سماجی انصاف اور تفویض اختیارات کی وزارت

بابا صاحب امبیڈکر کا سفر - زندگی، تاریخ اور کام

Posted On: 13 APR 2024 3:13PM by PIB Delhi
  • بابا صاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر 14 اپریل 1891 کو پیدا ہوئے، وہ اپنے والدین کے 14ویں اور آخری بچے تھے۔
  • ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر صوبیدار رام جی مالوجی سکپال کے بیٹے تھے۔ وہ برطانوی فوج میں صوبیدار تھے۔ بابا صاحب کے والد سنت کبیر کے پیروکار تھے اور پڑھے لکھے بھی تھے۔
  • ڈاکٹر بھیم راؤ رام جی امبیڈکر بمشکل دو سال کے تھے جب ان کے والد سروس سے ریٹائر ہوئے۔ ان کی والدہ کا انتقال اس وقت ہوا جب وہ صرف چھ سال کے تھے۔ بابا صاحب نے ابتدائی تعلیم بمبئی میں حاصل کی۔ اپنے اسکول کے زمانے سے ہی انہیں شدت کے ساتھ احساس ہوا کہ ہندوستان میں اچھوت ہونا کیا ہے۔
  • ڈاکٹر امبیڈکر ستارہ میں اپنی اسکولی تعلیم حاصل کررہے تھے،اسی دوران  بدقسمتی سے ڈاکٹر امبیڈکر اپنی ماں سے محروم ہو گئے۔ ان  کی خالہ ان  کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ اس کے بعد وہ بمبئی  منتقل ہو گئے۔ اپنی پوری اسکولی تعلیم کے دوران وہ چھواچھوت کی لعنت کا شکار رہے۔ ان کی شادی میٹرک کے بعد 1907 میں بازار کے ایک کھلے شیڈ میں ہوئی۔
  • ڈاکٹر امبیڈکر نے ایلفنسٹن کالج، بمبئی سے اپنی گریجویشن مکمل کی، جس کے لیے وہ بڑودہ کے ہز ہائینس سیاجی راؤ گائیکواڑ سے اسکالرشپ حاصل کر رہے تھے۔ گریجویشن کے بعد انہیں بانڈ کے مطابق بڑودہ سنستھان میں شامل ہونا پڑا۔ انہوں نے اپنے والد کو اس وقت کھو دیا جب وہ بڑودہ میں تھے، 1913 وہ سال ہے جب ڈاکٹر امبیڈکر کو اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ جانے کی خاطر بطور اسکالر منتخب کیا گیا تھا۔ یہ ان کے تعلیمی کیریئر کا اہم موڑ تھا۔
  • انھوں نے ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بالترتیب 1915 اور 1916 میں کولمبیا یونیورسٹی سے  حاصل کیا۔ اس کے بعد وہ مزید تعلیم کے لیے لندن چلے گئے۔ انہیں  وہاں قانون  کی تعلیم کے لیے گریز  ان میں داخل کرایا گیا اور انہیں  لندن ا سکول آف اکنامکس اینڈ پولیٹیکل سائنس میں ڈی ایس سی کی تیاری کرنے کی بھی اجازت دی گئی۔لیکن بڑودہ کے دیوان نے انہیں ہندوستان واپس بلایا۔ بعد میں انہوں  نے بار ایٹ لاء اور ڈی ایس سی ڈگری بھی حاصل کی۔ انہوں نے کچھ عرصہ جرمنی کی بون یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔
  • 1916 میں انہوں نے 'ہندوستان میں ذاتیں - ان کا طریقہ کار، پیدائش، اور ترقی' پر ایک مضمون پڑھا۔ 1916 میں، انہوں  نے اپنا مقالہ 'نیشنل ڈیویڈنڈ فار انڈیا - ایک تاریخی اور تجزیاتی مطالعہ' لکھا اور اپنی  پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ یہ آٹھ سال بعد ''برٹش انڈیا میں صوبائی مالیات کا ارتقا'' کے عنوان سے شائع ہوا۔ یہ اعلیٰ ترین ڈگری حاصل کرنے کے بعدپھر  وہ ہندوستان واپس آئے اور مہاراجہ آف بڑودہ  کے  ملٹری سیکرٹری مقرر کئے گئے تاکہ انہیں وزیر خزانہ کے طور پر تیار کیا جا سکے۔
