بجلی کی وزارت
موسمیاتی تبدیلی کے بیانیہ کو کل اخراج سے ہر ملک کے فی کس اخراج میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے: مرکزی وزیر برائے بجلی اور نئی و قابل تجدید توانائی
ایک بار جب گلوبل ساؤتھ بیانیہ کو کنٹرول کرنا شروع کر دے گا، تو دنیا بہت زیادہ منصفانہ جگہ بن جائے گی: مرکزی وزیر برائے بجلی اور نئی و قابل تجدید توانائی
‘‘موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے شہریوں کو ایک ساتھ آنے اور ایک نیا فریم ورک بنانے کی ضرورت ہے’’: 22ویں درباری سیٹھ میموریل لیکچر میں ٹاٹا ٹرسٹ کے سی ای او
Posted On:
25 AUG 2023 8:01PM by PIB Delhi
توانائی اور نئی و قابل تجدید توانائی کے مرکزی وزیر جناب آر کے سنگھ نے ہر ملک کے کل اخراج سے فی کس اخراج پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے عالمی موسمیاتی تبدیلی کی بحث اور سوچ میں تبدیلی لانے پر زور دیا ہے۔ "بھارت کا فی کس اخراج عالمی اوسط کا ایک تہائی ہے، جو دنیا میں سب سے کم ہے۔ اس کے باوجود ترقی یافتہ ممالک حالیہ دنوں تک بھارت جیسے بڑے ملک پر اخراج کو کم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔ ان کا اپنا فی کس اخراج عالمی اوسط سے 4-3گنا رہا ہے۔ اس کا بیانیہ ہر ملک کے کل اخراج پر تھا۔
‘‘موازنہ کا مرکزی نقطہ فی کس اخراج ہونا چاہئے۔’’
مرکزی وزیر نے زور دیا کہ بیانیہ اور بحث کل اخراج کے بارے میں نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم کل اخراج کی بات کریں تو سب سے کم اخراج والا ملک جزیرہ نما ملک ہو سکتا ہے جس کی آبادی کم ہے، حالانکہ وہ فی کس بڑی مقدار میں توانائی استعمال کر سکتے ہیں اور بڑی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کرسکتے ہیں۔ اس لیے، موازنہ کا نقطہ فی کس اخراج ہونا چاہیے۔ جناب آر کے سنگھ نے کہا کہ اس سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور میں چاہتا ہوں کہ ٹی ای آر آئی جیسے ادارے اس پر بات کریں۔
مرکزی وزیر نے یہ بات ٹی ای آر آئی کے بانی آنجہانی جناب درباری سیٹھ کی یاد میں آج 25 اگست 2023 کو نئی دہلی میں منعقدہ 22 ویں درباری سیٹھ میموریل لیکچر میں اپنے صدارتی خطاب کے دوران کہی۔
یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ ترقی یافتہ ممالک کوئلے کو ختم کرنے پر بات کریں گے، لیکن قدرتی گیس یا دیگر فوسل ایندھن پر نہیں۔ وزیر موصوف نے ٹی ای آر آئی پر زور دیا کہ وہ مختلف ممالک کے ذریعے اٹھائے گئے موسمیاتی کارروائیوں کے بارے میں مطالعہ پیش کرے۔ جناب آر کے سنگھ نے کہا کہ ایک بار جب گلوبل ساؤتھ اس بیانیہ کو کنٹرول کرنا شروع کر دے گا تو دنیا ایک زیادہ منصفانہ جگہ بن جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت تمام فوسل ایندھن کو مرحلہ وار ختم کرنے پر اصرار کرتا رہا ہے ۔
مرکزی وزیر نے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے بھارت کی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے مقررہ وقت سے نو سال پہلے ہی 2021 میں غیر فوسل توانائی کے ذرائع سے اپنی نصب شدہ بجلی کی صلاحیت کا 40 فیصد کا این ڈی سی ہدف حاصل کر لیا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ آج ہماری 43 فیصد صلاحیت غیر فوسل ایندھن کے ذرائع سے ہے اور کسی دوسرے ملک نے قابل تجدید توانائی کی صلاحیت میں اس شرح سے اضافہ نہیں کیا جس شرح سے ہمارے پاس ہے۔ جناب آر کے سنگھ نے کہا کہ بھارت نے 2015 میں سی او پی - 21 میں 2030 تک اپنے اخراج کی کثافت کو 33 فیصد تک کم کرنے کا عہد کیا تھا اور ہم نے آٹھ سال پہلے ہی یہ کارنامہ 2022 تک حاصل کر لیا ہے۔ اس لیے ہم نے گلاسگو میں کہا کہ 2030 تک، ہماری توانائی کی صلاحیت کا 50 فیصد قابل تجدید ذرائع سے آئے گا اور ہم اپنے اخراج کی کثافت کو 45 فیصد تک کم کر دیں گے۔ انہوں نے کہا ہم اسے بھی وقت سے پہلے حاصل کر لیں گے۔’’
