سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت

ہندوستان کے وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی ڈاکٹر جتیندر سنگھ کا کہنا ہے کہ، برکس (برازیل، روس، ہندوستان، چین اور جنوبی افریقہ) کو علم، تخلیقی صلاحیتوں اور اختراعی معیشت سے چلنے والے سب سے زیادہ آبادی والے بازار ہونے کی وجہ سے عالمی اہمیت برقرار رکھنی چاہیے


جنوبی افریقہ میں جیوبرہا میں 11ویں برکس  ایس ٹی آئی وزارتی اجلاس سے‘‘ایس ٹی آئی ترجیحات اور پالیسیوں کی تازہ کاری’’ پر ورچوئل طریقے سے خطاب کرتے ہوئے، ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا، یہ گروپ مقامی معیشت کے لیے موزوں مشترکہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اقدامات کے ذریعے علاقائی سائنسی-تحقیق کے چیلنجوں کی شناخت اور ان کی کھوج میں تعاون کر سکتا ہے

مودی کابینہ کے ذریعہ منظور شدہ نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن اس بات کو یقینی بنائے گی کہ سائنسی تحقیق کو مساوی طور پر فنڈ فراہم کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ نجی شراکت داری  ضرورت کے مطابق اور معاون  ہےاور اس کے لیے این آر ایف کو کمپنیوں کوآر اینڈ ڈی (تحقیق و ترقی)میں سرمایہ کاری کرنے پر راغب کرنا ہوگا: ڈاکٹر جتیندر سنگھ

Posted On: 05 AUG 2023 4:42PM by PIB Delhi

مرکزی وزیر مملکت (آزادانہ چارج) سائنس اور ٹیکنالوجی؛ پی ایم او، پرسنل، عوامی شکایات، پنشن، ایٹمی توانائی اور خلائی  امور کےوزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے آج کہا، برکس (برازیل، روس، ہندوستان، چین اور جنوبی افریقہ) کو سب سے زیادہ مصروفیت والے بازار ہونے کی وجہ سے اس  عالمی اہمیت کو برقرار رکھنا چاہیےجو علم، تخلیقی صلاحیت اور اختراعی معیشت کی بنیاد وں پر قائم ہے۔

جنوبی افریقہ کے گوبرہا میں 11ویں برکس ایس ٹی آئی وزارتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ‘‘ایس ٹی آئی کی ترجیحات اور پالیسیوں کی تازہ کاریوں’’ پر ورچوئل میڈیم سے خطاب کرتے ہوئے، ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا، یہ گروپ مقامی معیشت کے لیے موزوں مشترکہ  سائنس اور ٹیکنالوجی کے اقدامات کے ذریعے علاقائی سائنسی-تحقیق کے چیلنجوں کی نشاندہی اور ان کی کھوج میں تعاون کر سکتا ہے۔

 

 

ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہاکہ ہندوستان صحت، زراعت، پانی،سمندری علوم، قابل تجدید توانائی، بائیو ٹیکنالوجی، ایڈوانسڈ ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز اور ماحولیات جیسے شعبوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی اور ماحولیات وغیرہ کے تعاون کو گہرا کرنے کے لیے ڈیجیٹل اور تکنیکی آلات سمیت اختراعی اور جامع حل تیار کرنے میں پائیدار ترقی کو فروغ دینے اور سب کے لیے عالمی عوامی اشیا تک سستی اور مساوی رسائی کی سہولت فراہم کرنے کے لیے برکس کی کوششوں کی حمایت کرے گا۔انہوں نے کہا، ہندوستان سائنس، ٹیکنالوجی اور اختراع کے میدان میں برکس تعاون کو بڑھانے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کا منتظر ہے۔

ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہاکہ ہندوستان اس منتر کے ساتھ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے جس پر وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ‘جئے جوان، جئے کسان، جئے وگیان، اور جئے انسندھان’ پر زور دیا ہے، تاکہ عالمی سطح پر تحقیق اور اختراعی منظرنامے میں اپنی حیثیت قائم کیا جا سکے۔اس سے شاندار کامیابی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ ہندوستان اب  عالمی اختراع کاری اشاریہ یعنی گلوبل انوویشن انڈیکس(جی آئی آئی 2022) کے مطابق 2015 میں 81 ویں پوزیشن کے مقابلے میں 40 ویں پوزیشن پر آگیا ہے۔ وزیر موصوف نے مزید کہا کہ این ایس ایف ڈیٹا بیس کے مطابق سائنسی اشاعتوں کی تعداد کے لحاظ سے ہندوستان کو پی ایچ ڈی کی تعداد کے تناظر میں، اعلیٰ تعلیمی نظام کی وسعت؛ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کے آغاز کی تعداد اوریونیکورنز  کی تعداد کے حوالے سے سرفہرست 3 ممالک میں رکھا گیا ہے۔

ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہاکہ مودی کابینہ کی طرف سے منظور شدہ نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن اس بات کو یقینی بنائے گی کہ سائنسی تحقیق کو مساوی طور پر فنڈز فراہم کیے جائیں اور زیادہ سے زیادہ نجی شراکت داری  اس سلسلے میں خوش آئند اورمددگارثابت ہوگی ۔ اس کے لیے این آر ایف کو کمپنیوں کو آراینڈ ڈی (تحقیق و ترقی)میں سرمایہ کاری کرنے پر راغب کرنا پڑے گا۔وزیر موصوف نے مطلع کیا کہ  ہم ایک منفرد پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) ادارے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جس کے لیے36,000 کروڑ روپےریسرچ فنڈنگ نجی شعبے سے آنی ہے، اس میں زیادہ تر حصہ صنعت کا ہے جبکہ حکومت اس کے لیے 14,000 کروڑ روپے رکھے گی، تاکہ صنعت کی زیادہ سے زیادہ شرکت کو یقینی بنایا جا سکے۔

این آر ایف کو ایک پالیسی فریم ورک بنانے اور ریگولیٹری عمل پر کام کرنے کی ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے۔ شہادتوں پر مبنی معلومات کے حامل سیاق و سباق  میں اہمیت رکھنے والے ، وسائل کو بہتر بنانے،ثقافتی طور پر ہم آہنگ اور ایکویٹی کو فروغ دینے والے حل تیار کرنے کے لیے کئی شعبوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔این آر ایف کے علاوہ، کافی تعداد میں دیگر اقدامات کیے گئے ہیں جو ہم نے اپنے محققین کی حوصلہ افزائی کے لیے کیے ہیں جو بنیادی اورنافذ العمل تحقیق میں کام کرنے والے مختلف پائیدار ترقی کے اہداف کو پورا کرتے ہیں۔ اس طرح تحقیقی سرگرمیوں کے بڑھتے ہوئے دائرہ کار کے ساتھ نہ صرف سائنسی تحقیق کو حل کرنا بلکہ چیلنج کو قبول کرنے کے لیے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ورک شیٹس تک کام کرنا بھی مناسب ہے۔ اس میں تحقیقی چیلنجوں کو سمجھنا، ٹیکنالوجی کی تیاری کی سطح (ٹی آر ایل) کو بڑھانا، نئی تیار کردہ ٹیکنالوجی مصنوعات کے لیے کاروباری تیاری کی سطح (بی آر ایل) فراہم کرنا شامل ہے۔ یہ صرف نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے استعمال سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

تقریر کا مکمل متن ذیل میں دیا گیا ہے:-

  • ایچ ای برکس کے رکن ممالک کے عزت مآب وزراء
  • وفود کے قائدین
  • عزیز ساتھیوں، معزز مندوبین اور دوستو،

مجھے ذاتی طور پر آپ کے ساتھ شامل ہونا اور برکس کے رکن ممالک کے اپنے ساتھیوں سے ملنا اچھا لگتا۔ تاہم، ہندوستان میں جاری پارلیمانی اجلاس کی وجہ سے، میں آپ کو ایک ریکارڈ شدہ ویڈیو پیغام کے ذریعے مخاطب کر رہا ہوں۔

