وزارتِ تعلیم
azadi ka amrit mahotsav

ڈاکٹر راجکمار رنجن سنگھ نے نئی دہلی میں بھارتی درجہ بندی 2023 جاری کی


بھارت کی درجہ بندی نے ملک میں ایچ ای آئیز کے مابین مختلف زمروں اور موضوع  سے متعلق شعبہ میں ان کے تعلق کی بنیاد پر یونیورسٹیوں کے انتخاب میں طلباء کے لیے ایک قابل قدر ٹول یعنی وسیلے کے طور پر کام کیا ہے: ڈاکٹر راج کمار رنجن سنگھ

بھارت کی درجہ بندی کے کثیر جہتی پیمانے نے بھارت میں ایچ ای آئیز کے معیار اور عمدگی کو کامیابی کے ساتھ حاصل کیا ہے :ڈاکٹر راج کمار رنجن سنگھ

Posted On: 05 JUN 2023 6:59PM by PIB Delhi

تعلیم اور خارجی امورکے وزیر مملکت ڈاکٹر راج کمار رنجن سنگھ نے آج انڈیا رینکنگ 2023  یعنی بھارت کی درجہ بندی 2023 جاری کی، جو 2015 میں وزارت تعلیم کے ذریعہ اس مقصد کے لیے تیار کیے گئے قومی ادارہ جاتی درجہ بندی کے فریم ورک (این آئی آر ایف) کو نافذ کرتی ہے۔ ( ایچ ای) سکریٹری جناب کے سنجے مورتی، یوجی سی چیئر مین  پروفیسر ایم جگدیش کمار، اے آئی سی ٹی ای کے چیئر مین  پروفیسر ٹی جی۔ سیتارام، اے آئی سی ٹی ای چیئر مین   پروفیسر انل سہسر بدھے اور این ای ٹی ایف اور این بی اے چیئر مین  ڈاکٹر ابھے جیرے، اے آئی سی ٹی ای  کے نائب چیئر مین اوراین بی اے کے ممبر سکریٹری  ڈاکٹر انیل کمار ناسا،اس موقع پرموجود وائس چانسلرز اوراعلی تعلیم کے اداروں کے ڈائریکٹرز کے ہمراہ موجود تھے۔

 

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image001OTH2.jpg

 

اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے ڈاکٹر راج کمار رنجن  سنگھ نے کہا کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی طرف سے پیش کیے جانے والے تعلیمی پروگراموں کے معیار کا جائزہ لینے کے لیے درجہ بندی اور ایکریڈیٹیشن بہت ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ وزارت تعلیم نے 2015 میں نیشنل انسٹی ٹیوشنل رینکنگ فریم ورک (این آئی آر ایف) کا مسودہ تیار کرنے کا قابل ستائش قدم اٹھایاہے۔انہوں نے مزید کہا کہ بھارت میں مختلف زمروں اورموضوع سے متعلق ڈومینز میں ایچ ای آئی کے معیار اور فضیلت کو حاصل کرنے کی خاطر کثیر جہتی پیمانے کی وضاحت کی گئی ہے اور ان پیرامیٹرز پر مجموعی سکور کی بنیاد پر درجہ بندی کی گئی ہے۔

 

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image00225DM.jpg

 

انہوں نے اس بات کا تذکرہ کیا کہ بھارت کی درجہ بندی ملک میں اعلیٰ تعلیمی اداروں (ایچ ای آئیز) کے درمیان مختلف زمروں اور مضامین کے ڈومینز میں ان کے  متعلقہ مقام کی بنیاد پر یونیورسٹیوں کی شناخت کرنے میں طلباء کے لیے ایک قابل قدر ٹول یعنی وسیلےکے طور پر کام کرتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس نے یونیورسٹیوں کو تدریس، تحقیق، وسائل اور بنیادی ڈھانچے میں بہتری کے شعبوں کی نشاندہی کرنے میں بھی مدد کی ہے۔

