تعاون کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav

مرکزی وزیر داخلہ اور باہمی تعاون کے وزیر جناب امت شاہ نے آج گاندھی نگر، گجرات میں نیشنل کوآپریٹو ڈیری فیڈریشن آف انڈیا (این سی ڈی ایف آئی)  لمیٹڈ کے صدر دفتر کا سنگ بنیاد رکھا اور ای-مارکیٹ ایوارڈز 2023 کی تقریب سے خطاب کیا


وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں گزشتہ 8  برسوں میں ہندوستان میں دودھ کی پیداوار میں تقریباً 51 فیصد اضافہ ہوا ہے جو کہ دنیا میں سب سے تیز رفتار اضافہ ہے

آج ملک میں دودھ کی زیادہ تر پیداوار کوآپریٹو ڈیریوں کے ذریعے ہو رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان 24 فیصد حصہ کے ساتھ دنیا میں دودھ کی پیداوار میں پہلے نمبر پر پہنچ گیا ہے

اگر کوآپریٹو سیکٹر کے ذریعے دودھ کی تجارت کی جاتی ہے تو اس کے معاشرے، زراعت، دیہات، دودھ پیدا کرنے والوں اور بالآخر ملک کے لیے کثیر جہتی فوائد ہوتے ہیں

جب کوآپریٹو سیکٹر ڈیری کا کاروبار کرتا ہے، تو سب سے پہلے فائدہ دودھ پیدا کرنے والوں کو ہوتا ہے، کیونکہ ان کا استحصال نہیں ہوتا

 بہت سی  ڈیریاں  حاملہ خواتین اور ان کے بچوں کو اچھی غذا فراہم کرنے کے لئے انہیں لڈو  کھلانے کے معاملے سے جڑی ہوئی ہیں، پورا کوآپریٹو سیکٹر غذائی قلت کے خلاف جنگ میں شامل ہو گیا ہے

جناب نریندر مودی نے ملک میں کئی طرح کے انقلاب برپا کیے ہیں، جن میں ڈیجیٹل انقلاب بھی شامل ہے

ہندوستان بھی دنیا میں ڈیجیٹل لین دین کے میدان میں سب سے تیزی سے ترقی

Posted On: 30 DEC 2023 10:09PM by PIB Delhi

مرکزی وزیر داخلہ اور تعاون کے وزیر جناب امت شاہ نے آج گاندھی نگر، گجرات میں نیشنل کوآپریٹو ڈیری فیڈریشن آف انڈیا (این سی ڈی ایف آئی) لمیٹڈ کے صدر دفتر کا سنگ بنیاد رکھا اور ای-مارکیٹ ایوارڈز 2023 کی تقریب سے خطاب کیا۔ اس موقع پر گجرات کے وزیر اعلیٰ بھوپیندر پٹیل، گجرات قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر جناب  شنکر چودھری، آئی ایف ایف سی او (افکو) کے چیئرمین جناب  دلیپ سنگھانی، این ٹی ٹی بی کے چیئرمین ڈاکٹر مینیش شاہ اور این سی ڈی ایف آئی کے چیئرمین ڈاکٹر منگل رائے سمیت کئی معززین موجود تھے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image001RBUS.jpg

اپنے خطاب میں جناب امت شاہ نے کہا کہ ہمارے ملک میں ڈیری اور خاص طور پر کوآپریٹو ڈیری سیکٹر نے کثیر جہتی اہداف حاصل کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوآپریٹو سیکٹر کے ذریعہ دودھ کی تجارت نہیں کی جاتی ہے تو دودھ کی پیداوار ایک مڈل مین( مال تیار کرنے والے اور خریدار کے درمیان واسطہ) اور دودھ استعمال کرنے والے تک ہی محدود رہتی ہے۔ لیکن اگر کوآپریٹو سیکٹر دودھ کی تجارت کوآپریٹو طریقے سے کرتا ہے تو اس میں بہت سی جہتیں سمٹ جاتی ہیں، کیونکہ اس کا مقصد صرف منافع کمانا نہیں ہوتا اور اس سے معاشرے، زراعت، دیہات، دودھ پیدا کرنے والوں اور بالآخر ملک کو کثیر جہتی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان نے گزشتہ 50بر سوں میں اس کامیابی کی کہانی کا تجربہ کیا ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image002KA8V.jpg

