خواتین اور بچوں کی ترقیات کی وزارت

آنگن واڑی-اور-بچوں کی دیکھ بھال کے مرکز(پالنا) پر قومی پروگرام کاانعقاد


خواتین  اور بچوں کی بہبود کی مرکزی وزیر محترمہ اسمرتی ایرانی نے ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں پر زور دیا کہ وہ ایسے علاقوں کی نشاندہی کریں جہاں غیر منظم شعبے میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد زیادہ ہے تاکہ انہیں مرکز کی آنگن واڑی-کم-کریچے اسکیم سے جوڑا جا سکے

پالنا کے تحت آنگن واڑی اور بچوں کی دیکھ بھال کےمراکز پرایک جامع معیاری آپریٹنگ طریقہ کار جاری

حکومت 17000 کریچے (بچوں کی دیکھ بھال کے مرکز)قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس میں سے 5222 کو منظوری دی  جاچکی ہے

پالنا اسکیم کے تحت موجودہ آنگن واڑی ورکروں اور آنگن واڑی ہیلپروں کے ساتھ دو اضافی کریچےورکرز اور ہیلپروں کو تعینات کیا جائے گا

Posted On: 22 DEC 2023 9:07AM by PIB Delhi

اسکیم کے معیاری آپریٹنگ طریقہ کار (ایس او پی) کو جاری کرنے کے لیے آج (21 دسمبر 2023) نئی دہلی کے وگیان بھون میں آنگن واڑی-کم-کریچےانڈر پالنا پر ایک قومی سطح کا پروگرام منعقد ہوا۔ پالنا اسکیم کے تحت آنگن واڑی-کم-کریچے پہل پر نظرثانی کی گئی اور اسے اپریل 2022 سے شروع ہونے والے مشن شکتی کے سامرتھ کےذیلی حصے کے طور پر شامل کیا گیا۔آنگن  واڑی –کم-کریچےکا بنیادی مقصد بچوں کی معیاری دیکھ بھال کی ضرورت کو پورا کرنا اور خواتین کو افرادی قوت میں فعال طور پر حصہ لینے کے قابل بنانا ہے۔

پروگرام کا آغاز خواتین اور بچوں کی ترقی اور اقلیتی امور کی مرکزی وزیر محترمہ اسمرتی زوبن ایرانی کی صدارت میں،خواتین اور بچوں کی ترقی اور آیوش، حکومت ہند کے وزیر مملکت ڈاکٹر منجپارا مہندر بھائی کی موجودگی میں افتتاحی اجلاس سے ہوا۔دیگر معززین جنہوں نے اس موقع پر شرکت کی ان میں جناب اندریور پانڈے، سکریٹری، خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت، حکومت ہند؛ محترمہ آرتی آہوجا، سکریٹری، محنت اور روزگار کی وزارت، حکومت ہند؛ جناب اندر دیپ سنگھ دھاریوال، جوائنٹ سکریٹری، کارپوریٹ امور کی وزارت، حکومت ہند اور محترمہ راجول بھٹ، جوائنٹ سکریٹری، محکمہ پرسونل اینڈ ٹریننگ، حکومت ہند شامل ہیں۔ اس تقریب میں ایم او ڈبلیو سی ڈی  ے سینئر افسران، ریاستی ڈبلیو سی ڈی افسران،سی  ڈی پی او ، لیڈی سپروائزرس، ملک بھر سے آئی ہوئی آنگن واڑی کارکنان اور سول سوسائٹی تنظیموں کے ماہرین نے شرکت کی۔

اپنی تعارفی تقریر میں جناب اندیور پانڈے، سکریٹری،ایم ڈبلیو سی ڈی نے کہا کہ آنگن واڑی-کم-کریچے (پالنا) اسکیم کا مقصد اس خلاء کو دور کرنا ہے جو خاص طور پر شہری علاقوں میں موجود ہے جہاں کنبہ کے ممبران کی طرف سے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے مدد دستیاب نہیں ہے اور معیشت میں خواتین کی شراکت کو آسان بنانے کے لیے ادارہ جاتی تعاون کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پالنا اسکیم کے تحت موجودہ آنگن واڑی کارکنوں اور آنگن واڑی ہیلپروں کے ساتھ دو اضافی کریچے ورکرز اور ہیلپروں کو تعینات کیا جائے گا۔

محترمہ آرتی آہوجا، سکریٹری، محنت اور روزگارکی وزارت، حکومت ہند نے اس حقیقت پر زور دیا کہ 2022 میں افرادی قوت میں خواتین کی شرکت بڑھ کر 37 فیصد ہو گئی ہے۔ خواتین کی شراکت کا تناسب اب اوپر کی طرف بڑھ رہا ہے اور افرادی قوت میں خواتین کی شمولیت کو قابل بنانا سب کی ذمہ داری ہے۔ خواتین کی افرادی قوت کی شرکت میں مدد کرنے کے لیے حکومت کا عزم مختلف دفعات سے ظاہر ہوتا ہے جنہیں میٹرنٹی بینیفٹ ایکٹ 2017 میں شامل اور نظرثانی کیا گیا ہے۔