2. عالمی سطح پر تحقیق اور اختراعی منظر نامے میں اپنے نقش قدم کو قائم کرنے کے لیے ہندوستان، وزیر اعظم جناب نریندر مودی کے ذریعہ ‘جئے جوان، جئے کسان، جئے وگیان، اور جئے انسندھان’ کے منتر پر زور دے کر مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ اس سے شاندار کامیابی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ ہندوستان اب گلوبل انوویشن انڈیکس(جی آئی آئی 2022) کے مطابق 2015 میں 81 ویں پوزیشن کے مقابلے میں 40 ویں پوزیشن پر آگیا ہے۔این ایس ایف ڈیٹا بیس کے مطابق سائنسی اشاعتوں کی تعداد کے لحاظ سے ہندوستان کو پی ایچ ڈی کی تعداد کے تناظر میں، اعلیٰ تعلیمی نظام کی وسعت؛ نیز ٹیکنالوجی کے آغاز کی تعداد اور ایک یونیکورنز کی تعداد کے حوالے سے سرفہرست 3 ممالک میں رکھا گیا ہے۔

3. پچھلے سات سالوں کے دوران، ہندوستان کےآر اینڈ ڈی(تحقیق  و ترقی) کے اخراجات تقریباً دوگنا ہو گئے ہیں۔ اس سال کے بجٹ میں، ہم نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت کے لیے تقریباً 16,360 کروڑ روپے (2.20 بلین امریکی ڈالر) مختص کیے ہیں۔ اس کے علاوہ، حکومت ہندوستان نے حال ہی میں بنیادی آر اینڈ ڈی(تحقیق  و ترقی)سرگرمیوں کے علاوہ ترجمے اور کثیر شعبہ جاتی  تحقیق کو فروغ دینے کے لیے خاطر خواہ فنڈنگ کے ساتھ ایک نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن (این آر ایف) کے قیام کا آغاز کیا ہے۔

 4. ہندوستان میں، فی الحال تحقیق الگ تھلگ مقامات میں سرکاری محکموں اور لیبارٹریوں، مرکزی اور ریاستی تعلیمی اداروں میں، بنیادی ڈھانچے میں یکسانیت کے بغیرکی جاتی ہے۔ ہم این آر ایف کو آر اینڈ ڈی(تحقیق  و ترقی) کی تخم ریزی اور فروغ دینے اور ہندوستانی یونیورسٹیوں، کالجوں، تحقیقی اداروں وغیرہ میں تحقیق اور اختراع کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے تجویز کرتے ہیں۔اس کے لیے این آر ایف کو کمپنیوں کو آر اینڈ ڈی(تحقیق  و ترقی)  میں سرمایہ کاری کرنے پرراغب کرنا پڑے گا۔ ہم ایک منفرد پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) ادارے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جس کے لیے 36,000 کروڑ روپے ریسرچ فنڈنگ نجی شعبے سے آنی ہے جس میں  زیادہ ترحصہ صنعت کا ہے جب کہ حکومت اس کے لیے 14,000 کروڑ روپے رکھے گی، تاکہ صنعت کی زیادہ سے زیادہ شرکت کو یقینی بنایا جا سکے۔این آر ایف کو ایک پالیسی فریم ورک بنانے اور ریگولیٹری عمل پر کام کرنے کافریضہ بھی سونپا گیا ہے۔ کئی شعبوں کو ثبوت پر مبنی معلومات کے حامل ، سیاق و سباق میں اہمیت رکھنے والے  سے متعلق، وسائل کو بہتر بنانے، ثقافتی طور پر مسابقت پذیر اور ایکویٹی کو فروغ دینے والے اقدامات تیار کرنے کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا۔

5.این آر ایف کے علاوہ، کافی تعداد میں دیگر اقدامات کیے گئے ہیں جو ہم نے اپنے محققین کی حوصلہ افزائی کے لیے کیے ہیں جو بنیادی اور اطلاقی تحقیق میں کام کرنے والے مختلف پائیدار ترقی کے اہداف کو پورا کرتے ہیں۔ اس طرح، تحقیقی سرگرمیوں کے بڑھتے ہوئے دائرہ کار کے ساتھ افق کے ساتھ نہ صرف سائنسی تحقیق کے مسائل کو حل کرنا بلکہ چیلنج کو قبول کرنے کے لیے بھرپور پیمانے پر ورک شیٹس تک کام کرنا بھی مناسب ہے۔اس میں تحقیقی چیلنجوں کو سمجھنا،ٹیکنالوجی کی تیاری کی سطح (ٹی آر ایل) کو بڑھانا، نئی تیار کردہ ٹیکنالوجی مصنوعات کے لیے کاروباری تیاری کی سطح (بی آر ایل)فراہم کرنا شامل ہے۔ یہ صرف نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے استعمال سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

