نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
سپرو ہاؤس، نئی دلی میں انڈین کونسل آف ورلڈ افیئرز (آئی سی ڈبلیو اے) کی تجدید شدہ لائبریری کے افتتاح کے موقع پر نائب صدر کے خطاب کا متن (اقتباسات)
Posted On:
13 SEP 2023 3:37PM by PIB Delhi
آپ سب کو میرا سلام!
جب میں نے آپ میں سے ہر ایک کے تعارف کو دیکھا تو یہ بہت خوش کن، حوصلہ افزا تھا۔ تعارف کو ٹھوس بنیاد کی حمایت حاصل تھی۔ آپ نے ایک ماہر کی حیثیت سے اہم شعبوں میں قدم رکھا ہے۔ مبارک ہو!
مجھے لگتا ہے کہ انڈین کونسل آف ورلڈ افیئرز کی کارکردگی بہت زیادہ ہے، میری توقعات سے کہیں زیادہ، اس نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ مجھے بہت حوصلہ افزا رپورٹس ملی ہیں۔ جس قسم کے مفاہمت نامے آپ نے یونیورسٹیوں کے ساتھ انجام دیئے ہیں۔ میرے سامنے پیش کی گئی پیشکشیں حوصلہ افزا ہیں اور عالمی امور کے بارے میں میرے علم میں اضافہ کرتی ہیں۔ وہ بہت فیصلہ کن ہیں، وہ بہت مکمل، بہت جامع ہیں۔ زیادہ توقعات ہوں گی، زیادہ کام مختص ہوگا۔ اگر آپ ہوم ورک نہیں کرتے ہیں تو کوئی بھی آپ کو اضافی ہوم ورک نہیں دیتا لیکن اگر آپ اپنا ہوم ورک اچھی طرح کرتے ہیں تو مزید ہوم ورک کرنے کے لیے تیار رہیں۔
یہ موقع واقعی ایک سنگ میل ہے۔ میں نے اپنے اردگرد نظر دوڑائی تو اس میں اس شخص کے لیے جو سہولتیں جاننا چاہتے ہیں،ہم آہنگی کی ہر چیز موجود ہے، کوئی دکھاوا نہیں ہے، کوئی اشتعال انگیز بات نہیں ہے۔ علمی ذہنوں کے ساتھ ہم آہنگی میں، ایک اچھا ماحول، کوئی شخص اپنے آپ کے ساتھ مطمئن ہو سکتا ہے، اپنی صلاحیتوں اور امکانات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، کسی نتیجے پر پہنچ سکتا ہے اور اپنے رجحان کی تشکیل کر سکتا ہے۔ یہ 80 سال بعد ہوا ہے، اس کی بہت ضرورت تھی۔ مجھے یقین ہے کہ یہاں کافی آمد و رفت ہوگی ، آمد و رفت اعداد و شمار نہیں ہیں، وہ معجزے نہیں ہیں، ہم آمد و رفت کے دیوانے نہیں ہیں، ہم ان کی آمد و رفت کے دیوانے ہیں جو اہم ہیں، جو معاشرے اور ملک کی بڑی بھلائی میں اپنا تعاون پیش کر سکتے ہیں ۔ اس لیے یہ ادارہ اب ایک مختلف انداز میں کام کر رہا ہے۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ سفیر ٹھاکر اسے ایک اور اعلیٰ سطح پر لے جائیں گے، یہ ہو کر رہے گا۔
انڈین کونسل آف ورلڈ افیئرز کو اب خود کو ایجاد کرنا پڑے گا، آپ دنیا کے ہر شہری کے لیے کھڑکی ہیں اور ملک میں آنے والے ہر باہری کے لیے آپ کھڑکی ہیں۔ ہم انسانیت کا چھٹا حصہ ہیں، لہذا آپ کا کام دوگنا ہے، آپ کو بیرونی دنیا کو آگاہ کرنا ہوگا کہ اس عظیم ملک میں کیا ہو رہا ہے کیونکہ ہندوستان تاریخ کے ایک اہم لمحے میں ہے۔ کچھ چیزیں جو ہو رہی ہیں بیرونی دنیا کے خواب، تخیل اور تصور سے بالاتر ہیں۔ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے کہ یہ ایک ایسے ملک میں ہو سکتا ہے جہاں مذہب، ذات پات، نسل، زبان اور ہر چیز کا تنوع ہے۔
