نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
نائب صدر کاراجیہ سبھا انٹرن شپ پروگرام کے شرکا کی تیسری بیچ سے خطاب کامتن
Posted On:
12 SEP 2024 5:07PM by PIB Delhi
آداب!
میں دل کی گہرائیوں سے راجیہ سبھا ڈپٹی چیئرمین جناب ہری ونش جی کا دممنون و مشکور ہوں۔ آپ سبھی آج ان کے خطاب سے مستفید ہوئے ہیں ۔ آپ کاانٹرن شپ پروگرام بے حد عرق ریزی کے بعد تیار کیا گیا ہے۔ اس میں میری سطح، ہری ونش جی کی سطح ، سکریٹری جنرل کی سطح اور دیگر سینئر افسران شامل رہے ۔ یہ تیسرا سلسلہ ہے اوراس کا مقصد آپ لوگوں کو تعلیم یافتہ بنانا نہیں ہے چونکہ آپ میں سے ہر ایک اپنی مدد آپ کرنے کی صلاحیت اور قابلیت رکھتا ہے۔مقصد آپ کو پہل کرنے پر آمادہ کرنا ہے، مقصد آپ کے اندر کی اس شمع کو جلانا ہے ، جو آپ کو بھارتی پارلیمنٹ، قوم پرستی اور ملک سے جوڑتی ہے اس لئے آج سے آپ وہ فوجی، جنگجو ہوں گے جو ا یک مقصد کے لئے کام کریں گے، اور ہمیں ہمیشہ ملک کو پہلے رکھنا چاہئے۔ ہم ملک کو اپنے ذاتی مفاداور متعصبانہ مفاد سے اوپر رکھیں گے، بس یہ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ قوم اورآئین کا کیا مطلب ہے؟
مجھے اس بات سے تکلیف پہنچی ہے اورمیں دلبرداشتہ ہوں کہ عہدوں پر فائز کچھ لوگ بھارت کے نظریہ سے بالکل ناواقف ہیں۔انہیں ہمارے آئین اور ہمارے ملکی مفاد کاکوئی علم نہیں ہے۔مجھے یقین ہے کہ آپ جو دیکھ رہے ہیں اسے دیکھ کر ا ٓپ کا دل رو رہا ہوگا،اگر ہم سچے بھارتیہ ہیں اورہم اپنے ملک میں یقین رکھتے ہیں تو ہم کبھی ملک کے دشمنوں کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے۔ ہم سب اپنے ملک کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے رہیں گے۔
ذرا تصور کریں آزادی حاصل کرنے کے لئے کتنے لوگوں نے عظیم قربانیاں دی ہیں اورکتنے لوگوں نے اس آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے اپنی جانوں کانذرانہ پیش کیا ہے ۔ میرے بھائیو ں اوربہنوں!اب یہ لوگ لڑائی لڑنےکی حالت میں ہیں ، ماؤں نے اپنے بیٹے کھوئے ہیں، بیویوں نے اپنے شوہر گنوائے ہیں ۔ ہم قوم پرستی کو ضائع نہیں کرسکتے۔ ملک سے باہر کے ہر بھارتیہ کو ملک کا سفیر بننا ہوگا، لیکن یہ دیکھ کر تکلیف پہنچتی ہے کہ کسی آئینی عہدے پر فائز شخص اس کے بالکل برعکس پیش آرہا ہے۔
اس سے زیادہ قابل مذمت، حقارت آمیز اور ناقابل برداشت کچھ نہیں ہوسکتا کہ آپ ملک دشمنوں کا حصہ بنیں۔ یہ لوگ آزادی کی قیمت نہیں جانتے۔
وہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ اس ملک کی تہذیب گزشتہ 5 ہزار سالوں میں پیوست ہے۔ پہلے میں آٖ پ کی توجہ آئین کی جانب مبذول کرنا چاہوں گا۔کچھ لوگ اتنے کم علم ہیں کہ وہ آئین کو جو بے حد مقدس ہے ،ہلکے میں لیتے ہیں ۔یہ آئین اس کے بانیوں کی تین سال کی کڑی محنت کے بعد تیار کیا گیا جس میں قانون ساز اسمبلی کے اراکین نے بلاتعطل ، بلارکاوٹ، بنا کسی نعرے بازی اور بنا کسی طرح کی پوسٹر بازی کئے 18 سے زیادہ اجلاس منعقدکئے۔
یہ آئین بحث، مباحثے، مذاکرے اور تبادلہ خیال کے بعد وجود میں آیا۔لڑکوں اور لڑکیوں!ان کے سامنے ہمالیہ کی طرح ناقابل تسخیر چیلنجز تھے۔ اس دوران تقسیم پیدا کرنے والے معاملات تھے، جن پر اتفاق رائے بنانا آسان نہیں تھا۔ لیکن انہوں نے اس پر کام کیا، انہوں نے ہمارے لئے کام کیا۔ کچھ لوگ ہمارے ملک کوتقسیم کرنا چاہتے ہیں ۔جہالت کی انتہا ہے۔میں آپ کو بھارتی آئین کا پیش لفظ بتانا چاہتا ہوں ۔ہم بھارت کے لوگ اس پیش لفظ میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ہم اس کا منبع ہیں۔ ہم نے خود کو یہ آئین دیا ہے۔ انصاف کے لئے، آزادی، مساوات اور بھائی چارے کے لئے۔ ذرا تصور کریں کہ کوئی ملک سے باہر ایک فرضی صورتحال جس کا وجود نہیں ہے ، کاحوالہ دے کر اس بھائی چارے میں پھوٹ ڈالنا چاہتا ہے۔
میں آپ سب سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ جناب اٹل بہاری واجپئی کے دور کا مطالعہ کریں جو پہلے اپوزیشن لیڈر اوربعد میں وزیراعظم بنے۔ وہ اس وقت ملک کی نمائندگی کرنے گئے جب نرسمہاراؤ جی وزیراعظم تھے۔اس وقت وزیراعظم کے ذہن میں یہ خیال بالکل نہیں آیا کہ اپوزیشن لیڈر سیاسی کھیل کھیلیں گے ۔
نہیں، نہیں۔ ہمارے خون کا ہر قطرہ ملک کے لئے وقف ہے۔اور وہ ہمارے جسم سے خون چوس لینا چاہتے ہیں ۔
وہ لوگ بھارت کی مخصوص شبیہ بنانا چاہتے ہیں۔ آپ جمہوریت کے حصہ دار ہیں ۔ آپ سب سے کلیدی شراکت دار ہیں۔
میں نے بھارت کو قریب سے دیکھا ہے ، حکومت کو قریب سے دیکھا ہے، جب میں 1989 میں پارلیمنٹ کے لئے چنا گیا ۔ میں ایک فکرمند رکن پارلیمنٹ تھا۔ کیوں؟کیوں کہ ہمارے ملک کے سونے کو سوئٹزرلینڈ کی دوبینکوں میں رکھنے کےلئے بھیجا جانا تھا۔
ہمارے غیرملکی زرمبادلہ قریب ایک ارب امریکی ڈالر تھا،جو اب 680 ارب امریکی ڈالر ہے۔
میں وزیرکی حیثیت سے خاص طور پر جموں و کشمیر گیا۔ موت کا سناٹا۔سڑک پر مجھے بمشکل ایک درجن لوگ نظر آئے۔لیکن اب دوکروڑ سیاح ہر سال جموں و کشمیر سیر و تفریح کے لئے جاتے ہیں۔
اس وقت ہماری معیشت کاحجم لندن اور پیرس جیسے شہروں سے بھی چھوٹا تھا لیکن اب آپ کو پتہ ہے کہ ہم کہاں پہنچ گئے ہیں ۔
میں اعداد وشمارپیش نہیں کرناچاہتا۔
ملک کے ساتھ اس طرح کا طرز عمل ہماری غیرت کو چیلنج ہے، وجود پر حملہ ہے،ہماری بنیاد میں دیمک کاکام کرنا، غیر ملکی سرزمین پر جاکر دشمنوں کے ساتھ بیٹھنا، ایک بیانیہ شروع کرنا!
