وزیراعظم کا دفتر

متھرا میں سنت میرا بائی کے 525 ویں یوم پیدائش کی تقریب سے وزیراعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 23 NOV 2023 8:51PM by PIB Delhi

رادھے۔رادھے !جے شری کرشن!

پروگرام میں میں موجود برج کے پوجیہ سنت حضرات، اترپردیش کی گورنر  آنندی بین پٹیل، وزیراعلیٰ جناب یوگی آدتیہ ناتھ جی، ہمارے  دونوں وزرائےاعلیٰ، کابینہ کے دیگر رفقاء، متھرا کی رکن پارلیمان بہن ہیمامالنی جی اور میرے پیارے برج  واسیو!

سب سے پہلے تو میں آپ سے معافی چاہتاہوں کیوں کہ مجھے آنے میں تاخیر ہوئی، کیوں کہ میں راجستھان میں چناؤ کے ایک میدان میں تھا، اور اس میدان میں اب اس بھکتی ماحول میں آیا ہوں ۔ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے ا ٓج برج کے درشن کاموقع ملا ہے ، برج واسیو ں کے درشن کاموقع ملا ہے ۔ کیوں کہ یہاں  وہی آتا ہے جہاں شری کرشن اور شری جی بلاتے ہیں ۔ یہ کوئی معمولی سرزمین نہیں ہے۔ یہ برج تو ہمارے‘شیام- شیام جو’ کا اپنا دھام ہے۔ برج ‘لال جی ’ ا ور ‘لاڈلی جی’ کے پریم  کا  حقیقی اوتار ہے۔ یہ برج ہی ہے جس کی رج بھی پوری دنیا میں  پوجنے کے قابل ہے۔ برج کی رج رج میں رادھا رانی رچی بسی ہیں ، یہاں کے ذرے ذرے میں کرشن سمائےہوئے ہیں ۔ اور اسی لئے ہمارے گرنتھوں میں کہا گیا ہے – سپت دوئی پیشو یت تیرتھ، بھرمناتہ چہ یتا پلم-پراپیتےچا ادھکن تسماتہ، متھرا بھرمنیتے۔ یعنی دنیا کی سبھی تیرتھ یاتراؤں کاجو فائدہ ہوتاہے، اس سے بھی زیادہ فائدہ تنہا متھرا اوربر ج کی یاترا سے ہی مل جاتا ہے ۔ آج برج رج مہوتسو اور سنت میرا بائی جی کے 525 ویں  یوم پیدائش کی تقریب کے ذریعہ مجھے ایک بار پھر برج میں آپ سب کے بیچ آنے کے موقع ملا ہے ۔ میں دیویہ برج کے سوامی بھگوان کرشن اوررادھا رانی کو پورے سمرپن کے جذبے سے پرنام کرتا ہوں ۔ میں میرا بائی جی کے چرنو ں میں بھی نمن کرتے ہوئےبرج کے سبھی سنتوں کو پرنام کرتاہوں ۔ میں رکن پارلیمان بہن ہما مالنی جی کا بھی استقبال کرتاہوں ۔ وہ رکن پارلیمان تو ہیں لیکن برج میں وہ رچ بس گئی ہیں ۔ ہما  جی نہ صرف ایک رکن پارلیمان کے طور پر برج  رس مہوتسو کے انعقاد کے لئے   پورے جذبے سے مصروف ہیں ، بلکہ خود بھی کرشن بھکتی میں شرابور  ہوکرصلاحیت اور فن کے مظاہرے سے تقریب کو اور عالیشان بنانےکا کام کرتی ہیں ۔

میرے پریوار جنو،

میرے لئے ایک تقریب میں آنا ایک اور وجہ سے بھی خاص ہے۔ بھگوان کرشن سے لے کر میرا بائی تک، برج کاگجرات سےایک الگ ہی رشتہ رہا ہے ۔ یہ متھرا کےکانہا، گجرات جاکر ہی دوارکادھیش بنے تھے اور راجستھان سے آکر متھرا-ورنداون می پریم کی دھارا بہانےوالی سنت میرا بائی جی نے بھی اپنی آخری زندگی دوارکا میں  ہی بسر  کی تھی۔ میرا کی بھکتی ورنداون کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔سنت میرا بائی نے  ورنداون  بھکتی سے لبریز ہو کر کہا تھا - آلی ری موہے لاگے ورنداون نکو... گھر گھر تلسی ٹھاکر کی پوجا، درشن  گووند جی کاؤ.... اسی لیے جب گجرات کے لوگوں کو یوپی اور راجستھان میں پھیلے برج میں آنے  کاموعق ملتاہے تو ہم اسےدوارکا دھیش کی ہی کرپا مانتے ہیں ، اور مجھے تو ما ں گنگا نے ے بلایا اور پھر بھگوان دوارکادھیش کی کرپا سے 2014 سے ہی آپ کے درمیان آکر بس گیا، آپ کی خدمت میں مشغول ہوگیا۔