میں آپ کو دو مثالیں دیتا ہوں، میں نے اپنا سیاسی سفر 1989 میں شروع کیا تھا، میں لوک سبھا کے لیے منتخب ہوا تھا اور مرکزی وزیر تھا لیکن پھر میں نے جو دیکھا وہ یہ تھا کہ ہمارے غیر ملکی ذخائر دو ارب سے کم تھے، ہم دو ہفتے سے زیادہ دیکھ بھال نہیں کر سکتے تھے۔ حقیقی شکل میں سونے کو دو بینکوں میں رکھنے کے لیے ہوائی جہاز سے لے جانا پڑتا تھا۔ اور اب بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر 600 ارب سے زیادہ ہیں، جسے سب کو نوٹ کرنا چاہیے۔ یہ ایک کارنامہ ہے۔
فائیو فریجائل : برازیل، ترکی، انڈونیشیا، جنوبی افریقہ اور ہندوستان کے بارے میں آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ صرف ایک دہائی پہلے، ان ممالک کی معیشتوں کو دنیا پر بوجھ سمجھا جاتا تھا۔ ترقی کی ضرورت تھی اور ذرا تصور کریں کہ دس سالوں میں ہم کہاں پہنچے گئے ہیں۔ نازک پانچ سے پانچویں سب سے بڑی عالمی معیشت ہونے تک۔ اس دہائی کے اختتام تک ، ہم تیسری بڑی معیشت بن جائیں گے۔ اب یہ تاثر، اگر یہ آئی سی ڈبلیو اے جیسے مستند ادارہ سے پیدا ہوتا ہے، تو یہ ہمارے ہندوستانی تارکین وطن کو متاثر کرے گا، اس کا اثر عالمی رہنماؤں پر پڑے گا کیونکہ آپ جو کچھ بھی کہتے ہیں اس کے لیے آپ جوابدہ ہیں اور جو کچھ بھی آپ کہتے ہیں وہ قابل دفاع ہے، جو کچھ آپ کہتے ہیں وہ ثبوت ہوتا ہے، یہ صرف اس کا اظہار ہے۔
ان میں سے ایک موضوع ملک میں ڈیجیٹل ڈیولپمنٹ ہے، دنیا اس ملک میں ٹیکنالوجی کی رسائی پر حیران ہے۔ سرکاری سہولیات کے لیے درخواست دینے کے لیے، پاسپورٹ کے لیے درخواست دینے کے لیے ہر ایک کو سروس چارجز ادا کرنے پڑتے تھے۔ لمبی لمبی قطاریں لگتی تھیں، آپ اپنے بڑوں سے پوچھ لیں، انہیں پانی کا بل، بجلی کا بل جمع کرانے کے لیے دفتر سے آدھے دن کی چھٹی لینی پڑتی تھی، اب یہ بڑی تبدیلی آگئی ہے لیکن دنیا کو یہ بتانے کا مستند پلیٹ فارم آپ ہیں کہ عالمی افق پر ہماری کامیابی دنیا کا 46 فیصد ہے۔ ہم امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں ہونے والے ڈیجیٹل لین دین میں چار گنا ہیں، اگر آپ کہتے ہیں اور کوئی سنجیدگی سے تحقیق کرتا ہے اور مائیکرو لیول پر جاتا ہے تو یہ اہمیت رکھتا ہے۔
جب موبائل فون، کمپیوٹر کے استعمال کی بات آتی ہے تو قابل اطلاق اور مہارت کی طرف آتے ہیں۔ ہمارے ملک میں فی کس ڈیٹا کی کھپت امریکہ اور چین دونوں ایک ساتھ سے زیادہ ہے۔ آپ کو دنیا کو مدنظر رکھنا ہے، آپ کو جھوٹے بیانیے کو بے اثر کرنا ہے۔ جب وہ ہندوستان میں خوراک کی کمی کی بات کرتے ہیں تو آپ کو دنیا کو بتانا ہے کہ یکم اپریل 2020 سے 800 ملین سے زیادہ لوگوں کو مفت چاول، گندم اور دالیں مل رہی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ دنیا میں کوئی بھی اس کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔
آپ کو ہندوستان کے بارے میں ایسا تاثر پیدا کرنا ہوگا جو آج کی زمینی حقیقت سے ہم آہنگ ہے۔کووڈ ٹیکہ کاری کے 2200 ملین سرٹیفکیٹ ڈیجیٹل ہیں۔ باقی تمام ممالک میں وہ کاغذ پر ہیں۔ ذرا سوچئے، کیا کمال ہے، کیا کارنامہ ہے!