پھوٹ ڈالنے والی یہ طاقتیں خود بے نقاب ہوگئی ہیں ۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ لوگ خاموش تماشائی بنیں۔میں آپ کو کوئی نظریہ نہیں دینا چاہتا نہ ہی کوئی حکم د ینا چاہتا ہوں ۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنا فیصلہ خود کریں۔ میں چاہتا ہوں کہ ا ٓپ اپنے آپ میں یقین رکھیں ، اپنے عزم پر قائم رہیں اور پھر اسے عام کریں۔
ان چار ہفتوں کے دوران کئی موقعوں پر آپ کو کئی چیزیں دیکھنے کو ملیں، جس کی بدولت دن بہ دن آپ کا سیکھنے کا عمل روز بہ روز جاری رہے گا۔ جیسا کہ سکریٹری جنرل نے کہا’ آپ ا ن سبھی لوگوں سے جڑ جائیں گے جنہوں نے اس پروگرام سے استفادہ کیا ہے ۔
آپ ا ن کے ساتھ اپنے نظریات مشترک کریں گے ۔ آپ زندگی میں جہاں بھی جائیں گے آپ کے پاس اپنی مددکرنے کے،معاشرے کی مدد کرنے کے،اپنے دوستوں کی مددکرنے کےاورسب سے پہلے اور سب سے ضروری اپنے قومی مفاد کو سب سےاوپر رکھنے کے کئی مواقع دستیاب ہوں گے۔
سچ بولنے کے کوئی پیمانے نہیں ہوتے۔آپ یا تو سچ بولتے ہیں یا نہیں بولتے ہیں ۔ ملک کے تئیں عہد بستگی کا کوئی پیمانہ نہیں ہوسکتا ۔ یہ 100 فیصد ہی ہونی چاہئے۔
کچھ لوگ یہ بالکل نہیں جانتے کہ ہمارا آئین کیا کہتا ہے ۔ ریزرویشن ہمارے آئین میں پیوست ہے۔ ریزرویشن کو کاوشوں کے بعد آئین میں شامل کیا گیا ۔ یہ ہمارے آئین کا درخشاں پہلو ہے ۔ کچھ لوگ باہر جاتے ہیں اوراسے ہلکے میں پیش کرتے ہیں ۔
کوئی ہوش وحواس والا سمجھدار شخص کس طرح یہ دعوی کرسکتاہے کہ کوئی مخصوص مذہبی شخص ،اپنی عبادت گاہ اپنے مخصوص لباس میں نہ جائے۔ میرے پاس اس کی مذمت کے لئے الفاظ نہیں ہیں۔ ہمیں اس بارے میں بہت محتاط رہنا ہوگا۔
یہ عجب نامعقولیت اور انتہائی مشکل صورتحال ہے۔لڑکے اور لڑکیاں اورہماری ثقافتی اقدار لافانی ہیں، لیکن یہ بات کچھ لوگ نہیں سمجھتے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اس قوم کے لیے جب لال بہادر شاستری نے کہا تھا کہ ہفتے میں ایک دن شام کو کھانا نہیں کھائیں گے، پورے ملک نے نہیں کھایا۔یہ وہ ملک ہے جب ہندوستان کے وزیر اعظم نے کووڈ کی لڑائی میں کہا کہ جنتا کا کرفیو تو لوگوں نے مذاق اڑانے کی کوشش کی ۔
لیکن ہندوستان پوری دنیا کے سامنے ڈٹ کر کھڑا رہا۔ ہندوستان نے دوسرے ممالک کی مدد کرتے ہوئے کووڈ کا مقابلہ کیا۔ وہ یہ بات نہیں سمجھتے۔ ان کے متعصبانہ نقطۂ نظر نے انہیں اندھا کردیا ہے۔انہیں سوائے ذاتی مفاد کے کچھ اورنظر نہیں آتا۔
و ہ کشمکش میں ہیں۔ ان میں استقلال کی کمی ہے۔اگر آپ اپنے ملک پر یقین نہیں رکھتے تو آپ بزدل ہیں۔
میں یہ معتدل الفاظ استعمال کر رہا ہوں کیونکہ میں ایک آئینی عہدہ پر ہوں،لیکن میں اس سے گریز نہیں کرسکتا۔
جب میں آپ سب کے رو برو ہوتا تھا تومیں آپ کی ذہانت کی ذہانت کو دیکھ سکتا تھا۔ میں فکر مند تھا کہ آپ زندگی میں کیا مقام حاصل کریں گے؟ لیکن آپ کی صلاحیت اورمہارت کے اظہار کو دکھتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ آپ جہاں جائیں گے اچھا کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے۔ میں آپ سب کی پرزور حمایت کرتا ہوں۔ مواقع بڑھ رہے ہیں۔ آپ کو صرف اس سمت میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ سرکاری ملازمتوں کے لیے بھرتیوں کےچکر میں نہ پڑیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو یہاں اچھا لگ رہا ہوگا۔
