وزارت ماہی پروری، مویشی پروری و ڈیری

 حکومت، گہرے سمندر میں ماہی گیری کے لیے روایتی ماہی گیروں کی مدد کے لیے پرعزم ہے: ڈاکٹر ایل مروگن


حکومت، روایتی ماہی گیروں کو ان کے  ویسلز  کو ، گہرے سمندر میں ماہی گیری کی کشتیوں میں تبدیل کرنے کے لیے 60فیصد تک مالی امداد فراہم کر رہی ہے: ڈاکٹر ایل مروگن

وزیرموصوف  نے کہا کہ  پائیدار طریقے سے گہرے سمندر میں ماہی گیری کی صلاحیت کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کے لیے ماہی گیری کے جہازوں کو اپ گریڈ کرنے کے لیے تحقیق اور ڈیزائن کی ضرورت ہے

انہوں نے ایکو ا کلچر میں اختراعات کے لیے بلیو فنانس  میں اضافے کی اپیل کی

Posted On: 22 NOV 2023 4:57PM by PIB Delhi

ہندوستان کی ماہی پروری کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے عزم کا اظہارکرتے  ہوئے ، ماہی پروری، مویشی پروری  اور ڈیری صنعت  کے وزیر مملکت  ڈاکٹر ایل مروگن نے  آج مرکزی حکومت کی جانب سے روایتی ماہی گیروں کی گہرے سمندر میں ماہی گیری کی جانب منتقلی میں ان کی مدد کرنے کے لیے غیر متزلزل عزم کا ذکرکرتے ہوئے  بلیو ریوولوشن اور پردھان منتری متسیا سمپدا یوجنا (پی ایم ایم ایس وائی ) جیسی اسکیموں  کے بارے میں بتایا ۔وزیر موصوف نے یہ بات، آج گجرات سائنس سٹی، احمد آباد میں منعقد ہونے والی گلوبل فشریز کانفرنس انڈیا 2023 میں‘ گہرے سمندر میں ماہی گیری: ٹیکنالوجی، وسائل اور اقتصادیات’ کے موضوع  پر ایک تکنیکی اجلاس میں کہی۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image001FZDQ.jpg

ڈاکٹر مروگن نے کہا کہ حکومت روایتی ماہی گیروں کو اپنے ویسلز  کو گہرے سمندر میں ماہی گیری کی کشتیوں میں تبدیل کرنے کے لیے 60 فیصد تک مالی امداد فراہم کر رہی ہے۔اس کے علاوہ ، اس تبدیلی کو آسان بنانے کے لیے قرض کی سہولیات بھی دستیاب ہیں۔ انہوں نے ٹونا جیسے گہرے سمندر کے وسائل کے بین الاقوامی معیار کو برقرار رکھنے کے لیے ان بلٹ پروسیسنگ سہولیات سے لیس جدید ماہی گیری کے جہازوں کی ضرورت پر زور دیا۔ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ روایتی ماہی گیروں میں اس وقت ان صلاحیتوں کی کمی ہے، ڈاکٹر مروگن نے  اس بات کی یقین دہانی کی کہ  حکومت اس فرق کو دور کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

ڈاکٹر مروگن نے مزید کہا کہ دنیا بھر میں ٹونا مچھلیوں کی بہت زیادہ مانگ ہے اور ہندوستان  ٹونا مچھلی پکڑنے کی صلاحیت میں اضافہ کرسکتا ہے۔ انہوں نے گہرے سمندر میں ماہی گیری کے شعبے میں داخل ہونے کے لیے مزید اسٹارٹ اپس  سے اپیل کی  اور ایندھن کے اخراجات کو کم کرنے کے واسطے تحقیق کرنے  اور ماہی گیری کی کشتیوں میں سبز ایندھن کے استعمال پر توجہ مرکوز کرنے پر زور دیا۔ پائیدار طریقے سے گہرے سمندر میں ماہی گیری کی صلاحیت کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کے لیے ماہی گیری کے جہازوں کو اپ گریڈ کرنے کے لیے تحقیق اور ڈیزائن کی ضرورت ہے۔

گہرے سمندر کے وسائل کی اعلیٰ قیمت پر روشنی ڈالتے ہوئے، ماہی پروری کے ڈپٹی کمشنر،  ڈاکٹر سنجے پانڈے نے کہا کہ انڈیا اوشن یلو فن ٹونا کی آخری قیمت 4 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔

عالمی بینک کے کنسلٹنٹ، ڈاکٹر آرتھر نیلینڈ نے کہا کہ ہندوستان کےای ای زیڈ  میں یلو فن اور اسکپ جیک ٹونا کی امید افزا صلاحیت کے باوجود، تخمیناََ  179,000 ٹن  کے کاروبار کی صلاحیت   کے باوجود کاروبار  محض  25,259 ٹن  ہواہے، جو کہ صرف 12فیصد کے استعمال کی شرح کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے گہرے سمندر میں ماہی گیری میں سرکاری اور نجی شعبے سے سرمایہ کاری کی ضرورت پر زور دیا ،جس سے معاشی، سماجی اور ماحولیاتی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر نیلینڈ نے کہا کہ ‘‘ماہر ماہی گیری سائنس اور انتظام کے ساتھ، ہندوستان کی مضبوط ادارہ جاتی بنیاد کا استعمال، فش پروسیسنگ اور انفراسٹرکچر بھی گہرے سمندر میں ماہی گیری کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔’’ انہوں نے مزید کہا کہ اسٹیک ہولڈرز کی شرکت اور سرمایہ کاری ٹیکنالوجی اور مہارت اور علاقائی اور بین الاقوامی تعاون اور شراکت داری کی حوصلہ افزائی کے لیے ماحول کو فعال کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔

اس موضوع پر منعقدہ ایک پینل ڈسکشن نے تجویز پیش کی کہ گہرے سمندر میں ماہی گیری کی ترقی کے لیے ایک منظم فریم ورک تیار کرنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے خدشات کو دور کرنے کے لیے اجتماعی اور جامع کوششیں ضروری ہیں۔ ڈیپ سی کنسلٹنٹ، این آئی او ٹی، چنئی، ڈاکٹر منیل زکھریا، سائنٹسٹ-جی، ڈاکٹر پرشانت کمار سریواستو، آئی سی اے آر-سینٹرل میرین فشریز ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سی ایم ایف آر آئی) کے سینئر سائنٹسٹ، ڈاکٹر پی شنوج اور سی ایم ایل آر ای کے سائنٹسٹ ڈی، ڈاکٹر ہاشم پینلسٹ تھے۔

گہرے سمندر میں ماہی گیری علاقائی پانیوں کی حد سے باہر کی جاتی ہے، جو ساحل سے 12 ناٹیکل میل کے فاصلے پر ہو، اور اس سے 200 سمندری میل کے خصوصی اقتصادی زون (ای ای زیڈ ) کے اندر ہو۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image002L47Z.jpg

ایکوا کلچر  میں اختراعات کے لیے بلیو فنانس کو بڑھانے  کی اپیل

آب وہوا کی  تبدیلیوں اور خوراک اور غذائی تحفظ کی بڑھتی ہوئی مانگ سے پیدا ہونے والے کئی سنگین خطرات کے پیش نظر، اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کے سینئر فشری آفیسر سائمن فیونج اسمتھ نے ایکوا کلچر سیکٹر  میں  اختراع  اور ترقی کے لیے بلیو فنانس کو بڑھانے  کی اپیل کی ۔ان کے  مطابق، عالمی ایکوا کلچر 2030 تک انسانی استعمال کے لیے 59 فیصد مچھلی فراہم کرے گا۔ سائمن فیونج ا سمتھ نے مزید کہا کہ ایشیا 82 ملین ٹن کے ساتھ عالمی ایکوا کلچر  کی پیداوار کا 89 فیصد فراہم کرتا ہے۔ ایشیا میں زیادہ تر چھوٹے پیمانے کے ادارے کُل پیداوار میں 80 فیصد سے زیادہ کا تعاون کررہے ہیں۔انہو ں نے کہا کہ  یہ شعبہ پرائمری سیکٹر میں 20.5 ملین لوگوں کے لیے ملازمتیں پیدا کرتا ہے۔ پائیدار ماہی  پروری  اور ایکوا کلچر  کے فروغ کا  ذکر کرتے  ہوئے  انہوں نے چھوٹے پیمانے پر ماہی گیری اور آبی کاشتکاروں کے پائیدار طریقوں کی مدد کرنے کا مشورہ دیا۔

********

  ش ح۔اگ ۔رم

U-1278     



(Release ID: 1978852) Visitor Counter : 78