نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ

کیرالہ قانون ساز اسمبلی کی عمارت کی سلور جوبلی تقریبات میں نائب صدر جمہوریہ کے خطاب کا متن (اقتباسات)

Posted On: 22 MAY 2023 5:18PM by PIB Delhi

نمسکارم! سبھادھینم!

یہ سب سے بڑی خوشی اور اطمینان کی بات ہے کہ میں کیرالہ قانون ساز اسمبلی کی عمارت - نیاماسبھا کی سلور جوبلی تقریبات سے وابستہ ہوں۔

  درحقیقت وزیر اعلیٰ اور کیرالہ قانون ساز اسمبلی کے پرجوش معزز اسپیکر کا  دل کو گرما دینے والی اس تقریب میں بھرپور شرکت کے لیے شکر گزار ہوں۔ میں اظہار کردہ جذبات سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ اگرچہ میں آپ کی مقامی زبان نہیں سمجھتا لیکن میں اس کا بڑا مداح ہوں۔

  کیرالہ کے لوگوں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد۔ قوم کو ان کی توانائی، انسانی وسائل کی فراوانی، ان کی وابستگی، ریاست اور باہر بالخصوص تعلیم اور صحت کے میدان میں ان کی مؤثر موجودگی پر فخر ہے۔ میں اس  سے مستفید ہونے والا ہوں۔ پچپن سال کے بعد میں اپنے گرو دکشینا، سینک اسکول میں اپنے استاد کو خراج عقیدت پیش کروں گا۔ رتنا نائر۔ میں ان سے  ملنے جاؤں گا۔

کیرالہ کے عوام، ان کے منتخب نمائندوں کو مبارکباد، جنہوں نے اس ادارے کو ایک نئی جہت دینے کے لیے انتھک محنت کی۔ ایک ایسا ادارہ جو مشترکہ مقصد کے لیے سماجی اصلاحات، سماج کی بالکل نچلی سطح پر اصلاحات، تعلیم اور صحت کے میدان میں اختراعی نظریات کے ذریعے پروان چڑھا ہے۔

  'خدا کے اپنے ملک' میں رہنا - قدیم قدرتی خوبصورتی کی سرزمین جس میں پُرسکون ساحل، سرسبز چائے کے باغات، منفرد آرٹ فارمز، مختلف مسالے، الاپپوزا اور کولم میں پ رواں پانی، پہاڑی سلسلے اور جنگلاتی زندگی کی پناہ گاہیں - ملک کے سب سے بڑے ٹائیگر ریزرو میں، جس کا اعلان 1978 میں ہوا۔ آپ سب جانتے ہیں کہ افریقہ سے ہمارے ٹائیگر کو حاصل کرکے ملک میں ایک بڑی کوشش کی جا رہی ہے اور میں آپ سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

جب میں کیرالہ کے ’خدا کے اپنے ملک ‘کی سرزمین ہونے کا حوالہ دیتا ہوں، تو مجھے چٹمپی سوامیکل کو سلام پیش کرنا چاہیے، انہوں نے خواتین کی آزادی کے لیے کام کیا، ایک عظیم ہندو بابا اور سماجی مصلح۔ شری نارائن گرو، ایک اور مصلح اور سماجی مساوات میں پختہ یقین رکھنے والے، جنہیں ہمارے آئین کے دیباچے میں جگہ ملی ہے۔   کوریاکوس الیاس چاورا، ایک عظیم انسان، ایک سماجی مصلح۔ وکوم عبدالخدر، ایک قابل استاد، مصنف، عالم، آزادی پسند۔ چتھیرا تھرونل بلارما ورما- ایک وقت میں ایک بادشاہ جمہوریت میں بہترین روایات کو جنم دیتے ہوئے، جس کا دنیا اس وقت دعویٰ کر رہی ہے، عظمت کے ساتھ اس سے ایک شاندار تعاون مل سکتا ہے۔

