نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

نائب صدر کے دھرم دھم بین الاقوامی کانفرنس میں خطاب کا متن (اقتباسات)

Posted On: 23 AUG 2024 6:43PM by PIB Delhi

دوستو، دھرم-دھم کے نقطہ نظر کے درمیان ضروری شناخت پر توجہ دینے کی پہل خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ یہ خیالات، ہندو اور بدھ تہذیبوں کی قدیم حکمت سے وابستہ ہیں اور آج بھی اتنے ہی متعلقہ ہیں جتنے کہ ہزار سال پہلے رہے۔

دھرم اور دھم کی تعلیمات نہ صرف برقرار  ہیں بلکہ ترقی کی منازل طے کر رہی ہیں جو معاشروں کی اخلاقی اور اخلاقی زندگی کی تلاش میں مسلسل رہنمائی کرتی ہیں۔

ان اصولوں کی لازوال مطابقت اس بات سے عیاں ہے کہ ان اصولوں نے ایشیا اور اس سے باہر کی تہذیبوں کے ثقافتی، سماجی اور روحانی مناظر کو کس طرح تشکیل دیا ہے۔

ہندوستان کی ویدک روایات سے  پورے براعظم میں پھیلے بدھ مت کے فلسفوں تک، دھرم اور دھم کے تصورات  ایک متحد دھاگہ ہیں۔

میں یہاں تك كہوں گا كہ یہ نہایت متحد دھاگہ  ہمیں حکمت، ہمدردی اور راستبازی کے مشترکہ ورثے سے منسلک کرتا ہے۔

عظیم مہاکاوی جو راستبازی اور ناراستی کے درمیان جدوجہد کو بیان کرتی مہابھارت میں  دھرم مرکزی موضوع ہے۔

بھگواد گیتا، بھگوان کرشن اور ارجن کے درمیان ایک لازوال مکالمہ، دھرم کی نوعیت اور فرد کے فرائض پر ایک گہرا گفتگو ہے۔ ارجن کو بھگوان کرشن کی نصیحت کہ نتائج سے لگاؤ ​​کے بغیر اپنا فرض ادا کرنا ہماری زندگی میں دھرم کی اہمیت کی ایک طاقتور یاد دہانی ہے۔

یہ بات دھرم کے خلاف ہے كہ باخبر ذہن جان بوجھ کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے یا قومی مفاد سے سمجھوتہ کرتے ہوئے اپنے مفاد کو پورا کرے۔

معاشرے کے لیے کتنا سنگین چیلنج ہے كہ ایک باشعور انسان، ایک باشعور ذہن جو حقیقت سے واقف ہے، سیاسی فائدے حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اپنی مشہور حیثیت کا استعمال کرتا ہے۔ اس قسم کے حالات میں خاموشی اختیار کرنا اور اس طرح کی بدتمیزی دھرم کی توہین سے کم نہیں۔  ہمارے دھرم کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے  ہماری قوم پرستی اور انسانیت کو نشانہ بنانے والے اس طرح کے مذموم رجحانات اور نقصان دہ عزائم کوایک مناسب سرزنش کی ضرورت ہے۔

ایسی طاقتوں کو برداشت کرنا دھرم کا کام نہیں ہوگا۔ دھرم کا مطالبہ ہے كہ یہ  پوری طاقت کے ساتھ ایسی طاقتوں کو بے اثر کرنے دوں جو دھرم كی اہمیت کو کم کرنے، ہمارے اداروں کو داغدار کرنے اور ہماری قوم پرستی کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے ایک سینئر سیاستدان كے لیے ایک بار حکومت کی کرسی پر بیٹھ کر اعلان کر نا کہ جو کچھ ہمسائے میں ہوا وہ بھارت میں ہونا ہی ہے۔

دھرم میں یقین رکھنے والا کوئی اس طرح کیسے کام کر سکتا ہے؟ ایسی حرکتوں کی مذمت کے لیے الفاظ ہی کافی نہیں، ان کا عمل نہایت ادھرم ہے۔

جو لوگ اس وقت معاملات کی قیادت کر رہے ہیں انہیں اس حوالے سے ایک اچھا سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے: ڈیوٹی کی کارکردگی نتائج پر برتری حاصل کرنا ہے۔

ہمارے آئین، ہندوستانی آئین میں 22 پینٹنگز جو ہمیں بانی باپ دادا، دستور ساز اسمبلی کے اراکین کے تین سال کی محنت سے ملی ہیں وہ ہندوستانی ثقافت اور تاریخ کے لیے دھرم سے ہماری وابستگی کو واضح کرتی ہیں۔

آئین کے حصہ سوءم میں جو بنیادی حقوق سے متعلق ہے، جو حقوق جو انسانوں کے وجود کے لیے اہم ہیں، وہ حقوق جو انسانیت کے لیے بنیادی حقوق ہیں اور وہاں کی پینٹنگ شری رام، دیوی سیتا اور سری لکشمن كی ہیں  جو ہندوستان کے ابدی ہیرو ہیں۔ جو ادھرم پر دھرم کی جیت کی علامت ہیں۔