6. بنیادی آر اینڈ ڈی (تحقیق و ترقی) سرگرمیوں کو فروغ دینے کی اولین بنیاد میں ملک بھر میں جدید ترین بنیادی ڈھانچے کی سہولیات کی تخلیق شامل ہے۔ حکومت ہندوستان نے ایس اے ٹی ایچ آئی (جدید تجزیاتی اور تکنیکی مدد کا ادارہ) اورایس یو پی آر ای  ایم ای (سپریم :سامان کی اپ گریڈیشن  احتیاطی مرمت اور دیکھ بھال) جیسی اختراعی اسکیمیں شروع کی ہیں جو بڑے تجزیاتی آلات اور جدید مینوفیکچرنگ سہولت کے سیٹ اپ کو یقینی بناتی ہیں جن تک تعلیمی برادری ، اسٹارٹ اپس، مینوفیکچرنگ یونٹس، صنعتوں اور آر اینڈ ڈی (تحقیق و ترقی) لیبز کے محققین کے ذریعہ  آسانی سے رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ مرمت/اپ گریڈیشن/دیکھ بھال اور تیاری کے بعد کی جانے والی تبدیلیوں کے عمل (ریٹروفٹنگ) کے لیے گنجائش فراہم کرتے ہوئے ان سہولیات کے ڈاؤن ٹائم کو کم کرنے اور ان کے بہترین استعمال کے طریقہ کار کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

7. شفاف رسائی، زیادہ سے زیادہ استعمال اور جغرافیائی پھیلاؤ کو یقینی بنانے کے لیے، ایک وقف کردہ قومی پورٹل،ون-ایس ٹی ای ایم شروع کیا گیا ہے جو محققین کے لیے اپنی تحقیقی ضروریات سے متعلق مخصوص سہولت (آئی ای ایس) کا پتہ لگانے کا گیٹ وے ہے۔

میں آپ کو کچھ مخصوص شعبوں میں ہونے والی پیش رفت کی مثالیں دیتا ہوں:

بائیو ٹیکنالوجی سیکٹر

8. ہندوستان نے ویکسین، جین تھراپی، نیشنل بائیو فارما مشن، متعدی امراض سے لے کر طرز زندگی کے بنا پر ہونے والی بیماریوں وغیرہ کے مختلف پورٹ فولیو کے ساتھ کئی بنیادی پروگرام شروع کیے ہیں جنہوں نے ملک میں لائف سائنسزآر این ڈی (تحقیق و ترقی)کے لیے ایک مضبوط ماحولیاتی نظام قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہندوستان نے اختراعی ٹیکنالوجیز، زرعی فصلوں کی بہتر اقسام، جانوروں اور دودھ کی مصنوعات کے ساتھ ساتھ سمندری وسائل کی ترقی میں کثیر جہتی نقطہ نظر اپنایا ہے۔ مختلف پروگرام یو این ایس ڈی جی-2023 کے ساتھ منسلک ہیں جیسے کہ بھکمری کا خاتمہ، اچھی صحت اور بہبود، سستی اور صاف توانائی، صنعت، اختراع اور انفراسٹرکچر، اور ہندوستانی آبادی کے ہر عمر گروپ کی اچھی صحت اور بہبود کے لیے موسمیاتی  مطابقت رکھنے والی کارروائی۔ چارکووڈ-19 ویکسینز (یعنی کوفی ویکس ٹی ایم،جی ای ایم کوویک -19 ٹی ایم اور ان کو ویک) کی  تیاری اس میدان میں ہندوستان کی کامیابیوں کی روشن مثالیں ہیں۔

