نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

نئی دہلی میں منعقد چانکیہ ڈیفنس ڈائیلاگ میں عزت مآب نائب صدر جمہوریہ کے خطاب کا متن

Posted On: 03 NOV 2023 1:02PM by PIB Delhi

صبح بخیر! آپ سب کو میرا آداب۔

جنرل منوج پانڈے، چیف آف آرمی اسٹاف، ایڈمرل آر ہری کمار، چیف آف دی نیول اسٹاف، وائس چیف آف ایئر اسٹاف، ایئر مارشل اے پی سنگھ، لیفٹیننٹ جنرل پی ایس راجیشور (ریٹائرڈ) ڈائریکٹر جنرل، سینٹر فار لینڈ وارفیئر اسٹڈیز (سی ایل اے ڈبلیو ایس)،وائس چیف آف  آرمی اسٹاف، لیفٹیننٹ جنرل ایم وی سچندرا کمار،  سفیر، ہائی کمشنرز، ایکسیلنسیز، جنرل وی این شرما، سابق چیف آف آرمی اسٹاف، ایڈمرل ایس لامبا، سابق چیف آف نیول اسٹاف، بھارت اور بیرون ملک کے معزز مندوبین اور مہمانان، دفاعی خدمات کے افسران، تھنک ٹینک اور وسیع تر اسٹریٹجک کمیونٹی، میڈیا کے اراکین، دوستو، خواتین و حضرات۔

چانکیہ ڈیفنس ڈائیلاگ، یہ افتتاحی پرچم بردار تقریب، جس کا تصور ہندوستانی فوج نے کیا تھا، بین الاقوامی معاملات میں اس سے زیادہ نازک لمحے پر منعقدنہیں ہو سکتا تھا۔ میں ہندوستانی فوج کے اس اہم قدم کی بھرپور ستائش کرتا ہوں۔

یہ ایک نتیجہ خیز پلیٹ فارم کا متحمل ہو گا جہاں دفاع، حکمت عملی اور باہمی شراکت داری جنوبی ایشیا اور ہند-بحرالکاہل کے متحرک منظر نامے میں ایک محفوظ، مستحکم اور خوشحال مستقبل کی تشکیل کے لیے یکجا ہو گی۔

یہ اختراعی قدم سیکورٹی کے اہم معاملات پر بصیرت کے تبادلے اور بات چیت کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم کے طور پر کام کرے گا، جس سے قوم کی اسٹریٹجک بیداری میں مزید اضافہ ہو گا اور متوقع طور پر پیچیدہ مسائل کے حل کو متحرک کیا جائے گا۔

دو روزہ دفاعی مکالمہ جس میں چھ فکر انگیز اجلاس ہوں گے، یقیناً علاقائی اور عالمی سلامتی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرےگا اور حالات سے نمٹنے کے لیے ایک روڈ میپ تیار کرےگا۔

اس خطے میں سلامتی کے اقدامات کے لیے ایک حکمت عملی کے ارتقاء پر توجہ مرکوز کی جائے گی تاکہ اس خطے کی اقوام میں پہلے سے تیار، مضبوط ، اور متعلقہ اسٹیک ہولڈر کے طور پر ہندوستان کی پوزیشن کو مضبوط کیا جا سکے۔

جب دنیا  ایک خطرناک صورتحال سے دوچار ہے، ایسے وقت میں عالمی سلامتی اور امن کو درپیش عصری چیلنجوں کا تجزیہ کرنے کے لیے ایک خیال آرائی کے فورم کا تصور، واقعی سوچا سمجھا اور بروقت قدم ہے۔

اس  پروگرام کو منعقد کرنے کے لئے میں انڈین آرمی، چیف آف آرمی اسٹاف اور فوجی قیادت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

دوستو، یہ پلیٹ فارم جنوبی ایشیا اور ہند-بحرالکاہل میں سیکورٹی چیلنجوں کی پیچیدگیوں کا باریک بینی سے تجزیہ کرنے اور خطے کے اندر اجتماعی سلامتی کے لیے آگے بڑھنے کے لیے ایک راستہ طے کرنے کے لیے موزوں ہے۔

اصل میں، ہندوستان تاریخی طور پر امن کی سرزمین رہا ہے اور اب بھی ہے، ایک ایسا اہم عالمی کھلاڑی، جس کی سب سے بڑی آرزو ایک محفوظ اور پرامن ماحول کی تشکیل ہے تاکہ ہمارے لوگ ترقی کریں، ہماری قوم ترقی کرے اور اس طرح انسانیت کو فائدہ پہنچے۔