  • ستمبر 1917 میں باباصاحب شہر واپس آئے کیونکہ ان کی اسکالرشپ کی مدت ختم ہوئی اور سروس میں شامل ہو گئے۔ لیکن نومبر 1917 تک شہر میں مختصر قیام کے بعد وہ ممبئی چلے گئے۔ چھو اچھوت کی بنیاد پر جس ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑا اس نے انہیں سروس چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
  • ڈاکٹر امبیڈکر بمبئی واپس آئے اور سیاسی معیشت کے پروفیسر کے طور پر سڈنہم کالج جوائن کیا ۔ چونکہ وہ اچھے خاصے تعلیم یافتہ تھے اس لئے وہ طلباء میں بہت مقبول تھے ۔ لیکن انہوں نے لندن میں قانون اور اقتصادیات میں اپنی تعلیم دوبارہ شروع کرنے کے لیے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ کولہاپور کے مہاراجہ نے ان  کی مالی مدد کی۔ 1921 میں انہوں نے ''پروونسیل ڈی سینٹرلائزیشن  آف امپیریل فنانس ان برٹش انڈیا '' کے موضوع پر اپنا مقالہ لکھا  اور لندن یونیورسٹی سے ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی ۔ پھر  انہوں نے کچھ عرصہ جرمنی کی بون یونیورسٹی میں گزارا۔ 1923 میں، انھوں نے ڈی ایس سی کی ڈگری  کے لیے اپنا مقالہ – ''پرابلم آف روپی،اٹس اویجن اینڈ سولیوشن '' لکھا ۔ انہیں 1923 میں بار میں بلایا گیا۔
  • 1924 میں انگلینڈ سے واپس آنے کے بعد انہوں نے محروم طبقوں کی فلاح و بہبود کے لیے ایک ایسوسی ایشن شروع کی جس کے صدر سر چمن لال سیتلواڈ اور چیئرمین ڈاکٹر امبیڈکر تھے۔ تعلیم کو پھیلانا، معاشی حالات کو بہتر بنانا اور محروم  طبقے کی شکایات کا ازالہ کرنا ایسوسی ایشن کے فوری مقاصد تھے۔
  • بہسکرت بھارت، اخبار 3 اپریل 1927 میں شروع کیا گیا تھا  تاکہ نئی اصلاحات کے پیش نظر محروم طبقات کے کازکو حل کیا جا سکے۔
  • 1928 میں، وہ گورنمنٹ لاء کالج، بمبئی میں پروفیسر بن گئے اور 1 جون، 1935 کو وہ اسی کالج کے پرنسپل بن گئے اور 1938 میں اپنے استعفیٰ تک اسی عہدے پر رہے۔
  • 13 اکتوبر 1935 کو ناسک ضلع کے ییولامیں محروم طبقات کی ایک صوبائی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں انہوں نے یہ  اعلان کر کے ہندوؤں کو جھٹکا دیاکہ  ''میں ہندو مذہب میں پیدا ہوا تھا لیکن میں ہندو بن کر نہیں مروں گا''۔ ان کے ہزاروں پیروکاروں نے ان کے فیصلے کی حمایت کی۔ 1936 میں انہوں نے بمبئی پریذیڈنسی مہار کانفرنس سے خطاب کیا اور ہندو مذہب کو ترک کرنے کی وکالت کی۔
  • 15 اگست 1936 کو، انہوں نے محروم طبقات کے مفادات کے تحفظ کے لیے آزاد لیبر پارٹی بنائی، جس میں زیادہ تر مزدور آبادی تھی۔
  • 1938 میں، کانگریس نےاچھو توں کے نام میں تبدیلی کا بل پیش کیا۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے اس پر تنقید کی۔ ان کے خیال میں نام بدلنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔
  • 1942 میں، وہ ہندوستان کے گورنر جنرل کی ایگزیکٹو کونسل میں بطور لیبر ممبر مقرر ہوئے، 1946 میں، وہ بنگال سے آئین ساز اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے۔ اسی وقت انہوں نے اپنی کتاب ’شودر کون تھے‘شائع کی ۔
  • آزادی کے بعد، 1947 میں، وہ نہرو کی پہلی کابینہ میں وزیر قانون و انصاف کے طور پر مقرر ہوئے۔ لیکن 1951 میں، انہوں نے مسئلہ کشمیر، ہندوستان کی خارجہ پالیسی اور ہندو کوڈ بل کے حوالے سے نہرو کی پالیسی پر اپنے اختلافات کا اظہار کرتے ہوئے اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔
  • 1952 میں، کولمبیا یونیورسٹی نے انہیں ہندوستان کے آئین کے مسودے کے سلسلے میں ان کے ذریعہ کئے گئے کام کے اعتراف میں ایل ایل .ڈی کی ڈگری سے نوازا۔ 1955 میں، انہوں نے لسانی ریاستوں پر خیالات کے عنوان سے اپنی کتاب شائع کی۔
  • ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کو 12 جنوری 1953 کو عثمانیہ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ سے نوازا گیا۔ بالآخر 21 سال بعد، انہوں اس بات کو سچ ثابت کردیا جس کا اعلان انہوں نے  1935 میں ییولا میں  کیا تھا، کہ ''میں ہندو بن کر نہیں مروں گا''۔ 14 اکتوبر 1956 کو انہوں نے ناگپور میں ایک تاریخی تقریب میں بدھ مت قبول کیا اور 6 دسمبر 1956 کو انتقال کر گئے۔
  • ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کو 1954 میں نیپال کے  کھٹمنڈو، ''جاگٹک بدھ مت کونسل'' میں بدھ راہبوں نے ''بودھی ستوا'' کے خطاب سے نوازا تھا۔ خاص بات یہ ہے کہ ڈاکٹر امبیڈکر کو بودھی ستوا کے خطاب سے نوازا گیا تھا جب وہ زندہ تھے۔
  • انہوں نے ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد اور آزادی کے بعد کی اصلاحات میں بھی حصہ لیا۔ اس کے علاوہ ریزرو بینک آف انڈیا کی تشکیل میں بابا صاحب نے اہم کردار ادا کیا۔ سنٹرل بینک اس تصور پر قائم کیا گیا تھا جو بابا صاحب نے ہلٹن ینگ کمیشن کو پیش کیا تھا۔
  • ڈاکٹر امبیڈکر کی یہ چمکتی ہوئی زندگی کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ مطالعہ اور عمل کے آدمی تھے۔ سب سے پہلے، انہوں  نے اپنی تعلیم کو جاری رکھتے ہوئے معاشیات، سیاست، قانون، فلسفہ اور سماجیات کا صحیح علم حاصل کیا۔ انہیں  کئی سماجی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن انہوں  نے ساری زندگی پڑھنے اور مطالعہ اور لائبریریوں میں ہی  نہیں گزاردی۔ انہوں نے پرکشش تنخواہوں کے ساتھ اعلیٰ عہدوں سے انکار کر دیا کیونکہ وہ محروم طبقے کے اپنے بھائیوں کو کبھی نہیں بھولے۔ انہوں نے اپنی باقی زندگی مساوات، بھائی چارے اور انسانیت کے لیے وقف کر دی۔ انہوں نے محروم طبقات کی بہتری کے لیے اپنی پوری کوشش کی۔
  • ان کی زندگی کی تاریخ سے گزرنے کے بعد ان کی اہم شراکت اور ان کی موزونیت کا مطالعہ اور تجزیہ کرنا ضروری اور مناسب ہے۔ ایک قول کے مطابق تین نکات ایسے ہیں جو آج بھی زیادہ اہم ہیں۔ آج بھی ہندوستانی معیشت اور ہندوستانی سماج بہت سے معاشی اور سماجی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر امبیڈکر کے افکار اور عمل ان مسائل کے حل کے لیے ہماری رہنمائی کر سکتے ہیں۔
  • ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی برسی کو ملک بھر میں مہاپری نر وان دیوس کے طور پر منایا جاتا ہے۔
  • کل صبح 8:30 بجے سے صبح 9:30 بجے تک پارلیمنٹ ہاؤس کے لان میں صدر، نائب صدر، وزیر اعظم اور دیگر اراکین ڈاکٹر بی آر  امبیڈکر کے مجسمہ پر گلہائے عقیدت نذر کریں گے۔

******

ش ح۔م م ۔ م ر

U-NO.6541



(Release ID: 2017861) Visitor Counter : 62