بندرگاہوں، جہاز رانی اور آبی راستوں کی وزارت
ہندوستان کا بندرگاہ اور سمندری شعبہ: تازہ ترین سرکاری اپڈیٹس اور منصوبے
جناب سربانند سونووال نے آج پارلیمنٹ میں اٹھائے گئے مختلف سوالات کے جواب دیے
ودھاون میجر پورٹ پروجیکٹ کو 76,220کروڑ کی سرمایہ کاری کے ساتھ منظوری دی گئی
ساگرمالا اسکیم بندرگاہ اور ساحلی جہاز رانی کو بڑھاتی ہے
دس ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں75 لائٹ ہاؤسز کو سیاحتی مقامات میں تبدیل کر دیا گیا ہے
Posted On:
02 AUG 2024 6:33PM by PIB Delhi
بندرگاہ ، جہازرانی اور آبی گزرگاہوں کے مرکزی وزیر جناب سربانند سونووال نے آج پارلیمنٹ میں ملک میں بندرگاہوں کی ترقی اور سمندری بنیادی ڈھانچے سے متعلق متعدد سوالات کے تحریری جوابات دیئے۔
نیشنل واٹر وے-4 (این ڈبلیو-4) پر موجودہ پیش رفت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں، مرکزی وزیر جناب سربانند سونووال نے روشنی ڈالی کہ مال برداری کی سرگرمیاں رول آن/رول آف (آر او- آر او) خدمات کے ساتھ شروع ہو گئی ہیں جو اب ابراہیم پٹنم اور لِنگایاپلیم کے درمیان دریائے کرشنا میں چل رہی ہیں جس کےذریعے بنیادی طور پر تعمیر کے لیے پتھر کے ٹکڑوں کی نقل وحمل ہورہی ہے۔ اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ این ڈبلیو- 4 پر کارگو کی نقل و حمل میں گزشتہ برسوں کے دوران نمایاں تبدیلی نظر آئی ہے، جس میں 19-2018 سے 24-2023 تک کافی مقدار ریکارڈ کی گئی۔ انہوں نے انٹیگریٹڈ نیشنل واٹر ویز ٹرانسپورٹیشن گرڈ اسٹڈی میں شامل آر آئی ٹی ای ایس کے ایک جائزے کا حوالہ دیا، جو ریل اور روڈ ٹرانسپورٹ کے مقابلے ان لینڈ واٹر ٹرانسپورٹ (آئی ڈبلیوٹی) کے سستے ہونے اور ایندھن کی کارگزاری کو واضح کرتا ہے۔ خاص طور پر، 1 لیٹر ایندھن 24 ٹن-کلومیٹر بذریعہ سڑک،95 ٹن-کلومیٹر بذریعہ ریل اور 215 ٹن-کلومیٹرآئی ڈبلیو ٹی کے ذریعے۔آئی ڈبلیو ٹی ریلوے کے لیے 1.36 روپے ہائی ویز کے لیے 2.50 روپئے کے برعکس1.06 فی ٹن-کلومیٹر کی لاگت پرکام کرتا ہے۔
جناب سربانند سونووال نے اندرون ملک آبی گزرگاہوں کی شدت میں اضافہ کے ماحولیاتی اثرات سے متعلق مختلف خدشات کا جواب دیا۔ انہوں نے روشنی ڈالی کہ اندرون ملک آبی نقل و حمل (آئی ڈبلیو ٹی) کو سڑک اور ریل کی نقل و حمل کے مقابلے اس کی کم لاگت اور کم آلودگی کی وجہ سے نقل و حمل کا ایک ماحول دوست ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