’وسودھیو کٹمبکم‘ –  جو کہ ہمارے اپنشدوں کا نچوڑ ہے -  ’ ایک کرہ ارض ،  ایک خاندان، ایک مستقبل‘  کا تصور، ہمارے طرز زندگی کے ساتھ ساتھ ہمارے عالمی نقطہ نظر کا بھی  محور ہے۔

صلح، سلامتی اور امن ہماری تمام کوششوں میں صدیوں سے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔

یہ جذبہ  ہماری سالہا سال کی اثرانگیز ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے جی-20  کی قیادت کے طور پرنمودار ہوا ، اسے ایک تاریخی کامیابی بنا کر، اتفاق رائے سے تیار کردہ دہلی اعلامیہ میں تبدیل ہوا۔

دوستو، رائسینا ڈائیلاگ، ایک کثیرالجہتی سالانہ کانفرنس، جو عالمی برادری کو درپیش سب سے مشکل مسائل کو حل کرنے کے لیے پرعزم ہے، گزشتہ برسوں کے دوران جغرافیائی سیاست، جیو اسٹریٹجی، جیو ٹیکنالوجی اور جیو اکنامکس پر توجہ مرکوز کرنے کا مرکز بن گیا ہے۔

رائسینا ڈائیلاگ 2023 کا تھیم ’’اشتعال انگیزی، غیر یقینی صورتحال، ہنگامہ خیزی: طوفان  کے دوران امید کی ایک کرن ‘‘ درحقیقت عصری لحاظ سے کافی اہمیت کا حامل تھا۔ اس کے تحت  دنیا کے فکری رہنما مختلف فارمیٹس کی متعدد گفتگو میں شامل ہوئے۔

ممکنہ طور پر ایک اور اہم واقعہ ستمبر 2023 میں پیش آیا،  جب ہند-بحر الکاہل فوجی سربراہوں کی کانفرنس کی میزبانی پہلی بار ہندوستانی فوج نے کی۔ یہیں جنرل منوج نے  کہا کہ ’’ہند-بحرالکاہل خطہ محض قوموں کا مجموعہ نہیں ہے، بلکہ ایک دوسرے پر انحصار کا نیک ورک ہے۔‘‘

یہ برازیل، ٹونگا، برطانیہ، سعودی عرب، تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور امریکہ جیسے جغرافیائی لحاظ سے متنوع ممالک کے 17 فوجی سربراہان  اور 12 سربراہان وفود کا عالمی اجتماع تھا۔

اس تناظر میں چانکیہ ڈیفنس ڈائیلاگ، یقینی طور پر ایک بصیرت انگیز عالمی پلیٹ فارم کے طور پر ابھر کر اس دائرے کو مکمل کرے گا جو نہ صرف قومی سلامتی میں ابھرتے ہوئے رجحانات کی نشاندہی کرتا ہے، بلکہ ایسے حل تلاش کرنے کا بھی مظاہرہ کرتا ہے جنہیں اپنایا جاسکے۔

یہ اطمینان کی بات ہے کہ نئی دہلی گہرے، سوچے سمجھے،منصوبہ بند، جامع نظریے کے ساتھ  ایک عالمی مرکز کے طور پر سامنے آ رہا ہے جو دنیا کے دور دراز کونوں سے متنوع نقطہ نظر سے بھراہواہے۔ ایک لحاظ سے یہ عالمی معاملات میں ہندوستان کے کردار کی نشاندہی کرتا ہے۔

وہ پلیٹ فارمز جن کا میں نے اشارہ کیا ہے کہ انہوں نے جی-7 سے گلوبل ساؤتھ تک نقطہ نظر کی آواز کو قابل بنایا ہے جبکہ ہمارے دور کے کچھ انتہائی پریشان کن مسائل - موسمیاتی تبدیلی سے لے کر سبز توانائی ، ڈیجیٹل تقسیم، اقتدار کی  تیزرفتارمنتقلی، اقتصادی جبر، قرض کے آلات، اہم اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز، کنیکٹوٹی اور انفراسٹرکچر تک سے نمٹنے  کے لیے نیٹ ورکس اور راستے فراہم کیے ہیں ۔

وقت کے ساتھ ساتھ، یہ فورمز غیر ملکی/اسٹریٹیجک پالیسی اور قومی سلامتی میں نئے خیالات، پروجیکٹس اور دنیا کے بہترین طور طریقوں کی تلاش کے لیے لیبارٹریز/ہب کے طور پر ابھرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

خواتین و حضرات، ہندوستان امتیازی طور پر ہزاروں سال کی تہذیبی اقدار سے  مالامال  ہے۔