مضحکہ خیز، غیر معمولی، دکھاوےکا اور جان بوجھ کر قومی جذبات کو ٹھیس پہنچانا ہے۔ میڈیا سے میری اپیل ہے کہ وہ قومی جذبات کا خیال رکھیں۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی ہندوستانی ہماری اقدار کی بے حرمتی برداشت نہیں کرے گا۔
کوئی بھی ہندوستانی اس بات کو برداشت نہیں کرے گا کہ ہم اپنے دشمنوں کے ساتھ رابطے میں رہنے کے لیے اپنی قوم پرستی سے سمجھوتہ کریں۔ مجھے ایک بار خوف محسوس ہوا، میں نے شروعات میں کہا تھا کہ جب میں نے آپ سے گفتگو کی تھی۔ پڑوسی ملکوں میں کچھ ہوتا ہےتو وہ کہتے ہیں کہ ایسا ہندوستان میں ہو سکتا ہے۔ وہ اس ملک کو بکھرتا ہوا دیکھنے کے لیے سرگرم عمل ہیں، جہاں چلنجز نہ ہوں، وہاں چیلنجز کھڑے کرنا چاہتے ہیں۔
دنیا کا کون سا ملک اس طرح کی اقتصادی ترقی کر رہا ہے؟ وزیر خارجہ کی ایک تقریر آپ کو ملی ہوگی، اس کو دیکھئے ، امور خارجہ کے وزیر نے واضح طور پر اس کی نشاندہی کی ہے کہ ہم کس مقام پر ہیں۔
میں آپ کے سامنے اُن ترقیوںکا ذکر نہیں کرنا چاہتا جو بھارت نے کی ہیں۔ لیکن ایک بات یقینی ہے کہ ہم امید اور امکان کے دور میں جی رہے ہیں۔ ہم مساوات کے دور میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم انصاف کے دور میں جی رہے ہیں۔ اور کوئی ہے، جو اِس حقیقت کو بدلنا چاہتا ہے۔
یہ فساد پر آمادہ لوگ ہندوستان کے دشمنوں سے طاقت حاصل کرتے ہیں، جس کے ذریعہ وہ اِس ملک میں بدامنی اور افتراق پیدا کرنا چاہتے ہیں، لہٰذا نوجوان ذہنوں اورسبھی شہریوں کو مل جل کر اِن کی ان کوششوں کو ناکام کرنا ہوگا۔
صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے،لیکن یہ برداشت اس وقت جواب دے دیتی ہےجب ملک کا نقصان کرنے میں پستی کی کوئی حد نہیں رہ جاتی۔ آئے دن ایک ہی بات،زمین پر آج کے دن اگرکوئی جنت ہے تو وہ ہندوستان ہے۔ دنیا کے ادارے کہہ رہےہیں ،بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کہہ رہا ہے کہ ڈیجیٹل انقلاب میں ہندوستان ایک ماڈل ملک ہے۔ عالمی بینک کہہ رہا ہے کہ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں سرمایہ کاری اور مواقع کے لیے پسندیدہ مقام ہے۔
ماہرین اقتصادیات بتاتے ہیں کہ ہماری شرح ترقی کیا ہے کہ ہماری شرح نمو کیا ہے، ایسی صورت حال میں کوئی اپنا اور آئین کا عہدہ کرنے کا والا ایسا فرض کرے۔میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں، ادے پور میں پرتاپ گورو جائیے اور وہاں دیکھئے ، آپ کی جب کسی نے ایسا فرض انجام دیا تو اس کی ماں نے کیا۔ میں زیادہ نہیں کہنا چاہتا، بھارت ماں کو بچانے کے لیے اس نے اپنے بیٹے کا سرقلم کردیا۔ آٖپ سب عقلمند ہیں۔ آپ سب سمجھتے ہیں ، آپ جانتے ہیں کہ میں ایسی کوئی بات نہیں کہہ رہا ہوں جس کی حقیقت سے آپ واقف نہ ہوں،لیکن ہمارے کان سنتے رہیں گے اور ہماری زبان چپ رہے گی اور ہمارا طرز عمل خاموش رہے گا۔