نیشنل واٹر وے (این ڈبلیو3) کی توسیع سے متعلق سوالات پر جناب سونووال نے بتایا کہ قومی آبی گزر گاہ ایکٹ 2016 کے مطابق چوکڈ سے پونانی اسٹریچ کو سرکاری طور پراین ڈبلیو-3 کی توسیع کے طور پر اعلان کیا گیا ہے۔ تاہم،ان راستوں پرامکانی کارگو کی کمی کی وجہ سے کوزی کوڈ سے بیکل تک کولم سے مزید جنوب اور شمال تک توسع دینے کی کیرالا حکومت کی درخواست پر غور نہیں کیا جا سکا ۔ ان لینڈ واٹر ویز اتھارٹی آف انڈیا آئی ڈبلیو اےآئی (این ڈبلیو-3 )کے فی الحال اعلان کردہ اور اقتصادی طور پر قابل عمل حصوں پر توجہ مرکوز کر رہی ہے اور اس وقت مزید توسیع ممکن نہیں ہے۔
مزید برآں، حکومت ہند اور حکومت کیرالہ کے درمیان این ڈبلیو-3 کی توسیع کے لیے ایکویٹی شراکت کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، اور اس طرح، اس طرح کی شرکت سے متعلق تفصیلات کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔
سارن ضلع، بہار میں کالوگھاٹ انٹر موڈل ٹرمینل 82.48 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کیا جا رہا ہے، اس کا افتتاح فروری 2024 میں کیا گیا تھا۔ اس کی سالانہ 77,000ٹی ای یو کی گنجائش ہے، اس کے برتھنگ ڈھانچے کی لمبائی 125 میٹر اور چوڑائی 30 میٹر ہے جس میں ایک کنٹینر اسٹوریج یارڈ بھی شامل ہے۔ ٹرمینل نیشنل ہائی وے 19 سے منسلک ہے۔
جہاں تک آپریشنل مسائل کا سوال ہے تو دریا کی تہہ میں گاد ہونا ایک فطری بات ہے، جس کا بندوبست اس کی صفائی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ کالوگھاٹ ایکسیس چینل کے فیئر وے بندوبست کا ٹھیکہ دیا گیا ہے، جو 12.5 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہےاور اس پر کام جاری ہے۔
ٹرمینل کے فعال ہونے کو یقینی بنانے کے لیے، ان لینڈ واٹر ویز اتھارٹی آف انڈیا (آئی ڈبلیو اے آئی) نے پہلے ہی ایک آپریشنل اینڈ مینٹی ننس آپریٹر کی خدمات حاصل کی ہیں۔
جناب سربانند سونووال نے آندھرا پردیش میں بندرگاہ کی ترقی کے بارے میں ایک تازہ جانکاری فراہم کی۔ حکومت ہند نے ریاست کی تمام بڑی اور غیراہم بندرگاہوں کے آپریشنز کے بارے میں حالیہ مطالعہ نہیں کیا ہے۔ تاہم، ریاستی حکومت کی درخواست کے بعد، وزارت نے ساگرمالا اسکیم کے تحت ‘‘کاکیناڈا اینکریج پورٹ فیسلٹیز کی بہتری’’ کے لیے ایک تفصیلی پروجیکٹ رپورٹ تیار کرنے کے لیے ایل اینڈ ٹی انفرا انجینئرنگ لمیٹڈ کی خدمات حاصل کی ہیں۔
ساگر مالا اسکیم کے تحت، آندھرا پردیش میں 13 پروجیکٹوں کے لیے مالی امداد فراہم کی گئی ہے، جن کی کل لاگت تقریباً 2,500 کروڑ روپے ہے۔ ان منصوبوں میں آر او- پیکس اور مسافر جیٹیز، ماہی گیری سے متعلق ہاربرز، بندرگاہوں کی جدید کاری اور ہنرمندی کا فروغ شامل ہے۔ اس رقم میں سے 450 کروڑ روپے ترقی کے لیے منظور کیے گئے ہیں۔ آندھرا پردیش میں ساگرمالا کے تحت جن مخصوص پروجیکٹوں کی مالی اعانت فراہم کی گئی ہے ان کی تفصیل ضمیمہ I میں ہے۔
