نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

نائب صدر جمہوریہ کا ’’بھارت-بحرالکاہل علاقائی مذاکرات ‘‘  کے 2023 کے ایڈیشن سے خطاب کا متن

Posted On: 15 NOV 2023 3:36PM by PIB Delhi

آپ سب کو سہ پہر بخیر!

میں جب کسی کتاب کا اجرا  کرتا ہوں تو مجھے 3 سال تک ریاست مغربی بنگال کے گورنر کی حیثیت سے  گزارےاپنے دن یاد آتے ہیں اس لیے میں نے آپ سب کو’نومسکار‘  کہہ کر مبارکباد دی ہے۔

بھارتی بحریہ کے ، چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل آر ہری کمار  نے  اپنی گفتگو میں  تقریباً ہر چیز کا احاطہ کیا ہے اور میرے لیے اظہار خیال کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑا ہے۔ وہ اپنے شعبے کے ماہر ہیں  ،میں نہیں ہوں۔ آپ سب  بہت چھوٹی سطح پر  گہرائی سے جائزہ لے سکتے ہیں اور میں دور سے صرف بڑی سطح پر چیزیں دیکھتا ہوں۔ اس لئے میرے لیے یہ ایک سبق آموز گفتگو تھی؛ لیکن میں آپ کے ساتھ اس کو ساجھاکروں گا، دفاع کا شعبہ میرا پہلا پیار تھا اور اسی طرح میں نے سینک اسکول چتور گڑھ میں داخلہ لیا تھا۔ میں نے کوالیفائی کیا لیکن میری دائیں آنکھ نے میری زیادہ مدد نہیں کی اس لیے مجھے دوسرےمضمون   کا انتخاب  کرناپڑا۔

نیشنل میری ٹائم فاؤنڈیشن  کےچیئرمین ایڈمرل کرمبیر سنگھ، حقیقت یہ ہے کہ جب وہ دونوں میرا استقبال کرنے کے لیے وہاں موجود تھے، میں نے ان دونوں کو ان کے عظیم نام  کے لئے  مبارکباد دی۔ ایک ہری ہے، جبکہ دوسرا کرم کو مانتا ہے، اس لئے  کرمبیر ہے۔

نیشنل میری ٹائم فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر جنرل وائس ایڈمرل پردیپ چوہان۔

میں بھارتی بحریہ کے نیول اسٹاف کے 23 ویں سربراہ  ایڈمرل سنیل لامبا  کی موجودگی کو تسلیم کرتا ہوں، معزز سامعین اور میں جانتا ہوں کہ اس کمرے میں موجود ہر شخص کو اپنے اپنے شعبے  اور میدان میں مہارت حاصل ہے، اس کمرے میں موجود ہر شخص  ایک اعصابی مرکز ہے اور اسے انسانیت کی وسیع تر فلاح و بہبود کے لیے  سازگار اور مثبت حالات کو متحرک کرنے  میں مرکزی حیثیت حاصل  ہے۔

معزز شرکاء کو مبارکباد اور میں سمجھتا ہوں کہ ایک سیشن پہلے ہی ختم ہو چکا ہے۔ یہ ہر نقطہ نظر سے ایک اہم مکالمہ ہے۔

متعلقہ فریقوں اوراہمیت کے حامل کلیدی تھنک ٹینکس کے مابین اس تبادلہ خیال کو ایک ایسے معاملے پر منعقد کرنے پر ہندوستانی بحریہ کو مبارکباد جو ہمارے آس پڑوس میں  امن اور استحکام کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ بھارت کی ترقی اور خوشحالی کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہم سب کو عالمی سطح پر جس صورتحال کا سامنا ہے اور اس کے سبب پیش آنے والے چیلنجوں کے پیش نظراسکی عصری طور پر بہت افادیت  ہے۔

اس غوروخوض کا  موضوع - "انڈو پیسیفک میری ٹائم تجارت اور رابطے پر جغرافیائی سیاسی اثرات ‘‘ یعنی ’’  بھارت –بحرالکاہل سمندری تجارت اور کنکٹیوٹی پر جغرافیائی وسیاسی اثرات‘‘ واقعی مناسب اور بروقت ہے۔ ہم پہلے ہی عالمی سطح پر اثرات محسوس کر رہے ہیں جب یہ چیزیں زیادہ محفوظ نہیں ہیں۔