کارپوریٹ امور کی وزارت کے جوائنٹ سکریٹری  جناب اندر دیپ سنگھ دھاریوال نے سماجی شعبے میں کارپوریٹ سماجی ذمہ داری (سی ایس آر) کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ یہ توجہ مثبت سماجی تبدیلی کو چلانے میں کاروبار کی صلاحیتوں کو تسلیم کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ محترمہ راجول بھٹ، جوائنٹ سکریٹری، محکمہ پرسنل اینڈ ٹریننگ، نے خاندان کے لیے دوستانہ کام کی جگہوں کو پروان چڑھانے اور قوم کی تعمیر میں خواتین کی شرکت کو آسان بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔

اس موقع پر ایک مختصر فلم بھی دکھائی گئی جس میں اسکیم کے جوہر اور اس کی خصوصیات کو دکھایا گیاہے۔ آنگن واڑی-کم- کریچےکے لیے معیاری آپریٹنگ پروسیجر(ایس او پی) بھی محترمہ اسمرتی زوبن ایرانی نے جاری کیا۔ ایس او پی میں اسکیم کی انتظامیہ اور نفاذ کے لیے ایک جامع فریم ورک کا خاکہ پیش کیا گیا ہے،جس میں انتظامی درجہ بندی، کارکنوں کے کردار اور ذمہ داریاں اور مانیٹرنگ چیک لسٹ شامل ہے۔ ایس او پی آنگن واڑی-کم-کریچے کے کامیاب اور موثر آپریشن کو یقینی بنانے کے لیے ایک اہم آلہ کے طور پر کام کرے گا، جس سے کمیونٹی کی مجموعی بہبود میں مدد ملے گی۔

 

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0023GIP.jpg

 

ڈاکٹر منجپارا مہندر بھائی نے خواتین کو معاشی  طورپربااختیار بنانے میں سہولت فراہم کرنے میں وزارت کی مختلف کوششوں پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت 17000 کریچےقائم کرنے کا ہدف رکھتی ہے جن میں سے اب تک 5222 کو منظوری دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ، ‘‘آنگن واڑی کم کریچے خواتین میں لیبر فورس  کی شمولیت کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوگی، جس سے بھارت کی اقتصادی ترقی پر کافی اثر پڑے گا’’۔

 

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image004IZFN.jpg https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0039OYA.jpg

 

خواتین اور بچوں کی ترقی اور اقلیتی امور کی مرکزی وزیر محترمہ اسمرتی زوبن ایرانی نے خواتین کے لیے بچوں کی معیاری دیکھ بھال کی ضرورت پر زور دیا اور کہا،‘‘ہماری پہلی ترجیح اس عورت تک پہنچنا ہے جو اپنی روزی روٹی کماتی ہے، اپنا گھر چھوڑ کر دوسرے گھرمیں کام کرتی ہے، عورت جو زرعی مزدور کے طور پر کام کرتی ہے، عورت۔ جوپالنا کے تحت تعمیراتی کارکن کے طور پر کام کرتی ہے اور اقتصادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا موقع فراہم کرتی ہے، تاکہ وہ اپنی روزی روٹی کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کے لیے ایک محفوظ اور تحفظاتی ماحول فراہم کر سکے۔’’انہوں نے ریاستی/ضلعی عہدیداروں اور سی ایس او کے مفکر رہنماؤں سے مزید اپیل کی کہ وہ مجوزہ 17000 کریچے کو حد کے طور پر نہ سمجھیں۔ انہوں نےیہ بھی کہا کہ مرکزی حکومت ان ریاستوں کو اپنا تعاون فراہم کرے گی جو اے ڈبلیو سی سی کی مجوزہ تعداد سے زیادہ کھولنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے ریاستوں کو مزید ہدایت دی کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں تعمیراتی مقامات کا بنیادی جائزہ لیں اور ان شہری اور نیم شہری علاقوں کا نقشہ تیار کریں جہاں منظم اور غیر منظم شعبے میں خواتین کی شرکت زیادہ ہے، تاکہ کریچوں کی تعمیر کے لیے مناسب جگہوں کی نشاندہی کی جا سکے۔

خواتین اور اطفال کی ترقی کی مرکزی وزیر نے تجویز پیش کی کہ وزارت ریاستوں کے ساتھ مشاورت سے ایک فریم ورک فراہم کرے گی، ایسی مصروفیت کے لیے جہاں بچوں کے لیے حفاظت اور صحت کی ضروریات اور غذائیت کا پتہ لگایا جائے جو کوئی بھی نجی حیثیت میں اس شعبے میں خدمات انجام دینا چاہتا ہے۔ انہوں نے خواتین کو معاشی مواقع فراہم کرنے میں چائلڈ کیئر سیکٹر کی صلاحیت پر زور دیا۔ انہوں نے وزیر اعظم کی ان بے حساب اور غیر رجسٹرڈ اداروں کو بند کرنے کی کوششوں پر مزید زور دیا جہاں بچوں کا استحصال/خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے اداروں کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لیے، ایسے اداروں میں کام کرنے والے نہ صرف مردوں بلکہ خواتین کی بھی پولیس کی تصدیق ضروری ہے۔