فی الحال، اندرون ملک آبی گزرگاہوں کے منصوبے انوائرمینٹل امپیکٹ اسسمنٹ (ای آئی اے) نوٹیفکیشن 2006 میں شامل نہیں ہیں، اور اس لیے ماحولیاتی منظوری کی ضرورت نہیں ہے۔ اس طرح، ان منصوبوں کو ان سرگرمیوں کی فہرست میں شامل کرنے کی کوئی تجویز نہیں ہے جن کے لیے اس طرح کی منظوری درکار ہے۔آئی ڈبلیو ٹی کی ترقی میں کم سے کم کاربن فوٹ پرنٹ ہونے کی توقع ہے اور روایتی نقل و حمل کے طریقوں کے مقابلے میں طویل مدتی ماحولیاتی اثرات کا امکان کم ہے۔ نتیجتاً، حکومت اندرون ملک آبی گزرگاہوں کے منصوبوں کے لیے اضافی ماحولیاتی منظوری کے عمل کی ضرورت نہیں سمجھتی۔
ساحلی جہاز رانی کے تحت 849 کروڑ روپے سے 15 ساگرمالا پروجیکٹس ساحلی برتھ اور آر او- آر او/ آر او- پیکس جیٹیز قائم کرنے کے لیے مکمل کیے گئے ہیں۔ اہم اقدامات میں مرچینٹ شپنگ ایکٹ کے تحت لائسنسنگ کی ضروریات کو کم کرنا، بڑی بندرگاہوں پر جہاز اور کارگو چارجز پر 40فیصد رعایت فراہم کرنا، اور ترجیحی برتھنگ پالیسیوں کو نافذ کرنا بھی شامل ہے۔ مزید برآں، بنکر ایندھن پر جی ایس ٹی کو 18فیصد سے کم کر کے 5فیصد کرنا اور کارگو کو تیزی سے نکالنے کے لیے گرین چینل کلیئرنس کا تعارف اہم اقدامات ہیں۔ حکومت ساحلی جہاز رانی کے لیے مال بردار سبسڈی کی ادائیگی میں بھی سہولت فراہم کر رہی ہے اور وزارت ریلوے اور سڑک ٹرانسپورٹ اور شاہراہوں کی وزارت کے ساتھ اشتراک کے ذریعے بندرگاہوں سے پہلے اور آخری میل تک رابطے کو بہتر بنا رہی ہے۔
اس کے علاوہ ساگرمالا پروجیکٹ کے تحت ماہی گیری سےمتعلق ہاربرزکی ترقی، جس میں مختلف ریاستوں میں کئی کو منظوری مل چکی ہے اور کئی مکمل ہو چکے ہیں۔ فنڈ مختص کرنے کا انتظام ساگرمالا فنڈنگ گائیڈلائنز کے تحت ہوتا ہے اور اس کا انحصار پروجیکٹ کی منظوری، فزیکل پیشرفت اور یوٹیلائزیشن سرٹیفکیٹ جمع کروانے سمیت عوامل پر ہوتا ہے۔
بندرگاہ کی ترقی میں درپیش چیلنجوں کے بارے میں وزیرموصوف نے اہم فنڈنگ حاصل کرنے، حصول اراضی میں تاخیر، گنجائش میں کمی اور لاجسٹکس اور کنیکٹیویٹی کی عدم کارگزاریوں کا ذکر کیا۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے، حکومت نے بندرگاہ کے بنیادی ڈھانچے کو بڑھانے اور بندرگاہ کی زیر قیادت صنعت کاری کو فروغ دینے کے لیے ساگرمالا پروگرام متعارف کرایا ہے۔ 2022 کی نیشنل لاجسٹک پالیسی کا مقصد لاجسٹک آپریشنز کو بہتر بنانا ہے، اور میری ٹائم امرت کال ویژن 2047 اعلی درجے کی بندرگاہوں کو ترقی دینے کے لیے ایک اسٹریٹجک منصوبہ کا خاکہ پیش کرتا ہے۔ یہ اقدامات بندرگاہ کی ترقی کو درپیش کثیر جہتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کیے گئے ہیں۔
