سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت

ڈائرکٹر جنرل ڈاکٹر این کلیسیلوی کا کہنا ہے کہ سی ایس آئی آر، دیسی ٹکنالوجیوں کو تیار کرکے ہندوستان کو ’آتم نربھر‘ بنانے کے لیے پرعزم ہے


’’سی ایس آئی آر اِیروما مشن، کونسل کے ’آتم نربھر‘اقدامات کی بہترین مثال‘‘

این آئی او نے گہرے سمندر کا مطالعہ کرنے کے لیے بغیر پائلٹ کے زیر آب گاڑی لانچ کی

Posted On: 30 JAN 2024 1:54PM by PIB Delhi

پنجی، 29 جنوری   2024

کونسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (ایس سی آئی آر) کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر این کلیسیلوی نے کہا ہے کہ سی ایس آئی آر دیسی ٹکنالوجیوں کو تیار کرکے ہندوستان کو ’آتم نربھر‘بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ وہ 29 جنوری 2024 بروز پیر، سی ایس آئی آر -نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشیانوگرافی (این آئی او)، ڈونا پاؤلا، پنجی میں، ’آتم نر بھر بھارت کی تعمیر میں سی ایس آئی آر کے کردار‘ کے موضوع پر منعقدہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ ’’سی ایس آئی آر، ملک بھر میں اپنی 37 لیباریٹریوں کے ذریعے، تحقیق اور ترقی کے تمام پہلوؤں میں شامل ہے کہ وہ کس حد تک ٹکنالوجیوں کو دیسی بنانے کے لیے ’آتم نربھرتا‘ لا سکتے ہیں، جس کے ذریعے ہم اس بات کو یقینی بنا سکیں کہ ملک آنے والے دنوں میں خود کفیل ہوجائے گا۔‘‘ انھوں نے کہا کہ مادر فطرت کی بدولت، ہندوستان کے پاس اس مشن کو حاصل کرنے کے لیے تمام خام مال پر مشتمل ذرائع موجود ہیں۔‘‘

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/WhatsAppImage2024-01-30at13.49.46DSEB.jpeg

ڈاکٹر این کلیسیلوی، جو سائنسی اور صنعتی تحقیق کے شعبہ کی سکریٹری بھی ہیں، نے کہا کہ ملک کو اپنی موجودہ اور مستقبل کی سائنسی ضروریات کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا، کیونکہ آج دنیا غیر متوقع انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔انھوں نے کہا کہ اسی لیے، سی ایس آئی آر نے پہلے ہی اس بات کو ترجیح دی ہے کہ اس کے زیراہتمام ہونے والی کسی بھی تحقیق میں ایک جزو ہونا چاہیے جسے انڈیجنائزیشن کہا جاتا ہے۔

سی ایس آئی آر کے آتم نربھر پہل کی کامیابی کی کہانیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ڈاکٹر کلیسیلوی نے کہا کہ سی ایس آئی آر کے اس سال کی یوم جمہوریہ جھانکی نے جموں و کشمیر میں لیوینڈر کی کاشت کے ذریعے شروع ہونے والے جامنی انقلاب کے آغاز کو اجاگر کیا تھا۔ سی ایس آئی آر کی سائنسی مداخلتیں لیوینڈر کی کاشت میں غیر معمولی ترقی اور لیوینڈر کی مصنوعات کی ترقی کا باعث بنی ہیں، جس سے لیوینڈر کو لیب سے مارکیٹ تک لے جایا گیا ہے اور جموں و کشمیر میں کئی زرعی اسٹارٹ اپس کی تخلیق ہوئی ہے۔ سی ایس آئی آر نے جموں و کشمیر کے معتدل علاقوں میں کاشت کے لیے موزوں لیوینڈر کی ایک اعلیٰ قسم تیار کی اور کسانوں کو مفت پودے اور سرے سے سرے تک (اِنڈ ٹو اِنڈ) زرعی ٹیکنالوجی فراہم کیں اور جموں و کشمیر کے کئی علاقوں میں ضروری تیل نکالنے کے لیے کشید کرنے والی اکائیاں (ڈسٹلیشن یونٹس) بھی لگائے۔ جموں و کشمیر میں لیوینڈر کی کاشت کی کامیابی نے اسے ’جامنی انقلاب‘ کا نام دیا۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/WhatsAppImage2024-01-30at13.49.46(1)0KWL.jpeg