افریقہ، ایشیا اور اوشیانا پر مشتمل بھارت اور بحرالکاہل خطے کے 38 ممالک میں بہت کچھ واقعات رونما ہورہے ہیں۔

یہ خطہ، جو کہ عالمی آبادی کا 64 فیصد ہے، عالمی جی ڈی پی میں 62 فیصد کا تعاون کرتا  ہے۔

عالمی تجارت کا 50فیصد اور تیل کا 40فیصد حصہ بھارت-بحرالکاہل خطے سے گزرتا ہے اور بھارت کے تناظر میں اس میں ہماری تجارت کا 90فیصد اور ہماری اہم مال برداری - کوئلہ، پیٹرولیم اور گیس،خام لوہا اورکھاد وغیرہ  کا 80فیصد شامل ہے۔

2.4 ملین مربع کلومیٹر کے خصوصی اقتصادی زون – ای ای زیڈ کے ساتھ اور اس زون میں بہت زیادہ صلاحیت اور گنجائش ہے اوربروئے کار لانے سے متعلق  کسی بھی ممکنہ معاملے میں  چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے- بحری تجارت کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے،  بھارت-بحرالکاہل خطے کے امن، خوشحالی اور استحکام میں بھارت سنجیدہ دعوے رکھتا ہے۔

درحقیقت جغرافیائی و سیاسی منظر نامہ زبردست اہمیت کا حامل ہے اور موجودہ دور میں سمندری تجارت اور کنیکٹیویٹی پر اس کے اثرات کوجتنا بھی بیان کیا جائے اسے زیادہ بیان نہیں کہا جا سکتا۔

دوستو، ہماری ترقی کی رفتار میں پچھلے کچھ سالوں میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ ہم بحیثیت قوم، اس وقت پانچویں بڑی عالمی معیشت کی حیثیت رکھتے ہیں ۔جبکہ ہم نے2022 میں برطانیہ اور فرانس کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

  2030 تک یہ ملک تیسری بڑی عالمی معیشت بننے کے لیے تیار ہے،اور  اس بار وہ جاپان اور جرمنی کو پیچھے چھوڑ کر تیسری عالمی معیشت بنے گا۔

جیسے جیسے ہندوستان کی اقتصادی استعداد بڑھ رہی ہے،جو غیر معمولی ترقی، شرح نمو اور گہری تکنیکی رسائی سے بھری ہوئی ہے، جسے جی-20 کے دوران عالمی سطح پر سراہا گیا ہے، اس طرح عالمی اور علاقائی معاملات میں ہمارے دعوے مضبوط ہیں۔

اس سال یہ مکالمہ اس سلسلے  کا چوتھا مکالمہ ہے۔ اس سے پہلے ہم نے  رائے سینا ڈائیلاگ، 2023  کا انعقاد کیا تھا جس کا موضوع تھا "اشتعال انگیزی، غیر یقینی صورتحال، ہنگامہ خیزی: طوفان میں لائٹ ہاؤس"؛ اس کے علاوہ اس سے پہلے  بھارت-بحرالکاہل خطے کے فوجی سربراہوں کی کانفرنس   اور حال ہی میں چانکیہ ڈیفنس ڈائیلاگ کی میزبانی کی گئی تھی۔

یہ پلیٹ فارم بھارت- بحرالکاہل خطے میں سلامتی سے متعلق  چیلنجوں کی پیچیدگیوں کا باریک بینی سے تجزیہ کرنے اور خطے کے اندر اجتماعی سلامتی کے لیے آگے بڑھنے کے لیے ایک راستہ طے کرنے کے لیے بہت موزوں ہے تاکہ اس خطے میں تجارت میں اضافے کے لیے خوشگوار ماحول پیدا کیا جاسکے۔

یہاں موجود افراد، مسائل کا حل تلاش کر لیں گے اور ہمیں جس  انتہائی سنگین صورتحال کا سامنا ہے اس کے پیش نظر آگے بڑھنے کی اشدضرورت ہے۔