ان نازک مواقع پر خاموشی جرم ہے۔ ہم خاموش رہ کر اس جرم میں شریک ہیں۔ آپ میں سے ہر ایک کو بولنا چاہیے۔ ہم قوم پرستی کے لیے اپنی لگن کو کسی صورت کم نہیں ہونے دیں گے۔ ہمارا عزم یہ ہے کہ قوم پرستی سب سے اوپر ہے، خاندان سے اوپر، اپنی ذات سے، سیاست سے بالاتر ہے۔
مجھے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ سیاسی جماعتیں سیاست کیسے کرتی ہیں۔وہ قانون کے دائرے میں رہ کر، آئین کے دائرے میں رہ کر کریں۔ حکومت پر تنقید کریں، لیکن ملک پر، ملک کے تشخص پر اور وہ بھی دشمنوں کے ساتھ مل کر یہ کوئی ایک واقعہ نہیں، بلکہ واقعات کا ایک سلسلہ ہے۔
آپ اندازہ لگائیں گے کہ اس کے علاوہ کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ ہر غیر ملکی سفر کا ایک مطلب ہوجاتا ہے کہ کس طرح سے ہندوستان کو بدنام کیا جائے، ہندوستان کی شبیہ کو خراب کیا جائے۔
وہ ہمارے مقدس اداروں کو داغدار کرنے اور ان کی تذلیل کرنے کے انتہائی ظالمانہ فعل میں ملوث ہیں۔ نہ مذہب کا علم، نہ ثقافت کا علم، نہ آئین کا علم، اور نہ ان لوگوں کااندازہ ہے، ان ماؤں بہنوں کا، جو ماضی میں اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں، اور آج بھی ہم سکون کا سانس لے رہے ہیں، کیونکہ وہ ہمارے نگہبان ہیں۔
لڑکو اور لڑکیو! میں چاہتا ہوں کہ آپ کو کوئی خوف نہ ہو۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ کو ناکامی کا خوف ہو۔ نہیں آپ کو اپنی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ آپ کو اپنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ آپ کو قوم، اپنے خاندان، اپنے دوستوں اور ہر ایک سے تعاون کرنا چاہئے میں آپ کو بتاتا ہوں ، مواقع بہت ہیں۔
جو پروگرام یہاں ہو رہا ہے، نرملا سیتا رمن جی نے جو بجٹ دیا ہے، اور اس میں جو انٹرنز کی بات کی گئی ہے، وہ لوگ سمجھتے نہیں اور کہتے ہیں کہ ‘‘اتنا کچھ کیسے ہو گا؟’’ 140 کروڑ کی آبادی والے ملک میں بیت الخلا کیسے بنے؟ 140 کروڑ والے ملک میں موبائل کیسے آگے بڑھا؟ 140 کروڑ کے ملک میں ڈیجیٹلائزیشن کیسے ہوا؟ 140 کروڑ کے ملک میں براہ راست منتقلی کیسے ہوئی؟ 140 کروڑ کے ملک میں 4 کروڑ سستے گھر کیسے بن گئے؟ 3 کروڑ آگے بنیں گے۔
میں حکومت یا کسی اور کی حمایت نہیں کررہا ہوں۔ یہ ہورہا ہے، یہ کون کر رہے ہیں؟ یہ آپ لوگ مل کر کر رہے ہیں۔ میں یہاں پر پہنچا ہوں، کوئی قابل فخر حسب نسب کے ساستھ نہیں ۔ گاؤں کے اسکول میں پڑھا تھا، لائٹ نہیں تھی، بیت الخلا نہیں تھا، سڑک نہیں تھی، گاؤں میں پرائمری اسکول تھا۔ اسکالر شپ مل گئی تو ایک موقع مل گیا۔ آج کے دن کوئی کمی نہیں ہے۔ ہماری قومی تعلیمی پالیسی زبردست تبدیلی کا مرکز بن چکی ہے۔ میرا آپ سے یہ کہنا ہے کہ جس سفر میں ہم چل رہے ہیں ، جو میراتھن مارچ ہے، جو وکست بھارت کی میراتھن مارچ ہے، 2047 تک وکست بھارت کا ہدف رکھا ہے۔ اس عظیم سفر میں آج کوئی ٹائر پنکچر کرنا چاہتا ہے۔ سڑک کھود رہا ہے کہ سفر آگے نہ بڑھے اور ہم آنکھ بند کر لیں؟ نہیں!