پروگرام کے دوسرے حصے میں دو پینل مباحثے شامل تھے۔‘کیئر اکانومی: کیئر ٹو ایمپاورمنٹ’ پر پینل ڈسکشن نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ تبدیلی کی دیکھ بھال کی پالیسیاں بچوں، بوڑھوں اور معذور افراد کے لیے صحت، معاشی اور صنفی مساوات کے مثبت نتائج دے سکتی ہیں۔ یہ خواتین کے روزگار کے ساتھ ساتھ خاندان میں مردوں کے لیے نگہداشت کے بڑھتے ہوئے کردار کے لیے بھی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ پینل نے نگہداشت کی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے ملک میں نگہداشت کے کام سے متعلق مہارتیں اور کورسز فراہم کرنے کی ضرورت پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ بحث میں صنفی حساس پالیسی ٹولز کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا جو نگہداشت کے کام کی سمجھ اور نگہداشت کے کام سے وابستہ معاشی مواقع کو مربوط کرتے ہیں۔ خواتین کی افرادی قوت میں داخلے کو آسان بنانے، بلا معاوضہ نگہداشت اور گھریلو کام کے بوجھ کو کم کرنے اور ان کی مجموعی فلاح و بہبود کے لیے ایک قابل نگہداشت کام کے ماحولیاتی نظام کی تشکیل بہت ضروری ہے۔ اس تجویز میں سستی اور آسانی سے قابل رسائی بچوں کی دیکھ بھال اور بزرگوں کی دیکھ بھال کی سہولیات میں سرمایہ کاری کو ترجیح دینا شامل ہے تاکہ بغیر معاوضہ دیکھ بھال کے کام کے مروجہ بوجھ سے نمٹا جا سکے۔ جناب نتیشوار کمار، ایڈیشنل سیکریٹری اور مالیاتی مشیر، خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزارت، پروفیسر منیش آر جوشی، سیکریٹری، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن؛ محترمہ کانتا سنگھ، ڈپٹی کنٹری نمائندہ، یو این ویمن آفس انڈیا میں؛ محترمہ میتالی نیکور، صنفی مرکزی دھارے میں شامل ماہر معاشیات۔ محترمہ رمجھم چٹرجی، چیئرپرسن، کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری (سی آئی آئی)؛ محترمہ جیوتی وج ایڈیشنل سکریٹری جنرل،ایف آئی سی سی آئی پینل ڈسکشن کے لیے پینلسٹ تھیں۔

پینل ڈسکشن کا دوسرا دور ‘‘ڈے کیئر سینٹرز/کریچوں کے نفاذ میں مداخلت’’ پر تھا۔ بحث حکومت کے پروگراموں کے اندر ڈے کیئر سنٹرز کو ادارہ جاتی بنانے کے عمل اور حکومت کی اسکیموں کی ترقی کے راستے پر مرکوز تھی۔ پینل نے کمیونٹی چائلڈ کیئر ماڈلز پر مختلف ریاستوں کے بہترین طریقہ کار پر بھی روشنی ڈالی، جیسے کہ بڑے بہن بھائیوں، خاص طور پر بیٹیوں کے لیے تعلیم میں تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے اسکول کے کیمپس سے ملحقہ کریچے۔ پینلسٹ نے باضابطہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے نگہداشت کی معیشت کے شعبے میں ترقی کی اہمیت پر زور دیا، نیز معاون بنیادی ڈھانچے کی ترقی، بشمول نصاب، مہارت کی ترقی، اور ملازمت کی تخلیق۔ ضوابط کے مطابق محفوظ مقامات کا انتخاب بچوں کی حفاظت کو مزید یقینی بناتا ہے۔ مزید برآں، دماغی یا جسمانی معذوری والے بچوں کے لیے نگہداشت کی خصوصی اسکیمیں تجویز کرنااور ان کی نگہداشت کے ماحول میں شمولیت کو یقینی بناتا ہے۔ ڈاکٹر پریتم بی یشونت، جوائنٹ سکریٹری، خواتین اور اطفال کی ترقی کی وزارت، محترمہ امنیت پی کمار، کمشنر اور سکریٹری، محکمہ خواتین اور بچوں کی ترقی، حکومت ہریانہ، محترمہ سمترا مشرا، ایگزیکٹو ڈائریکٹر، موبائل کریچے، محترمہ وینا بندیوپادھیائے، سوشل پالیسی اسپیشلسٹ، یونیسیف کی نمائندہ ہندوستان اور محترمہ ساچی بھلا، ڈائریکٹر، انڈیا کنٹری آفس، بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن ڈے کیئر سینٹرز/کریچوں کے نفاذ میں مداخلت پر پینل بحث کا حصہ تھیں۔

*************

ش ح۔ج ق ۔م ش

(U-2853)



(Release ID: 1989484) Visitor Counter : 74