جدید اور قابل تجدید توانائی کی وزارت

  بجلی اور نئی و قابل تجدید توانائی کے مرکزی وزیر نے آئی ایس اے کانفرنس میں  کہا :


‘‘سولرمینوفیکچرنگ اور سولر سپلائی سیریزمیں تنوع لائے بغیراور قابل تجدیدتوانائی کے لئے مناسب ذخیرہ سہولت تیار کئے بغیر ‘نیٹ زیرو ’ محض ایک ہدف بن کررہ جائے گا۔’’

‘‘ توانائی ذخیرہ سیکٹر میں متبادل طریقہ کار کے لئے تحقیق کی ضرورت ہے۔’’ :آئی ایس اے صدر جناب آر کے سنگھ

‘‘ترقی پذیر ممالک کے لئے بجلی کو زیادہ کفایتی بنانے کے لئے سولر توانائی صلاحیت  میں اصلاح کی ضرورت ’’

Posted On: 01 NOV 2023 5:46PM by PIB Delhi

بجلی اور نئی و قابل تجدید توانائی کے مرکزی وزیر اور بین الاقوامی  سولر اتحاد  کے صدر  جناب آر کے سنگھ نے کہا ہے کہ جب تک پوری  دنیا مل کر سولر مینوفیکچرنگ صلاحیت  اور اس سے جڑی معاون  سپلائی چین  میں  تکثیریت  میں کمی کے مسئلے کا کوئی  حل نہیں  نکالتی ، ‘نیٹ زیرو’ کی سوچ  محض ایک ہدف بن کر رہ جائے گی۔ جناب سنگھ نے شفاف توانائی تبدیلی کے لئے جدید ٹکنالوجی  پر آج نئی دہلی میں بین الاقوامی سولر اتحاداسمبلی کے چھٹے سیشن  کے ساتھ منعقد ایک روزہ اعلیٰ سطحی اجلاس کے افتتاحی سیشن  میں یہ بات کہی۔ اجلاس کا انعقاد  نئی قابل تجدیدتوانائی کی وزارت   ،  حکومت ہند ،  ایشیائی ترقیاتی بینک  اور انٹر نیشنل  سولر انرجی  سوسائٹی  کے ذریعہ  مل کر کیا جارہا ہے۔

آئی اے ایس  کے صدر نے  یہ بھی کہا کہ قابل تجدید توانائی کا بڑے پیمانے پر اور 24 گھنٹے  کے  التزام کے لئے  ذخیرہ  کی سہولت  بہت اہم ہوجاتی ۔انہوں نے کہا ‘‘ ذخیر ہ کاری  ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے ۔ترقیاتی یافتہ ممالک  توانائی سیکٹر میں  تبدیلی پر بات تو کرتے رہتے ہیں  لیکن وہ اس کے لئے کچھ کرتے نہیں  ہیں۔ وہ نہ تو ذخیرے کی سہولت بڑھاتے ہیں اور نہ ہی موجودہ ٹکنالوجی کے معاملے میں  کوئی  پیش رفت کرتے ہیں۔ انتہائی اہم بات یہ ہے کہ مینوفیکچرنگ صلاحیت  کی توسیع نہیں  ہوئی ہے۔سولر مینوفیکچرنگ صلاحیت کا 90 فیصد صرف ایک ملک میں ہے ، جوکہ صرف ایک کیمیا  یعنی لیتھیم  آئن پر منحصر ہے۔اس لئے  اس سے سپلائی سیریز کے چیلنج بڑھ گئے ہیں ،جوکہ  کووڈ -19 وبا کے دوران  سامنے آئی ۔ ’’ جناب سنگھ نے زور دے کر کہا کہ 24 گھنٹے قابل تجدید توانائی کی دستیابی  اس کی  ذخیرہ سہولت کے بغیر ممکن نہیں  ہے ۔ انہوں  نے کہا ‘‘ جب تک ہمارے پاس  ذخیرے کی سہولت نہیں ہوگی ، ایک حد سے زیادہ   قابل تجدید توانائی صلاحیت کو بڑھانا بیکار ہے ۔ اگر ہم  صلاحیت کی توسیع کرتے ہیں تو ہمارے پاس  دوپہر کے وقت   ضرورت  بھر  سولر توانائی دستیاب ہوگی لیکن  ذخیرے کی سہولت کے  فقدان کے نتیجے میں یہ سب بیکار جائے گی۔ جہاں تک ہوائی توانائی  کی بات ہے ، جب یہ دستیاب ہوگی تو ایک صلاحیت سے زیادہ   یہ بھی رائیگاں جائے گی۔ اگر ہمارے  پاس  اس  کے  ذخیرے کی سہولت نہیں ہوگی۔’’ آئی اے ایس کے صدر نے کہا  ، جہاں ایک طرف ہندوستان  توانائی تبدیلی کے معاملے میں  تیزی سے آگے بڑھنے والے ملک کے طور پر ابھرا ہے ، وہیں  مینوفیکچرنگ صلاحیت میں  کمی کی وجہ سے ملک کو چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