ہم سب کو اس میراتھن مارچ کی کامیابی میں تعاون کرنا ہوگا۔ یہ جو عظیم یگیہ ملک میں ہورہا ہے ، اس میں ہر کسی کو قربانی دینی ہوں گی، تاکہ 2047 میں ہندوستان وکست بھارت بنے۔میں آپ کو ڈاکٹر امبیڈکر کی آخری تقریر کی یاد دلا کر اپنی تقریر ختم کروں گا۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے آئین کے لیے بہت کوششیں کیں۔اُن کے ان لفظوں کو آپ دیکھئے، کتنے معنی خیز ثابت ہوئے ہیں:
25 نومبر 1949کو، دستور ساز اسمبلی کے آخری اجلاس میں ڈرافٹنگ کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر بی آر امبیڈکر، جو بجا طور پر ہندوستانی آئین کے بانی کے طور پر جانے جاتے ہیں، نے کہا :
’’جس چیز نے مجھے بہت پریشان کیا وہ یہ ہے کہ نہ صرف ہندوستان نے اس سے پہلے ایک بار اپنی آزادی کھو دی ہے، بلکہ اس نے اسے اپنے ہی کچھ لوگوں کی بے وفائی اور دھوکہ بازی سے کھو دیا ہے۔‘‘
ہم نے ایک بار آزادی کھوئی تھی، کیونکہ کچھ لوگ تھے منافق اوردھوکہ باز۔
یہاں میں ایک لمحہ رک کرسوچتا ہوں ۔کیا تاریخ پھر دہرائی جائے گی؟ سامنے ہے وہی دھوکہ بازی اور منافقت،وہی بھارتی سالمیت پر حملہ۔
مزید، انہوں نے کہا، ’’یہ وہ سوچ ہے جو مجھے پریشانی میں مبتلا کرتی ہے۔ یہ پریشانی اس حقیقت کی پہچان سے اور بھی گہری ہوتی ہے کہ ذات اور عقائد کی شکل میں ہمارے پرانے دشمنوں کے علاوہ، ہمیں بہت سی سیاسی جماعتیں ملیں گی جو مختلف اور متضاد سیاسی عقائد رکھتی ہیں۔‘‘
ڈاکٹر بی۔ آر۔ امبیڈکر نے اس وقت ایک سوال اٹھایا تھا: ’’کیا بھارتی ملک کو اپنے عقیدے سے اوپر رکھیں گے یا عقیدے کو ملک سے اوپر رکھیں گے؟‘‘
جو انہوں نے سوچا نہیں تھا، شک ظاہر کی تھی، کوئی اسے حقیقت میں بدلنے کے لیے لگا ہوا ہے۔ ہم ملک کے اوپر کچھ کیسے رکھ سکتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: ‘‘مجھے نہیں معلوم۔ ‘‘ وہ اسے دیکھنے کے لیے زندہ نہیں ہیں۔
لیکن یہ بات یقینی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘‘اگر جماعتیں عقیدے کو ملک سے اوپر رکھیں گی ، تو ہماری آزادی ایک بار پھر خطرے میں پڑ جائے گی اور ممکن ہے ہمیشہ کے لیے کھو جائے۔ ہمیں اس ممکنہ صورتحال سے سختی سے بچنا چاہیے۔ ہمیں اپنی آزادی کا دفاع آخری قطرے خون تک کرنے کا عزم ہونا چاہیے۔’’
میں آپ سے درخواست کروں گا: رابطے میں رہیں۔ سیکرٹری جنرل کا پلیٹ فارم خوشامدی باتوں کے لیے نہیں ہے۔ جو آپ کچھ اور کر سکتے ہیں۔
یہ علم بانٹنے، تجربات شیئر کرنے کے لیے ہے جو ہمارے ملک کو آگے بڑھاتے ہیں۔ دنیا بھر پر نظر ڈالیں—یورپ، برطانیہ، امریکہ۔ اور ہمارے ملک پر نظر ڈالیں۔
یہاں کے امن و سکون کو ختم کرنے کے لیے، اگر ہمارے درمیان سے کوئی ایک غیر ملکی زمین پر جا کر آئین کی قسم کھانے کے بعد، کسی آئینی عہدے پر رہتے ہوئے اس قسم کی حرکت کرے، تو یہ ناقابل تصور، دل دہلا دینے والا، اور دُکھ دینے والا ہے۔ یہ حرکت آپ کے مستقبل کے ساتھ کھیلنا ہے۔ ایسا ہم نہیں ہونے دیں گے۔ یہ ہمارا عزم ہے۔
میں آپ کو زندگی میں بہترین کی خواہش کرتا ہوں۔ کبھی امید نہ چھوڑیں، کبھی حوصلہ نہ ہاریں، ہمیشہ اپنے آپ پر یقین رکھیں۔ کسی خیال کو اپنے دماغ میں نہ رہنے دیں ۔ اس خیال کے ساتھ تجربہ کریں، اور مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے ہر ایک قومی ترقی میں بڑے پیمانے پر کردار ادا کرے گا۔
بہت بہت شکریہ۔
********
ش ح۔ ض ر۔ک ح۔اس د ۔ف ر۔ع ر
(U: 10836)
(Release ID: 2054299)
Visitor Counter : 47