یہ  بات باعث اطمینان ہے کہ بھارت، جو  دنیا کی چھٹی آبادی  کا مسکن  ہے ، بجا طور پر عالمی سلامتی اور تجارت سے متعلق مسائل کے گہرے اور غوروفکر پر مبنی نظریات  کے ایک اہم مرکز کے طور پر خوداپنا مقام بنارہا ہے۔  ماضی کے مقابلے یہ  ایک زبردست تبدیلی ہے۔ ایسے واقعات اس سے  پہلے نہیں ہوتے تھے۔ بھارت میں علاقائی اور عالمی نوعیت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ذہین  افراد کا یکجا ہونا، انسانی وسائل کا اکٹھا ہونا اس تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے جو عالمی جغرافیائی  وسیاسی منظر نامے میں ہو رہی ہے۔

یہ مذاکرات  ایک مؤثر پلیٹ فارم فراہم کرتے ہیں اور یہ، باخبر ذہین افراد کے درمیان بات چیت اور دفاع، حکمت عملی اور باہمی اشتراک اور تال میل پر مبنی ساجھیداری  سے متعلق سطحی مسائل کے حل کی غرض سے قابل قدر مواقع فراہم کرتے ہیں۔ اور یہ سب سمندری تجارت اور رابطے کے لیے بہت ضروری ہیں۔

ایک متوقع نتیجہ، امن کو یقینی بنا کر بھارت-بحرالکاہل خطے کے درخشاں اور تابناک  منظر نامے میں  مستحکم اور خوشحال مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے تمام متعلقہ فریقوں کا اتحاد ہوسکتا ہے۔ اس منظرنامہ کے تحت    دنیا کی معیشتوں کو تقویت بہم پہنچانے کی بے پناہ صلاحیت ہے۔ تمام ممالک ہماری زندگی کو بہت بہتر بناتے ہیں۔ اس لیے اس کی اپنی اہمیت ہے۔ ہمیں اسے یقینی بنانے کے لیے کافی سنجیدگی سے سرگرم ہونے کی ضرورت ہے۔

  آپ کی غوروخوض میں خطہ میں سکیورٹی سے متعلق اقدامات کے لئے حکمت عملی کے ارتقاء پر واضح طور پر توجہ دی جائے گی تاکہ اس خطے کے ملکوں کے مابین ایک تیار،لچکدار، اور متعلقہ  فریق   کے طور پر ہندوستان کی پوزیشن کو مستحکم بنایا  جا سکے۔ درحقیقت بھارت نے تاریخی اعتبار سے صدیوں سے سمندروں کے ذریعے اس قسم کے رابطوں اور تجارت پر یقین رکھا ہے اور اس پر عمل کیا ہے۔

  بھارت- بحرالکاہل میں سمندری تجارت اور کنیکٹیویٹی کو درپیش عصری چیلنجوں کا تجزیہ کرنے کے لیے ایک نظریاتی فورم کا تصور واقعی قابل غور ہے ۔ خاص طور پر دھماکہ خیز عالمی منظر نامے اور بہت سی  سنگین نوعیت کی صورتحال کے پیش نظر ،جو ممکنہ طور پر بھارت- بحرالکاہل خطے میں تجارت اور رابطے کی بحالی میں رخنہ ڈال سکتے ہیں۔

  ایک قوم کے طور پر بھارت کو امن کا مستقل حامی قرار دیا جا سکتا ہے، اس نے کبھی توسیع میں حصہ نہیں لیا۔ اور کچھ سال پہلے وزیراعظم جناب  نریندر مودی نے  اس بات  کا اشارہ دیا تھا کہ یہ توسیع کا دور نہیں ہے۔

ہمارے اُپنشدوں کا نچوڑ - 'ایک کرہ ارض ، ایک کنبہ، ایک مستقبل   -'وسودھیو کٹمبکم'  کے تصور سے  ہماری پختہ وابستگی - '، جس کا جی-20 کے دوران اشارہ کیا گیا تھا، ہمارے طرز زندگی کے ساتھ ساتھ ہمارے عالمی نقطہ نظر کی بھی عکاسی کرتا ہے۔