‘‘سچ بتانے کی ضرورت ہے، ترقی پذیر ممالک کو ترقی کے لیے توسیع کی ضرورت ہے’’
جناب سنگھ نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک ترقی کی معراج پر پہنچ چکے ہیں۔ اس لیے ان کا اخراج یا تو مستحکم رہے گا یا کم ہوگا۔ تاہم، ترقی پذیر ممالک کے بلڈنگ اسٹاک میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا، انہوں نے کہا، بنیادی طور پر اس لیے کہ ہم ترقی کر رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ہمیں عمارتوں اور پودوں کی تعمیر کے لیے مزید سیمنٹ، اسٹیل اور ایلومینیم کی ضرورت ہوگی۔ مرکزی وزیر نے کہا کہ اس کی وجہ سے زیادہ اخراج ہوگا، اس لیے ہمیں آگے بڑھنے کے لیے گنجائش کی ضرورت ہے۔ ٹی ای آر آئی جیسے تھنک ٹینک کے ذریعہ یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ وہ گنجائش ہے جس کی ترقی پذیر ممالک کو ترقی کے لئے ضرورت ہے۔
مرکزی وزیر نے کہا کہ ملک ہماری ترقی کے لیے توانائی کی دستیابی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے دائمی بوجھ کے صرف 4 فیصد کا ذمہ دار بھارت ہے، جب کہ ہماری آبادی دنیا کی آبادی کا تقریباً 17 فیصد ہے۔
جناب سنگھ نے کہا کہ اس سوچ کو نہ صرف عالمی لیڈروں کی سطح پر بلکہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں میں بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سچی بات کہی جانے کی ضرورت ہے۔ مرکزی وزیر نے کہا، میں چاہتا ہوں کہ ٹی ای آر آئی جیسے ادارے آگے آئیں اور اس سوچ کو بدلیں۔
‘‘کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ کوئی 1974 میں موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں سوچ رہا ہو؟’’
توانائی اور وسائل انسٹی ٹیوٹ (ٹی ای آر آئی ) کے بانی جناب درباری سیٹھ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے، بجلی اور نئی اور قابل تجدید توانائی کے مرکزی وزیر نے اجتماع سے سوالیہ لہجے میں پوچھا، "کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ کوئی 1974 میں موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں سوچ رہا ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ موقع جناب سیٹھ کے غیر متزلزل عزم، کاروباری جذبے اور دماغ کی طاقت کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ مرکزی وزیر نے کہا کہ اپنے عہد کی ایک عظیم شخصیت کے طور پر، جناب سیٹھ نے پائیدار ترقی کے عظیم مقصد کے لیے اپنا وقت اور کوششیں وقف کرکے ٹاٹا انٹرپرائزز کی تقدیر کو تشکیل دیا۔ یہی عزم ہے جو ٹی ای آر آئی کے سفر کو آگے بڑھاتا ہے اور اسے ایک سرسبز دنیا اور ایک محفوظ سیارے کو فروغ دینے کے لیے پرعزم مستقبل کی طرف بڑھاتا ہے۔
جناب آر کے سنگھ نے کہا کہ جناب سیٹھ نے جس تنظیم کی بنیاد رکھی تھی وہ اب ترقی کر چکی ہے اور اس میں پائیداری کو متاثر کرنے والے تمام مسائل شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹی ای آر آئی نے اچھا کام کیا ہے۔ اس نے دیانتداری اور اشاعتوں کے لیے شہرت حاصل کی ہے جس پر ہم بھروسہ کر سکتے ہیں۔
22 واں درباری سیٹھ میموریل لیکچر
سال کا 22 واں درباری سیٹھ میموریل لیکچر جناب سیٹھ کی 102 ویں یوم پیدائش کے موقع پر ہے۔ اس نے سوچنے والے رہنماؤں، صنعتوں اور پالیسی سازوں کو بصیرت انگیز بحث کے لیے جمع کیا ہے، جو جناب سیٹھ کے نظریات سے متاثر ہو کر باہمی تعاون کی کوششوں کو فروغ دیتے ہیں اور موسمیاتی تبدیلی کے لیے بامعنی حل تلاش کرتے ہیں۔
22 واں درباری سیٹھ میموریل لیکچر، ٹاٹا ٹرسٹس کے سی ای او، جناب سدھارتھ شرما نے دیا۔ اس موقع پر ‘‘ٹی ای آر آئی رول آف آنر’’ کے فاتحین کو مبارکباد دی گئی اور ٹی ای آر آئی میں 20 اور 10 سال کی سروس مکمل کرنے والے ٹی ای آر آئی ملازمین کو یادگاری نشانات پیش کیے گئے۔ ٹی ای آر آئی گورننگ کونسل کے چیئرمین جناب نتن دیسائی نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا اور ٹی ای آر آئی کی ڈائریکٹر جنرل، ڈاکٹر ویبھا دھون،کلمات تشکر پیش کیے ۔