اسی طرح، حصہ چہارم  میں جو ریاستی پالیسی کے ہدایتی اصولوں سے متعلق ہے وہاں جو ہم پینٹنگ میں دیکھتے ہیں وہ سری کرشنا کوروکشیتر میں مہابھارت کی جنگ کے آغاز سے پہلے ارجن کے لیے حکمت، راستبازی کے بحر بیكراں  کی ترجمانی کرتے ہیں۔

دوستو، میں آپ کو یاد دلاتا ہوں، اس عظیم قوم کو 1975 میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی طرف سے سخت ایمرجنسی کے اعلان نے مصیبت سے دوچار كر دیا تھا، جنہوں نے دھرم کو صریح اور اشتعال انگیز طور پر  نظر انداز کرتے ہوئے اقتدار اور اپنے مفاد کے لیے آمرانہ طریقے سے کام کیا۔

درحقیقت یہ دھرم کی توہین تھی۔یہ ادھرم تھا جسے نہ تو قبول کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے معاف کیا جا سکتا ہے۔یہ ادھرم تھا جسے نظر انداز یا بھلایا نہیں جا سکتا۔ ایک لاکھ سے زائد افراد کو قید کیا گیا۔ان میں سے کچھ وزیر اعظم، صدور، نائب صدور بنے اور عوامی خدمت کے عہدوں پر فائز ہوئے۔اور یہ سب کچھ دھرم کے محافظوںکی خواہش کو پورا کرنے کے لیے کیا گیا۔ میں اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں کہ اس وقت ان دھرم کے جنگ بازوں کا کیا ہوا؟

میرا جواب سادہ ہے۔ ان میں سے ایک لاکھ سے زیادہ نے بے عزتی، قید سہی اور یہ آئینی اور جمہوری تباہی اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ جب ہم ادھرم کی اجازت دیتے ہیں تو معاشرے کو اس کے منصفانہ چہرے پر انمٹ نشان جھیلنا پڑتا ہے۔

 دھرم کو خراج عقیدت کے طور پر، دھرم سے وابستگی کے طور پر، دھرم کی خدمت کرنے کے لیے، دھرم میں  یقین كے لیے 26 نومبر کو یوم آئین اور 25 جون کو ہتیہ دیوس  منانا ضروری ہے۔ وہ دھرم کی خلاف ورزیوں کی سنگین یاددہانی ہیں اور آئینی دھرم کی پرجوش پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایمرجنسی کے دوران تمام چیک اینڈ بیلنس اور ادارے بشمول سپریم کورٹ كے حوالے بھی جمہوریت کی بدترین لعنت کی طرح ان ایام کا مشاہدہ  اہم ہے ۔

دوستو، دھرم کو برقرار رکھنے کے لیے دھرم کی پرورش  ضروری ہے تاکہ ہمیں مناسب طور پر باخبر  رہیں۔ ہمارے نوجوان، نئی نسلیں اس کے بارے میں زیادہ واضح طور پر جانیں تا کہ ہم دھرم کی پابندی میں ریڑھ کی ہڈی کے طور پر مضبوط ہوں اور اس خطروں کو بے اثر کر سکیں جس کا ہم نے ایک بار سامنا کیا تھا۔

عصری سیاسی منظر نامے میں یہ تشویش بڑھتی جا رہی ہے کہ بہت سے لوگ جنہیں عوام کی خدمت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے وہ اپنے دھرم سے دور ہو رہے ہیں۔

میں ان لوگوں کا ذکر کر رہا ہوں جن کو ان کے عہدے سے دھرم کی خدمت کرنے کے لیے  حکم دیا گیا ہے اور وہ خود کو دھرم سے دور کر رہے ہیں۔ دیانتداری، شفافیت اور انصاف کے ساتھ عوام کی خدمت کرنے کا ان کا مقدس فریضہ ناکام ہو رہا ہے۔راستبازی کے اصولوں کو برقرار رکھنے کے بجائے، ان میں سے کچھ ایسے کاموں میں مصروف ہیں جو دھرم کے جوہر کے خلاف ہیں۔

اخلاقی اور اخلاقی ذمہ داریوں سے یہ انحراف انتہائی تشویشناک ہے۔ یہ گہری اور  خطرناك تشویش کا باعث ہے کیونکہ یہ ان لوگوں کے اعتماد اور یقین کو مجروح کرتا ہے جنہوں نے ان سے اُس عہدے پر رکھا ہے۔

ملک کے نائب صدر کے طور پر میں راجیہ سبھا کا چیئرمین ہوں۔ میں نے دھرم کی پابندی کی ضرورت محسوس کی ہے۔ میں بحث اور غور و فکر کی عدم موجودگی سے پریشان ہوں۔

میں رکاوٹوں، پریشانیوں سے صدمے کا شکار ہوں، دھرم سے علیحدگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔عوامی نمائندوں کے آئینی احکامات کو تنگ نظری کی بنیاد پر قربان کیا جا رہا ہے، فرض شناسی میں اس طرح کی کوتاہی اس کی انتہاء کی عکاسی ہے۔