جہاں دنیا ہندوستان کو عظیم روحانی مفکرین کی سرزمین کے طور پر تسلیم کرتی ہے، وہیں یہ کچھ بہترین حکمت عملی کے ذہنوں اور سخت حقیقت پسندوں کی ’کرم بھومی‘ بھی رہا ہے۔

آچاریہ چانکیہ، جن کے نام پر اس مکالمے کا نام رکھا گیا ہے، ایسے ہی ایک تصوراتی حکمت عملی کے مفکر اور حکمرانی کے ماہر تھے ، جو اپنے مشاہدات اور مشورے میں ہمیشہ مستحکم رہتے تھے۔

ان کے اس نظریہ :

’’ہتھیار نہیں اٹھاؤگے تو اپنا ملک کھودو گے

اورتاریخ نہیں پڑھوگے تو اپنی ثقافت کو کھو دوگے۔‘‘

کی آج بھی اتنی ہی معنویت ہے۔

اسی طرح ، ایک اور شاندار ہندوستانی ذہن اور عالمی آئیکن سوامی وویکانند نے کہا تھا کہ’’دنیا ایک جمنازیم ہے  جہاں قومیں خود کو مضبوط بنانے کے لیے آتی ہیں،‘‘  یعنی بین الاقوامی نظام میں طاقت کی کافی اہمیت ہے۔ انہوں نے ہر متعلقہ چیزپراظہارخیال کیا تھا۔ ان کے کہنے کا یہ  مطلب  تھا کہ طاقت اہمیت رکھتی ہے اور اپنی افادیت کو برقرار رکھنے اور ایک مناسب عالمی ترتیب کو محفوظ رکھنے کے لیے آپ کے پاس  طاقت کا ہونا ضروری ہے۔

کسی قوم کی طاقت اس کے لئے دفاع اور روک تھام کا  سب  مؤثر ذریعہ ہے۔ ملک کی سافٹ پاور  اور معاشی طاقت کا فائدہ اٹھانا سلامتی کے ماحول کو مضبوط بنانے کے پہلو بن گئے ہیں۔

آج کا ہندوستان ’وسودھیو کٹمبکم‘ کے اصول کی پاسداری اور اس پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ ایسی اعلیٰ آرزوؤں کو مضبوطی سے حاصل کرنے کے لیے بھی پرعزم  ہے۔

ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی نے ’’یہ جنگ کا نہیں بلکہ بات چیت اور سفارت کاری کا دور ہے‘‘ کی عکاسی کرتے ہوئے صحت مند عالمی نظام کی تعریف کی۔ یہ پہلو ہماری تہذیب کا نچوڑ اور ہندوستان کی حیثیت کا امرت ہے۔ انہوں نے ان جذبات کوبھارت(جہاں عالمی آبادی کا چھٹواں حصہ رہتا ہے) سے بہت آگے  پہنچانے کی کوشش کی ہے۔

دوستو، بھارت کا ایک سرکردہ عالمی معیشت کے طور پر ابھرنا اور اس کی غیر معمولی ترقی عالمی امن اور ہم آہنگی کے لیے ایک مستحکم عنصر ہے۔

امن ایک آپشن نہیں ہے۔ یہ واحد راستہ ہے۔ اسے روکنے کی کوشش  انسانی مصائب اور عالمی چیلنجوں کا باعث بنتی ہے۔ ہر قیمت پر امن تلاش کرنے کی ضرورت ہے – خیال آرائی ، وکالت، رابطہ ،  لوگوں کوقائل کرنےاور مکالمے کے ذریعے - اور طاقت کے ذریعے بھی، جو انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔

ایسے حالات میں اس طرح کے عالمی نقطہ نظر کی حکمت کو حالیہ دنوں میں عالمی واقعات کے تشویشناک موڑ سے تقویت ملتی ہے – خاص طور پر، بڑھتے ہوئے تنازعات  اور  ڈیٹرنس کی ناکامی کی وجہ سے، پہلے یوکرین میں اور اب مغربی ایشیا میں۔ یہ تشویشناک ہے کہ عالمگیریت اور معاشی باہمی انحصار تنازعات کو روکنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔

جس مہارت اور چالاکی سے قومیں معاشی سرپلس کو ہارڈ پاور کی کرنسیوں میں تبدیل کرتی ہیں وہ اتنی ہی نمایاں ہوتی جا رہی ہیں۔ اس لیے بین الاقوامی نظام کے مابعدالطبیعات پر نظر ثانی کرنے اور اس بات پر بحث کرنے کی ایک ساتھ ضرورت ہے کہ ہم ممکنہ طور پر ڈٹرنس کو کیسے مضبوط کر سکتے ہیں اور افراتفری پر قابو پانے اور  اسےحل کرنے کے لیے تخیلاتی طریقوں سے سفارت کاری کو دوبارہ متحرک کر سکتے ہیں۔ روایتی میکانزم تقریباً منہدم ہو چکے ہیں، وہ ان ہنگاموں کے مضر اثرات کو بے اثر نہیں کر سکے ہیں۔

اس موقع پر اس فورم کا آغاز ایک اہم قدم ہے کیونکہ یہ قومی سلامتی کے مختلف پہلوؤں کی گہرائی میں جائے گا، اور ان مسائل سے نمٹنے کے  طور طریقے ہمارے سامنے پیش کرے گا ۔

ڈومین کی دو جہتیں سب سے خاص ہیں اور ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پہلا وسیع ہوتا ہوا دائرہ ہے اور ہم نے دیکھا ہے کہ یہ روز بروز بڑھ رہا ہے، دوسرا اس کی بڑھتی ہوئی پیچیدگی اور نفاست ہے۔

قومی سلامتی آج ماضی کے برعکس متعدد صفات اور صلاحیتوں کا مجموعہ ہے - فوج  تواس کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ درحقیقت یہ  ماضی  کی بنسبت ایک بڑی تبدیلی ہے ۔ میں ایک بڑے پیمانے پر تبدیلی کہنے کی حد تک جاؤں گا، جہاں ہمیں موجودہ ماحول میں فٹ ہونے والے حل کو تلاش کرنے پر پوری توجہ دینی ہوگی۔

اقتصادی طاقت، سفارت کاری، جدید فوجی  وصنعتی  ایکوسسٹم ، صنعتی ماحولیاتی نظام ،ایک لچکدار سپلائی چین، فن تعمیر، اہم مواد، نایاب زمین، سائنسی صلاحیت، نظریاتی قوت، مضبوط تحقیق و ترقی کی بنیاد، صلاحیت سازی  اور جنگ دونوں میں نجی شعبے کی اہلیت؛ ایک مضبوط طاقت بننے کے لئے ان تمام چیزوں کا ایک ساتھ آنا ضروری ہے۔

باہمی تعاون پر مبنی سیکورٹی اور اختراعی شراکت داری آگے بڑھنے کا راستہ معلوم ہوتی ہے، اور شاید یہ واحد راستہ نظر آتا ہے۔

ابھرتی ہوئی گہری ٹیکنالوجیز جیسے مصنوعی ذہانت، روبوٹکس، کوانٹم ، سیمی کنڈکٹر اور بائیوٹیک جن پربھارت پوری توجہ مرکوز کررہا ہے، ڈرون اور ہائپرسونکس نہ صرف جنگ کے کردارکی نئی تشریح کررہے ہیں ، بلکہ ان ڈومینز کی ترقی اور مہارت اس بات کا تعین کرے گی کہ مستقبل میں   ان اسٹریٹجک صلاحیتوں میں سے  کس کا انتخاب کیا جائے،کس کا نہیں ۔

اس طرح کی تبدیلیوں اور چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں خلاء، سائبر اور برقی مقناطیسی کے میدان میں صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔ یہ زمین، سمندر اور ہوا کے روایتی ڈومینز کی تکمیل کر رہے ہیں جیسا کہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ حل تلاش کرنے کے لیے ذہنیت میں تبدیلی لانا ہو گی، باریک بینی سے  تجزیہ کرنا ہو گا اور اس کے بعد مختلف نقطہ نظر کو یکجا کرنا ہو گا۔

ساختی اصلاحات کے ساتھ اس طرح کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے، ہمیں مسلسل ثقافتی تبدیلیوں کی  ضرورت ہے۔  صلاحیتوں کا نیا مجموعہ اور سول ملٹری تال میل نئے منترمحسوس ہوتے ہیں۔

لامحالہ ان میں سے کچھ امور پر توجہ مرکوز کی جائے گی اور ان کی حتمی باریکیوں کو نمایاں کیا جائے گا۔ مجھے کوئی شک نہیں، مجھے امید ہے، امید اور یقین ہے کہ یہ مکالمہ اس شخص کے ساتھ بڑا انصاف کرے گا جس  پر اس  کا نام  رکھا  گیا ہے۔ بات چیت میں چانکیہ کے فلسفے کی حکمت عملی اور ان  کی مہارت کی سطح تک پہنچنے کی کوشش کی جائے گی۔

