک میں ترسیلی نیٹ ورک کو 2024 میں 4.85 لاکھ سی کے ایم سے بڑھا کر 2032 میں 6.48 لاکھ سی کے ایم کردیا جائے گا۔ اسی عرصے کے دوران تبدیلی کی صلاحیت 1,251 جی وی اے سے بڑھ کر 2,342 جی وی اے ہو جائے گی۔
اس وقت کام کرنے والی 5. 33 گیگاواٹ کے علاوہ33.25 صلاحیت کی نو ،ہائی وولٹیج ڈائریکٹ کرنٹ (ایچ وی ڈی سی) لائنیں شامل کی جائیں گی۔ بین علاقائی منتقلی کی صلاحیت 119 گیگا واٹ سے بڑھ کر 168 گیگا واٹ ہو جائے گی۔ یہ منصوبہ 220 کلو واٹ اور اس سے زیادہ کے نیٹ ورک کا احاطہ کرتا ہے۔
مرکزی وزیر نے بتایا کہ اس منصوبے کی کل لاگت 9.15 لاکھ کروڑ روپے ہے۔ یہ منصوبہ بجلی کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے، گرڈ میں آرای انٹیگریشن اور گرین ہائیڈروجن لوڈ کو آسان بنانے میں مدد کرے گا۔
مرکزی وزیر نے یہ بھی کہا کہ 50 گیگا واٹ آئی ایس ٹی ایس صلاحیت کو منظوری دے دی گئی ہے۔ 335 گیگا واٹ کے ٹرانسمیشن نیٹ ورک کو 2030 تک 280 گیگا واٹ متغیر قابل تجدید توانائی (وی آر ای) کوبین ریاستی ترسیلی نظام (آئی ایس ٹی ایس) میں منتقل کرنے کا منصوبہ ہے۔
اس میں سے 42 گیگاواٹ پہلے ہی مکمل کیا جاچکا ہے، 85 گیگا واٹ زیر تعمیر ہے اور 75 گیگا واٹ کی بولی لگائے جانے کا عمل زیر تکمیل ہے۔باقی ماندہ 82 گیگاواٹ مقررہ وقت میں منظور کرلیا جائے گا۔
100 (سو) دنوں کے دوران 50.9 گیگا واٹ کی صلاحیت کے حامل ترسیلی اسکیموں کی منظوری دی گئی ہے۔ منظور شدہ پراجیکٹس کی کل تخمینہ لاگت 60,676 (ساٹھ ہزار چھ سو چھہتر )کروڑ روپے ہے۔
اس منظوری میں گجرات(14.5 جی ڈبلیو آر ای) ، آندھرا پردیش (12.5 جی ڈبلیو آر ای)، راجستھان (7.5 جی ڈبلیو آر ای)، تامل ناڈو (3.5 جی ڈبلیو آر ای)، کرناٹک (7 جی ڈبلیو آر ای)، مہاراشٹرا (1.5 جی ڈبلیو آر ای)، کے لیے ٹرانسمیشن سسٹم شامل ہیں۔ مدھیہ پردیش (1.2 گیگا واٹ تھرمل پاور)، جموں اور کشمیر (1.5 گیگا واٹ ہائیڈرو پاور)، اور چھتیس گڑھ (1.7 گیگا واٹ)۔
منظور شدہ ترسیلی نظام میں قابل تجدید بجلی کا انخلاء سمیت گجرات اور تمل ناڈو میں ساحل سے دور ہوا سےپیدا ہونے والی بجلی بھی شامل ہے۔ یہ نظام مذکورہ ریاستوں میں منصوبہ بند گرین ہائیڈروجن اور گرین امونیا پروجیکٹوں کی بجلی کی ضروریات کو پورا کرے گا اور ساتھ ہی ساتھ مہاراشٹر کے قریب پمپ شدہ اسٹوریج کی صلاحیت کو بھی پورا کرے گا۔ مزید برآں، منظور شدہ نظام جموں و کشمیر سے پن بجلی ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ سے حراتی بجلی کے اخراج میں سہولت فراہم کرے گا۔
ایک اور بڑی کامیابی پر روشنی ڈالتے ہوئے مرکزی وزیر جناب منوہر لال نے بتایا کہ (تراسی ہزار پانچ سوچھیانوے )خاص طور پر کمزور قبائلی گروپ (پی وی ٹی جی) گھرانوں کو جو دور دراز اور دور دراز علاقوں میں واقع ہیں، بجلی فراہم کی گئی ہے۔