اپنے تحریری بیان میں، جناب سونووال نے تجارتی روابط اور بندرگاہوں کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے حکومت کی کوششوں کی تفصیل دی۔ انہوں نے واضح کیا کہ نجی شعبے کی مہارت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شمالی، مغربی اور وسطی ہندوستان کو عالمی منڈیوں سے جوڑنے کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ گریٹ نیکوبار جزائر کے لیے جامع ترقیاتی منصوبے میں گیلیتھیا خلیج میں ایک بین الاقوامی کنٹینر ٹرانس شپمنٹ ہب کی تشکیل شامل ہے، جس کے ایک اہم شپنگ مرکز کے طور پر قائم ہونے کی امید ہے۔ مالی سال 24-2023 کے لیے، بڑی بندرگاہوں نے 819 ملین ٹن ٹریفک کو پروسیس کیا۔ مزید برآں، نیشنل لاجسٹک پورٹل کے اندر پورٹ ہیلتھ آرگنائزیشن (پی ایچ او) ماڈیول کے حالیہ آغاز کا مقصد جہاز کی پرمیشن اور مجموعی آپریشنل شفافیت اور کارکردگی کو بہتر بنانا ہے۔
پچھلے پانچ برسوں میں، آندھرا پردیش میں ساگرمالا اسکیم کے ساحلی کمیونٹی ڈیولپمنٹ اقدام کے تحت ایلورو ضلع سمیت مختلف پروجیکٹوں کو نافذ کیا گیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس اقدام نے نوجوانوں کے لیے ہنر مندی کی ترقی پر توجہ مرکوز کی ہے اور فنڈز کا ایک اہم حصہ اس علاقے کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ ایلورو ضلع میں اس پہل کا کافی اثر ہوا ہے۔ ان پروگراموں کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے، سوسائٹی فار ایمپلائمنٹ جنریشن اینڈ انٹرپرائز ڈیولپمنٹ(ایس ای ای ڈی اے پی) کے جاب ریسورس پرسنز، جو ساگرمالا-ڈی ڈی یو جی کے وائی پروگرام کو نافذ کرتی ہے، نے اس پہل کو فروغ دینے کے لیے مقامی سیلف ہیلپ گروپس، خواتین اور ساحلی محکمے کے عملے کے ساتھ فعال طور پر کام کیا ہے۔
جناب سونووال نے کیرالہ میں بے پور بندرگاہ کے بارے میں ایک تازہ جانکاری دی۔ بے پور کو ایک غیر اہم بندرگاہ کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے اور یہ حکومت کیرالہ کے انتظامی کنٹرول میں آتی ہے۔ ریاستی حکومت بندرگاہ کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے میں سرگرم عمل ہے۔ ان اقدامات میں کیپیٹل ڈریجنگ پروجیکٹ کے لیے ماحولیاتی اثرات کا جائزہ لینا، موجودہ گھاٹ کی لمبائی کو بڑھانا، کارگو ہینڈلنگ کی نئی سہولیات کے لیے زمین کا حصول، اور انڈین پورٹ ریل اینڈ روپ وے کارپوریشن لمیٹڈ (آئی پی آر سی ایل) کے ذریعہ پیش کردہ اسٹڈی اور ٹی ای ایف آر کے ذریعے سڑک کے رابطے کو بڑھانا شامل ہے۔
