نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
آئی آئی پی اے کے پبلک ایڈمنسٹریشن میں 49ویں ایڈوانسڈ پروفیشنل پروگرام(اے پی پی پی اے) کے شرکاء سے نائب صدر جمہوریہ کے خطاب کا متن
Posted On:
30 NOV 2023 3:34PM by PIB Delhi
آپ سب کو صبح بخیر!
جناب سریندر ناتھ ترپاٹھی، ڈائریکٹر جنرل، آئی آئی پی اے،
جناب سنیل کمار گپتا، سکریٹری، نائب صدرجمہوریہ ہند۔
جناب امیتابھ رنجن، رجسٹرار،
فیکلٹی کے ممبران اور اس ایڈوانسڈ کورس کے معزز شرکاء،
میرے سامنے بیٹھے لوگ کوئی عام لوگ نہیں ہیں۔ ہمارے 1.4 بلین کے ملک میں، آپ ایک ایسے طریقہ کار کے ذریعے اس سنگ میل تک پہنچے ہیں ، جو بہت سخت، بہت مسابقتی ہے۔ اور آپ اپنے کیرئیر کی اس سطح پر ہیں کہ آپ نے زمینی رکاوٹوں، مشکلات کو عبور کیا ہے اور دیکھا ہے کہ نظام کتنا سخت ہے۔
جب آپ نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تو ہمارے ملک میں ایک ایسا ماحول تھا جس میں بدقسمتی سے سرپرستی کا عنصر، بدعنوانی کا عنصر شامل تھا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ وہ قانون سے بالاتر ہیں۔ اب ہم نے ایک بڑی تبدیلی دیکھی ہے۔ ہمارے پاور کوریڈورز کو پاور بروکرز، رابطہ ایجنٹوں، اور بچولیوں سے مکمل طور پر صاف کر دیا گیا ہے جنہوں نے غیر قانونی فیصلہ سازی کا فائدہ اٹھایا۔ ہمارے پاس ایک ایسا ماحول ہے کہ اب ہر نوجوان ذہن کے پاس برابری کا موقع ہے۔ وہ اپنی توانائی کو مکمل طور پر بروئے کار لا سکتا ہے، صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، عزائم اور خوابوں کو پورا کر سکتا ہے۔ یہ ایک بڑی تبدیلی ہے جو واقع ہوئی ہے، اور آپ اس کا بنیادی حصہ ہیں۔
میرا تعلق چتور گڑھ کے سینک اسکول سے ہے۔ فوجیوں کے تئیں میراخاص جھکاؤ ہے، لیکن ریاست مغربی بنگال کا گورنر رہنے کے بعد فوجیوں کے تئیں میرا احترام بہت بڑھ گیا ہے۔ میں انہیں سرگرم عمل دیکھتا ہوں۔ کوسٹ گارڈ، ہندوستانی بحریہ… جب سمندری طوفان ، سپر سائیکلون آیا تھا، جو تباہی مچا سکتے تھے، تب ان لوگوں نے اعلی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے اپنی فرض شناسی کو اس سربلندی اور فکرمندی سے دکھایا ، جو کسی کو بھی حیران کر دے گا۔ ان تین سالوں میں، ہمارے پاس نصف درجن سے زیادہ سمندری طوفان آئے، لیکن سمندروں میں ایک کی بھی موت نہیں ہوئی۔ اس بات کو وردی پہنے جوانوں نے یقینی بنایا۔کولکاتہ کو اب تک کے بدترین طوفان کا سامنا کرنا پڑا اور فوج اس سے 36 گھنٹوں کے اندر نمٹ سکتی تھی، لیکن اسے سات دن بعد بلایا گیا تھا۔
اسی لئے آپ کے ذہن میں قربانی دینے کا جو جذبہ موجود ہے، اُس سے میں واقف ہوں۔ یہ بات کہہ کر میں ان لوگوں کا دل نہیں توڑنا چاہتا، جو فوج میں نہیں ہیں۔ ہر کسی کو اپنا کردار ادا کرنا ہے، لیکن فوجیوں کے اندر ایک بڑی خوبی ہے کہ وہ عظیم قربانی دینے کو تیار رہتے ہیں ۔ اور جب یہ لوگ کام کر رہے ہوتے ہیں، تو اُن کے اہل خانہ کو ان خطرات کا علم پہلے سے ہوتا ہے، ان کے اندر فیصلہ لینے کی قوت ہوتی ہے۔ اسی لئے میں ڈائرکٹر سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے بعد ایسے پروگرام ہونے چاہئے، جو لوگوں کو عالمی منظرنامہ کے حساب سے تیار کر سکیں۔