زرعی فیڈرز پر بات کرتے ہوئے مرکزی وزیر نے بتایا کہ اسی ہزار چھ سو اکتیس فیڈرز میں سے انچاس ہزار پانچ سو بارہ ایسے زرعی فیڈرز جہاں زراعت کا بوجھ تیس فیصد سے زیادہ ہے، پہلے ہی الگ کر دیا گیا ہے۔ بقیہ اکتیس ہزار ایک سو انیس قابل عمل فیڈرز کو الگ کرنے کی منظوری دی گئی ہے تاکہ کسانوں کو دن کے وقت بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے ۔ مرکزی وزیر نے بتایا کہ اس کی لاگت تینتا لیس ہزار ایک سو انہترکروڑ روپے ہے۔
اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے مرکزی وزیر نے یہ بھی بتایا کہ بجلی کے شعبہ (سی ایس آئی آر ٹی پاور) کے لیے ایک خصوصی کمپیوٹر سیکیورٹی کو در پیش واقعات سے نمٹنے کی ٹیم قائم کی گئی ہے۔ یہ سہولت جدید انفرااسٹرکچر، جدید سائبر سیکیورٹی ٹولز، اور کلیدی وسائل سے لیس ہے، سی ایس آئی آر ٹی پاور اب بجلی کے شعبہ میں ابھرتے ہوئے سائبر خطرات سے نمٹنے کے لیے پوری طرح سے تیار ہے۔
مرکزی وزیر جناب منوہر لال نے یہ بھی کہا کہ ای وی چارجنگ انفرااسٹرکچر کے لیے نظرثانی شدہ رہنما خطوط، ‘‘الیکٹرک وہیکل چارجنگ انفرااسٹرکچر 2024 کی تنصیب اورکام کاج کے لیے رہنما خطوط’’ جاری کیے گئے ہیں تاکہ ملک گیر مربوط اور انٹرآپریبل ای وی چارجنگ نیٹ ورک کی تشکیل میں مدد ملے۔
ان رہنما خطوط کے تحت دفعات، مستقبل میں ای گاڑیوں کی چارجنگ کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے ای وی چارجنگ انفرا اسٹرکچر کی تنصیب کاری میں تیزی لانے کے لیے ایک خاکے کے طور پر کام کرتی ہیں۔ اس سے 2030 تک چارجنگ اسٹیشنوں کو تقریباً ایک لاکھ تک بڑھانے میں مدد ملے گی۔ رہنما خطوط کی اہم خصوصیات میں مندرجہ ذیل نکات شامل ہیں:
- چارج کرنے کے لیے بجلی کے کنکشن دینے کے لیے معیاری طریقہ کار اور ٹائم لائنز
- ای وی چارجرز کے انٹرآپریبلٹی کو فعال کرنے کے لیے بلاک رکاوٹ بات چیت کے ضابطہ کا استعمال
- شہری علاقوں اور شاہراہوں سے متصل عوامی ای وی چارجنگ اسٹیشنوں کے لیے مقامات کے بہترین انتخاب کے لیے معیار
- چارجنگ فیس کے ڈھانچے میں شفافیت لانا: بجلی کی شرحیں برائے مالی سال 2028 تک سپلائی کی اوسط لاگت (اے سی او ایس)پر محدود کرنا ،شمسی اوقات کے دوران چارجنگ اے سی او ایس چارجنگ کی شرحوں کو رعایت کو 20فیصد سے بڑھا کر 30فیصد کرنا۔
- کاروباری عملداری کو چارجنگ کے کاروباری عمل میں بہتری لانا۔
- صارفین اور ای وی چارجرز کے لیے حفاظت اور کنیکٹیویٹی کے تقاضے بیان کیے گئے ہیں۔