آپ کو ایک ایسا طریقہ کار بنانا ہوگا جہاں ایک سینئر سفارت کار نے ایک بار کہا تھا کہ سفارت کاری میں آپ ایک پوائنٹ جیتتے ہیں۔ اگر آپ دلیل سے ایک پوائنٹ حاصل کرتے ہیں، تو آپ جنگ ہار جاتے ہیں۔ لہذا آپ بطور محقق کسی خاص مسئلے پر ایک مکمل ان پٹ رکھ کر ان کو بے اثر کر دیں گے۔
مجھے ذاتی طور پر وہ سننے کا موقع ملا جو سائنس کے دنیا کے کچھ عالمی رہنما، سر فہرست تنظیموں نے اس ملک کے بارے میں کہا۔ آپ حیران ہوں گے کہ ہمارے بات کرنے سے پہلے ہی انہوں نے ہمارے بارے میں بات کی۔ ہمیں قیادت کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنے لوگوں کو بھی بتانا ہوگا کہ ہم زمین پر کتنے مؤثر، اثر انگیز اور مضبوط ہیں۔
عالمی بینک کے سربراہ جناب اجے بنگا نے اجتماعی کامیابیوں کے بارے میں کہا کہ وزیر اعظم کا وژن ہے، مشن ہے، جذبہ ہے، نوکر شاہی کے ذریعے عمل درآمد ہے، اور عوام کی طرف سے قبولیت ہے۔ انہوں نے کہا، "ہندوستان نے صرف چھ سالوں میں مالیاتی شمولیت کے اہداف حاصل کر لیے ہیں، جس میں کم از کم سینتالیس سال لگ جاتے۔" ایک ایسا شخص جو ورلڈ بینک کا انچارج ہے، جس کے پاس عالمی وژن ہے، جو اپنے ہر لفظ کا جوابدہ ہے، وہ یہ بات کہہ رہا ہےاور ہمارے ملک کی تعریف کر رہا ہے۔
یہاں کسی کو اس تحقیقی مقالے میں مصروف ہونا ہے، کہ ہندوستان کی مالی شمولیت اس وقت شروع ہوئی جب ہمارے پاس جن دھن اکاؤنٹس تھے۔ ناقدین تھے، جو ہر نظام میں لازماً ہوتے ہیں ۔ وہ اچھی طرح سے حوصلہ یافتہ یا بری طرح سے حوصلہ یافتہ ہوسکتے ہیں، لیکن اگر آپ جائزہ لیں کہ ملک کا منظرنامہ کس طرح بدلا ہے، مالیاتی شمولیت سے، کتنے اکاؤنٹس کھولے گئے ہیں، وہ 500-400 ملین سے زیادہ بنتے ہیں۔ اس کا اثر کسانوں پر ہے۔ میں انہیں ایک زمرے کے طور پر لے رہا ہوں، کیونکہ کسان گاؤں میں رہتا ہے، کسان ٹیکنالوجی سے سب سے دور ہے، میرا تعلق کسانوں کے خاندان سے ہے، اس لیے میں جانتا ہوں۔ اگر اس ملک میں، سال میں تین بار، 110 ملین کسان اپنے اکاؤنٹ میں براہ راست رقم حاصل کر سکتے ہیں… تو یہ بہت کچھ کہتا ہے کہ جو پہنچا رہا ہے وہ قابل ہے لیکن وصول کنندہ بھی اتنا ہی قابل ہے۔ یہ مالی شمولیت کی وجہ سے ہے۔ اس لیے یہ ایک بیان کسی تحقیقی مقالے کا موضوع ہو سکتا ہے۔ ایک جامع مکالہ جو ہمیں لمبی مسافت تک لے جائے گا۔
اجے بنگا نے مزید کہا، ‘‘مرکزی حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اختراعی اقدامات اور حکومتی پالیسیوں اور ضابطوں کا اہم کردار ڈیجیٹل عوامی بنیادی ڈھانچے کے منظر نامے کو تشکیل دے رہا ہے۔’’