 باہمی تعاون کے وزیر نے کہا کہ آج ہندوستان 24 فیصد حصہ کے ساتھ دنیا میں دودھ کی پیداوار میں پہلے مقام پر پہنچ گیا ہے اور وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں گزشتہ 8 برسوں میں ہندوستان میں دودھ کی پیداوار میں تقریباً 51 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ  اضافہ ہے۔ یہ سب سے تیز رفتار اضافہ ہے۔ جناب امت شاہ نے کہا کہ یہ صرف اس لیے ممکن ہوا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر پیداوار کوآپریٹو ڈیریوں کے ذریعے کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوآپریٹو ڈیری کو چلانا ہے تو اسے پروان چڑھانے کے لیے بہت سے ادارے بنانے ہوں گے اور یہ کام این سی ڈی ایف آئی کرے گی۔ ایک طرح سے این سی ڈی ایف آئی تمام ڈیریوں کو رہنمائی فراہم کرنے کا کام کر رہی ہے۔ جناب شاہ نے کہا کہ سفید انقلاب کی شروعات ‘واسی’ گاؤں سے ہوئی تھی اور اب این سی ڈی ایف آئی کا ہیڈکوارٹر اسی آنند ضلع میں تقریباً 7000 مربع میٹر کے رقبے میں بننے جا رہا ہے۔ یہ تقریباً 32 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کیا جائے گا اور اسے سولر پاور پلانٹ(شمسی توانائی والا بجلی گھر) کے ذریعے چلایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہیڈ کوارٹر کی نئی عمارت 100 فیصد ماحول دوست انداز پر تعمیر کی جائے گی۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image003YA2S.jpg

مرکزی وزیر داخلہ اور  باہمی تعاون کے وزیر نے کہا کہ جب کوآپریٹو سیکٹر ڈیری کا کاروبار کرتا ہے تو سب سے پہلے فائدہ دودھ پیدا کرنے والوں کو ہوتا ہے، کیونکہ ان کا استحصال نہیں ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی اکیلا فرد  دودھ تیار کرتا ہے تو اس کے پاس دودھ کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی اور وہ مارکیٹ تلاش نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر کوآپریٹو سیکٹر دودھ کا کاروبار کرتا ہے تو گاؤں اور ضلع کی سطح پر دودھ کی یونینیں بنتی ہیں اور ان میں کولڈ اسٹوریج، پروسیسنگ، دودھ کو مارکیٹ کی طلب کے مطابق پروڈکٹ میں تبدیل کرنے اور پھر اس کے بعد یہ  منافع ان بہنوں کے ساتھ بانٹنے کی صلاحیت ہوتی ہے جو تعاون پر مبنی دودھ کی پیداوار کے عمل میں شامل ہیں۔ اس طرح دودھ پیدا کرنے والی بہنوں کا استحصال ختم ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف دودھ کی پیداوار سے وابستہ شخص اپنے جانوروں کی صحت کے بارے میں فکر مند نہیں ہو سکتا بلکہ اگر تعاون کے ساتھ دودھ کی پیداوار ہو تو ڈسٹرکٹ مِلک پروڈیوسرز ایسوسی ایشن بھی نسل کی بہتری، صحت کی بہتری اور جانوروں کی خوراک بہتر بنانے کے انتظامات کرے گی۔ تیسرا فائدہ یہ ہے کہ اگر دودھ کا کاروبار کوآپریٹو سیکٹر (شعبہ امداد باہمی)کے ذریعے کیا جائے تو یہ خود بخود نیوٹریشن موومنٹ (تغذیہ کی تحریک )سے جڑ جاتا ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image00433Q9.jpg