  چانکیہ ڈیفنس ڈائیلاگ شروع کرنے کے لیے ایک اچھی جگہ ہو سکتی ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ ایک مناسب فورم شروعات کرنے کے لیے ایک مناسب جگہ ہے جو انسانی ذہنوں کو وسیع تر عالمی فلاح و بہبود کے لیے حکمت عملی کے بارے میں سوچنے کے لیے متحرک کرے گی۔   چانکیہ دفاعی مذاکرہ کو ایک باقاعدہ پروگرام بنانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے جس کی صدارت ہندوستانی فوج آئندہ برسوں میں کرے گی، یہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ میں چیف آف آرمی سٹاف اور ان کی ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے بہت مناسب وقت پر اس کا اہتمام کیا۔

دوستو، برسوں سےہمیں یہی بتایا گیا ہے کہ  طاقت کے ذریعہ  امن کی اچھی طرح سے حفاظت کی جاسکتی ہے جس کی عکاسی وویکانند نے کی۔ یہی اس کا نچوڑ ہے جو چانکیہ نے پوری طرح بیان کیا ہے۔

جنگ کے لیے تیار رہنا ہی امن کا راستہ ہے، بھارت کی ابھرتی ہوئی معاشی طاقت ہے اور اس نے سافٹ سفارت کاری کو آگے بڑھایا ہے۔ اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ حالیہ دنوں میں بھارت کی سافٹ سفارتی طاقت کا اتنا اعلان کیا گیا ہے کہ یہ دنیا کے استحکام کا ایک حقیقی عنصر بن گیا ہے، جسے آپ سب نے ضرور محسوس کیا ہوگا، اور مجھے یقین ہے کہ آپ کے ایک اجلاس میں اس کا ذکر ہوا ہوگا۔ آپ کو اس پر اپنی توجہ دلانے کا موقع ملے گا۔

بھارت کی غیر معمولی ترقی  ، تکنیکی عروج، عالمی سطح کی کامیابیاں اس وقت کی معاشی ترقی جو چند دہائیاں قبل خواب اور غور و فکر سے بالاتر تھی۔ جب میں 1989 میں پارلیمنٹ میں تھا۔ بطور وزیر جب میں نے منظرنامے تیارکیے۔ میں جانتا ہوں کہ میری خواب دیکھنے کی صلاحیت اس حد تک نہیں تھی، جیسا کہ میں خواب دیکھنے کے لیے جسے میں زمینی حقیقت کے طور پر دیکھتا ہوں۔ اس سے ملک کو بڑے پیمانے پر مدد ملے گی۔ یہ خطے میں امن واستحکام کے لیے مفید ثابت ہوگا۔

دوستو میں منتظمین کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے یہاں موجود لوگوں کے ساتھ کچھ خیالات شیئر کرنے کا موقع فراہم کیا۔ آپ میں سے ہر ایک فکری عمل کا مرکز، اعصابی مرکز ہے جو دنیا کی وسیع تر فلاح و بہبود کے لیے بڑے پیمانے پر کردار ادا کر سکتا ہے تاکہ انسانی معاشرے کو متاثر کرنے والے فسادات کا حل تلاش کیا جا سکے۔ آگے بالکل اندھیرا ہے اور ہمیں سرنگ کے آخر میں کچھ روشنی تلاش کرنی ہے۔ ابھی دو مسائل کے لیے جن پر غور کیا گیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ سرنگ لامتناہی ہے۔ یہ صرف اس قسم کے پلیٹ فارم ہیں جہاں خیالات کا تبادلہ خیال ہوگا۔ آپ میز پر مختلف ٹیکنالوجیز، سوچنے کے عمل، اور جن کی ہمیں امید ہے، ایک حل کی ضرورت ہے تاکہ یہ سیارہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بطور امانت کچھ شکل میں دے سکیں۔ مجھے پوری امید ہے کہ مذاکرات نہ صرف نتیجہ خیز ہوں گے بلکہ  یہ ہماری آگے کی راہ کو بھی ہموار کریں گے۔ وہ آؤٹ ریچ کی نوعیت کے ہوں گے۔ جو ڈرائیور کی سیٹ پر ہیں۔ جو لوگ پالیسیاں بناتے ہیں اور بیداری پیدا کرتے ہیں، اس مسئلے سے نمٹنے کی فوری ضرورت ہے۔

شکریہ ۔جئے ہند!

*****

ش ح – ق ت – م ص

U: 639


(Release ID: 1974481) Visitor Counter : 137


Read this release in: English , Hindi , Manipuri