- vii. وہیکل ٹو گرڈ ڈسچارجنگ، پینٹوگراف چارجنگ جیسی جدید ٹیکنالوجیز کے استعمال کو فروغ دینا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بھارت نے دو نئے عمارتی کوڈ متعارف کروا کر ایک سرسبز مستقبل کی طرف بڑا قدم بڑھایا ہے: یہ ہیں ،تجارتی عمارتوں کے لیے توانائی کے تحفظ اور پائیدار بلڈنگ کوڈ (ای سی ایس بی سی) اور رہائشی عمارتوں کے لیے(ای این ایس ایکو نیسواس سمہتا) کوڈ۔نظر ثانی شدہ کوڈز بڑی کمرشل عمارتوں اور کثیر المنزلہ رہائشی کمپلیکس پر لاگو ہوتے ہیں جن پر سوکلو واٹ یا اس سے زیادہ بجلی کا لوڈ ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ کوڈز بڑے دفاتر، شاپنگ مالز اور اپارٹمنٹ کی عمارتوں کو اثر انداز کریں گے اور بجلی کی کھپت اٹھارہ فیصد تک کمی لائیں گے۔ مزید یہ کہ یہ اس میں قدرتی ٹھنڈک، ہوا کا گزر، پانی، اور گندے پانی کو ٹھکانے لگانے سے متعلق پائیدار خصوصیات شامل ہیں۔ ریاستیں ان بلڈنگ کوڈز کو اپنا سکتی ہیں۔
مرکزی وزیر نے یہ بھی بتایا کہ بھارت کے پاس ایک سو چوراسی گیگاواٹ سے زیادہ کی پمپ شدہ اسٹوریج پروجیکٹ (پی ایس پی) کی صلاحیت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے اسٹوریج اور گرڈ کے استحکام کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 2030 تک پی ایس پی کی 39 گیگا واٹ صلاحیت کو شامل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ فی الحال، 4.7 گیگا واٹ نصب کیا گیا ہے۔ تقریباً 6.47 گیگا واٹ صلاحیت زیر تعمیر ہے، ساٹھ گیگا واٹ سروے اور تفتیش کے مختلف مراحل میں ہے۔ پی ایس پی کے اضافی 3.77 گیگا واٹ کے ٹھیکے تقسیم کر دیئے گئے ہیں۔
مرکزی وزیر جناب منوہر لال نے یہ بھی کہا کہ ہم فی الحال توانائی کی کارکردگی میں کمی کے نظام (پرفارم اچیو ٹریڈ اسکیم) میں حصہ لینے والے بڑے صنعتی صارفین کو جی ایچ جی کے اخراج میں کمی کے نظام میں تبدیل کر رہے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس تبدیلی میں آسانی پیدا کرنے کے لیے ہم نے بھارتی کاربن مارکیٹ کے لیے ایک طریقہ کار قائم کیا ہے۔ ہم نے اخراج میں کمی کی تصدیق کے لیے کاربن تصدیق کنندگان کے لیے ایک طریقہ کار بھی شائع کیا ہے۔
یہ اقدامات گرین ہاؤس گیس (ای ایچ جی) کے اخراج میں کمی اور کاربن کریڈٹ سرٹیفکیٹس کی تجارت کی قیمتوں کا تعین کرنے کا اہل بنائیں گے۔ ہم اکتوبر 2026 تک لازمی شعبوں کے سرٹیفکیٹس اور اپریل 2026 تک رضاکارانہ شعبوں کے سرٹیفکیٹس کی تجارت کو فعال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