میں آپ سب سے التجا کرتا ہوں کہ اپنے نمائندوں میں بیداری لائیں۔ وہ قوم کے مزاج کی نمائندگی کرتے ہیں اور قوم کا مزاج یہ ہے کہ آپ کے آئینی دھرم پر عمل كریں، انسانیت کی وسیع تر بھلائی کے لیے کام کریں اور یقینی طور پر خلل پیدا نہ کریں، اور یقیناً ایسے بیانیے کو نہ پھیلاءیں جو انسانیت اور قوم مخالف ہوں۔

آج کی دنیا میں دھرم اور دھم کی مطابقت پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گئی ہے۔ چیلنجوں کو دیکھتے ہوئے ہم دنیا کے ہر حصے میں عملی طور پر چاروں طرف دیکھتے ہیں۔ ہم ایک ایسے وقت کا مشاہدہ کر رہے ہیں جب معاشرے کی اخلاقی اور اخلاقی بنیادوں کو چیلنج کیا جا رہا ہے، نہ صرف عالمگیریت اور تکنیکی ترقی کی وجہ سے ہونے والی تیز رفتار تبدیلیوں سے بلکہ ان لوگوں کے اقدامات سے بھی جنہیں قیادت سونپی گئی ہے۔

افراد اور اداروں کے لیے دھرم کے مطابق ہونا ضروری ہے۔طاقت اور اختیار اس وقت  بہترین طور پر اثر انداز ہوتے ہیں جب اس طاقت اور اختیار کی حدود کا احساس ہوتا ہے۔

متعین دائرے سے باہر جانے کا رجحان، اِدھر اُدھر کے غصے کو بھڑکانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہمیں اپنے اختیار کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کے لیے اپنی حدود کا پابند ہونا چاہیے۔

یہ کلی طور پر بنیادی بات ہے کہ ریاست کے تمام اعضاء ہم آہنگی اور اپنی متعین جگہ اور دائرہ کار میں کام کرتے ہیں۔دھرم کے راستے سے انحراف بوض موقعوں پر شدید تکلیف دہ اور خودکشی کا باعث بن سکتی ہیں۔

یہ دھرم کے خلاف ہے جب باخبر اذہان جان بوجھ کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا قومی مفاد سے سمجھوتہ کرتے ہوئے اپنے مفاد کو پورا کرتے ہیں۔

معاشرے کے لیے کتنا سنگین چیلنج ہے كہ ایک باشعور انسان، ایک باشعور ذہن جو حقیقت سے واقف ہے، سیاسی فائدے حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اپنی نمایاں حیثیت کا استعمال کرتا ہے۔ ایسے کے حالات میں خاموشی اختیار کرنا اور اس طرح کی بدتمیزی دونوں دھرم کی توہین سے کم نہیں۔  دھرم کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے  قوم پرستی اور انسانیت کو نشانہ بنانے والے ایسے مذموم رجحانات اور نقصان دہ عزائم کو  ایک مناسب سرزنش کی ضرورت ہے۔

ایسی طاقتوں کو برداشت کرنا دھرم کا کام نہیں ہوگا۔ دھرم کا مطالبہ ہے كہ میں پوری طاقت کے ساتھ ایسی طاقتوں کو بے اثر کر دوں جو دھرم كی اہمیت  کو کم کرنے، ہمارے اداروں کو داغدار کرنے اور ہماری قوم پرستی کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے ایک بار حکمرانی کی سیٹ پر بیٹھنے والے كسی  سینئر سیاست دان كا   اعلان کر نا كہ جو کچھ ہمسائے میں کھلے عام ہوا، وہ بھارت میں ہونا ہی ہے۔دھرم میں یقین رکھنے والا کوئی اس طرح کیسے پیش آ سکتا ہے؟ ایسا بیانات  ادھرم ہیں۔ ایسی حرکتوں کی مذمت کے لیے مناسب الفاظ نہیں، ان کا عمل نہایت ہی ادھرم ہے۔

دوستو میں آپ کو یاد دلاتا ہوں 1975 میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی طرف سے خوفناك ایمرجنسی کے اعلان کے ساتھ قوم کو سخت پریشانی می ڈال دیا  گیا تھا جنھوں نے دھرم کو صریحاً اور اشتعال انگیز طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اقتدار سے چمٹے رہنے اور اپنے مفاد کی تکمیل کے لیے آمرانہ انداز میں کام کیا۔ ادھرم کے اس فعل کو نہ تو جھٹلایا جا سکتا ہے، نہ نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور نہ بھلایا جا سکتا ہے۔ ایک کی خواہش پوری کرنے کے لیے ایک لاکھ سے زیادہ قید کیے گئے۔

آئین صرف ایک قانونی دستاویز نہیں، یہ ایک مقدس عہد ہے جو دھرم سے ہماری وابستگی کو واضح کرتا ہے۔یہ ہم سے اپنے فرائض كو انجام دینے میں لگے رہنے کی اپیل کرتا ہے کیونکہ ہمارے فرائض دھرم میں مضمر ہیں۔

******

U.No:10180

ش ح۔رف۔س ا


(Release ID: 2048489) Visitor Counter : 68


Read this release in: English , Hindi , Gujarati , Kannada