جھانکی نے پرائیما ای ٹی 11 کی نمائش بھی کی تھی، جو ہندوستان کا پہلا خواتین دوست، کمپیکٹ، الیکٹرک ٹریکٹر ہے جسے سی ایس آئی آر نے زرعی مکینیکل ٹیکنالوجی کے تحت مقامی طور پر تیار کیا ہے۔

ڈی جی نے کہا کہ ’’ہم سائنسی برادری سے ہیں۔ ہم کسی ٹیکنالوجی کو صرف کسی اسٹارٹ اپ کے حوالے کر سکتے ہیں۔ ایک بار ٹیکنالوجی کی منتقلی کے بعد، یہ اسٹارٹ اپ کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ اسے مزید بلندیوں تک لے جائے۔ لیکن ہم اتنا ہی نہیں کر رہے ہیں۔ سی ایس آئی آر، اسٹارٹ اپس کا ہاتھ پکڑتا ہے اور ان کے سفر کے دوران ان کے ساتھ چلتا ہے۔ جموں و کشمیر میں 300 سے زیادہ زرعی اسٹارٹ اپس کو سی ایس آئی آر ایک ریموٹ مشن کے طور پر سپورٹ کر رہا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ سی ایس آئی آر کا ایک معمولی سا تعاون اب جموں و کشمیر کے لوگوں کو زیادہ اعتماد بخش رہا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ہندوستان، جو برسوں سے لیمن گراس کا تیل درآمد کر رہا تھا، 2023 تک ایک برآمد کنندہ ملک بن گیا، یہ سب کچھ سی ایس آئی آر کے ایروما مشن کی بدولت ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سال 2023 میں ملک نے 600 ملین ٹن لیمن گراس آئل برآمد کیا ہے۔

ڈاکٹر کلیسیلوی نے سی ایس آئی آر کے تحت ہائیڈروجن ہائیڈریٹ پیدا کرنے والے مینوفیکچرنگ سینٹر کا بھی ذکر کیا جسے وزیر اعظم نریندر مودی نے 2022 میں قوم کو وقف کیا تھا۔ سال 2023 میں، ہائیڈروجن ہائیڈریٹ کی تجارتی پیداوار کی پہلی کھیپ شروع ہوئی۔ آج، یہ 10,000 ٹن سالانہ مینوفیکچرنگ پلانٹ ہے۔ ہائیڈروجن ہائیڈریٹ اب کیمیائی صنعتوں، پروسیسنگ صنعتوں اور کیمسٹری سے متعلقہ اور فارمیسی سے متعلقہ کئی دیگر صنعتوں میں اپنا اطلاق (اپلی کیشن) تلاش کر رہا ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/WhatsAppImage2024-01-30at13.50.09XN7M.jpeg

پائیدار ہوابازی ایندھن (ایس اے ایف) ٹیکنالوجی کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ڈاکٹر کلیسیلوی نے کہا کہ دو ہوائی جہاز جنہوں نے یوم جمہوریہ کے فلائی پاسٹ میں حصہ لیا، وہ ایس اے ایف سے چلنے والے جہاز تھے، جو ہوا بازی کے میدان میں مقامی طور پر تیار کردہ ایک ٹیکنالوجی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’اب ہم نے ایئربس کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ ایئربس ہماری ایس اے ایف ٹیکنالوجی کا استعمال کرے گا۔ کچھ اور نجی پلیئر بھی ہمارے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔‘‘

 

