نوجوانوں کے امور اور کھیل کود کی وزارت

گجرات کے گاندھی نگر میں واقع اسپورٹس اتھارٹی آف انڈیا (ایس اے آئی)  میں زیر تربیت راجیش نے 200 میٹر دوڑ مقابلے میں طلائی تمغہ جیتا


200 میٹر دوڑ مقابلے کے فاتح راجیش کے لیے ایک پاؤں سے محرومی کوئی رکاوٹ نہیں بنی

Posted On: 12 DEC 2023 5:56PM by PIB Delhi

پیر کے روز جب ٹی 64 مرے کے 200 میٹر دوڑ مقابلے کا فائنل جواہر لال نہرو اسٹیڈیم میں شروع ہوا تو  یہاں سے ہزاروں کلو میٹر دور تمل ناڈو کے تمبرم میں واقع انّائی ویلان کنی کالج میں بڑی اسکرین پر اس مقابلے کو براہِ راست نشر کیا جا رہا تھا کیونکہ اس کالج کے ایک بلیڈ رنر راجیش کے، اولین کھیلو انڈیا پیرا گیمز میں حصہ لے رہے تھے۔

کالج انتظامیہ چاہتی تھی کہ ہر بچہ راجیش کو پرفارم کرتے ہوئے دیکھے کیونکہ اس کی کہانی بے پناہ حوصلہ فراہم کرنے والی ہے۔

راجیش نے اپنی کارکردگی سے جے ایل این اسٹیڈیم کا ٹریک روشن کیا اور 200 میٹر میں گولڈ میڈل جیتا۔ اس کے بعد راجیش نے منگل کو لمبی چھلانگ میں بھی حصہ لیا لیکن وہ مایوس کن طور پر پانچویں نمبر پر رہے۔ لیکن صرف 6 ماہ کی عمر میں اپنی ٹانگ کھونے والے راجیش کی ذاتی زندگی میں مایوسی یا افسردگی جیسے الفاظ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image001PQXL.jpg

گاندھی نگر (گجرات) کے سائی سینٹر میں نتن چودھری کی نگرانی میں پریکٹس کرنے والے راجیش کی ذاتی زندگی ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ کوئی بھی سن کر آہیں بھر دے گا، لیکن اس نے کبھی خود کو قابل رحم نہیں سمجھا۔ راجیش اپنا نام تاریخ میں درج کروانا چاہتے ہیں۔

راجیش نے کہا ہے کہ ’’ میں ہندوستان کے طلائی تمغہ جیتنے والے پیرا اولمپین ماریپن تھنگاویلو جیسا نام کمانا چاہتا ہوں۔ میں جرمن پیرا لانگ جمپ ایتھلیٹ مارکس ریہم جیسا بننا چاہتا ہوں، جنہوں نے ٹی 64 لانگ جمپ کیٹیگری میں عالمی ریکارڈ بنایا تھا۔ معذوری میرے راستے میں کبھی رکاوٹ نہیں بنی۔ میں نے اسے کبھی متاثر نہیں ہونے دیا اور ہمیشہ ایک عام انسان کی طرح سوچا۔ میں نے کبھی اپنے آپ کو قابل رحم نہیں بنایا۔‘‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ پیدائشی  طور پر معذور ہیں، تو انہوں نے کہا، ’’ نہیں، میں پیدائشی طور پر معذور نہیں ہوں۔ میں پیدائش کے وقت ایک عام بچے کی طرح ہی تھا لیکن میری ٹانگوں میں انفیکشن کی وجہ سے مجھے علاج کروانا پڑا۔ انجکشن دیتے وقت میری ٹانگ میں سوئی ٹوٹ گئی اور اس سے زہر پھیل گیا۔ پھر، میرے والدین کے مشورے پر، ڈاکٹروں نے میری جان بچانے کے لیے میری ٹانگ کاٹ دی۔‘‘

راجیش نے بتایا کہ 10 ماہ کی عمر میں انہیں پہلی مصنوعی ٹانگ ملی جس کی مدد سے اس نے اپنی آئندہ زندگی گزارنی شروع کی لیکن جب وہ ساتویں کلاس میں تھا تو اس کے والدین نے اسے چھوڑ کر چلے گئے۔

راجیش کے مطابق، ’’ مصنوعی ٹانگ ملنے کے بعد زندگی نارمل لگ رہی تھی لیکن پھر میرے والدین باہمی رضامندی سے الگ ہو گئے۔ ہمیں کسی کا سہارا نہیں ملا۔ میں اور میرا جڑواں بھائی اپنے دادا اور دادی کے ساتھ رہنے پر مجبور تھے۔ میرے دادا نے آٹو چلا کر ہماری پرورش کی۔‘‘

یہ پوچھے جانے پر کہ مصنوعی پاؤں ہونے کے باوجود انہوں نے دوڑنا کیسے شروع کیا، تو 24 سالہ راجیش نے بتایا، ’’ میں پچھلے پانچ چھ برسوں سے بلیڈ رننگ کر رہا ہوں۔ میں نے اپنا سفر 2018 میں شروع کیا تھا لیکن سال 2016 میں، مجھے ریو پیرالمپکس کے ٹی 42 زمرے میں ہائی جمپ مقابلے میں ٹی وی پر ماریپن تھنگاویلو کو طلائی تمغہ جیتتے ہوئے دیکھ کر ترغیب حاصل ہوئی اور تب سے میں نے فیصلہ کیا کہ میں بھی اولمپین بننا چاہتا ہوں۔‘‘

راجیش نے مزید بتایا کہ ’’ ایک دن میرے ایک دوست نے فون کیا اور کہا کہ تمہارا ملک کے لیے کھیلنے کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔ آپ تمل ناڈو کے پہلے وہیل چیئر کھلاڑی وجے سے ملو ۔ جب میں نہرو اسٹیڈیم میں ان سے ملا تو انہوں نے مجھے بلیڈ رننگ کا مشورہ دیا۔ میں نے 2018 میں پریکٹس شروع کی اور دو بار نیشنلز کھیلا۔ میں نے مارچ 2023 میں پونے میں منعقدہ 21 ویں پیرا نیشنلز میں کانسے کا تمغہ جیتا ۔ اس کے بعد تمل ناڈو حکومت نے مجھے ایک نیا بلیڈ دیا، جس کی قیمت 7.50 لاکھ روپے ہے۔ ‘‘

راجیش نے بتایا کہ اس کا مقصد پیرا لمپکس اور پیرا ایشین گیمز میں حصہ لینا ہے۔ ’’ میں پیرا اولمپک اور پیرا ایشین گیمز میں ملک کے لیے تمغہ جیتنا چاہتا ہوں۔ ابھی میں گوا میں 9 سے 15 جنوری تک ہونے والے پیرا نیشنلز کی تیاری کر رہا ہوں۔ وہاں سردی کم ہے اس لیے میری کارکردگی بہتر رہے گی۔ اس کے بعد میں فروری 2024 میں دبئی میں ہونے والے گرانڈ پرکس کی تیاری کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

**********

 (ش ح –ا ب ن۔ م ف)

U.No:2272



(Release ID: 1985524) Visitor Counter : 174


Read this release in: English , Hindi , Gujarati