9. ہندوستان نے کم غذائیت، موٹاپے اور متعلقہ پیتھالوجیز، مائیکرو نیوٹرینٹ کی کمیوں کا ازالہ کرنے  اورہدف شدہ آبادیوں کے لیے کھانے کی اشیاءکی فراہمی کے لئے اقتصادی طور پر قابل عمل پائیدار ٹیکنالوجیز فراہم کرنے کے مقصد سے عمل کو تیز کیا ہے جو محفوظ اور حسی طور پر قابل قبول ہیں۔صحت کی دیکھ بھال کو سستی بنانے کے لیے، اس نے اعلیٰ کوالٹی، قیمت پر مسابقتی انٹرمیڈیٹس اوراےپی آئیز، اور جینومکس کے ذریعے جنرک، دوبارہ تیار شدہ اور نئی سالمات پر مبنی دوائیوں کے لیے ٹیکنالوجیز تیار کی ہیں، جو ہندوستان کی ٹیگ لائن –‘‘دنیا کی فارمیسی’’ کی نشاندہی کرتی ہے جو کہ اس وقت  بھی واضح تھی جب کووڈ کی وبا اپنے نقطہ عروج پر تھی۔

 

ڈیجیٹل ورلڈ

10. ہندوستان کے نیشنل سپر کمپیوٹنگ مشن نے ہندوستان بھر کے مختلف اداروں میں اعلیٰ کارکردگی والے کمپیوٹنگ کی سہولیات پیدا کی ہیں۔ کثیر شعبہ جاتی سائبر فزیکل سسٹمز پر قومی مشن (این ایم-آئی سی پی ایس) کے آغاز نے ملک بھر میں 25 مختلف تعلیمی اداروں میں ٹیکنالوجی انوویشن ہب (ٹی آئی ایچ) کے قیام کے ذریعے روبوٹکس، آئی او ٹی جیسے سائبر فزیکل شعبوں میں ٹیکنالوجی کی ترقی میں بھرپور مدد کی ہے۔ ہر ایک سائبر فزیکل سسٹم کے مخصوص  علاقوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے، جیسے کہ جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز، روبوٹکس، مشین لرننگ وغیرہ۔ جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز اور ڈیٹاتجزیہ کاری  کے انضمام نے فیصلہ سازی کے عمل کو بہتر بنانے، پیداواری صلاحیت کو بڑھانے اور متنوع صنعتوں میں جدت لانے میں مدد کی ہے۔

11. حال ہی میں، ایک قومی کوانٹم مشن کا آغاز کیا گیا ہے جس کا مقصد سائنسی اور صنعتی آر اینڈ (تحقیق و ترقی) کو بڑھانا ہے، تاکہ کوانٹم ٹیکنالوجی کی زیر قیادت اقتصادی ترقی کو تیز کیا جا سکے اور ہندوستان کو پائیدار ترقی کی حمایت کرنے والے ایک سرکردہ ملک کے طور پر فائدہ پہنچایا جاسکے۔ کوانٹم ٹیکنالوجیز تیار کرنا، کوانٹم کمیونیکیشن کی تلاش، کرپٹوگرافی، اور کوانٹم الگورتھم ہماری تحقیقی ترجیحات ہیں۔

صاف شفاف ٹیکنالوجیز

12. ہندوستان کی توانائی کی پیداوار کا انحصارحجری ایندھن (59.8 فیصد) پر ہے، جس میں کوئلے کا حصہ تقریباً 51 فیصد ہے۔ اگرچہ قابل تجدید توانائی متاثر کن 38.5 فیصد تک بڑھ گئی ہے، پھر بھی توانائی کے شعبے کو مزیدکاربن کے اثرات سے پاک کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے، ہندوستان نے کلین انرجی پر ایک وقف مشن موڈ ٹیکنالوجی ڈیولپمنٹ پروگرام شروع کیا ہے، جس میں توانائی اور ماحولیات کے چیلنجوں سے نمٹنے  کے لیے ٹیکنالوجی  پر مبنی تدابیر اختیار کرنے کے لئے توانائی کے تحفظ اور اسٹوریج پلیٹ فارم کے لیے مواد شامل ہیں۔