آپ میں سے جن کی جڑیں گاؤں میں ہیں وہ اپنے گاؤں جائیں، وہاں انٹرنیٹ چلے گا، بہتر ہو گا۔ ہمارے ملک میں ترقی اہرامی نہیں کہ میٹرو بڑھ رہی ہے اور نچلی سطح پر کوئی دیہات میں نہیں جا رہا۔ اس کے بجائے ہمارے ملک میں عروج ایک سطح مرتفع کی طرح ہے۔ تمام چیزیں بڑھ رہی ہیں۔ آپ کے پاس ہوائی اڈے ہیں، آپ کے پاس ریل کا بنیادی ڈھانچہ ہے، آپ کے پاس سڑک کا بنیادی ڈھانچہ ہے، آپ کے پاس تکنیکی ڈھانچہ ہے اور آپ کے پاس گاؤں میں صحت اور تعلیمی سہولیات ہیں۔ اس کے بعد ورلڈ بینک کے سربراہ کہتے ہیں، ‘‘ہندوستان کے ڈیجیٹل پبلک بنیادی ڈھانچہ نے ایک انقلابی تبدیلی کا اثر مرتب کیا ہے، جو صرف مالیاتی شمولیت سے کہیں آگے ہے۔’’
میں چاہتا ہوں کہ آپ میں سے کچھ لوگ اس تبدیلی کے اثرات پر توجہ مرکوز کریں، اس نے لوگوں کی زندگیوں کو کس طرح بدلا ہے، وہ کس طرح استفادہ کرنے والے ہیں اور کس طرح ہندوستان ایک رول ماڈل ہے جو دوسرے ممالک میں اس طرح کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں عالمی سطح پر اپنا حصہ ڈال سکتا ہے۔ ایسا ہو گا، جب موثر لوگ ہوں گے۔
تحقیقی مقالہ لکھنے والا کوئی معنی رکھتا ہے۔ لیکن اگر اس تحقیقی مقالے کو انڈین کونسل آف ورلڈ افیئرز کے ذریعہ پیش کیا جائے تو اس کا اثر بہت مختلف ہوگا۔
میں 1990 میں ہندوستانی وفد کے رہنما کے طور پر یورپی یونین گیا تھا۔ یورپی یونین کے چار دارالحکومت ہیں، میں چاروں دارالحکومتوں میں گیا۔ اب اگر آپ جی 20 کا جائزہ لیں تو اس میں بہت سے ممالک ہیں لیکن اس میں یورپی یونین بھی ہے۔ آپ یورپی یونین کے ممبران کے بارے میں تحقیق میں مصروف ہو سکتے ہیں، جو یورپی یونین کا حصہ ہونے کی وجہ سے جی 20کا حصہ ہیں۔ دہائیوں پہلے کیا حیثیت تھی؟
ایک تاریخی پیشرفت اور ایک سنگ میل کی ترقی یہ ہے کہ افریقی یونین جی 20 کا حصہ ہے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ ایک اور کامیابی جس پر مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے وہ ایک راہداری ہے جو بھارت سے سعودی عرب، مشرق وسطیٰ اور یورپ تک جاتی ہے، جب وہ نوم پنہ اور ویتنام تک جاتی ہے۔ دوسروں نے کیا کیا ہے اس کے تناظر میں اس کی جانچ کریں۔ راہداری کو دیکھیں، اس کے کیا اثرات ہوں گے، اس تاریخی پس منظر میں جائیں کہ یہ راہداری ہزاروں سال پہلے بالکل فعال تھی۔
ایک ایسی جنگ ہے جس کے لیے ہمارے وزیر اعظم نے پچھلے 20 مہینوں میں دو چیزوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ایک، ہم توسیع کے دور میں نہیں ہیں۔ یہ ایک بہت مضبوط بیان تھا کہ ایک خودمختار قوم توسیع میں مصروف نہیں ہوسکتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ آپ کسی دوسری ملک کی خودمختاری میں مداخلت کر رہے ہیں۔ دوسرا، جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ حل اور فیصلہ ، مکالمے، مباحثے اور سفارت کاری سے نکلتے ہیں۔
