زراعت اور کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کی وزارت

حکومت نے کسانوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کیے ہیں


ڈی اے آرای سمیت  محکمہ زراعت وامدادباہمی کے لئے  بجٹ  ایلوکیشن   2023-24 میں 1,25,035.79 کروڑ روپے تک بڑھ گیا ہے جو کہ14-2013 میں 27,662.67 کروڑ روپے تھا

Posted On: 18 JAN 2024 2:07PM by PIB Delhi

ایک اخباری مضمون  کی طرف توجہ مبذول کرائی جاتی ہے  جس کا عنوان ہے ‘گزشتہ 5 سالوں میں وزارت زراعت نے اپنے بجٹ کا ایک لاکھ کروڑ سرینڈر کر دیا’۔ مضمون میں وزارت کے تبصرے کے بغیر فنڈز کی سرینڈر کے پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے  جبکہ حکومت کی کامیابیوں کو اجاگر نہیں کیا گیا ہے۔ یہاں اس بات کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ حکومت نے کسانوں کی  فلاح وبہبود کو یقینی بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کیے ہیں۔ ڈی اے آرای سمیت  محکمہ زراعت وامدادباہمی کے لئے  بجٹ  ایلوکیشن 24-2023 میں 1,25,035.79 کروڑ روپے تک بڑھ گیا ہے جو کہ14-2013 میں2 27,662.67 کروڑ روپے تھا۔

مرکزی سیکٹر کی تین بڑی اسکیمیں ہیں، جو محکمہ زراعت اور کسانوں کی بہبود کے بجٹ کا تقریباً 80فیصد سے  85فیصد  بنتی ہیں۔ پی ایم –کسان  کو 2019 میں شروع کیا گیا تھا اور 30.11.2023 تک براہ راست فائدہ کی منتقلی (ڈی بی ٹی) کے ذریعے اب تک 11 کروڑ سے زیادہ کسانوں کو 2.81 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ جاری کیے جا چکے ہیں۔ پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا (پی ایم ایف بی آئی )2016 میں شروع کی گئی تھی اور نفاذ کے پچھلے 7 سالوں میں 49.44 کروڑ کسانوں کی درخواستوں کا اندراج ہوا اور 14.06 کروڑ (عبوری) کسانوں نے 1,46,664 کروڑ روپے سے زیادہ کے دعوے وصول کیے ہیں۔ زرعی شعبے کے لیے ادارہ جاتی قرضہ 14-2013 میں 7.3 لاکھ کروڑ روپے سے بڑھ کر 2022-23 میں 21.55 لاکھ کروڑروپے ہوگیاہے ۔کے سی سی کے ذریعے رعایتی ادارہ جاتی قرض کا فائدہ اب مویشی  اور ماہی پروری کے کسانوں کو بھی دیا گیا ہے۔

مندرجہ بالا تین بڑی مرکزی سیکٹرکی  اسکیمیں تمام اہل کسانوں کی سیچوریشن کے مقصد سے استحقاق پر مبنی ہیں۔ اس کے علاوہ شمال مشرق  میں زمین کی ملکیت کا نمونہ کمیونٹی پر مبنی ہے، اور شمال مشرقی خطہ (این ای آر) میں قابل کاشت اراضی کا فیصد کم ہے، لہذا، ان اسکیموں پر خرچ این ای آرریاستوں کے لیے طے شدہ 10فیصد سے کم ہے۔ دیگر اسکیموں/محکموں کے استعمال کے لیے کے لیے کنسولیڈیٹڈ فنڈ،ڈ بیلنس فنڈس دستیاب کرائے جاتے ہیں۔

محکمہ،حصص داروں  جیسے ریاستی حکومتوں، کسانوں کے نمائندوں اور عمل درآمد کرنے والی ایجنسیوں کے ساتھ مشاورت کے بعد فنڈز کی ضروریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مختلف مرکزی سیکٹر اور مرکزی اسپانسر شدہ اسکیموں کے لیے بجٹ تخمینہ تیار کرتا ہے۔ سال کے دوران، اصل اخراجات کوپیش نظررکھتے ہوئے ، ریاستی حکومتوں کے غیر خرچ شدہ بیلنس، فنڈز کی ضرورت کو مدنظر رکھ کر،نظرثانی شدہ تخمینہ کے مرحلے پر، اس میں اضافہ/کمی کی جاتی  ہے۔ پچھلے 4 سالوں کے دوران آرای  مرحلے پر مینڈیٹری  سرنڈر کی کل  بچت 64900.12 کروڑ روپے تھی۔ اس کے علاوہ، تقریباً 40,000 کروڑ روپے کی رقم سرینڈر کر دی گئی ۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے،اس کی وجہ مجموعی ایلوکیشن  کا  10فیصد لازمی  طورپرشمال مشرقی خطے کے لئے مختص کیاجاناہے۔

راشٹریہ کرشی وکاس یوجنا (آرکے وی وائی ) اور کرشی انتی یوجنا (کے وائی ) (مرکزی طور پرا سپانسر شدہ اسکیمیں) ریاستی حکومتیں نافذ کرتی ہیں۔ ریاستی حکومت کی جانب سے فیلڈ لیول فنڈز پر اخراجات کی سست رفتاری اور وقت پر فنڈز کے اجراء کے لیے نئے طریقہ کار کی وجہ سے اسکیم کے تحت استعمال کم تھا۔ ریاستی حکومتوں کو ریاستی حصہ میں حصہ ڈال کر فنڈز کی بروقت ریلیز کو یقینی بنانا ہوگا اور بعد کی قسطوں کے اجراء کے لیے خرچ کرنا ہوگا۔ زراعت اور کسانوں کی بہبود کی وزارت نے ان ریاستوں کو مناسب فنڈز فراہم کیے ہیں، جنہوں نے اخراجات کیے ہیں، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ محکمے کی تمام اسکیموں کو نافذ کیا جائے اور فنڈز کی کمی کی وجہ سے نقصان نہ ہو۔

*********

(ش ح۔م م ۔ع آ)

U-3750



(Release ID: 1997345) Visitor Counter : 52