جہاں وزیر موصوف نے جہاں ایک طرف  مختلف زمروں اور موضوع سے متعلق ڈومینز میں درجہ بندی  کے لیے درخواست دینے والے اداروں کی تعداد میں اضافے پرمسرت کا اظہار کیا، وہیں انہوں نے زیادہ سے زیادہ اداروں کوبھارت کی درجہ بندی کے دائرے میں لانے کے ساتھ ساتھ ایکریڈیٹیشن کے لیے اجتماعی طور پر کام کرنے کی ضرورت پربھی  زور دیا۔

یہ بھارت میں ایچ ای آئیز کی  انڈیا رینکنگ یعنی بھارتی درجہ بندی کا لگاتار آٹھواں ایڈیشن ہے۔ بھارت کی  درجہ بندی 2023 کےایڈیشن کے تین  نمایاں اضافے درج ذیل ہیں:

  1. ایک نئے مضمون کو متعارف کیا جانا یعنی زراعت اور اس سے منسلک شعبے
  2. دو مختلف ایجنسیوں کو ایک جیسے اعداد و شمار فراہم کرنے والے اداروں پر بوجھ کو کم کرنے کے مقصد کے ساتھ بھارت کی درجہ بندی میں اختراعی کامیابیوں پر اداروں کی اٹل درجہ بندی (اے آر آئی آئی اے) کے ذریعہ پہلے انجام دی گئی’انوویشن‘ درجہ بندی کا انضمام۔
  3. شہری  اور ٹاؤن پلاننگ میں کورسز کروانے والے اداروں کو شامل کرنے کے لیے ’آرکیٹیکچر‘ کے دائرہ کار کو ’آرکیٹیکچر اینڈ پلاننگ‘ تک وسعت دینا۔

نئے زمرے (اختراع)سبجیکٹ ڈومین (زراعت اور اس سے منسلک شعبے) کے اضافے نیز’آرکیٹیکچر‘ کو’آرکیٹیکچر اینڈ پلاننگ‘ میں توسیع دینے کے ساتھ،بھارت درجہ بندی کا موجودہ پورٹ فولیو بڑھ کر 13 زمروں اور سبجیکٹ ڈومینز تک پہنچ گیا ہے جنہیں بھارت میں درجہ  بندی 2023 میں درجہ دیا گیا ہے۔

بھارت کی درجہ بندی 2016 کے پہلے سال کے دوران، یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ تین مخصوص ڈومین  درجہ بندیوں، یعنی انجینئرنگ، مینجمنٹ اور فارمیسی اداروں کے لیے درجہ بندی کا اعلان کیا گیا۔آٹھ سال کے دوران، کل تعداد کو پانچ زمروں میں لانے کے لیے چار نئے زمرے اور پانچ نئے مضامین کے ڈومینز شامل کیے گئے ہیں،جس میں مجموعی طور پر، یونیورسٹی، کالجز، ریسرچ انسٹی ٹیوشنز اور انوویشن نیز 8 مضامین کے ڈومینز، یعنی انجینئرنگ، مینجمنٹ، فارمیسی، آرکیٹیکچر منصوبہ بندی، طبی، قانون، ڈینٹل اور زراعت اور متعلقہ شعبے شامل ہیں۔

پیمانوں اور وزن کی پانچ  بڑی قسمیں

قومی ادارہ جاتی درجہ بندی فریم ورک (این آئی آر ایف)، جو نومبر 2015 میں تعلیم کی  وزارت کے ذریعہ شروع کیا گیا تھا، اس ایڈیشن کے ساتھ ساتھ سال 2016 سے 2023 کے لیے جاری کردہ بھارت کی درجہ بندی کے پچھلے سات ایڈیشنز میں بھی استعمال کیا گیا ۔ این آئی آر ایف  میں ان پیمانوں کی پانچ وسیع اقسام کی نشاندہی کی گئی ہے اور 10 کے پیمانے پر ان کا وزن درج ذیل  ہے:

 