جدید کاری کے حوالے سے، کیرالہ کی حکومت بڑے جہازوں اور بڑھے ہوئے کارگو کو سنبھالنے کے لیے بندرگاہ کی صلاحیتوں کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔ ریاست بے پور اور لکشدیپ کے درمیان مناسب شپنگ خدمات کی کمی کو بھی دور کر رہی ہے۔ بے پور کا ڈرافٹ فی الحال ہر موسم کے مسافر بحری جہازوں کے لیے ناکافی ہے، لیکن کیپٹل ڈریجنگ پروجیکٹ کا مقصد اس مسئلے کو حل کرنا ہے۔ مزید برآں، وزِنجم مدر پورٹ کی ہونے والی کمیشننگ سے بے پور پر کنٹینر فیڈر شپ کالز میں اضافہ متوقع ہے، ممکنہ طور پر شپنگ سروسز اور کنیکٹیویٹی میں بہتری آئے گی۔
مزید شپنگ سروس فراہم کنندگان کو راغب کرنے کے لیے، ریاستی حکومت ان بنیادی ڈھانچے کی بہتری پر کام کر رہی ہے اور بندرگاہ کی مجموعی صلاحیت اور رابطے کو بڑھانے کے طریقے تلاش کر رہی ہے۔
انہوں نے پارلیمنٹ کو لائٹ ہاؤسز کو سیاحتی منصوبوں میں تبدیل کرنے کے اقدام کے بارے میں بھی بتایا۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ 10 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں 75 لائٹ ہاؤسز کو سیاحتی مقامات میں تبدیل کر دیا گیا ہے، ان پروجیکٹوں کو مکمل کیا گیا ہے اور 28 فروری 2024 کو باضابطہ طور پر شروع کیا گیا ہے۔ ان مقامات کی دیکھ بھال کے لیے مرکزی بجٹ سے فنڈ فراہم کیا جاتا ہے اور حکومت ان نئے ترقی دیے گئے سیاحتی مقامات تک لوگوں کی رسائی اور تجربہ کو بہتر بنانے کے لیے آن لائن ٹکٹنگ کا نظام پر بھی کام کر رہی ہے۔
وزینجم بین الاقوامی بندرگاہ پر، جناب سونووال نے واضح کیا کہ حکومت کو کیرالہ حکومت کی طرف سے دوسرے مرحلے کے منصوبے کی توسیع کے لیے 5000 روپے کے فنڈ کی ضروریات کے بارے میں کوئی تجویز موصول نہیں ہوئی ہے۔ کیونکہ کنسیشنیئر مستقبل کی تمام صلاحیتوں میں اضافے کے لیے فنڈ فراہم کرے گا۔
ہندوستان میں ملٹی ماڈل بندرگاہوں کی ترقی پر اٹھائے گئے سوال پر جناب سونووال نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے جواب دیا کہ مرکزی کابینہ نے مہاراشٹر کے دہانو کے قریب ودھاون میں ایک نئی بڑی بندرگاہ کی ترقی کو منظوری دے دی ہے۔ 76,220 کروڑ روپے کی کل لاگت اس پروجیکٹ میں نو کنٹینر ٹرمینلز، چار کثیر مقصدی برتھ، چار لکوڈ کارگو برتھ، ایک آر او- آر او برتھ اور کوسٹ گارڈ برتھ ہوں گے، جس کا مقصد سالانہ 298 ملین میٹرک ٹن (ایم ایم ٹی)کی مجموعی صلاحیت حاصل کرنا ہے بشمول کنٹینر ہینڈلنگ کے لیے تقریباً 23.2 ملین ٹی ای یوز(20 فٹ مساوی یونٹس)۔ تاہم، ریاست تلنگانہ میں اس طرح کے ملٹی ماڈل بندرگاہوں کی ترقی کے لیے کوئی نشان زد مقامات نہیں ہیں، اور اس کے نتیجے میں، تلنگانہ کے لیے مختص یا جاری کردہ فنڈز کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا ہے۔