13. اس سمت میں، دنیا نے ٹیکنالوجی پر مبنی کئی اسٹارٹ اپس کے عروج کو بھی دیکھا ہے۔ اسٹارٹ اپ ماحولیاتی نظام کو فروغ دینے کے لیے، ہندوستان نے مشن انوویشن پروگرام کے تحت کلین انرجی انٹرنیشنل انکیوبیشن سینٹر (سی ای آئی آئی سی) قائم کیا ہے۔ اس انکیوبیشن سنٹر کے ذریعے قائم کیے گئے اسٹارٹ اپس کے ذریعے متعدد جدیدصاف شفاف توانائی پر مبنی حل تیار کیے گئے ہیں۔ ہندوستان 2030 تک  فوسل پر مبنی ایندھن، کیمیکلز اور مادوں کو حیاتیات پر مبنی متبادلات کے ساتھ کم کرنے کے ہدف کے ساتھ اعلیٰ کارکردگی کے بائیو ریفائنری نظاموں کو شروع کرنے اور ان کے نتائج کےمظاہرے کے لیے ایک مشن کی قیادت کر رہا ہے۔

14. ماحولیاتی اور آب و ہوا کے مسائل کے تئیں ایک ثابت قدمی کے ساتھ، ہندوستان نے مستقبل کی توانائی کی ضروریات اور ماحولیاتی خدشات کو دور کرنے کے لیے دو مشن شروع کیے ہیں، یعنی، اے) گرین ہائیڈروجن مشن: پیداوار، استعمال، ذخیرہ اور تبدیلی، اور بی) کاربن کو ماحول دوست طریقے سے اکٹھا کرنے ، تبدیلی، ذخیرہ کاری  اور استعمال۔

15. اب جبکہ ہم ایک زیادہ پائیدار مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں،، ہم چمڑے کی صنعت میں ماحولیات سے ہم آہنگی رکھنے والے طریقہ کار کے لیے صاف ترین ٹیکنالوجیز اور چمڑے اور دیگر صنعتوں کے لیے موثر نفاذ کے لیے ماحول دوست کیمیکلز، عمل اور فضلہ کے انتظام کی ٹیکنالوجیز، اور اس کے علاوہ دھاتوں، مرکب دھاتوں، مرکبات، سیرامکس(سفالی: مٹی سے تیار شدہ مصنوعات) وغیرہ پر مشتمل مواد اور مواد نکالنے اور مینوفیکچرنگ کے دوران کاربن کے اثرات کو کم کرنے کے لیے پائیدار دھاتی پروسیسنگ اور نکالنے کی تکنیک کو اپنا رہے ہیں۔

نیلگوں معیشت

16. بلیو اکانومی(نیلگوں معیشت) کی صلاحیت کو بروئے کار لا کر، ہم پائیدار اور ذمہ دارانہ انداز میں اقتصادی ترقی کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے سمندروں کی بہبود کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ یہ اقتصادی سرگرمیوں کی ترقی کو فروغ دیتا ہے جو اقتصادیات، ماحولیاتی اور سماجی مقاصد کے درمیان توازن برقرار رکھتی ہے اور سمندری ماحولیاتی نظام کی طویل مدتی پائیداری کو یقینی بناتی ہے۔ بلیو اکانومی کے نقطہ نظر کی جڑیں مضبوطی سے ایس ڈی جی 14 (‘پانی کے نیچے زندگی’) میں  جمی ہوئی ہیں جس کا مقصد‘‘پائیدار ترقی کے لیے سمندروں، سمندروں اور سمندری وسائل کا محفوظ کرنااوران کا  پائیدار استعمال کرنا’’ہے۔

17. بلیو اکانومی(نیلگوں معیشت) کی صلاحیت کو پائیدار طریقے سے استعمال کرنے کے لیے باہمی تحقیق اور اختراع کے ذریعے اپنے سائنسی علم کو بڑھانا مناسب ہے، خاص طور پر سمندری مشاہدات اور خدمات، سمندری مقامی منصوبہ بندی، خاص طور پر برکس کے رکن ممالک کے لیے جو سمندر پر مبنی معیشتیں ہیں،یہ اس سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ سمندر اور سمندری ماحولیاتی نظام کاربن کے بڑے ذخیرے ہیں اور ساحلی کٹاؤ، طوفان کے اضافے، طوفانی آفات، اور سمندر کی سطح میں اضافے کے خلاف قدرتی رکاوٹوں کے طور پر کام کرتے ہیں، اور موسمیاتی تبدیلی کے موافقت یا ایس ڈی جی 13 میں موسمیاتی کارروائی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