  آج کا بھارت  'وسودھیو کٹمبکم ‘ کے اصول کی پاسداری اور اس پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ، اعلیٰ خواہشات کو طاقت میں حاصل کرنے کی بھی بات کرتا ہے۔ یہ عظیم  نظریات  یہ عظیم خواہشات جو پوری انسانیت کے لیےجامع  طور پر مفید ہیں، حقیقت کے لحاظ سے تب ہی معنی پاتی ہیں جب آپ انہیں طاقت کی حیثیت کے حامل  مقام سے واضح کریں۔ اس کا اشارہ چانکیہ، سوامی وویکانند جی نے بھی کیا ہے، جو اس سرزمین کی ایک عالمی حیثیت کی حامل شخصیت ہیں۔ آپ کی طاقت عالمی نظام کی وضاحت کرے گی، آپ کی طاقت امن کی وضاحت کرے گی۔

دوستو، بھارت کا ایک سرکردہ عالمی معیشت کے طور پر ابھرنا اور اس کی غیر معمولی ترقی، عالمی امن اور ہم آہنگی کے لیے ایک مستحکم عنصر ہے۔ میں ایسا اس لیے کہتا ہوں کہ صرف ایک دہائی قبل، بھارت کا شمار دنیا کی 5 کمزور معیشتوں میں ہوتا تھا۔اب ہم ایک طویل سفر طے کر چکے ہیں۔ فی الحال،  جہاں تک اس معیشت کے حجم کا تعلق ہے ، ہم سب سے تیزی سے ترقی کر رہے ہیں اور اس لیے بھارت کو ایک اہم تعمیری کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ہم عالمی نظام کو یقینی بنانے کے لیے قائدانہ کردار ادا کریں گے۔

میں نے پہلے اشارہ کیا تھا، اور میں اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ آپ امن  کونافذ نہیں کر سکتے، آپ امن پر گفت و شنید نہیں کر سکتے، آپ  درجوں کی پوزیشن سے امن کی خواہش نہیں کر سکتے۔ آپ کو تمام کسوٹیوں اور پیمانوں پر مضبوط ہونا پڑے گا۔ موجودہ حالات میں بھارت اس کے لیے بالکل موزوں ہے، کیونکہ بھارت کی ترقی کی داستان ایک سطح مرتفع کی طرح ہے۔ ترقی ہر سطح پر سب کے لئے ہورہی  ہے۔ امن ایک متبادل نہیں ہے۔ یہ واحد راستہ ہے۔ اس میں رخنہ اندازی   انسانی مصائب اور عالمی چیلنجوں کا باعث بنتی ہے۔

 دنیا کو اس وقت دو اہم کنفیگریشنز کا سامنا ہے اور سردست اس وقت ان میں سے کسی کا بھی حل نظرنہیں آرہا ہے۔انسانیت اس کے حل کی تلاش میں ہے، جو کہ بدقسمتی سے نظر نہیں آ رہا۔ اور اس لیے آپ کو ماہرین کی حیثیت سے، آپ کو بطور تشویش، حل تلاش کرنے کے لیے ڈگر سے ہٹ کر غوروفکر کرنا پڑے گا اور بیداری اورآگاہی ایسے مذاکرات  کا ایک پہلو ہے جسے واقعی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔

باہمی تعاون پر مبنی سیکورٹی اور اختراعی ساجھیداری آگے بڑھنے کا راستہ ہے اور  یہ شاید واحد راستہ معلوم ہوتا ہے۔

