وزارت ماہی پروری، مویشی پروری و ڈیری
ماہی پروری، مویشی پروری اور ڈیری کے مرکزی وزیر جناب پرشوتم روپالا نے آج مہابلی پورم میں ’بین الاقوامی ماہی گیری کے نظم و نسق میں موسمیاتی تبدیلی کو مرکزی دھارے میں لانے اور ہند بحر الکاہل خطے میں ماہی پروری کے انتظام کے اقدامات کو مضبوط بنانے‘ پر منعقد بین الاقوامی کانفرنس کا افتتاح کیا
کنکلیو کا مقصد موسمیاتی لچکدار ماہی گیری کے انتظام کے لیے رہنما خطوط تیار کرنا اور بین الاقوامی ماہی گیری کے نظم و نسق میں موسمیاتی تبدیلی کے انضمام سے متعلق حکمت عملی وضع کرنا ہے
جناب روپالا نے ماہی پروری اور آبی زراعت کے شعبے میں آب و ہوا کے بحران سے نمٹنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے مناسب جگہ اور مشترکہ عالمی کارروائی پر زور دیا
प्रविष्टि तिथि:
17 OCT 2023 4:37PM by PIB Delhi
ماہی پروری، مویشی پروری اور ڈیری کے مرکزی وزیر جناب پرشوتم روپالا نے آج ’ہند بحرالکاہل خطے میں ماہی پروری کے انتظام سے متعلق اقدامات کو مضبوط بنانے اور بین الاقوامی ماہی گیری کی حکمرانی میں موسمیاتی تبدیلی کو مرکزی دھارے میں لانے پر بین الاقوامی کانفرنس‘ کا افتتاح کیا۔ کنکلیو کا اہتمام اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) نے ماہی پروری، مویشی پروری اور ڈیری کی حکومت ہند کی وزارت کے محکمہ ماہی پروری اور خلیج بنگال پروگرام کی بین حکومتی تنظیم (بی او بی پی- آئی جی او) کے تعاون سے چنئی کے مہابلی پورم میں 17 سے19 اکتوبر 2023 کے دوران کیا جارہا ہے جس کا مقصد موسمیاتی لچکدار ماہی گیری کے انتظام کے لیے رہنما خطوط تیار کرنا اور بین الاقوامی ماہی گیری کے نظم و نسق میں ماحولیاتی تبدیلی کے انضمام سے متعلق حکمت عملی تیار کرنا ہے۔ افتتاح کے موقع پر محکمہ ماہی پروری کے سکریٹری ڈاکٹر ابھی لکش لکھی اور محکمہ ماہی پروری کی جوائنٹ سکریٹری محترمہ نیتو پرساد بھی موجود تھیں۔

پروگرام کے افتتاح کا اعلان کرتے ہوئے مرکزی وزیر جناب پرشوتم روپالا نے کہا کہ اس پروگرام میں موسمیاتی تبدیلی، ماہی گیری پر اس کے اثرات، ماہی پروری پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے حوالے سے حکومتوں اور علاقائی ماہی گیری اداروں کی تیاریوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ جناب روپالا نے مشترکہ ذمہ داریوں اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے مناسب جگہ اور ماہی گیری اور آبی زراعت کے شعبے میں آب و ہوا کے بحران سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون کے ساتھ عالمی کارروائی کے لیے تیاریوں پر زور دیا۔ انہوں نے بحر ہند اور بحرالکاہل کے مشترکہ مواقع اور مشترکہ چیلنجوں کے لیے اسٹریٹجک باہمی رابطے پر بھی زور دیا اور چیلنجوں، خطرات کا مقابلہ کرنے اور مسائل کو مل کر حل کرنے کی ذمہ داری پر زور دیا تاکہ اس خطہ کو تمام زندگیوں کے لیے موزوں مسکن بنایا جا سکے۔