آجکل دنیا کو بالکل الگ قسم کے چینلجز کا سامنا ہے۔ ہمیں ان چیلنجز سے نمٹنے کے طریقوں سے لیس ہونا پڑے گا۔ مصنوعی ذہانت اس کا صرف ایک رُخ ہے۔ تخریبی ٹیکنالوجیز ، ان کی طاقت کا مظاہرہ ابھی ہونے والا ہے، ہمیں ان کے ساتھ رہنا پڑے گا۔ وہ ہمارے گھروں میں، ہمارے ڈرائنگ روم، ہمارے کام کی جگہوں میں در اندازی کر چکی ہیں۔پہلے زمانے میں ٹیکنالوجی کے معاملے میں یہ ہوتا تھا کہ جب کوئی نئی ٹیکنالوجی آتی تھی، تو ہمیں مدد کے لئے دوسرے ملکوں کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ جب وہ کوئی طریقہ کار ڈھونڈ لیتے تھے، تب وہ ہم تک پہنچتا تھا، لیکن اب ہم تحقیق، کونٹم کمپیوٹنگ کے معاملے میں پہلی قطار میں ہیں۔ گرین ہائیڈروجن میں بھی ہمارا ملک ان چند ممالک میں سے ایک ہے، جو 6-جی پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ 6-جی کی شروعات 2025 سے 2030 کے درمیان ہو جائے گی ۔
آپ نے جب اپنے کیریئر کی شروعات کی تھی، تب ملک کی اقتصادی حالت کمزور تھی، زرمبادلہ بہت کم تھا، شائد ہی کسی کو آگے بڑھنے کا موقع مل پاتا تھا۔ دنیا نے عالمی آبادی کے 6/1 ویں حصے کو نظر انداز کر دیا تھا۔ ہمارے پاس کوئی عالمی آواز ن ہیں تھی۔ اس فاصلہ کو دیکھیں، جسے آپ پہلے ہی عبور کر چکے ہیں۔ اب ہم دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہیں۔ ہم برطانیہ اور فرانس سے پیچھے ہیں۔ لیکن آنے والے دنوں میں، 2030 تک ہم جاپان اور جرمنی کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔ ہماری ڈیجیٹل ترقی نے عالمی بینک جیسے بین الاقوامی اداروں کو کافی متاثر کیا ہے۔ ہم نے جو کچھ کیا ہے، وہ ایک ایسا ماڈل ہے، جس کی پیروی دنیا کو کرنی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو مواقع فراہم کرنے والا ایک بڑا ادارہ تصور کیا جاتا ہے اور اس نے پوری دنیا کے لئے ہندوستان میں سرمایہ کاری کی ہے اور یہ سب ہمارے انسانی وسائل کی وجہ سے ممکن ہو پایاہے۔
اسی لئے آپ کا پروگرام کچھ الگ ہونا چاہئے۔ یہ کوئی ریفریشر کورس نہیں ہے۔ میں ڈائرکٹر سے اپیل کروں گا کہ وہ پروگرام کی مائیکرو اسکرپٹ مجھے بھیجیں۔ میں جانتا ہوں کہ اپنے درمیان بات چیت اور اپنے درمیان اشتراک ایک طرح سے تعلیم ہی ہے، لیکن کورس مکمل کرنے کے بعد آپ جب یہاں سے اپنے گھر جائیں تو کچھ ایسی چیز لے کر جائیں جس کے بارے میں پہلے آپ نے کبھی سوچا نہیں تھا، کیونکہ جب آپ کچھ لے کر جائیں گے، تو اس سے پورے گروپ کو فائدہ ہوگا۔ آپ کو ئی انفرادی شخص نہیں ہیں، آپ ایک بڑی تبدیلی کا مرکز اور محور ہیں۔ یہاں پر موجود آپ سبھی لوگ نمائندہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قوموں کی ترقی اس بات سے نہیں ہوتی کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ آ پ سے زیادہ یہ بات کسی کو نہیں معلوم ہے کہ کام کو انجام دینا آسان ہوتاہے۔ سب سے بڑی مشکل فیصلہ لینے میں آتی ہے، جس کا مشاہدہ آپ اپنے کیریئر میں کر چکے ہیں۔ خاص کر جو لوگ وردی میں ہیں، وہ خراب حالات میں کام کو انجام دینےکے لئےتیار رہتے ہیں، لیکن آپ کو فیصلہ لینا پڑتا ہے۔ سب کو مل کر کام کرنا پڑے گا اور صحیح فیصلہ لینا ہوگا۔ اب وقت آ چکا ہےکہ ہم عالمی ترقی کے حساب سے اپنے قدم آگے بڑھائیں اور اس بات کو یقینی بنانےکی کوشش کریں کہ 2047 میں جب ہم اپنی آزادی کی صد سالہ تقریب منا رہے ہوں، تو عالمی سطح پر ایک ترقی یافتہ ملک کے طور پر اپنا نشان چھوڑیں۔ اب تک ہم جو کچھ کر چکے ہیں، وہ آسان نہیں تھا۔