جناب امت شاہ نے کہا کہ وہ بناسکانتھا ڈیری سمیت کئی ایسی ڈیریوں کے بارے میں جانتے ہیں جو نقص تغذیہ کے شکار ہونے والے بچوں کو غذائیت سے بھرپور دودھ فراہم کرکے ان کی صحت کا خیال رکھتی ہیں۔ احمد آباد ڈیری جیسی کئی ڈیری حاملہ خواتین اور ان کے بچوں کو لڈو کی شکل میں خوراک  فراہم کرکے ان کی غذائیت کا خیال رکھتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پورا کوآپریٹو سیکٹر غذائی قلت کے خلاف جنگ میں شامل ہو گیا ہے۔ تعاون کے مرکزی وزیر موصوف نے کہا کہ ایک زمانے میں ہندوستان کے لیے ڈیری اور ڈیری ٹیکنالوجی کا تصور کرنا بھی مشکل تھا، لیکن ہم نے ایسی کوششیں کیں کہ پورے ہندوستان میں متوازن  دودھ کی پیداوار شروع ہوگئی۔ کئی ایسے علاقے ہیں جو کوآپریٹو ڈیری سے منسلک نہیں تھے،  آج صورت حال یہ ہے کہ ان علاقوں میں بھی این ڈی ڈی بی کے ذریعے گجرات کی  باصلاحیت ڈیریاں اتر پردیش اور ہریانہ جیسی شمالی ہندوستانی ریاستوں میں اپنا کام بڑھا رہی ہیں اور تعاون پر مبنی طریقے سے اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کررہی  ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ملک کے ہر گاؤں میں دودھ کو ہموار طریقے سے پیدا کرنا ہے اور ہر گھر کو خود انحصار بنانا ہے تو یہ کام  امداد باہمی کے شعبے کے ذریعہ  دودھ کی تیاری  سے ہی ممکن ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image005M75L.jpg

جناب امت شاہ نے کہا کہ ہندوستانی ڈیریوں نے دودھ کی پیداوار میں دنیا میں ملک کا نام روشن کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1946 میں جب گجرات میں ایک ڈیری نے استحصال شروع کیا تو سردار ولبھ بھائی پٹیل نے تریبھون بھائی کو اس کے خلاف تحریک دی اور 1946 میں 15 دیہاتوں میں چھوٹی ڈیریاں  شروع کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ 1946 میں استحصال کے خلاف ایک چھوٹی سی شروعات ایک بہت بڑی تحریک میں بدل گئی اور اسی سے ملک میں سفید انقلاب اور این ڈی بی بی کا ظہور ہوا۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک بھر میں بہت سی کوآپریٹو ڈیریوں نے ترقی کی ہے۔ امول روزانہ تقریباً 40 ملین لیٹر دودھ کو پروسیس کرتا ہے اور 36 لاکھ بہنیں دودھ کو ذخیرہ کرتی ہیں اور ہر ہفتے انہیں تیار کردہ دودھ کی قیمت ملتی ہے۔ جناب شاہ نے کہا کہ 2022-2021 میں امول فیڈریشن کا ٹرن اوور (کاروباری لوٹ پھیر) 72000 کروڑ روپے ہے۔

 باہمی تعاون کے وزیر نے کہا کہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی  ملک میں کئی انقلابات لائے ہیں جن میں ڈیجیٹل انقلاب بھی شامل ہے۔ جی-20  کے لیے دنیا بھر سے سفارت کار، سیاست دان، سربراہان مملکت یہاں آئے تھے اور سب حیران تھے کہ ہندوستان جیسے ملک میں آن لائن ادائیگی اور ڈیجیٹل لین دین اتنا کیسے بڑھ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دیکھ کر خوشی محسوس ہوتی ہے جب ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک عورت اپنا موبائل نکال کر اسکین کرتی ہے اور رقم کی ادائیگی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان پوری دنیا میں ڈیجیٹل لین دین کے میدان میں سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں شامل ہے اور اگلے 4-5 سالوں میں ہم سب سے اوپر کی سیڑھی پر پہنچ جائیں گے۔ تقریباً 80 ممالک نے ہمارے آن لائن ادائیگی کے نظام کی کامیابی کے بارے میں معلومات مانگی ہیں اور ہندوستان نے بخوشی یہ معلومات فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