اور مجھے اس صورتحال میں اپنے محدود تجربے  کے باوجود کوئی شک نہیں کہ یہی واحد راستہ ہے۔ کوئی بھی ملک اکیلا نہیں کھڑا ہو سکتا، وہاں مل جل کر عمل کرنا ہو گا، سوچ کے عمل کو بانٹنا ہو گا، بعض مسائل پر ایک ہی لائحہ عمل اختیار کرنے کے لیے ذہن کا مکمل اطلاق کرنا ہو گا۔ مہاتما گاندھی جی نے  اس بات کا اشارہ کیا تھا کہ دنیا میں ہر کسی کی ضرورت کے لیے سب کچھ ہے لیکن لالچ کے لیے کچھ نہیں۔ کسی فرد کے لالچ کو انضباطی طریقہ کار کے ذریعے قابو کیا جاسکتا ہے لیکن ایک خودمختار قوم کا لالچ اسی وقت قابو میں آسکتا ہے جب دیگر خودمختار قومیں اکٹھے ہوں، کوئی راستہ نکالیں، ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو اور یہ پلیٹ فارم بہت موثر ہونا چاہئے ، اس کا کوئی حل نکالیں ۔ مجھے اپنا درد اور غم بانٹنے میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں انسانیت کے چھٹے حصے کی نمائندگی نہیں ہے تو یقیناً اس کی افادیت کم ہو گئی ہے، وقت آ گیا ہے کہ ہمیں اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے ساتھ اس طرح کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے  ہمیں ثقافتی تبدیلیوں کے ایک سلسلے کی ضرورت ہے: نئی ٹیلنٹ پائپ لائنز اور سول ملٹری امتزاج  نئے منتر لگتے ہیں۔

میں اس میں ایک اور اضافہ کروں گا۔ تمام تحقیقی عمل کو ترقی یافتہ دنیا میں بڑے کارپوریٹس کی طرف سے فنڈ کیا گیا ہے. بھارت جیسے ممالک کے کارپوریٹوں کو بھی آگے آنے کی ضرورت ہے، تاکہ ایک ہی میز پر بات چیت کی جاسکے  اور  سول اور فوجی قوتوں کے ساتھ مکمل اتحاد قائم کیا جاسکے۔ ایسی ٹیکنالوجی کو تیار کرنے کے لیے بھارت نے پہلے ہی اقدامات کیے ہیں اور یہ ان چند ممالک میں سے ایک ہے جنہوں نے کوانٹم کمپیوٹنگ اور مصنوعی ذہانت جیسی جدیدترین  ٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز کی ہے۔

دوستو، ہمارے وزیر اعظم نے پچھلے کئی سالوں میں اس خطے کے حوالے سے خاص طور پر کئی عالمی فورمز پر اپنے وژن کی وابستگی کو ظاہر کیا ہے ۔

ہم سمندروں کو اپنی ترقی کی ایک اہم سرحد کے طور پرسرگرمی سے دیکھ رہے ہیں۔بھارت نے بندرگاہوں کے ذریعہ کی جانے والی  ترقی کے لیے پرجوش اور جرآت مندانہ  ساگر مالا پروجیکٹ شروع کیا ہے۔ یہ منصوبہ ہماری لاجسٹک سے متعلق کارکردگی میں اضافہ کرے گا اور ہماری سپلائی چینز کی لاگت کو کم کرے گا۔

لیکن جب کوئی رکاوٹ نہ ہو تو یہ سب مثبت نتائج کا باعث بن سکتے ہیں اور یہی وہ موضوع ہے جس کی پیروی کرنے کے لیے آپ اگلے 2 دنوں تک اپنے غور و خوض میں مصروف ہوں گے۔

ساگر مالا کے تحت چار نئی بڑی بندرگاہیں  اور عالمی درجہ کی ٹرانس -شپمنٹ بندرگاہ کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ پروجیکٹ کے تحت موجودہ بندرگاہوں کی صلاحیت اور ان کے بنیادی ڈھانچے اور اندرونی علاقوں کے ساتھ رابطوں کو مستحکم بنایا جا رہا ہے۔

ہماری بھارت-بحرالکاہل  پالیسی ، ساگر مالا پراجیکٹ کے تحت بندرگاہ کے ذریعہ سمندری- وارڈ کی ترقی سے متعلق  حکمت عملی کی تکمیل کرتی ہے۔

اس پورے خطے کی ترقی کے لیے نہ صرف فزیکل کنیکٹیویٹی بلکہ ڈیجیٹل اورتوانائی  کنیکٹیویٹی کے لیے زیر آب کیبلز اور پائپ لائنوں کی حفاظت بھی ضروری ہے۔