‘‘مینوفیکچرنگ صلاحیت بڑھانے کے ساتھ ہی ذخیرہ کاری کے لئے متبادل  طریقہ کار  کی تحقیق کی ضرورت ہے’’

بجلی اور نئی و قابل تجدید توانائی کے وزیر نے کہا کہ ان مسائل  سے متبادل طریق کار اور مینوفیکچرنگ صلاحیت بڑھانے میں سرمایہ کاری اور تحقیق کی ضرورت  پید ا ہوتی  ہے۔ انہوں نے کہا ‘‘ ایک انسانی نسل کے طورپر ہمیں   متبادل طریق  کار کی تحقیق کرنے  اور  دنیا بھر میں  مینوفیکچرنگ صلاحیتوں کو قائم کرنے میں  اپنا پیسہ صرف کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہندوستان میں ہم  نے  یہ دونوں  کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ہم نے پولی سلکان مینوفیکچرنگ کے قیام کے لئے پیداوار  سے مربوط  ترغیبی اسکیم شروع کی ہے۔سال 2030 تک ہمارے  پاس سولر  ماڈیول  کے لئے تقریباََ 100 گیگا واٹ  مینوفیکچرنگ صلاحیت ہوگی ،جس میں سے تقریباََ  50  گیگا واٹ  پوری طرح سے پولی سلکان  اور  ویفر کے ساتھ جڑی ہوگی۔’’

‘‘ترقی پذیر ممالک کے لئے بجلی کو کفایتی بنانے کی غرض سے سولر  صلاحیت  میں اصلاح کی ضرورت ’’

آئی ایس  کے کے صدر نے  اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ سولر ٹکنالوجی صلاحیت  میں  اصلاح  پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بجلی کی  لاگت کم ہو، جو کہ خاص  طور سے ترقی پذیر ممالک کے ضروری ہے۔ انہوں نے کہا ‘‘ جب ہم  موسمیاتی تبدیلی  کا مقابلہ کرنے کی بات کرتے ہیں تو  یہ مسئلہ  بدستور موجود ہے ۔ ہمیں  ان مسائل کو  مل کر حل کرنا ہوگا ۔ ہمیں سولر توانائی کے سیکٹر میں  اہلیت بڑھانی ہوگی،  یہ ضرورتیں  اور بڑھیں گی جب ہم نے اس سیکٹر میں  اپنا سفر شروع کیا تھا تو ہمیں ایک گیگاواٹ کے لئے  پانچ ایکڑ زمین کی ضرور ت ہوتی تھی ، آج ہمیں  صرف  3.5 ایکڑ کی ہی ضرورت ہوتی ہے ۔ توانائی کی لاگت کم ہوئی ہے لیکن یہ  الگ الگ ممالک میں  ایک جیسی نہیں ہوگی۔ اگر صلاحیت برھتی ہے ، بجلی کی لاگت کم ہوگی ،  یہ صورتحا ل ترقی پذیر ممالک کے لئےبہتر ہوگی ، جہاں بہت سے لوگ  بجلی کے لئے  ادائیگی  نہیں کرپاتے ۔ یہاں تک کہ ہندوستان میں ہم ایک طے آمدنی  سطح کے  نیچے  زندگی گزارنے والی آبادی کو  سبسڈی   دیتے ہیں۔  یہ تمام  ترقی پذیر ممالک کے معاملے میں درست ثابت ہوسکتا ہے  ۔سبسڈی دینے کے معاملے میں  کئی حکومتوں کی  مالی صلاحیت محدود ہوتی ہے  ۔ ایسے میں  صلاحیت کو بہتر  کرنا بھی  اہم  ہوجاتا ہے ۔اس سے  اس بات کو یقینی بنایا جاسکے گا کہ غریب لوگ بھی سرکاری امداد کے بغیر ہی   بجلی کااستعمال کرسکیں گے۔’’

‘‘توانائی تک رسائی اور توانائی سیکٹر میں  تبدیلی آئے اس کے لئے  ترقی پذیر  ممالک کے لئے  مالی دستیابی  ضروری  ’’