لوگ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، لیکن ذرا تصورکیجئےکہ آج ہر ایک گھر میں بیت الخلاء ہے۔ 140 کروڑ کی آبادی والے ملک میں بیت الخلاء کا ہونا، ہر گھر میں نل سے پانی کا انتظام ہونا، لیکن سڑک سے رابطہ ہونا...ہمارے گاؤں میں 5-جی کنکٹی ویٹی ہے، جو اتنی ہی تیز رفتارہے، جتنی کہ بڑے شہروں میں۔ ریل، ٹرانسپورٹ میں جو انقلابی تبدیلی آئی ہے، ہماری سڑکوں اور شاہراہوں کی ترقی کو دیکھیں۔ ہم اب اس بات پر فخر کر سکتے ہیں کہ وِکرانت کا نیا ورژن وزیراعظم کےذریعے پچھلے سال شروع کیا گیا۔ ہم ایک ایسے ملک ہیں جو تعمیر کےعمل سے گزر رہا ہے۔ وزیراعظم نے تیجس ، ہیلی کاپٹر اڑائے، چاہے سمندر ہو، چاہے زمین ہو، چاہے ہوا ہو، چاہے خلاء ہو، ہندوستان اب سرکردہ ملکوں کی انجمن میں پہنچ چکا ہے۔ اسرو نے جو کچھ حاصل کیا ہے اس کی معلومات اب ہمیں دوسروں تک پہنچانی ہے۔ اسرو نے امریکہ، برطانیہ، سنگا پور، فرانس اور اس قسم کے کئی ترقی یافتہ ممالک کے سیٹلائٹ خلاء میں پہنچائے ہیں۔ کیوں؟ پیسے کی قدر اور اعلیٰ اثر انگیزی کی وجہ سے ۔ چندریان -3 کوئی چھوٹی کامیابی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔
میں صرف یہی کہنا چاہتا ہوں کہ اس کورس میں اتنی طاقت ہونی چاہئے کہ وہ ہر اہم فیصلے فراہم کر سکے جس سے ہمیں روزانہ فائدہ ہو۔ یہ ایک ایسی چیز ہو جس کے بارے میں آپ نے پہلے کبھی سوچا نہیں ۔ یہ ایک صحیح پلیٹ فارم ہے۔ اس کور س میں آپ کے ذریعے لگائے گئے دس مہینے ملک کے لئے ایک بڑی خدمات ثابت ہوں گے ، کیونکہ اگر ان 10 مہینوں کا حساب مالیات کے طو رپر لگائیں، تو وزارت مالیات اور اخراجات سے ہمارے پاس کوئی ہے جو اس کا حساب کتاب فورا لگا سکتا ہے، اور یہ 15 کروڑ کے قریب ہوگا۔ جب آ پ کسی طاقتور خیال سے کوئی طاقت پیدا کرتے ہیں، تو پھر پیسے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
دوستو، میں آپ کو کوئی ایسا لیکچر نہیں دینا چاہتا جو آپ کو فیکلٹی ممبران کی طرف سے ملتا ہے۔ لیکن میں یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ انسانی ذہنیت کے معاملے میں ہم پوری دنیا میں سب سے بہتر ہیں۔ ہمارا کوئی ثانی نہیں ہے۔ ہمارے یہاں کا غیر تعلیم یافتہ آدمی بھی ٹیکنالوجی سے پوری طرح واقف اور اسی لئے ہمارے ملک میں فی کس انٹر نیٹ ڈیٹا کی کھپت امریکہ اور چین کو ملا کر ہونے والی کُل کھپت سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی لئے ایک کسان سال میں تین بار مرکزی حکومت سے براہ راست فنڈ حاصل کر سکتا ہے اور یہ ایک بڑی رقم ہے۔ فی الحال یہ رقم 2 لاکھ 50 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک ایسے ملک میں پیدا ہوئے ہیں، جہاں ہمارے ڈی این اے میں ایکلویہ موجود ہے۔ کوئی ہمیں ہنرمند بنائے گا اور کوئی ہنرمند بنانے سے منع کر دے گا، لیکن ہم اسے سیکھیں گے ضرور۔