18. ہندوستان نے آنے والی دہائی کے لیے اپنے وژن کا انکشاف کیا ہے، جس میں 2030 تک اپنی ترقی کی دس اہم ترین جہتوں کی فہرست دی گئی ہے اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے کے لیے سمندری وسائل کے تحفظ اور تحفظ کے لیے بلیو اکانومی کو چھٹی جہت کے طور پر تصور کیا گیا ہے۔ بلیو اکنامک پالیسی کی نقاب کشائی کا عمل جاری ہے اور ایک اندازے کے مطابق سمندر پر مبنی صنعتوں سے تقریباً 40 ملین افراد کو روزگار ملے گا۔

19. بلیو اکانومی انیشی ایٹو(نیلگوں معیشت پہل قدمی) کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے، ڈیپ اوشین مشن(گہر ے سمندر والے مشن) کو لاگو کیا جا رہا ہے، جس میں آب و ہوا کی  تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے سمندر اور موسمیاتی تبدیلی سے متعلق مشاورتی خدمات کی ترقی، گہرے سمندری حیاتیاتی تنوع کی تلاش اور تحفظ، سمندری وسائل کے پائیدار استعمال کے لیے ٹیکنالوجی کی ترقی اور صلاحیت کی تعمیرشامل ہے۔

20. قریب قریب حقیقی وقت میں موسم، آب و ہوا اور سمندر کی پیشین گوئی، اور بھارت کی طرف سے فراہم کردہ تخفیف مشاورتی خدمات موسمیاتی تبدیلی کی  صورتحال سے نمٹنے اور موسمیاتی خدمات کو ترقی دینے بشمول خوراک اور اقتصادی تحفظ کے حصول اور ملک میں پائیدار زرعی طریقوں کو فروغ دینے کے لیے اہم ہیں۔ بھارت شدید موسمی مظاہر اور دیگر خطرناک واقعات جیسے سونامی، شدید لہروں، طوفانوں، طوفانی لہروں اورشدید بارش سےپیدا ہونے والے سیلابوں، جنگل میں آگ کی نگرانی اور ہاٹ سپاٹ کی شناخت کے لیے ابتدائی انتباہی معلومات بھی پیش کرتا ہے۔

ریسرچ انکیوبیشن اور ترجمہ

21. ٹیکنالوجیز اور پیداواری شراکت داری کا سنگم اختراعی حرکیات کو زندہ کرے گا اور باہمی تعاون پر مبنی دائروی معیشت( سرکلر اکانومی) کے میکانزم کا آغاز کرے گا۔ اختراعات کی پوری ویلیو چین کو فروغ دینے کے لیے این آئی ڈی ایچ آئی (نیشنل انیشیٹو فار ڈیولپنگ اینڈ ہارنسنگ انوویشنز)کے عنوان سے ایک قومی پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ نوجوانوں کے ذہنوں کو اختراع کرنے کے لیے رہنمائی فراہم کرنے کی غرض سے ، وزیر اعظم نریندر مودی کا وژن اٹل ٹنکرنگ لیبز کے قیام کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے تاکہ اختراعی اور صنعت کاری کے ایک ماحولیاتی نظام کو فروغ دیا جا سکے جو پچھلے چھ سالوں میں 700 اضلاع میں صفر سے بڑھ کر 10,000 ہو گیا ہے۔

22. ٹیکنالوجی ڈیولپمنٹ بورڈ (ٹی ڈی بی) ملک میں بہترین مینوفیکچرنگ انفراسٹرکچر قائم کرنے کے ذریعے قومی سطح پر متعلقہ مصنوعات کی ترقی اور کمرشلائزیشن کو حل کرنے کے لیے دیسی ٹیکنالوجی کی ترقی کے مقصد سے ہندوستانی صنعتوں کو فروغ دینے کی سمت میں سرمایہ کاری، جدت طرازی کو بڑھاتا ہے۔ بورڈ اسٹارٹ اپس، اختراع کاروں اور کاروباری افراد کی مدد میں اہم کردار ادا کر رہا ہے تاکہ وہ اپنی اختراعات کو مارکیٹ کے لیے تیار مصنوعات میں تبدیل کر سکیں۔