اس ملک کے دو سابق صدور کا خاص حوالہ، سب سے پہلے، مٹی کے فرزند شری کے آر نارائنن جی، مجھے ان کے ساتھ رہنے کا  ایک موقع ملا جب وہ لوک سبھا کے رکن تھے اور میں مرکزی وزیر تھا۔ انہوں نے ہی اس عمارت کا افتتاح کیا تھا۔ میرے لیے کتنا فخر کا لمحہ ہے کہ جس کے لیے میں بے پناہ احترام کرتا ہوں، میں سلور جوبلی کے موقع پر کسی نہ کسی حوالے سے منسلک ہوں۔ دوسرا، میزائل مین جناب اے پی جے عبدالکلام جی نے سفر  کا آغاز کیا اور اس عمارت کے ایک چھوٹے سے کمرے میں بھارت  کی خلائی تحقیق  شروع کی تھی ۔

اگر میں اس مٹی کے کچھ دوسرے نامور بیٹوں کا ذکر نہیں کروں گا  تو میں خود کو اپنے فرض کی ادائیگی میں ناکام سمجھوں گا ،  ان بیٹوں کی وجہ سے ہمارے ملک بھارت کو فخر محسوس ہوتا ہے اور جن کی شرکت ہماری زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اکثر  تعاون دے رہی ہیں۔ سری پدمانابھاسوامی مندر مہاراجہ مرتھنڈا ورما نے بنوایا تھا، ہمیں ایسا  سونپنے کے  سلسلے میں ان کا نام تاریخ میں ملتا ہے۔ ای ایم ایس نمبودری پد ، انہوں نے کمیونسٹ پارٹی کے پہلے منتخب وزیر اعلیٰ بن کر عالمی تاریخ رقم کی۔ ای ایم ایس کو بھی پہلی بار آرٹیکل 356 کے تحت نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ایسے وقت میں کیا گیا جب ایک وزیر اعظم نشست پر تھا اور مستقبل کا وزیر اعظم تنظیم کی سربراہی کر رہا تھا۔ میں نے سیکھا کہ لوگ کیسے مموٹی سے خوش ہیں، موہن لال سے کوش ہیں- وہ ان کے کام سے بہت متاثر ہیں۔ میں نے مشرق وسطیٰ اور دیگر جگہوں کے اپنے دوروں میں نے پدم شری ایم اے یوسف علی  کو  خود دیکھا ہے ۔ پدم بھوشن یسو داس، موسیقار- انہیں کون نہیں جانتا؟

خواتین و حضرات، ہمارے پاس راجیہ سبھا میں آپ کی ریاست سے ایک نامزد رکن پی ٹی اوشا ہیں اور وہ وائس چیئرمین کے پینل میں شامل ہیں۔ بھارتی  ٹریک اینڈ فیلڈ کی ملکہ، میں اگلی بار اس کے گاؤں کا دورہ کروں گا تاکہ مجھے معلوم ہو کہ اس میں ایسی کیا خاص بات ہے جس نے پوری قوم کو سر فخر سے بلند کیا ہے۔ مجھے مزید کہنے دو ۔ جب میں وزیر بنا تو چودھری دیولال جی ڈپٹی پرائم منسٹر تھے، ایک شخص جو فارم ڈیولپمنٹ پر یقین رکھتے تھے اور میں ایک درجن سے زیادہ پارٹیوں پر مشتمل گورننس کی جونیئر سطح پر پارلیمانی امور کا وزیر تھا۔ مجھے ڈائس پر موجود تمام لوگوں کے ساتھ وابستہ رہنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس کے بعد ایک عظیم انسان ڈاکٹر ورگیس کورین سے ملاقات ہوئی، جو بھارت  کے دودھ والے ہیں جو ہم سب کو فخر محسوس کراتے ہیں۔ ہمارے پاس جناب ای سریدھرن بھی ہیں، جو میٹرو مین ہیں اور سائنسدان جی مادھاون نائر کی عظیم شرکت کو کون بھول سکتا ہے جنہوں نے بھارت  کی خلائی تحقیق میں ہمیں بڑی پیش رفت کا موقع دیا ۔ محض چند ماہ  پہلے، بھارتی  خلائی تحقیق کی تنظیم کو سرکردہ ممالک کے مدار میں سیٹلائٹ بھیجنے کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔

امریکہ کو سپریم کورٹ میں ایک خاتون جج مقرر کرنے میں ایک طویل عرصہ لگا- ایک سو پچاس سال سے زیادہ- لیکن ہم نے یہ کام بہت کم مدت میں  انجام دیا ۔ محترمہ ایم فاطمہ بیبی، وہ اسی ریاست سے تھیں۔ سپریم کورٹ کی جج بننے والی پہلی خاتون اور اس کے بعد حالات میں کافی زیادہ پیش رفت ہوئی ۔ ریاست کے واحد اولمپیئن مینوئل فریڈرک، ارجن ایوارڈ یافتہ انجو بوبی جارج، جنوبی ہند کے نائٹنگیل، پدم بھوشن، کے ایس چتھرا کو کون بھول سکتا ہے؟ ان تمام لوگوں نے اپنا  تعاون دیا ہے اور آپ کی ریاست کے نمائندے ہیں، فہرست طویل ہے۔ میں سیاست دانوں کا ذکر نہیں کروں گا کیونکہ ان کی فہرست بھی طویل ہے اور میری طرف سے کوئی کوتاہی ہوئی تو مجھے نقصان ہو سکتا ہے۔ راجیہ سبھا میں، ہمارے پاس ایلارام کریم ہیں، جو شیر کی طرح ہمیشہ چوکنا، نرم مزاج مرلیدھرن ہیں۔

ریاست کے اپنے پہلے دورے  کے تحت  یہاں پہنچنے پر، میں نے پدمنابھاسوامی مندر گیا اور وہاں ریاست اور قوم کی فلاح و بہبود کے لیے دعا کرتے ہوئے ایک گھنٹہ گزارا۔ میرا وہاں گزارا ہوا ہر لمحہ میرے دل و دماغ پر امٹ نقش ہے۔ شاندار مندر کا پرسکون ماحول اور دلکش فن تعمیر کیرالہ کے مالا مال ورثے کی عکاسی کرتا ہے۔ رب کی رحمتیں ان گنت روحوں کو چھوتی رہیں جو رہنمائی اور تسلی کے خواہاں ہوں۔

نیام سبھا - اسمبلی کی عمارت کی بنیاد 1979 میں رکھی گئی تھی اور تقریبا دو دہائیوں کے بعد 22 مئی 1998 کو اس وقت کے صدر  جمہوریہ کے آر نارائنن نے اس کا افتتاح کیا تھا۔ عمارت کا افتتاح کرتے ہوئے اس وقت کے صدر جمہوریہ کے آر نارائنن نے اس بات کی عکاسی کی کہ ’’بھارتی  جمہوریت کے عظیم درخت میں کیرالہ ایک پھول دار شاخ رہا ہے جس میں کچھ نایاب پھل ہیں‘‘۔میں یہاں ایک لمحے کے لیے رکتا ہوں۔ میں نے ان پھلوں کا ذکر کیا، جدید قانون سازی، بڑے عوامی مقاصد کی خدمت کی۔ انہوں نے مزید کہا ، ’’ اپنی آبائی ریاست کے لیے میں تعصب سے باہر  ہوکر کچھ نہیں کہہ پا رہا ہوں اس تعصب کو میں آسانی سے تسلیم کرتا ہوں۔ میں ایسا اس لیے  کہہ رہا ہوں کہ جمہوریت کیرالا کی سوچ اور ثقافت میں شامل تھی، باوجود اس کے کہ جمہوریت مخالف  خیالات اس سماج سماج میں داخل ہوئے اور اس سماج میں بگاڑ پیدا ہو گیا۔ آزادی اور اتحاد کا نظریہ، جو جمہوریت کی روح ہے، سنکارا کے فلسفے میں اسی طرح موجود تھا جیسا کہ اپنشدوں میں تھا۔‘‘