میں جب 1989 میں رکن پارلیمنٹ اور وزیر تھا تب میں یہ سوچ نہیں سکتا تھا کہ اس ملک میں کیا ہوا ہے۔ میں آئی آئی پی اے کے عملہ سے اپیل کرتا ہوں کہ ان کے پاس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور ڈسٹرکٹ ایس پی کے لئے ایک ماڈیول ضرور ہونا چاہئے۔ یہ ملک وندے بھارت پر پتھر بازی کیسے برداشت کرسکتا ہے؟ ان شر پسند عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا چاہئے ، ایسی سزا ملنی چاہئے، جو عبرتناک ہو اور یہ ذمہ داری ضلع کے اہلکاروں، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور ایس پی پر عائد ہونی چاہئے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہمارے جیسے ملک میں، جہاں عالمی معیار کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے، پھر بھی ہم سڑکوں پر ڈسپلن برقرارنہیں رکھ پا رہے ہیں ؟ ہمیں ایک ایسا ماحول تیار کرنا ہوگا ، اس پر عمل کرنا ہوگا، میں اس کے بارے میں اکثر بولتا رہتا ہوں۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ بیرون ممالک جا چکے ہیں۔ ہم نے کبھی چلتی ہوئی کار سے باہر کیلے کا چھلکا نہیں پھینکا ہے۔ ہم نے یہ کام ملک سے باہر کبھی نہیں کیا ہے۔ کیونکہ ہم یہ مانتے ہیں کہ دوسرے ممالک اچھے طور طریقے میں یقین رکھتے ہیں ۔ لیکن ملک میں واپس آنے کے بعد ہم یہ سوچنے لگتے ہیں کہ چلتی ہوئی کار سے کیلے کے چھلکے باہر پھینکنا ہمارا پہلا حق ہے۔ وزیراعظم نے جب لال قلعہ سے سووچھ بھارت ابھیان کا اعلان کیاتھا...اسکینڈینیویائی ممالک میں سے ایک نے کچرے کو کارآمد چیز میں بدلنا شروع کر دیا ۔ اب اس ملک میں کچرا بالکل بھی نہیں ہے، وہ یوروپ سے کچرا درآمد کر رہےہیں ۔ تو آپ کے ذہن میں بھی اسی طرح کے خیالات پیدا ہونا چاہئے۔ ان کورسز سے آپ کو ایک الگ طرح کا فریم ورک حاصل ہونا چاہئے۔
مجھے پورا یقین ہے کہ فیکلٹی کا کوئی بھی رکن آپ کو یہ نہیں بتا سکتا کہ آپ کو کام کیسے کرنا ہے، ان سے زیادہ آپ اسے بہتر طریقے سے جانتے ہیں۔ آپ ایک سخت طریقہ کار سے گزرے ہیں جس کے بعد آپ فیکلٹی کو یہ بتا سکتےہیں کہ آپ کے پاس کس قسم کی جانکاری ہے، فیکلٹی کو تو آپ کو کچھ ایسی چیز پڑھانی ہوگی، جو اختراعی ہو، آپ کے عام کام کاج سے الگ ہو، لیکن آپ کے کام کے لئے مفید ہو ۔ آخر میں میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھائیں، اپنے خیالات کا اشتراک کریں۔ فیکلٹی سے کچھ الگ سیکھنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ آجکل ہمارے پاس ایسے طریقے موجود ہیں، جن کی مدد سے ہم روزانہ اپنے آپ کو بہتر کر سکتے ہیں۔ اگر آپ روزانہ تیس منٹ نکال کر یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کسی خاص میدان میں عالمی سطح پر کیا ہو رہا ہے اور پھراسے اپنے ساتھیوں کے ساتھ شیئرکریں، تو اس کے کافی مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ میں آپ کے بہتر مستقبل کے لئے دعا گو ہوں اور نئے سال کی پیشگی مبارکباد دیتا ہوں۔ میں آپ سے ایک بات ضرورت کہہ سکتا ہوں کہ آئی آئی پی اے ایک متحمل، ایماندار، شفاف اور جوابدہ ادارہ ہے۔ اس لئے آپ اسے بھی اپنے خیالات سے فائدہ پہنچائیں۔ اس کے اندر اسے حقیقت میں بدلنے کی صلاحیت اور امکان موجودہے۔ آپ جو کچھ بھی صلاح و مشورہ دیں گے، اس سے انہیں نئے کورس تیار کرنے میں مدد ملے گی۔
بہت بہت شکریہ
***
ش ح۔ق ت۔ ک ا
U.NO.1602
(Release ID: 1981245)
Visitor Counter : 60