میرے پریوارجنو،

میرابائی کے 525 ویں یوم پیدائش کی تقریب صرف ایک سنت کےیوم پیدائش کی تقریب  نہیں ہے۔ یہ ہندوستان کی ایک مکمل ثقافت کی تقریب ہے۔ یہ ہندوستان کی محبت کی روایت کا اتسو ہے۔ یہ اتسو نر اور نارائن میں، جیوا اور شیو میں، بھکت اور بھگوان  میں ابھید ماننے  والے تصور کا بھی اتسو ہے، جسے کوئی ادویت کہتا ہے ۔ آج اس مہوتسو میں  ابھی مجھے سنت میرابائی کے نام پر ایک یادگاری سکہ اور ٹکٹ جاری کرنے کا موقع حاصل ہوا ہے۔ میرابائی راجستھان کی اس ویر بھومی میں پیدا ہوئی تھیں، جس نے ملک کے وقار اور ثقافت کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ یہ 84 کوس برجمنڈل خود بھی یوپی اور راجستھان کو ملا کر بنا ہے۔ میرابائی نے بھکتی اور روحانیت کی امرت  دھارابہا کر بھارت کے شعور کو پروان چڑھایا تھا۔میرا بائی نے بھکتی، سمرپن اور عقیدت کو بہت ہی آسان زبان ، سہل انداز سے سمجھا یا تھا - میرا کے پربھو گردھرناگر، سہج ملے ابیناسی، رے۔ ان کے احترام میں منعقدہ یہ پروگرام ہمیں ہندوستان کی بھکتی کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی بہادری اور قربانی کی بھی یاد دلاتا ہے۔ میرابائی کے پریوار اور راجستھان نے اس وقت اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا۔ ہمارے عقیدت کے مراکز کے تحفظ کے لیے راجستھان اور ملک کے لوگ دیوار بن کر کھڑے رہے، تاکہ ہندوستان کی روح، ہندوستان کے شعور کو محفوظ رکھا جاسکے۔ لہذا، آج کی یہ تقریب ہمیں میرابائی کی پریم کی روایت کے ساتھ ساتھ اس طاقت کی روایت کی یاد دلاتی ہے اور یہی تو ہندوستان کی پہچان ہے۔ ہم ایک ہی  کرشن میں، ہم کنہا کو بانسری بجاتے بھی دیکھتے ہیں  اور سدرشن چکر دھاری واسو دیو کے بھی درشن کرتے ہیں ۔

میرے پریوار جنو،

ہمارا ہندوستان ہمیشہ سے ناری شکتی کی  کی پوجاکرنےوالا ملک رہا ہے ۔ یہ بات برج والوں سے بہتر اور کون سمجھ سکتا ہے؟ یہاں کنہیا کے نگر میں بھی ‘لاڈلی سرکار’ کی ہی پہلےچلتی ہے۔ یہاں خطاب، رابطہ، احترام، سب کچھ رادھے-رادھے کہنے سے ہوتا ہے۔ کرشن کے پہلے بھی جب رادھالگتا ہے،تب ان کا نام مکمل ہوتا ہے۔ اس لئے ہمارے ملک میں خواتین نے ہمیشہ ذمہ داریاں  بھی اٹھائی ہیں اورسماج کی مسلسل رہنمائی بھی کی ہے۔ میرا بائی جی اس کی بھی ایک روشن مثال رہی ہیں۔ میرابائی جی نے کہا تھا – جیتائی دِیسے دھرنی گگن وِچ، تیتا سب اُٹھ جاسی۔ اس دے ہیکاگرب نا کرن،ماٹی میں مل جاسی۔ یعنی تجھےاس سر زمین اور آسمان کے درمیان  جو کچھ نظر آرہا ہے ۔ اس کا انجام ایک دن یقینی ہے۔ اس بات میں کتنا بڑا سنجیدہ فلسفہ پوشیدہ ہے، ہم سبھی سمجھ سکتے ہیں۔