  اس موقع پر، میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ کے آر نارائنن جی کے ہر لفظ کو سمجھیں۔ ان کی پیدائش اس ریاست میں ہوئی تھی انہوں نے اپنے تعصب کو سمجھا لیکن جس چیز کی عکاسی کی وہ معروضیت اور دور اندیشی سے بھرپور تھی۔ جمہوریت اس وقت تک پھل پھول نہیں سکتی اور ترقی نہیں کر سکتی جب تک کہ یہ ترقی جامع انداز کی نہ ہو۔ 25 سال کے دوران، اس مقدس عمارت نے کیرالی معاشرے کے ارتقاء کا مشاہدہ کیا ہے، جو ایک ایسے پلیٹ فارم کے طور پر کام کر رہی ہے جہاں بہت سے مباحثوں کی وجہ سے احتساب  کا رجحان پیدا ہوا۔

  اس طرح کی عمارتیں محض اینٹیں اور گارےکے  نہیں ہوتیں ۔ یہ ان  امیدوں   اور امنگوں کی علامت ہوتی ہیں جو عوام ان سے وابستہ کرتے ہیں اور ان سے عوام کو بڑے پیمانے پر یقین دہانی ہوتی ہے ۔ یہ جمہوری اقدار کے پھلنے پھولنے کا  ایک اہم وسیلہ ہوتی ہیں۔

  کیرالہ اپنے مستقبل کی سوچ کے تناظر اور سماجی انصاف کے لیے اٹل وابستگی کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ شہرت ترقی پسند قانون سازی کے ایک سلسلے کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے۔ کیرالہ کی قانون ساز اسمبلی کو بہت سے ترقی پسندانہ قانون  بنانے کا صرف حاصل ہے جو دیگر قانون سازوں کے  لیے قابل توجہ ہیں۔

کیرالہ قانون ساز اسمبلی کی عمارت عوام کی مرضی، جمہوریت کی روح اور آئین کے جوہر کی نمائندگی کرتی ہے اور بڑے پیمانے پر لوگوں کے لیے تمہید کے آئیڈیل کو سمجھنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ آنے والے برسوں میں، یہ عمارت کیرالہ کے لوگوں کی امنگوں کی نمائندگی کرنے اور ان کو عملی جامہ پہنانے کے ساتھ ساتھ بھارت  کے آئین میں درج جمہوری نظریات کو مزید تقویت دینے والا ایک شاندار تھیئٹر بن کر رہے گا۔

  ہم بدلتے ہوئے دور میں جی رہے ہیں جس کے دوران  ہر لمحہ ایک چیلنج ہے، اس لیے مقننہ کو اپنی  حدود سے نکلنا ہوگا جس میں وہ قید  ہیں۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اسمبلی کے ہر دور میں 100 سے زیادہ قانون بنائے گئے ۔ دوستو، قانون سازی کوئی مشینی کام نہیں، اس میں سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ آپ بڑے پیمانے پر لوگوں کو جو کچھ دیتے ہیں، اس کے لیے مختلف نظریات کا ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ اس تناظر میں، اس مقننہ کے کمیٹی سسٹم کو بڑے پیمانے پر سراہا جاتا ہے۔

  موجودہ قانون سازوں کے طور پر، آپ بھی ایک درخشاں میراث کے وارث ہیں۔ یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ اپنی محنت سے اسے برقرار رکھیں۔ اگر آپ بہتے دریا میں کھڑے ہیں، یہاں تک کہ اسی جگہ پر کھڑے ہونے کے لیے آپ کو اپنے قدموں کو حرکت میں رکھنا ہوگا۔ بغیر حرکت کیے ایک ہی جگہ پر دریا میں ہونے کی وجہ سے آپ بہہ جائیں گے۔ آپ اپنے پیشروؤں کے ساتھ اپنی ریاست کی آگے کی پیشرفت کے لیے قانون سازی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں تاکہ اسے وقت کی عصری ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے سماجی پلیٹ فارمز کو تبدیل کیا جا سکے۔

اس موقعے سے ہمیں کامیابیوں، چیلنجوں اور جمہوری جذبے پر غور کرنے کا ایک قیمتی موقع فراہم کرتا ہے جس کی وجہ سے پچھلی چوتھائی صدی کے دوران اس عظیم الشان عمارت میں واقع یہ  مشہور ادارہ  نمایاں ہوتا ہے۔