آئی ایس اے  اسمبلی کے صدرنے کہا کہ توانائی سیکٹر میں تبدیلی لانے کے لئے مختلف وسائل کے ذریعہ  ترقی پذیر ممالک کے لئے  مالی  امداد کی دستیابی کو  یقینی بنایا جانا بہت اہم ہے ۔ انہوں نے کہا ‘‘ توانائی سیکٹر میں تبدیلی کی بات تو دور  ، ہماری دنیا کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے ، جہاں لوگوں کی توانائی تک رسائی کے لئے  ان کے پاس  مالی سہولت  دستیاب نہیں  ہے ۔ جب تک ہم  ان ممالک کی  مالی  سہولتوں کے ساتھ  مدد نہیں کریں گے اس وقت تک  توانائی تک رسائی اور اس میں  تبدیلی نہیں لائی جاسکتی ۔

آئی ایس اے کے صدر نے ترقی یافتہ  ممالک کے لئے  سبز توانائی  پروجیکٹوں   کے حوالے سے مالی سہولت  دستیاب کرانے کی  ان کی عہد بندی کو  نبھانے کی ضرورت  پر زور دیا ۔ انہوں نے کہا ‘‘ ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ہمیں  ترقی پذیر ممالک سے مالی مدد دستیاب ہو ، مگر یہ نہیں ہورہا ہے ۔ کیو ٹو  اور پیرس میں  جس عہد بندی کا اظہار کیا گیا تھا اس پر عمل نہیں ہورہا ہے ۔کچھ سبز فنڈ  سامنے آئے تھے  لیکن جن ممالک کو اس کی ضرورت تھی  ،وہاںتک وہ نہیں  پہنچے ۔ ہندوستان کو اس طرح کے فنڈ کی ضرورت نہیں  ہے۔ حکومت ہندکو بنیادی سہولتوں  پر  ایک نیا پیسہ  بھی  خرچ  نہیں کرنا پڑا، لیکن دو سرے ممالک میں  ایسا نہیں ہوگا  ۔ سبز فنڈ آنا چاہئے ۔ کل یہاں بڑی تعدا  د میں یقین دہانی کرائی گئی  ،جس سے ہمیں  بے پناہ مسرت ہوئی ہے ۔ اس تعداد میں اضافہ ہوگا اور ایسا  ہونا ہی چاہئے ۔’’

‘‘ہندوستان 2030 کے لئے طے کاربن کاری – خاتمے کے ہدف  سے  آگے نکلنے کو لے کر پُر اعتماد ’’

وزیر محترم نے بین الاقوامی  نمائندوں  ،  صنعتی دنیا کے ممبروں  اور اجلاس میں آئے دیگر مندوبین   سے کہا کہ فی شخص   کاربن  اخراج کم رہنے کے باوجود ہندو ستان   موسمیاتی تبدیلی کے خلاف لڑائی میں تعاون کے معاملے میں فیصلہ کن قدم اٹھارہا ہے ۔  انہوں  نے کہا ‘‘  ہمارا ،فی شخص  اخراج  دنیا میں سب سے کم  کاربن اخراج  والے ممالک میں سے ایک ہے ۔ یہ عالمی اوسط  کا  ایک تہائی ہی ہے ۔ وہیں ترقی پذیر  ممالک میں  فی شخص  اخراج  عالمی اوسط کے مقابلے  تقریباََ تین سے چار گنا تک ہے ۔اس کے باوجود  وزیر اعظم کی قیادت میں  ہماری حکومت نے  واضح رخ اپناتے ہوئے کہا ہے کہ  ہمیں موسمیاتی تبدیلی  کے خلاف لڑائی میں  تعاون کرنے کی ضرورت ہے ۔ ’’

مستقبل کے منصوبے کے بارے میں وزیر محترم نے کہا کہ ہندوستان کو  مکمل یقین ہے کہ اس نے  2030 کے لئے جو  ہدف  طے  کیا ہے وہ اس سے آگے نکلے گا۔انہوں نے کہا  ‘‘ آج  ہماری  غیر – حیاتیاتی ایندھن صلاحیت  تقریباََ  186 گیگاواٹ  ہے ،جس میں سے تقریباََ 179 گیگاواٹ قابل تجدید توانائی  باقی  نیو  کلیائی  سال 2030 تک 500 گیگاواٹ  قابل تجدید توانائی صلاحیت تک  پہنچنے کے لئے ہم نے ہرسال  50  گیگاواٹ  قابل تجدید توانائی صلاحیت جوڑنے کا منصوبہ  بنارکھا ہے ۔ ہم  نے  گلاسگو   میں  یہ  یقین دلایاتھا کہ 2030 تک  ہماری قائم شدہ صلاحیت  کا 50 فیصد غیر –حیاتیاتی  ایندھن سے دستیاب ہوگی۔ ہمیں  پورا یقین ہے کہ ہم تب تک  65 فیصد حاصل کرلیں گے۔ ہم اپنی  اخراجی رفتار کو بھی  2030 تک  ہمارے  طے شدہ ہدف  45  فیصد سے بھی  زیادہ  کم کرنے میں   کامیاب ہوں گے۔’’