ساتھیو،

سنت میرا بائی جی نے  اس دور میں سماج کو وہ راستہ بھی دکھایا جس کی اس وقت سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ ہندوستان کے ایسے مشکل دور میں میرا بائی جیسی سنت نے دکھایا کہ خواتین کی قوت ارادی ،پوری دنیا کو سمت دینے کی قوت  رکھتی ہے۔ انہوں نے سنت روی داس کو اپنا گرو مانا ، اور کھل کر کہا  - ‘‘گرو ملیا سنت گرو روی داس جی، دِنھی گیان کی گٹکی’’۔ اس لیے میرابائی نہ صرف قرون وسطیٰ کی ایک عظیم خاتون تھیں بلکہ وہ عظیم ترین سماجی مصلح اور راہنماؤں میں سے بھی ایک رہیں ۔

ساتھیو،

میرابائی اور ان کے قدم وہ روشنی ہیں جو ہر عہد میں ، ہر دور میں اتنے ہی با معنی ہیں ۔ اگر ہم آج موجودہ دور کے چیلنجوں کو دیکھیں گے، تو میرا بائی ہمیں فرسودہ روایات سے آزادہوکر اپنے اقدار سے جڑے رہنے کا سبق  دیتی ہے۔ میرا بائی کہتی ہیں – میراں کے پربھو سدا سہائی، راکھے وگھن ہٹائے ۔ بھجن بھاؤ میں مست ڈولتی گردھرپے بلی جائے ؟ ان کی بھکتی میں سہل پسندی ہے لیکن  پختہ عزم بھی ہے۔ وہ کسی  بھی رکاوٹ سے نہیں ڈرتی ہیں۔ وہ صرف اپنا کام  مسلسل کرنے کی تحریک  دیتی ہیں۔

میرے پریوار جنو،

آج کے اس موقع پر میں ہندوستانی سرزمین کی ایک اورخصوصیت کا ذکرضرور کرنا چاہتاہو ں کہ  یہ ہندوستانی سرزمین کی انوکھی صلاحیت ہے کہ جب  جب اس کے شعور پر حملہ ہوا، جب جب اس کاشعور کمزور ہوا، ملک کے کسی نہ کسی  کونے میں ایک بیدار توانائی پُنج نے  ہندوستان کو راہ دکھانے کے لئے عہد بھی کیا، کوشش بھی کی ۔ اور اس نیک کام کے لیے  کوئی جنگجو بنا  تو  کوئی  سنت بنا ۔ بھکتی کال کے ہمارے سنت،  اس کی واضح مثال ہیں۔ انہوں نے ترک اور لاتعلقی کا نمونہ پیش کیا اور ہمارے ہندوستان کو بھی بنایا۔ آپ پورے ہندوستان کو دیکھئے، جنوب میں آلوار سنت تھے اورناینار سنت تھے، رامانوج اچاریہ جیسے آچاریہ تھے!  شمالی ہندوستان میں تلسی داس، کبیرداس، روی داس اور سورداس جیسے سنت ہوئے۔ پنجاب میں گرو نانک دیو ہوئے۔ مشرق میں بنگال کے چیتنیا مہا پربھو جیسے سنتوں کی روشنی تو آج پوری دنیا میں پھیل رہی ہے۔ مغرب میں بھی گجرات میں نرسی مہتا، مہاراشٹر میں تکارام اور نام دیو جیسے سنت ہوئے۔ سب کی الگ الگ زبان، الگ الگ بولی، الگ الگ رسم و رواج اور روایات تھیں۔ لیکن پھر بھی سب کا پیغام ایک ہی تھا، مقصد ایک ہی تھا۔ ملک کے مختلف حصوں سے بھکتی اور علم کے جودھارے نکلے انہوں نے ایک ساتھ مل کر  پورے ہندوستان کو جوڑ دیا۔

اور دوستو،

متھرا جیسا یہ مقدس مقام  تو،بھکتی تحریک کے ان مختلف دھاروں کا سنگم رہا ہے۔ ملوک داس، چیتنیہ مہا پربھو، مہا پربھو ولبھ اچاریہ، سوامی ہری داس، سوامی ہت ہری ونش پربھو جیسے کتنے ہی سنت یہاں آئے! انہوں نے ہندوستانی سماج میں نیا شعورپیدا کیا اور نئی روح پھونکی! یہ بھکتی یگیہ آج بھی بھگوان شری کرشن کے آشیرواد سے مسلسل جاری ہے۔