آپ مکالمہ ، بحث اور سفارکاری کا سب سے اہم حصہ ہیں۔ ہم میں سے جو لوگ پارلیمنٹ میں کام کرتے ہیں وہ زیادہ سمجھدار ہوں گے، اگر ہم آپ کی اِن پُٹ سے مشاورت کیے جائیں ۔ آپ کے اِن پٹ مائیکرو لیول پر بہت مکمل، جامع، مناسب طریقے سے فلٹر ہونے کے پابند ہیں۔ اسے آئی سی ڈبلیو اے کو کرنا ہے، مجھے یقین ہے کہ وہ یہ ضرور کرے گا۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے کہا کہ ‘‘افریقی یونین ایک اہم پارٹنر ہے’’۔ ہاں! لیکن یہ بھارت نے جاری کیا، سب نے اس پر اتفاق کیا لیکن پہلے کسی نے پہل نہیں کی۔انھوں نے مزید کہا، ‘‘آپ (وزیراعظم مودی) ہمیں ایک ساتھ رکھ رہے ہیں، ہمیں ایک ساتھ رکھ رہے ہیں، اور یہ یاد دلارہے ہیں کہ ہمارے پاس چیلنجوں سے مل کر نمٹنے کی صلاحیت ہے۔ ’’
جی 20 میں ہندوستان کی صدارت ایک کامیابی تھی ۔ اس نے عالمی اتفاق رائے پیدا کیا۔ ایک عالمی طاقت کے طور پر ہندوستان کا جائز، صحیح ظہور ہوا ۔ ہندوستان کے مفادات اس کے عوام کے مفادات پر منحصر ہیں۔ ہمارے پاس کبھی بھی کوئی ایسا وزیر خارجہ نہیں تھا جس کو صاف گو ہونے پر اتنی پذیرائی ملی ہو۔ وزیر خارجہ ایک ایسی سرگرمی میں مصروف ہوئے جس کے نتیجے میں دہلی اعلامیہ ظاہر ہوا جو مکمل طور پر متفقہ ہے، جو ہندوستان کی خارجہ پالیسی، ہندوستان کے عوامی موقف کے مطابق ہے۔ یہ نظریہ ہمارے ملک میں باضابطہ طور پر ارتقا پذیر ہوا۔
میں آپ سب سے گزارش کروں گا کہ آپ کے پاس اس سے زیادہ متحرک ڈائریکٹر نہیں ہوسکتا تھا جو ادارے کو بہت بلندی پر لے جائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ اگلے ایک مہینے میں وہ ایک ویژن دستاویز تیار کریں گی، اور یہ ثابت کریں گی کہ آئی سی ڈبلیو اے کو کس طرح ہندوستان کے اندر اور تارکین وطن اور غیر ملکیوں کے ساتھ معلومات کی ترسیل اور فراہم کرنے کا ایک پل ہے۔
آپ کو بہت بڑا کردار ادا کرنا ہے۔ آپ اس ملک کے سب سے اثر انگیز سفیر ہیں۔ میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ہمیں احتیاط کرنی ہوگی، ‘کچھ لوگوں کاہندوستان کی ترقی دیکھ کر ہاضمہ بگڑ جاتا ہے’ آپ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے سمجھدار اور ذہین دماغ کے مالک ہیں۔