اس ادارے کو 'نیام سبھا' کے نام سے پکارا جانا  مناسب ہے، کیرالہ کی قانون ساز اسمبلی کی ترقی پسندانہ  قانون سازی میں شاندار ریکارڈ رہا ہے۔ نیاماسبھا ایک شاندار عمدہ کمپلیکس ہے، جس کاعالی شان اور کشادہ اسمبلی ہال اور اس میں کافی معاون سہولیات موجود ہیں۔ یہ ایک منفرد تعمیراتی تخلیق ہے۔ جمہوریت کا جوہر عوام کی رائے پر عمل درآمد میں مضمر ہے جس کی عکاسی قانونی پلیٹ فارمز یعنی پارلیمنٹ اور مقننہ کے ذریعے ہوتی ہے۔

  کسی بھی جمہوریت میں پارلیمانی خودمختاری ناقابل تسخیر ہوتی ہے۔ یہ اختیاری نہیں ہے، یہ کسی بھی جمہوری طرزِ حکمرانی کا ایک اٹوٹ پہلو ہے۔ پارلیمانی خودمختاری کے بغیر جمہوریت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ پارلیمنٹ اور مقننہ میں ہر کوئی اس کی پاسداری کا حلف لے رہا ہے۔ قوم کا پارلیمنٹ اور مقننہ سے توقع رکھنا ایک معقول بات ہے۔ وہ جمہوریہ کی بنیادی اقدار کی توثیق اور ان میں اضافہ کرنے اور پارلیمانی جمہوریت کی روایات کو قائم کرنے کے لیے فیصلہ کن رہنمائی کرتی ہیں جو تقلید کے اعلیٰ ترین سوچے سمجھے معیارات کی مثال ہوتی ہیں۔ میرا مطلب واضح طور پر ہے کہ اگر پارلیمنٹ میں ظاہر کیے جانے والے طرز عمل کی تقلید کے قابل نہیں ہے، تو اگر   اس میں کچھ کمی ہے جس میں ہمارے ذہنوں کو فروغ دینا اور سوچنا شامل ہے۔

  آج ہم امرت کال میں ہیں اور امرت کال کا سب سے بڑا موقع اور چیلنج یہ ہے کہ ہم آج بنیاد رکھ رہے ہیں کہ 2047 میں بھارت کیسا ہوگا جب وہ اپنی آزادی کی صد سالہ جشن منائے گا۔ مؤثر اور حفاظتی مقننہ کا کام جمہوری اقدار کو پھلنے پھولنے اور اس کے تحفظ اور ایگزیکٹو کو جوابدہ رکھنے کی سب سے محفوظ ضمانت ہے۔ کوئی بھی اس سے متفق نہیں ہے۔ جو لوگ ہمارا انتظام کرتے ہیں وہ متحرک طور پر کام کرنے والی مقننہ اور پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہیں۔

خواتین و حضرات،  ہمارا ملک ایک عظیم تہذیبی اقدار کا حامل ملک ہے۔ اس اہم مسئلے پر ہم اپنی آئین ساز اسمبلی سے تحریک اور رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں، دستور ساز اسمبلی نے تین سال تک آئین بنانے پر غور کیا۔ اس  نے بہت ہی تفرقہ انگیز مسائل، متنازعہ مسائل کا سامنا کیا۔ لوگوں کی مختلف آراء ہیں۔ رائے آسانی سے نہیں مل سکتی تھی۔ انہوں نے بات چیت، بحث، غور و خوض میں مشغول ہو کر حل تلاش کیا۔ وہ کبھی بھی تصادم پر یقین نہیں رکھتے تھے، وہ باہمی تعاون پر یقین رکھتے تھے۔ ریکارڈ پر، میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ تین سال میں آئین ساز اسمبلی میں ایک بھی  رکاوٹ یا گڑبڑ نہیں ہوئی۔