میرے پریوار جنو،

ہمارے سنتوں نے برج کے بارے میں کہا ہے - ورنداون سو ون نہیں ، نندگاؤں سو گاؤں ہے۔ بنشی وٹ سو وٹ نہیں، کرشن کا نام سو ناؤں ۔ یعنی ورنداون جیسا مقدس جنگل کہیں اور نہیں ہے۔ نندگاؤں جیسا کوئی مقدس گاؤں نہیں ہے… یہاں کے بنشی وٹ جیسا کوئی وٹ نہیں ہے… اور کرشن کے نام جیسا کوئی مبارک نام نہیں ہے۔ یہ برج خطہ  بھکتی اور پریم کی سرزمین تو ہے ہی ،یہ ہمارے ادب، موسیقی، ثقافت اور تہذیب کا کا بھی مرکز رہا ہے۔ اس خطے نے مشکل وقت میں بھی ملک کو سنبھالے رکھا۔ لیکن جب ملک آزاد ہوا تو  جو اہمیت اس مقدس  تیرتھ کو ملنی چاہئے تھی ،بد قسمتی سے وہ نہیں ہوا ۔ جو لوگ ہندوستان کو اس کے ماضی سے منقطع کرنا چاہتے تھے، جو ہندوستان کی ثقافت اور اس کی روحانی شناخت سے لاتعلق تھے، وہ آزادی کے بعد بھی غلامی کی ذہنیت کو ترک نہیں کر سکے، انہوں نے برج سرزمین کو بھی ترقی سے محروم رکھا۔

بھائیوں- بہنو،

آج آزادی کے امرت کال میں پہلی بار ملک غلامی کی اس ذہنیت سے باہرآیا ہے۔ ہم نے لال قلعہ سے ‘ پنچ پرن’ کا سنکلپ  لیا ہے۔ ہم اپنی وراثت پر فخر کے جذبہ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ آج کاشی  وشوناتھ دھام ایک عظیم الشان شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ آج، اجین کے مہاکال مہالوک میں دیویتاکے ساتھ ساتھ شان و شوکت دیکھی جا سکتی ہے۔ آج کیدارگھاٹی میں لاکھوں لوگ کیدارناتھ جی کے درشن کر کے آشیرواد حاصل کر رہے ہیں۔ اور اب تو ایودھیا میں بھگوان شری رام کے مندر کے افتتاح کی تاریخ بھی آ گئی ہے۔ متھرا اور برج بھی ترقی کی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہیں گے۔ وہ دن دور نہیں جب برج خطہ میں بھی بھگوان کے درشن  مزیددیویتا کے ساتھ ہوں گے۔ مجھے خوشی ہے کہ 'اتر پردیش برج تیرتھ وکاس پریشد'برج کی ترقی کے لیے قائم کی گئی ہے۔ یہ پریشد عقیدت مندوں کی سہولت اور تیرتھ کی ترقی کے لیے بہت سے کام کر رہی ہے۔ ترقی کی اس دھارامیں ’برج رج مہوتسو‘ جیسے پروگرام اپنی روشنی  بھی بکھیر رہے ہیں۔

ساتھیو،

یہ پورا علاقہ کانہا کی لیلاؤں ​​سے جڑا ہے۔ متھرا، ورنداون، بھرت پور، کرولی، آگرہ، فیروز آباد، کاس گنج، پلول، بلبھ گڑھ جیسے علاقے الگ الگ ریاستوں میں آتے ہیں۔ حکومت ہند کی کوشش ہے کہ مختلف ریاستی حکومتوں کے ساتھ مل کر اس پورے علاقے کو ترقی دی جائے۔

ساتھیو،

برج خطے اور ملک میں رونما ہونے والی یہ تبدیلیاں اور ترقیاں صرف نظام کی تبدیلی نہیں ہیں۔ یہ ہمارے ملک کی بدلتی ہوئی شکل، اس کی از سرنوبیدار ہوتے شعور کی علامت ہے۔ اور مہابھارت اس بات کا ثبوت ہے کہ جہاں  ہندوستان کا دوبارہ جنم ہوتا ہے، وہاں اس کے پیچھے شری کرشن کا آشیرواد ضرور ہوتا ہے۔ اسی آشیرواد کی طاقت سے ہم اپنے سنکلپوں کو پورا کریں گے اور ایک ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر بھی کریں گے۔ ایک بار پھر آپ سب کو سنت میرابائی جی کے 525 ویں یوم پیدائش پر میں بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ ا دا کرتا ہوں۔

رادھے-رادھے! جےشری کرشن!

*****

ش ح۔ف  ا۔ف ر

 (U: 1325)



(Release ID: 1979340) Visitor Counter : 94