اپنے تحریری جواب میں، جناب سربانند سونووال نے وی او چدمبرانار بندرگاہ (توتیکورن)میں آؤٹر ہاربر کنٹینر ٹرمینل پروجیکٹ کی حالت کی صورتحال کی تفصیل بتائی۔ انہوں نے تصدیق کی کہ حکومت نے اس منصوبے کی منظوری دے دی ہے، جسے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) کی بنیاد پر شروع کیا جائے گا۔ ٹرمینل کی ترقی کے لیے کل تخمینہ لاگت 7,056 کروڑروپے ہے، جس میں 1,950 کروڑ روپئے شامل ہیں جو پرجیکٹ کی مالی قابل عملیت کو سہارا دینے کے لیے وائبلٹی گیپ فنڈنگ کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ توقع ہے کہ اس اقدام سے بندرگاہ کی کنٹینر ہینڈلنگ کی صلاحیت اور مجموعی کارکردگی میں نمایاں اضافہ ہوگا۔
انہوں نے انڈین پورٹ ریل اینڈ روپ وے کارپوریشن لمیٹڈ (آئی پی آر سی ایل) اور کانڈلا پورٹ سے رابطہ بڑھانے کی اس کی کوششوں سے متعلق سوالات کا تحریری جواب بھی دیا۔ آئی پی آر سی ایل نے جنوری 2018 میں جیسلمیر، باڑمیر اور بھاؤتاڑا کو سانچور سے کانڈلا بندرگاہ تک جوڑنے والے ایک نئے ریل روٹ کے لیے ایک جامع قابل عمل ہونے سے متعلق ایک سروےکیا۔ اس سروے میں پروجیکٹ کی لاگت ڈیزنل ٹریکشن کے لیے 2,177.01 کروڑ روپئے اور الیکٹرک ٹریکشن کے لیے2,555.71 کروڑ روپئے ہونے تخمینہ لگایا گیا جس میں ٹریفک ، مالی اورانجینئرنگ رپورٹ شامل تھیں۔ آئی پی آر سی ایل نے 20 دسمبر 2021 کو حکومت راجستھان کو ایک تفصیلی رپورٹ اور روڈ میپ پیش کیا، جس میں پروجیکٹ کی تیاری، فریقوں کو شامل کرنے اور عمل درآمد کے لیے ایک جوائنٹ وینچر (جے وی) یا اسپیشل پرپز وہیکل (ایس پی وی) کی تشکیل کے لیے اقدامات کا خاکہ پیش کیا۔ بندرگاہوں، جہاز رانی اور آبی گزرگاہوں کی وزارت نے بھی ریلوے کی وزارت سے درخواست کی ہے کہ وہ اس انتہائی اہمیت کے حامل منصوبے کو پی ایم گتی شکتی منصوبے کے تحت شامل کرے تاکہ اس پر عمل درآمد میں آسانی ہو۔
ان تازہ معلومات سے ہندوستان کے بحری بنیادی ڈھانچے کو فروغ دینے اور بندرگاہوں کے کام کو بڑھانے کے لیے حکومت کے عزم کی عکاسی ہوتی ہے۔ نئے پروجیکٹوں میں سرمایہ کاری کرکے، حفاظتی معیارات کو بہتر بنا کر، اور نقل و حمل کے موثر طریقوں کو فروغ دے کر، حکومت کا مقصد عالمی تجارت میں ایک کلیدی شراکت دار کے طور پر ہندوستان کی پوزیشن کو مضبوط کرنا ہے۔ اسٹریٹیجک اقدامات اور شراکت داری کے ذریعے، ہندوستان اپنے بحری شعبے میں نمایاں ترقی حاصل کرنے کے لیے تیار ہے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ بندرگاہیں اور جہاز رانی کے راستے اقتصادی ترقی اور بین الاقوامی تجارت میں مددگار ہوں۔
-----------------------
ش ح۔ف ا۔ ع ن
U NO: 10255
(Release ID: 2049281)
Visitor Counter : 33