مرکزی وزیر نے یہ بھی کہا کہ شمال مشرقی ریاستوں میں 15 گیگا واٹ ہائیڈرو صلاحیت کو فروغ دینے کے لیے ایک نئی مرکزی مالی امداد (سی ایف اے) اسکیم کو منظوری دی گئی ہے۔ اس اسکیم کے تحت مرکزی حکومت شمال مشرقی ریاستوں کی شرکت کی حوصلہ افزائی کے لیے فی پروجیکٹ زیادہ سے زیادہ ساڑھے سات سو کروڑ روپے پر مشتمل چوبیس فیصدحصص ایکویٹی امداد فراہم کرے گی۔اس سے سرمایہ کاری میں آسانی پیدا ہوگی اور مقامی لوگوں کے لیے براہ راست روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔اس کے نفاذ کی مدت 25-2024 سے 2031-32 تک ہے۔ کل لاگت چار ہزار ایک چھتیس کروڑ روپےہے۔
پہلے سو دنوں میں پن بجلی پروجیکٹوں اور پمپ شدہ اسٹوریج پروجیکٹوں (پی ایس پی ایس) کے لیے بنیادی ڈھانچے کو فعال بنانے کی لاگت کے لیے بجٹی امداد کا دائرہ وسیع کیا گیا ہے۔ سڑکوں اور پلوں کے علاوہ امداد میں اب ترسیلی لائنوں، روپ ویز، ریلوے سائڈنگز اور مواصلاتی بنیادی ڈھانچے کے لیے مالی مدد فراہم کرنا شامل ہے۔ دوسو میگاواٹ سے زیادہ کے منصوبوں کو 0.75 کروڑ فی میگاواٹ کی امداد جب کہ جبکہ 200 میگاواٹ تک کے منصوبوں کو 1 کروڑ فی میگاواٹ کی مالی امداد ملے گی ۔ 25 میگاواٹ سے زیادہ کی صلاحیت کے حامل ہائیڈرو پراجیکٹس، بشمول پرائیویٹ سیکٹر کے پروجیکٹ جو یکم جولائی 2028 سے پہلے دیئے گئے تھے، اس امدادکے اہل ہوں گے۔ نفاذ کی مدت 2024-25 سے مالی سال 2031-32 تک ہے۔ اسکیم کے لیے کل خرچہ بارہ ہزار چار سو اکسٹھ کروڑ روپے ہے۔ اس سے پی ایس پی کےپندرہ گیگا واٹ سمیت اکتیس گیگا واٹ پن بجلی صلاحیت کی ترقی میں مدد ملے گی۔
لوئر ارون ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے جناب منوہر لال نے کہا کہ نیپال میں زیریں ارون ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ (669 میگاواٹ) کو اب بھارتی حکومت نے منظوری دے دی ہے۔ منصوبے کی لاگت پانچ ہزار سات سو بانوے کروڑ روپےہے۔ عمل درآمد کی مدت ساٹھ ماہ ہے۔
اب جب کہ بھارت شدت کے ساتھ توانائی کی منتقلی کے اہداف کا تعاقب کررہاہے، توانائی کی حفاظت کو یقینی بنانا سب سے اہم ہے۔ مرکزی وزیر نے یہ بھی بتایا کہ تیزی سے پھیلتی ہوئی معیشت کی انتہائی مانگ اور بنیادی بوجھ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیےبجلی کی وزارت نے حرارتی صلاحیت میں اضافے کو ترجیح دی ہے۔ فی الحال کل حرارتی صلاحیت: فی الحال کوئلہ اور لگنائٹ پر مبنی مجموعی حرارتی صلاحیت دو سو سترہ گیگا واٹ ہے۔اس کے علاوہ، 28.4 گیگاواٹ صلاحیت زیر عمل ہے، جس میں سے چودہ گیگاواٹ صلاحیت کے مالی سال 2025 تک بروئے کار ہونے کا امکان ہے۔ مزید 58.4 گیگا واٹ منصوبہ بندی، قانونی منظوری اور بولی کے عمل کے مختلف مراحل میں ہیں۔ اس کے علاوہگزشتہ سودنوں میں وزارت نے 12.8 گیگاواٹ نئی کوئلے پر مبنی حرارتی صلاحیت سے بھی نوازا ہے۔
**********
ش ح۔ ش ب۔اش ق
(U: 413)
(Release ID: 2058561)
Visitor Counter : 66