جناب امت شاہ نے کہا کہ ڈیری صنعت میں ای-مارکیٹ کو فروغ دینے کے لیے آج ایوارڈز دیے گئے ہیں۔ انہوں نے این سی ڈی ایف آئی کے ممبران پر زور دیا کہ وہ سو فیصد کاروبار کی طرف بڑھیں۔ باہمی تعاون کے وزیر نے کہا کہ ہم نے گجرات میں پنچ محل ڈسٹرکٹ ڈیری، بناسکانتھا ڈسٹرکٹ ڈیری اور گجرات اسٹیٹ کوآپریٹو بینک کے ساتھ مل کر ابھی ایک چھوٹا سا تجربہ شروع کیا ہے۔ ہم ہر کسان کو روپے کارڈ دے رہے ہیں۔ ہر گاؤں کی ڈیری کو ‘بینک دوست’ بنایا جا رہا ہے اور اسے اے ٹی ایم فراہم کیے جا رہے ہیں، اور ڈیری اور ہر کسان کے کھاتوں کو ڈسٹرکٹ کوآپریٹو بینک میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف بناسکانتھا ضلع میں 800 کروڑ روپے کے ڈپازٹس میں اضافہ ہوا ہے اور 193 اے ٹی ایم کام کر رہے ہیں۔ روپے ڈیبٹ کارڈ 96 فیصد کسانوں تک پہنچ گیا ہے۔ اب کسان کو کسی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔ ان کے دودھ کی ادائیگی براہ راست ضلع کوآپریٹو بینک، بناسکانتھا کے اکاؤنٹ میں جمع کی جاتی ہے۔ اب کسان مرد/ عورت کے پاس روپے کارڈہے جو ڈسٹرکٹ کو آپریٹیو بینک سے منسلک ہے۔ اگر وہ کہیں سے بھی کچھ خریدنا چاہتا ہے اور اسے نقد رقم کی ضرورت ہے تو وہ اپنے گاؤں کی ڈیری کے اے ٹی ایم سے نقد رقم لے سکتا ہے۔ جناب شاہ نے کہا کہ ضلع کی ہر ڈیری کو مرکز بنا کر اس ماڈل کو پورے گجرات میں لاگو کیا جائے، تب کسان کو کسی بھی خریداری کے لیے اپنی جیب سے نقد رقم نہیں نکالنی پڑے گی۔

وزیرباہمی تعاون نے کہا کہ کوآپریٹو کو غیر رسمی معیشت کے بجائے ملک کی رسمی معیشت اور معیشت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک ایسے معاشی نظام کا تصور کیا ہے جہاں کوآپریٹیو  کا شعبہ  امداد باہمی کے عمل کو  فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کرے۔ تمام دودھ یونین کے عہدیداروں کو چاہیے کہ وہ اس ماڈل کا مطالعہ کریں اور اسے ہر ضلع کی دودھ پروڈیوسر یونین کو بھیجیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کوآپریٹو سیکٹر کی طاقت میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔

جناب امت شاہ نے کہا کہ این سی ڈی ایف آئی کو  نامیاتی کاشت کاری کی طرف قدم اٹھانا چاہیے۔ امول نے اسے بہت اچھے طریقے سے استعمال کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی تحریک سے ہم نے قومی سطح پر ایک ملٹی اسٹیٹ کوآپریٹیو( کثیر ریاستی امداد باہمی) ادارہ بنایا ہے، جو نامیاتی مصنوعات کی مارکیٹنگ کرے گا۔ لوگ اس سے جڑنے لگے ہیں۔اس ماڈل کو اپناتے ہوئے آج ایک نامیاتی کاشت کاری سے  جڑی امداد باہمی کی انجمن( آرگینک کوآپریٹیو) ملک میں آرگینک مصنوعات کو فروغ دے رہی ہے۔ اس کے ساتھ برآمد کے لیے ایک کوآپریٹو بھی بنایا گیا ہے کیونکہ نامیاتی مصنوعات کی عالمی منڈی بہت بڑی اور مہنگی بھی ہے۔ اگر دنیا مہنگی نامیاتی( آرگینک) مصنوعات استعمال کرنا چاہتی ہے تو انہیں ہندوستان سے دنیا کے دیگر ملکوں میں  بھیجنے میں کوئی تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔

 باہمی تعاون کے وزیر نے کہا کہ ہم نے ایک سیڈ کوآپریٹو (بیجوں سے متعلق  امداد باہمی کا ادارہ) بھی بنایا ہے جو ہندوستانی بیجوں کا تحفظ اور فروغ کرے گا۔ آج بیج بنانے والی بڑی کمپنیاں بڑے کسانوں کے پاس ہیں۔ یہاں تک کہ اگر کسی کے پاس دو ایکڑ زمین ہے تو وہ پی اے سی ایس کے ذریعے وہاں پہنچے گا اور کسانوں کو بیج کی کاشت سے بھی جوڑے گا۔ اس سے کسان کے منافع میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے این سی ڈی ایف آئی  پر زور دیا کہ وہ ایک نوڈل ایجنسی کے طور پر اس سلسلے میں سامنے آنے والے اچھے ماڈل کو ہرضلعی یونین تک لے جائے۔ اگر کوئی ضلعی یونین اسے اپنانا چاہے تو اس کی رہنمائی کے لیے ایک ٹیم بنائی جائے اور ایک ضلع میں جو کامیابی حاصل کی جائے  اس کی کہانی   ہندوستان کے ہر ضلع میں عملی طور پر دہرائی جائے۔

جناب امت شاہ نے کہا کہ ای-آکشن پلیٹ فارم، ریورس آکشن اور فارورڈ آکشن بھی اب فراہم کیے جانے والے ہیں اور این سی ڈی ایف آئی کے ای-مارکیٹ پورٹل پر ایک لاکھ میٹرک ٹن دالوں کی خریداری کا بھی انتظام ہے۔ اسی طرح، این اے ایف ای ڈی کی ایپ 4 جنوری کو لانچ ہونے جا رہی ہے، جس میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ہندوستان میں ایک کسان کتنی ہی دالیں پیدا کرتا ہے، این اے ایف ای ڈی پوری پیداوار کو ایم ایس پی سے ایک روپیہ زیادہ کے حساب سے خریدے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم تیل کے بیجوں(تلہن ) کے شعبے میں ہندوستان کو خود کفیل بنانا چاہتے ہیں، اس لیے یہ کام این اے ایف ای ڈی کو سونپا گیا ہے۔ کسان این اے ایف ای ڈی کی ایپ پر رجسٹر ہو کر دالوں کی کاشت کرے گا اور تمام دالیں این اے ایف ای ڈی کے ذریعے  ایم ایس پی  پلس ایک روپے کی شرح سے خریدی جائیں گی۔

 باہمی تعاون کے وزیر نے کہا کہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ایتھنول کے لیے ایک عالمی اتحاد بنایا ہے، لیکن اس اتحاد  کے وجود میں آنےسے پہلے ہی ہم نے مکئی سے ایتھنول بنانے کی پالیسی تیار کرلی ہے۔ اس پالیسی کے مطابق اگر کوئی کسان مکئی بوتا ہے تو اس کی مکئی کا 100 فیصد این اے ایف ای ڈی خرید کر ایتھنول بنانے والی کمپنی کو بھیجے گا اور کسان کو ایم ایس پی سے زیادہ قیمت ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے فصلوں میں تنوع، کھادوں کا کم استعمال، دالوں اور تلہن میں خود انحصاری جیسے اہداف مقرر کیے ہیں۔

*************

( ش ح ۔ س ب۔ رض (

3168U. No.



(Release ID: 1992300) Visitor Counter : 82


Read this release in: English , Tamil , Telugu