22 ویں درباری سیٹھ میموریل لیکچر سے خطاب کرتے ہوئے، جناب سدھارتھ شرما، سی ای او، ٹاٹا ٹرسٹ نے کہا کہ جناب درباری سیٹھ ایک غیر معمولی لیڈر تھے جو اپنے لوگوں کے ساتھ کام کر کے عظیم کام انجام دے سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے دور کا ایک وجودی مسئلہ بننے سے بہت پہلے اُن کی توانائی، توانائی کے تحفظ اور ماحولیاتی پائیداری میں گہری دلچسپی تھی جس نے انہیں ٹی آر آئی کی قیام کے لیے قیادت کے مقام پر فائز کیا۔ جناب سدھارتھ نے کہا کہ ان جیسے لوگ دیرپا میراث چھوڑتے ہیں اور آنے والی نسلوں کو ترقی دیتے ہیں۔
جناب شرما نے کہا کہ ٹی ای آر آئی ایک شائستہ آغاز سے پائیدار ترقی اور ماحولیاتی تحقیق میں ایک معروف عالمی شہرت یافتہ ادارہ بن گیا ہے اور اس نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ادارے کو علم کی سرحدوں کو آگے بڑھانے، انقلابی تبدیلی لانے اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے والی پالیسیوں کی وکالت کرتے رہنا چاہیے۔
‘‘ٹاٹا گروپ 2045 تک نیٹ زیرو کی خواہش کے لیے پرعزم ہے’’
توانائی کی مناسب منتقلی کی ضرورت کے بارے میں بات کرتے ہوئے اور آب و ہوا کے انصاف اور پائیدار زندگی سمیت بھارت کے آب و ہوا کی کارروائی کے عزائم کا ذکر کرتے ہوئے جناب سدھارتھ شرما نے کہا کہ قومی ترقی میں ایک ذمہ دار شراکت دار کے طور پر ، ٹاٹا گرپ نے 2045 تک گہرے ڈیکاربنائزیشن، سرکلر معیشتوں اور فطرت اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے ستونوں پر سوار ہوتے ہوئے نیٹ زیرو امنگ کا عزم کیا ہے۔
‘‘موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے شہریوں کو اکٹھے ہونے اور ایک نیا فریم ورک بنانے کی ضرورت ہے’’
آب و ہوا کے بحران کے بارے میں بات کرتے ہوئے، جناب شرما نے تعلیمی اداروں، سول سوسائٹی، نجی شعبے اور ممالک اور ریاستوں کے درمیان بین شعبہ جاتی تعاون کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بھارت کی معیشت کے مستقبل کی تشکیل میں بازاروں کا ایک اہم رول ہے۔ موسمیاتی تبدیلی پر ہندوستان کے رد عمل کے ملکی اور عالی دونوں سطح پر بڑے نتائج مرتب ہوں گے۔ جناب شرما نے کہا کہ‘‘ اب جبکہ بھارت موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی پالیسیوں اور طریقوں کو فروغ دینے میں عالمی رہنما بن گیا ہے، موجودہ حالات میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور خطرات کو کم کرنے کا عمل صرف ایک ملک پر منحصر نہیں کیا جا سکتا۔’’
جناب سدھارتھ شرما نے کہا کہ بحران پر قابو پانے کے لیے شہریوں کو ایک ساتھ آنے اور ایک نیا فریم ورک بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہیں پر ٹی ای آر آئی جیسے ادارے نہ صرف ملک کے لیے حل تلاش کر سکتے ہیں بلکہ بھارت کے سیکھنے کی بنیاد پر عالمی ردعمل کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔
ٹاٹا ٹرسٹ کے سی ای او نے ٹاٹا گروپ کے فلسفے اور 1868 سے اپنی طویل تاریخ میں قوم کی تعمیر میں گروپ کے تعاون کے بارے میں بھی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ٹاٹا دولت کی تقسیم کے ماڈل کی بہترین مثالوں میں سے ایک کی نمائندگی کرتا ہے، جہاں کاروبار کے منافع کا ایک بڑا حصہ فلاحی اقدامات کی شکل میں ان کمیونٹیوں کے ساتھ بانٹ دیا جاتا ہے جہاں سے انہیں حاصل کیا جاتا ہے۔
پروگرام یہاں (حصہ اول) اور یہاں (حصہ دوم) دیکھا جا سکتا ہے۔ اس موقع پر ٹی ای آر آئی @50 پر ایک فلم دکھائی گئی، جسے یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔
*************
( ش ح ۔ ا ک ۔ ت ح (
U. No.8919
(Release ID: 1952957)
Visitor Counter : 160