اور اس قسم کے ڈیٹا کو دیکھیں جو ان مربوط میکانزم کے ذریعے منتقل ہو رہا ہے۔ یہ ہماری حقیقت ہے، اس وجہ سے یہ رخنہ اندازی اور خلل  سنگین نتائج کا باعث بن سکتا ہے، سلامتی   اور سمندری تجارت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے اور رابطے کے پہلو کو مکمل طور پر اثرانداز کر سکتا ہے۔

بھارت-بحرالکاہل خطے کے ارد گرد واقع بندرگاہوں کے درمیان محفوظ ڈیجیٹل مواصلاتی روابط خطے میں سمندری تجارت کی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔

درحقیقت سمندر بذات خود ایسی بے تحاشا دولت کا ایک ذریعہ ہے جسے ابھی تک استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ تجارت اور سمندری ماہی گیری کے علاوہ، ساحل سے دور پٹرولیم کے ذخائر، نایاب زمین کے اہم عناصر اور گہرے سمندر کی تہہ  پر موجود پڑے یٹریئم، اسکینڈیم وغیرہ جیسے معدنیات، سمندر کو عالمی  متعلقہ فریقوں کے درمیان  تنازعہ کا ایک نیا محاذ بناتے ہیں۔ سمندروں اور اس کے اثاثوں کے دعووں کا مقابلہ کرنے کے امکان پر قابو پانے کے لیے، ہمیں ایک ریگولیٹری نظام اور اس کے موثر نفاذ کی ضرورت ہے۔

سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت کے طور پر، بھارت ایک آزاد اور پرامن، اصول و ضوابط پر مبنی بھارت-بحرالکاہل خطہ چاہتا ہے جس میں قانونی جائز تجارت کو بلارکاوٹ اور خوش اسلوبی سے انجام دیا جاسکے۔ ہم قائم بین الاقوامی قوانین اور کنونشنز کے مطابق نیویگیشن اور سمندر کے اوپر پرواز  کی آزادی چاہتے ہیں۔

مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب دراندازی ہوتی ہے، طریقہ کار ناکام ہوجاتا ہے۔ نہ کوئی فوری قرارداد ہے اور نہ ہی کوئی یہ جانتا ہے کہ قرارداد کب آئے گی۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی سطح پر اس بارے میں غوروخوض کیا جائے گا، جب شعبے  کے ماہرین اس میں شامل ہوں گے، تو یہ شعور پیدا ہو گا کہ اس قسم کے میکانزم کا یہ مقام سنگین معاشی نتائج کا باعث بنتا ہے، جس کے سبب  انسانیت کو  غصے سمیت سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہم ایک منصفانہ عالمی انضباطی  نظام چاہتے ہیں جس میں سمندری وسائل اور گہرے  سمندروں میں سی بیڈ کے پائیدار اور مساویانہ استعمال کے لیے ای ای زیڈ سے متعلق حق کا احترام کیاجائے۔

میں کوئی ماہر نہیں ہوں لیکن میں  اس معزز ایوان کو یہ اشارہ دے سکتا ہوں کہ یہ تنازعہ کا حقیقی مقام  ہونے والا ہے کیونکہ ریگولیٹری نظام نے ابھی تک اپنے آپ کو کسی حتمی مقام تک  نہیں پہنچایا ہے ۔اس قسم کے تھنک ٹینکس ان شعبوں پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں اور ایک ایسا طریقہ کار تیار کر سکتے ہیں جس سے غیر واضح  متعینہ گرے ایریا کی طرف پیش رفت    نہیں ہوتی ہے۔

آزاد اور کھلے سمندروں کو غیر قانونی انسانی اور منشیات کی اسمگلنگ  کے خلاف  چوکس رہنا چاہیے۔ بحری قزاقی اور سمندری دہشت گردی کی اجازت ایک اصول پر مبنی نظام میں نہیں دی جا سکتی جسے ممالک کی علاقائی سالمیت نیز بالادستی اور ان کے ای ای زیڈ کی ناقابل تسخیریت کا احترام کرنا چاہئے۔

یہ جاننے کے لئے پھر سے  یقین دلایا جا رہا ہے کہ ہماری بحریہ کے پاس اپنی طویل ساحلی سرحد اور ہمارے سمندری مفادات کے تحفظ کے لیے مہارت، ترغیب ، طاقت اور وسائل موجود ہیں۔