‘‘ہندوستان میں تقریباََ  58 لاکھ ٹن  سبز  ایمونیا مینوفیکچرنگ  صلاحیت  تیار ہورہی ہے ’’

وزیر محترم نے بتایا کہ سبز ایمونیا کی تقریبا ََ  58 لاکھ ٹن کی پیداواری صلاحیت   ہندوستان کے مختلف  حصوں  میں تیار ہورہی ہے ۔ انہوں نے کہا ‘‘ ہم اپنی معیشت کو  کاربن سے پاک  بنانے کی سمت میں  مسلسل کوششیں کرتے رہیں گے۔ یہ صرف  قابل تجدید توانائی کے سیکٹر میں  ہی نہیں  بلکہ  سبز ہائڈ روجن  اور  سبز ایمونیا جیسی  دیگر ٹکنالوجی کے   سیکٹر  میں بھی ہوگی ۔ ہم دنیا میں  سبز ہائڈ روجن اورسبز ایمونیا نے سب سے بڑے مینوفیکچرر میں سے ایک بننے کی راہ  پر آگے بڑھ رہے ہیں ۔ آخری بار جب میں نے دیکھا تب ملک کے مختلف  حصوںمیں ہمارے  پاس سبز ایمونیا کی  58  لاکھ  ٹن  مینوفیکچرنگ صلاحیت  پر کام ہورہا تھا ۔ یہ محض  آغاز  ہے۔ ہم  مختلف شعبوں میں جلد ہی  یہ  طے کرنے والے کہ خواہ  فرٹیلائزر ہو ،  ریفائننگ ہو  یا  کوئی دیگر سیکٹر  ، جہاں  نامیاتی ایندھن کی ضرورت  پڑتی ہے ، وہاں   وہ سبز  ہائڈروجن اور  سبز  ایمونیا کا استعمال شروع کریں ۔ ’’

نئی اور قابل تجدید توانائی کے سکریٹری جناب بھوپیندر سنگھ بھلہ ، بین الاقوامی سولر توانائی سوسائٹی کے سربراہ  ڈاکٹر  دوے  ریننے ، ایشیائی ترقیاتی بینک میں  جنوبی ایشیائی  شعبے کے  ڈائریکٹر جنرل  جناب  کینچی   یوکو یاما  ،  اور آئی ایس اے  کے ڈائریکٹر جنرل  ڈاکٹر اجے ماتھر  نے  بھی اجلاس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کیا۔

سیشن کو یہاں دیکھاجاسکتا ہے ۔

سیشن کے دوران  ‘‘ گلوبل سولر رپورٹ  آن ٹکنالوجی  ،  انویسٹمنٹ اینڈ مارکیٹس – دوسرا ایڈیشن   اور  سبز  ہائڈروجن ایکوسسٹم   کی ترقی   اور فروغ  کا روڈ میپ-  آئی ایس اے  اے ڈی بی  این ای ڈی او   رپورٹ  ’’ کو بھی  جاری کیا گیا۔

شفاف توانائی تبدیلی کے لئے  جدید ٹکنالوجی  پر منعقد  اس اعلیٰ سطح  اجلاس کا  سب سے اہم ہدف  یہی ہے کہ جو   بات چیت ہوئی ہے ،اسے حقیقت میں تبدیل کیا جائے ۔  اجلاس میں آئی ایس اے ممبر ممالک کے   وزارتی سطحی وفد  ،  پالیسی ساز  ،  ماہرین  اور صنعتی دنیا کے  سربراہ حصہ لے رہے ہیں۔ اجلاس کا مقصد  باہمی تعاون  ،  جدید تحقیق  اور معلومات کو ساجھا کرکے  دنیا میں  حقیقی تبدیلی لانا  اور موسمیاتی تبدیلی  کے معاملے  میں  طے شدہ بین الاقوامی اہداف کو حاصل کرنے کی سمت میں اہم  پہل کرنا ہے۔ اس میں  سولر توانائی کو پسندیدہ توانائی بنانا،  کاربن اخراج  کو کم کرنا،  توانائی  کی رسائی میں توسیع اور  اس عمل میں  آگے بڑھتے ہوئے اقتصادی اضافے کو  مضبوطی فراہم کرنا ہے۔

********

 

  ش ح۔ج ق ۔رم

U-796     



(Release ID: 1975550) Visitor Counter : 54


Read this release in: English , Hindi , Punjabi