موسمیاتی تبدیلی اور ماہی گیری پر اس کے اثرات پر توجہ مرکوز کرنے والی اس اہم ورکشاپ کو مشترکہ طور پر منعقد کرنے پر ایف اے او کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جناب روپالا نے کہا کہ ورکشاپ کے نتائج ہند بحرالکاہل کے علاقے کی ماہی گیر برادریوں کے لیے مخالفین سے نمٹنے اور اس کے اثرات کو کم کرنے کے قابل ہوں گے۔ ماہی گیری کے شعبے کے لیے مختلف اسکیموں اور پروگراموں کے ذریعے گزشتہ 9 سالوں میں حکومت ہند کی کوششوں پر زور دیتے ہوئے مرکزی وزیر جناب روپالا نے کثیر الجہتی حکمت عملیوں اور مچھلی کی پیداوار، ماہی گیروں اور مچھلی کاشتکاروں کی فلاح و بہبود ، ٹیکنالوجی کا انفیوژن، بنیادی ڈھانچے کی مضبوطی اور جدید کاری، گھریلو کھپت اور برآمدات میں اضافہ، کاروبار اور روزگار میں اضافہ وغیرہ کو بنیادی طور پر مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کی مختلف مداخلتوں کے ذریعے تبدیلیوں/اصلاحات کے بارے میں بتایا۔

چیلنجوں کے درمیان اس شعبے کو فروغ دینے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے، جناب روپالا نے کہا کہ مرکزی حکومت نے گزشتہ 9 سالوں میں مچھلی کی پیداوار اور پیداواری صلاحیت، ٹیکنالوجی کے استعمال، بنیادی ڈھانچے کی جدید کاری، ترقی کے شعبوں میں تبدیلیاں اور اصلاحات کی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مرکزی حکومت تمل ناڈو میں 1.27 بلین روپے کی لاگت سے ایک ملٹی پرپز سی ویڈ پارک (انٹیگریٹڈ ایکواپارک) قائم کر رہی ہے۔ مرکزی وزیر نے مزید کہا، ’’2015 سے، ساحلی ریاستوں میں فشنگ ہاربرز اور فش لینڈنگ سینٹرز کے 107 پروجیکٹوں کو جدید بنانے پر توجہ دی گئی ہے۔‘‘
جناب پرشوتم روپالا نے یہ بھی کہا کہ ماہی پروری کا شعبہ ہندوستان کی معیشت میں کافی اہم رول ادا کرتا ہے اور بنیادی سطح پر 2.8 کروڑ سے زیادہ ماہی گیروں اور مچھلی کاشتکاروں کو روزی روٹی فراہم کرتا ہے۔ وزیرموصوف نے مزید کہا،’’گزشتہ نو سالوں میں سمندری غذا کی برآمدات 23-2022 میں 63,969 کروڑ روپے( 8.09 بلین امریکی ڈالر) کی ریکارڈ برآمدات کے ساتھ دوگنی سے زیادہ ہو گئی ہیں۔ جھینگوں کی برآمدات بھی پچھلے نو سالوں میں دوگنی سے زیادہ ہو گئی ہیں، جو 23-2022 میں 43,135 کروڑ روپے (5.48 بلین امریکی ڈالر) تک پہنچ گئی ہیں۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’مختلف اسکیموں کے تحت، پچھلے نو سالوں میں 61.9 لاکھ روزگار اور روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ ماہی گیری پر پابندی اور کمزور مدت کے دوران تقریباً 6 لاکھ ماہی گیر خاندانوں کو سالانہ روزی روٹی اور غذائی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ ہر سال اوسطاً 38 لاکھ ماہی گیروں کا گروپ ایکسیڈنٹ انشورنس اسکیم ’’جی اے آئی ایس‘‘ کے تحت بیمہ کیا جاتا ہے۔ مرکزی وزیر جناب روپالا نے تمام شرکاء کو ماہی گیری کے عالمی دن کے موقع پر احمد آباد، گجرات میں 21-22 نومبر، 2023 کے دوران منعقد ہونے والی پہلی عالمی ماہی پروری کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔

ڈاکٹر ابھی لکش لکھی نے حکومت کی اسکیموں کے تحت ماہی گیری کے شعبے میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے ساتھ موافقت اور تخفیف کے لیے، خاص طور پر پردھان منتری متسیا سمپدا یوجنا (پی ایم ایم ایس وائی) کے تحت اٹھائے گئے چند اقدامات کے بارے میں بتایا۔ جن اقدامات کا تذکرہ کیا گیا ہے ان میں سے ایک نیشنل سرویلنس پروگرام برائے آبی جانوروں کی بیماریوں (این ایس پی اے اے ڈی) کا نفاذ تھا جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مچھلیوں کی بیماریوں کا اندازہ لگانے، ماہی گیری کے جہازوں کے آپریشن اور جہاز پر پروسیسنگ کے لیے توانائی کے قابل تجدید ذرائع کے استعمال کو فروغ دینے، سمندری ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کے لیے مشینی ماہی گیری کے جہازوں پر بیت الخلاء یعنی بائیو ڈائجسٹر کی تنصیب میں مدد کرتا ہے۔
حکومت ہند کے محکمہ ماہی پروری کی طرف سے ’سمندری ماہی پروری میں موسمیاتی تبدیلیوں کو اپنانے کے لیے ہندوستان کی تیاری پر سنجیدہ غور و خوض‘ پر ایک متوازی تقریب کا انعقاد بھی کیا جا رہا ہے۔ اجلاس میں مختلف قومی اور بین الاقوامی سائنسی عملے شرکت کر رہے ہیں اور بنیادی طور پر موسمیاتی تبدیلی اور موافقت کی حکمت عملیوں کے حوالے سے ہندوستانی ماہی گیری کی صورتحال اور سمندری ماہی گیری میں موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ موافقت کے لیے ہندوستان کی تیاری پر توجہ مرکوز کریں گے۔

ہندوستان میں ایف اے او کے نمائندے نے اہم بین الاقوامی ورکشاپ کی میزبانی کے لیے ایف اے ایچ ڈی کی تعریف کی اور رکن ممالک سے ماہی گیری کے شعبے میں معاش، غذائیت اور بہبود کے لیے کام کرتے ہوئے پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی ) کو بنیادی طور پر رکھنے کا مطالبہ کیا کیونکہ یہاں موسمیاتی تبدیلی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایف اے او کے نمائندے نے غذائی تحفظ اور بلیو ٹرانسفارمیشن کے حصول کے لیے اس شعبے میں صنفی شمولیت کی تجویز بھی پیش کی ہے۔
تقریب میں شرکت کرنے والے معززین میں ہندوستان میں خوراک اور زراعت کی تنظیم (ایف اے او) کے نمائندے ڈاکٹر تاکایوکی ہاگیوارا، ایف اے او کے سینئر فشریز آفیسر ڈاکٹر پیرو مانینی اور ریجنل فشریز باڈیز سیکریٹریٹ نیٹ ورک کے چیئر ڈاکٹر ڈیریس کیمبل اور بین الاقوامی محاذ سے ڈائریکٹر بی او بی پی- آئی جی او ڈاکٹر پی کرشنن اور ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل (فشریز) آئی سی اے آر ڈاکٹر جے کے جینا، چیف ایگزیکٹیو، نیشنل فشریز ڈیولپمنٹ بورڈ، ڈاکٹر ایل نرسمہا مورتی اور محکمہ ماہی پروری، حکومت ہند، ریاستی حکومتوں، یونیورسٹیوں، تحقیقی اداروں وغیرہ کے دیگر سینئر افسران شامل تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ش ح۔ق ت۔ ن ا۔
U-10914
(रिलीज़ आईडी: 1968481)
आगंतुक पटल : 128