سبھی سفید یونیفارم میں ملبوس مردوں اورخواتین  کو میرا سلام۔ میں نے وہاں  جانچ کی ہے کہ انہوں نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ میں نے وہاں طاقت، استعداد اور عزم کا تجربہ اس وقت کیا جب میں ریاست مغربی بنگال کا گورنر تھا۔ وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ جب ہمیں  شدید سمندری طوفان کی آفت کا سامنا کرنا پڑا تھا، تو  گہرے  سمندروں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا اور ایک مضبوط میکانزم کے ذریعے طوفان سے ہونے والے نقصان کو کم  سے کم کیا گیا تھا۔ میرا ان کو سلام۔

بھارت- بحرالکاہل  خطہ  کےعالمی اقتصادی نظام  میں ایک نمایاں قطب بننے کے ساتھ، یہ ضروری ہے کہ یہ خطہ پرامن، مستحکم اور تنازعات سے  مبرا رہے۔

اب جبکہ ہندوستانی بحریہ، ہم خیال دوست ممالک کی بحریہ کے قریبی تال میل  کے ساتھ ، مشترکہ اور سبھی کی بھلائی کے لیے ہمیشہ تیار رہتی ہے، بھارت- بحرالکاہل   علاقائی مذاکرات جیسے پلیٹ فارم، پرامن، اصول پر مبنی  بحری نظام  کے لیے علمی اتفاق رائے پیدا کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ چھ پیشہ ورانہ نشستوں میں  اگلے تین دنوں میں آپ کے غوروفکر کرنے کے سبب اس طرح کے اتفاق رائے پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔

اگر کوئی ایسا طریقہ کار تیار کیا جاتا  ہے جس سے آپ بیداری پیدا کرتے ہیں، تو میں اپنے محدود تجربے کے ساتھ یہ بات  آپ کے ساتھ  ساجھا  کر رہا ہوں کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس مسئلے سے مکمل طور پر دور ہیں، ہو سکتا ہے کہ آپ کے مفروضے درست نہ ہوں، جو لوگ فیصلہ سازی کی پوزیشن پر ہیں ، ان کو اس بات  سے  باخبر  کیے جانے کی ضرورت ہے۔  کبھی بیدار ہوچکے  اور کبھی  بیداری پیدا کرنے والے کے طور پر ، اور اس لیے  ایک ایسے تھنک ٹینک کا آپ کا کردار، ایک ایسے عالمی نظام کو محفوظ بنانے میں بہت دور رس نتائج کا حامل ہوگا   جو دنیا میں امن قائم کرے گا ، اسے تحفظ فراہم کرے گا اور برقرار  رکھے گا۔

میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے اس انتہائی اہم مسئلے پر اتنے معزز سامعین کے ساتھ اپنے تاثرات  پیش کرنے کا موقع دیا۔

ایک بار پھر میں یہ عرض کرتا ہوں کہ میں ماہر نہیں ہوں، آپ سب ماہر ہیں، آپ اپنے اپنے شعبوں اور میدانوں کےماہر ہیں۔ میں صرف  وسیع جائزہ پیش کرسکتا  ہوں، آپ کو بہت چھوٹی سطح کا جائزہ پیش کرنا  ہو گا، لیکن میں اپنی امید، رجائیت اور اس اعتماد کا اظہار کر سکتا ہوں کہ اگر ایسے تھنک ٹینکس فعال، سرگرم رہیں، بیداری پیدا کریں، ایسی رپورٹیں پیش کریں جن پر ایگزیکٹو، مقننہ   نیز سِول اور  فوجی قیادت کے ذریعہ غور کیا جاسکے ، اور ہمیں عالمی امن و امان اور سب کے لیے عالمی اقتصادی ترقی کی یقین دہانی کراسکیں۔

بہت بہت شکریہ!

جئے بھارت!

 

************

ش ح۔ع م     ۔ م  ص

 (U: 1033  )



(Release ID: 1977154) Visitor Counter : 124


Read this release in: Hindi , Tamil , English