سی- بوٹ بذریعہ این آئی او

ڈاکٹر کلیسیلوی نے اتوار کے روز سی-بوٹ لانچ کیا۔ یہ ایک پانی کے اندر بغیر پائلٹ والی گاڑی ہے جسے این آئی او نے مقامی طور پر تیار کیا ہے۔ سی بوٹ کئی آلات، سینسرز اور گیجٹس کو پانی میں 200 میٹر کی گہرائی تک لے جا سکتا ہے، جس سے سائنس دانوں کو زیر سمندر ماحولیاتی نظام کا مطالعہ کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہمارے پاس سی- بوٹ کا ایک تازہ ترین ورژن تیار کرنے کا منصوبہ ہے، جو سمندر میں ہزاروں میٹر تک گہرا غوطہ لگا سکتا ہے۔‘‘

پانی کے اندر والی گاڑی، درجہ حرارت، نمی اور آب و ہوا سے متعلق موضوعات کا مطالعہ کرنے میں بہت مدد کرے گی۔ اس سے نمونے جمع کرنے اور فوٹو لینے میں مدد ملے گی۔ یہ انتہائی نوعیت کی کیفیت والے ماحول میں بڑھتی ہوئی حیاتیات کا مطالعہ کرنے میں بھی مدد کرے گی۔

ڈاکٹر کلیسیلوی نے کہا کہ ’’دراصل، پورا بحر ہند ہمارا ہدف ہے۔ کل 71 ملین مربع کلومیٹر… بحرالکاہل اور بحر اوقیانوس میں بہت سارے مطالعات ہوئے ہیں، لیکن بحر ہند میں، بہت کم ممالک اسٹڈی کر رہے ہیں، اس لیے پورے بحر ہند کا مطالعہ کرنے کی بہت ضرورت ہے‘‘ ۔

 

سی ایس آئی آر- جگیاسا پروگرام

سی ایس آئی آر- جگیاسا اسٹوڈنٹ- سائنٹسٹ کنیکٹ پروگرام، سی ایس آئی آر کی ایک پہل ہے، جس کا مقصد اسٹوڈنٹس- سائنٹسٹ کنیکٹ پروگرام کے ذریعے سائنسی مزاج کو فروغ دینا ہے۔ جگیاسا پروگرام کا مقصد اسکول اور کالج کے طلباء کے ساتھ ساتھ اساتذہ میں ایک طرف جستجو کے کلچر اور دوسری طرف سائنسی مزاج کو ابھارنا ہے۔ یہ پروگرام طلباء اور اساتذہ کو سی ایس آئی آر کا دورہ کرکے سائنس میں پڑھائے جانے والے نظریاتی تصورات کو عملی طور پر دیکھنے سننے، لیبارٹریز اور علم کا استعمال کرتے ہوئے چھوٹے پروجیکٹس شروع کرنے، کوئز میں مقابلہ کرنے اور معاشرے کی بہتری کے لیے اپنے علم کا اطلاق کرنے کے قابل بنائے گا۔

ڈاکٹر کلیسیلوی نے کہا کہ این آئی او ایک رول ماڈل ہے کہ کس طرح طالب علم برادری کے ساتھ جڑے رہنا ہے، کیوں کہ جگیاسا پروگرام کے تحت کئی طلباء ادارے کا دورہ کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’طلبہ برادری کے ساتھ جڑے رہنا ضروری ہے، کیونکہ وہ اگلی نسل کے سائنسی رہنما ہیں۔ این آئی او کے پاس ایسے مراکز ہیں جو طلباء کو ورچوئل رئیلٹی کے ذریعے سمندری غوطہ خوری کا حقیقی وقت کا تجربہ حاصل کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ این آئی او نے پہلے ہی گوا میں بہت سے بچوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے تئیں دلچسپی پیدا کی ہے۔ کچھ ایسے طلباء ہیں جو دوسری ریاستوں سے بھی این آئی او کا دورہ کرتے ہیں۔‘‘

اس پریس کانفرنس میں این آئی او کے ڈائریکٹر پروفیسر سنیل کمار سنگھ بھی موجود تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔ م م ۔ م ر

Urdu No. 4154



(Release ID: 2000610) Visitor Counter : 75


Read this release in: English , Hindi , Kannada