23. ہندوستان نے کئی سستی بائیوٹیکنالوجی مصنوعات اور ٹیکنالوجیز کی ترقی میں سہولت فراہم کرنے کے لیے ‘بائیو ٹکنالوجی انڈسٹری ریسرچ اسسٹنس کونسل (بی آئی آر اے سی)’ قائم کرکے اختراعات اور کاروبار کو فروغ دیا ہے۔ اس نے پچھلے چند برسوں میں 3500 سے زیادہ اسٹارٹ اپس کی غیر معمولی تعداد کے لیے راہ ہموار کی ہے۔ ان اسکیموں نے سٹارٹ اپس/کمپنیوں کی آر اینڈ ڈی(تحقیق و ترقی) صلاحیتوں کو مضبوط کرنے کی بنیاد رکھی ہے، جس سے عملی شکل میں منتقلی کے خیالات کو تصور کے ثبوت کی تخلیق سے لے کر توثیق، اسکیلنگ اپ، مظاہرے اور مصنوعات اور ٹیکنالوجیز کی پری کمرشلائزیشن تک کے لیے مطلوبہ محرک فراہم کیا گیا ہے۔

صنفی مساوات

24. سائنس میں صنفی مساوات کے حصول کی طرف، ہندوستان نے مختلف اقدامات کے ذریعے خواتین سائنسدانوں کے لیے کیریئر کے مواقع کو فروغ دینے کی غرض سے مختلف خواتین پر مبنی پروگرام شروع کیے ہیں۔ایس ٹی ای ایم  اور صنعتی آر اینڈ ڈی(تحقیق و ترقی) میں خواتین محققین کی حوصلہ افزائی اور ان کو نئی طاقت بخشنے پرخصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے جو مختلف وجوہات کی بناء پر نظام سے باہر ہو چکی ہیں۔ مسلسل کوششوں کے ذریعے، ہم گزشتہ 10 برسوں میں خواتین محققین کی تعداد کو دوگنا کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

25. یہ ہندوستان کی ایس ٹی آئی ترجیحات اور پالیسیوں کی تازہ کاری کی کچھ اہم جھلکیاں ہیں۔ ہندوستان ہمارے معاشرے اور کرہ ارض کی بہتری کے لیے کسی بھی شکل میں تعاون اورخدمات پیش کرنے کے لیے پوری طرح پرعزم ہے۔

برکس ایس ٹی آئی تعاون کو مضبوط بنانا

26.عالیشان، عصری چیلنجوں کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے، برکس کو علم، تخلیقی صلاحیتوں اور اختراعی معیشت سے چلنے والے سب سے زیادہ آبادی والے بازار ہونے کی وجہ سے عالمی اہمیت کو برقرار رکھنا چاہیے۔برکس کے رکن ممالک مقامی معیشتوں کے لیے موزوں مشترکہ ایس اینڈ ٹی(سائنس اور ٹیکنالوجی)اقدامات کے ذریعے علاقائی سائنسی-تحقیق کے چیلنجوں کی نشاندہی اور ان کی تلاش کے لیے تعاون کر سکتے ہیں۔

27.ہندوستان صحت، زراعت، پانی، سمندری سائنس، قابل تجدید توانائی، بایو ٹکنالوجی، جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز اور ماحولیات وغیرہ جیسے شعبوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے تعاون کو گہرا کرنے کے لیے ڈیجیٹل اور تکنیکی آلات سمیت اختراعی اور جامع حل تیار کرنے،ترقی اور سب کے لیے عالمی عوامی اشیا تک سستی اور مساوی رسائی کی سہولت فراہم کرنے میں برکس کی کوششوں کی حمایت کرے گا۔

28.ہندوستان سائنس، ٹیکنالوجی اور اختراع کے میدان میں برکس تعاون کو بڑھانے کے لیے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کاخواہشمند ہے۔

آپکی توجہ کا شکریہ

*************

ش ح۔  س ب ۔م ش

(U-966)



(Release ID: 1976719) Visitor Counter : 68


Read this release in: English , Marathi , Hindi , Tamil