ایسے بیانیے جو نقصان دہ، مذموم اور ملک دشمن ہیں، وقتاً فوقتاً منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ جب یہاں دال نہیں گلتی ہے تو ، آپ یورپ جا سکتے ہیں، آپ برطانیہ جا سکتے ہیں، وہاں ہمیشہ کچھ لینے والے ہوں گے، کیونکہ اس ملک، جو انسانیت کا چھٹا حصہ ہے، غیرمعمولی اور ناقابل تصور ہے اور سرمایہ کاری اور مواقع کی ایک عالمی منزل ہے۔ ہمارے آئینی اداروں کو داغدار کرنے، بدنام کرنے، نیچا دکھانے اور تباہ کرنے کے لیے ایسی تیار کی گئی حکمت عملی کو بے اثر کرنے کے لیے آپ کا کردار ہی کافی ہے۔ بڑی تکلیف کے ساتھ آپ کو اشارہ کرتا ہوں کیونکہ آپ کو عالمی معاملات، سینیٹ، کانگریس، ہاؤس آف کامنز کی کارروائیوں کا جائزہ لینا ہے۔ ہماری اپنی دستور ساز اسمبلی میں مکالمے، مباحثے، گفت و شنید اور بحثیں ہوئیں لیکن کوئی خلل اور کوئی مداخلت نہیں۔ اب، جبکہ ہندوستان ابھر رہا ہے، کیا ہم سیاسی طاقت کے طور پر خلل کو ہتھیار بنانے کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ ہم نہیں ہو سکتے۔ اب ملک میں سب سے زیادہ عقلمند صرف آئین ساز اسمبلی کے بارے میں ہی جان سکے گا، لیکن آپ کی نظر ہو گی۔ آپ 20 ممالک کو لے سکتے ہیں ، کیا کہیں نعرے بازی ہوتی ہے ؟ یا ویل میں آتے ہیں اور پلے کارڈ دکھاتے ہیں؟
تصور کریں، مواصلات بہت ضروری ہے. ایک قوم، ایک الیکشن ایک تصور ہے، کوئی اس سے اختلاف کر سکتا ہے اور کوئی اس کی شد ومد کے ساتھ مخالفت کر سکتا ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ ہم اس پر بحث نہیں کریں گے، یہ جمہوریت نہیں ہے۔ جمہوری اقدار ڈوب جاتی ہیں، جمہوریت کے پھلنے پھولنے کو بڑا دھچکا لگتا ہے، جب ہم مکالمے ، بات چیت اور غور و فکر سے دور ہوجاتے ہیں۔ میں راجیہ سبھا کی صدارت کرتے ہوئے خوش نہیں ہو سکتا، ہم آپ کے لیے کیا مثال قائم کر رہے ہیں؟ آپ میں سے ہر ایک کو ملک دشمن بیانیے اور غیر صحت مند پارلیمانی طریقوں کا گہرائی سے تجزیہ کرنا ہوگا اور ایک ماحولیاتی نظام تیار کرنا ہوگا جس سے ہم صحیح خطوط پر قائم رہیں۔ لوگوں کے اپنے سیاسی خیالات ہوں گے، ہم دوسرے کے نقطہ نظر کا احترام کرتے ہیں، ہم فوری طور پر دوسروں کے نقطہ نظر کو کھڑکی سے باہر نہیں پھینک سکتے، لیکن پھر بحث، مباحثہ ، مکالمہ اور غور و خوض ہونا چاہیے۔ میں خصوصی اجلاس کا منتظر ہوں۔
میں سفیر ٹھاکر کو مبارکباد دیتے ہوئے ختم کرتا ہوں، وزارتوں میں ایم او یوز کے لیے، دو وزارتوں نے مجھے خط لکھا ہے کہ وہ ان کی موجودگی سے خوش، پُر جوش اور حوصلہ یافتہ ہیں۔ ہمارے پاس کام کرنے کا ایک منظم طریقہ ہوگا، ہم پورے ملک سے راجیہ سبھا میں انٹرنز کو مدعو کر رہے ہیں، ہم نے شمال مشرق ، سینک اسکول سے شروع کیا اور ہم سفیر ٹھاکر کی تجاویز کے منتظر ہیں۔
بہت بہت شکریہ!
*************
ش ح۔ ا ک ۔ ت ح
U- 9497
(Release ID: 1957430)