نمبر شمار

پیمانے

مارکس

وزن

1

درس و تدریس اور وسائل

100

0.30

2

تحقیق اور پیشہ ورانہ پریکٹس

100

0.30

3

گریجویشن کا رزلٹ

100

0.20

4

آؤٹ ریچ اور شمولیت

100

0.10

5

طرز فکر

100

0.10

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ان پانچ پیمانوں میں سے ہر ایک میں 2 سے 5 ذیلی پیمانے ہیں۔ مختلف زمروں اور سبجیکٹ ڈومینز میں ایچ ای آئیز یعنی اعلیٰ تعلیمی اداروں  کی درجہ بندی کے لیے کل 16 - 18 ذیلی پیرامیٹرز استعمال کیے جاتے ہیں۔ اداروں کی درجہ بندی پیمانوں کے ان پانچ وسیع گروپوں میں سے ہر ایک کے لیے تفویض کردہ نمبروں کی کل  تعداد کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔مجموعی زمرے کے لیے استعمال کیے جانے والے پیرامیٹرز کے علاوہ، درج ذیل دو اضافی ذیلی پیرامیٹرز کو ’تحقیقاتی اداروں‘ کے تحت درجہ بندی کرنے والے اداروں کے لیے شامل کیا گیا۔ان میں  i)ان میں شائع تحقیقی مقالے  کی پہلی سہ ماہی جرنل سائیٹیشن رپورٹ (جی سی آر کیو 1) ، اور ii) ایچ انڈیکس شامل ہیں۔

2016 سے 2023 تک انڈیا رینکنگ کے لیے درخواست دہندگان کی تعداد میں اضافہ

انڈیا رینکنگ 2023  یعنی بھارت درجہ بندی 2023 کے لیے کل 5,543 منفرد اداروں نے ’مجموعی طور پر‘، زمرہ کے لحاظ سے مخصوص  یا ڈومین کے لحاظ سےمخصوص درجہ بندی کے لیے خود کو پیش کیا۔مجموعی طور پر، ان 5،543 منفرد اداروں نے مختلف زمروں/ڈومینز کے تحت درجہ بندی کے لیے 8,686 درخواستیں دی تھیں۔جن میں مجموعی طور پر 2,478 درخواستیں شامل تھیں ان میں انجینئرنگ میں 1,314، اور جنرل ڈگری کالجوں میں 2,746 شامل ہیں۔اس سال درجہ بندی کے اس عمل میں ادارہ جاتی شرکت میں نمایاں اضافہ بھارت میں اعلیٰ تعلیم کے اداروں کے درمیان ایک منصفانہ اور شفاف درجہ بندی کے عمل کے طور پر اس کی پہچان کو ظاہر کرتا ہے۔بھارت کی درجہ بندی میں منفرد درخواست دہندگان کی تعدادجو 2016 میں  2,426  تھی اب یہ بڑھ کر 2023 میں 5,543 ہو گئی ہے جبکہ مختلف زمروں میں درجہ بندی کے لیے درخواستوں کی کل تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے یہ تعداد جو 2016 میں 3,565  تھی اب یہ بڑھ کر 2023 میں 8,686 ہو گئی ہے اس طرح منفرد اداروں  کی تعداد5121 ہوگئی ہے اور اس میں   128.48 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جبکہ درخواستوں کی کل تعداد 5,121  ہوگئی ہے اور اس میں 143.65فیصدکا اضافہ ہوا ہے۔

2016 سے 2023 تک بھارت کی درجہ بندی میں درج اداروں کی تعداد میں اضافہ

2016 میں بھارتی درجہ بندی کے آغاز کے بعد سے یونیورسٹیوں، کالجوں اور انجینئرنگ میں مجموعی درجہ بندی کی جارہی ہے البتہ مینجمنٹ اور فارمیسی دونوں  میں ہی  درج اداروں کی تعداد 2022 کے بعد سے  75 سے 100 ہوگئی ہےلیکن آرکیٹیکچر، قانون، میڈیکل، ڈینٹل کے ساتھ ساتھ تحقیقی اداروں کے مضامین میں درجہ بندی کرنے والے اداروں کی تعداد 30 اور 50 کے درمیان ہی محدود ہے۔مجموعی طور پر، یونیورسٹیوں، کالجوں اور انجینئرنگ کے معاملے میں 101-150 اور 151-200 کے رینک بینڈس میں اور فارمیسی اور مینجمنٹ کے معاملے میں 101-125 کے رینک بینڈ میں اضافی درجہ بندی  کومناسب طور پررکھا گیا ہے۔

بھارت درجہ بندی 2023 کی اہم  خصوصیات

  • انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی مدراس نے مسلسل پانچویں سال، یعنی 2019 سے 2023 تک اور انجینئرنگ میں مسلسل آٹھویں سال، یعنی 2016 سے 2023 تک مجموعی زمرے میں اپنی پہلی پوزیشن  کوبرقرار رکھا ہے۔
  • مجموعی زمرے میں چوٹی کے100 میں سی ایف ٹی آئیز/سی ایف یوزآئی این آئی44 پر مشتمل ہے ،اس میں 24 ریاستی یونیورسٹیاں، 13 ڈیمڈ یونیورسٹیاں، 18 نجی یونیورسٹیاں، 4 زراعت اور اس سے منسلک شعبے کے ادارے، اور 3 انتظامی ادارے شامل ہیں۔
  • انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس، بنگلور مسلسل آٹھویں سال، یعنی 2016 سے 2023 تک یونیورسٹیوں کے زمرے میں سرفہرست ہے۔ یہ مسلسل تیسرے سال، یعنی 2021 سے 2023 تک تحقیقی اداروں کے زمرے میں پہلے نمبر پر رہاہے۔
  • آئی آئی ایم احمد آباد نے مسلسل چوتھے سال یعنی 2020 سے 2023 تک اپنی پہلی پوزیشن برقرار رکھتے ہوئے مینجمنٹ کے مضمون میں سرفہرست مقام حاصل کیااور اسے 2016 سے 2019 تک  بھارتی درجہ بندی کے انتظامی مضمون میں چوٹی کے دو میں رکھا گیا۔
  • آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (اےآئی آئی ایم ایس)، نئی دہلی نے مسلسل چھٹے سال، یعنی 2018 سے 2023 تک میڈیکل میں سرفہرست مقام حاصل کیا۔ مزید یہ کہ ایمس مجموعی زمرے میں چھٹی پوزیشن پر ہے اور 2022 میں اس کی پوزیشن نویں تھی جس میں بہتری آئی ہے۔
  • نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فارماسیوٹیکل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ، حیدرآباد پہلی بار جامعہ ہمدرد کو دوسرے نمبر پرچھوڑتے ہوئے فارمیسی کی درجہ بندی میں سرفہرست ہے۔ جامعہ ہمدرد کو مسلسل چار سال یعنی 2019 سے 2022 تک پہلی پوزیشن پر رکھا گیاہے۔
  • مرانڈا ہاؤس نے مسلسل ساتویں سال، یعنی 2017 سے 2023 تک کالجوں میں پہلی پوزیشن برقرار رکھی ہے۔
  • آئی آئی ٹی  روڑکی مسلسل تیسرے سال، یعنی 2021 سے 2023 تک آرکیٹیکچر کے مضمون میں پہلی پوزیشن پر ہے۔
  • نیشنل لا اسکول آف انڈیا یونیورسٹی، بنگلورو نے مسلسل چھٹے سال یعنی 2018 سے 2023 تک قانون میں اپنی پہلی پوزیشن برقرار رکھی ہے۔
  • دہلی کے کالجوں نے کالجوں کی درجہ بندی میں دہلی کے پہلے 10 کالجوں میں سے پانچ کالجوں کے ساتھ اپنےغلبے کو برقرار رکھاہے۔
  • سویتا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل اینڈ ٹیکنیکل سائنسز نے مسلسل دوسرے سال اعلیٰ پوزیشن حاصل کی ہے۔
  • انڈین ایگریکلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی زراعت اور اس سے منسلک شعبوں میں سرفہرست ہے۔
  • انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کانپور انوویشن کے زمرے میں سرفہرست ہے۔

انڈیا رینکنگ 2023 دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں:

https://www.nirfindia.org/2023/Ranking.html

*************

ش ح۔ ش م ۔ م ش

U. No.5857


(Release ID: 1930153) Visitor Counter : 161


Read this release in: English , Marathi , Hindi , Manipuri