  آئیے ہم اس سلسلے میں غور کریں اور کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کریں۔ ایک تشویشناک رجحان ہے جسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ میرا ایک نقطہ نظر ہے۔ کسی اور کا نقطہ نظر دوسرا ہوگا؛ میں دوسرے نقطہ نظر کو سننے کے لئے تیار نہیں ہوں! کسی بھی مہذب معاشرے میں، کسی بھی جمہوری طرزِ حکمرانی میں، نظام کے لیے آپ کو کم از کم یہ کرنا چاہیے کہ براہِ کرم مخالف نقطہ نظر پر غور کریں۔ زیادہ کثرت سے، دوسرا نقطہ نظر صحیح نقطہ نظر ہوسکتا ہے۔

میں آپ کو مشورہ دینا چاہتا ہوں اور آپ سے التجا کرنا چاہتا ہوں کہ ایسا ماحول تیار کریں کہ محض کسی ایک معمولی بات پر کسی کا نقطہ نظر مسترد نہ کیا جائے ۔ متفق ہونا یا نہ ہونا آپ کا اختیار ہے، لیکن اگر ہم ایک سخت موقف اختیار کرتے ہیں کہ ہم دوسرے نقطہ نظر پر غور نہیں کریں گے، تو  حقیقی  طور پر یہ جمہوریت کی  روح نہیں ہوگی۔

  دنیا نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ذریعہ ڈیجیٹل ترقی کا جائزہ لیا اور اسے تسلیم کیا، جہاں اس ریاست کا ایک شخص، ایک انتہائی اہم عہدے پر فائز ہے- گیتا گوپی ناتھ، دنیا کو ان کے تعاون پر فخر ہے۔ آئی ایم ایف نے رپورٹ کیا، ’’بھارت  میں عالمی سطح کا عوامی بنیادی ڈھانچہ موجود ہے‘‘  جو ڈیجیٹل تبدیلی سے گزرنے والی دیگر اقوام کے لیے ایک نمونہ کے طور پر کام کر رہا ہے۔

ایک اور شخصیت جو میں نے دنیا کے لوگوں کے ساتھ شیئر کی اور انہوں نے کہا کیا یہ ہو رہا ہے؟ میں نے کہا، یہ حقیقی صورت حال ہے ۔ بھارت  میں  70 کروڑ سے زیادہ انٹرنیٹ صارفین ہیں۔ فی کس موبائل ڈیٹا کی کھپت، پچھلے سال، امریکہ اور چین میں کھپت سے بڑھ گئی اور اسے ایک ساتھ لیا گیا۔

  ان دنوں کوئی چوری نہیں ہے جب پیسہ ریاستی حکومت یا مرکزی حکومت سے فائدہ اٹھانے والے کو جانا پڑتا ہے۔ جن دھن اکاؤنٹس، آدھار نمبر، موبائل ٹیلی فونی نے یہ ممکن بنایا۔ ہم نے نہیں سوچا کہ  2.25 لاکھ کروڑ روپے 11 کروڑ کسانوں کو جا سکتے ہیں۔

صرف پیسے کی بات کر رہا ہوں، میں اس طریقہ کار کی بات کر رہا ہوں کہ ان تمام 11 کروڑ کسانوں کے بینک اکاؤنٹس تھے۔ انہیں براہ راست رقم مل سکتی تھی۔ ہمیں اس پر فخر ہے۔

  یہ خوشی کی بات ہے کہ تمام ریاستوں کے مقابلے  کیرالہ میں انٹرنیٹ کے سب سے زیادہ صارفین ہے ۔ اس علاقے میں دخول ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ اس لیے آپ اس کے اثرات کو جانتے ہیں۔ ٹیکنالوجی پارکس، الیکٹرانک شہروں، کیرالہ کی تخلیق بڑے پیمانے پر لوگوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے سب سے آگے ہے اور مجھے یقین ہے کہ ایسا ہوتا رہے گا۔ ریاست کا معیاری انسانی وسائل اس ترقی پسند ثقافت کے ساتھ مل کر جامع ترقی کی ایک نئی تاریخ رقم کرے گا۔

  حکومت ہند نے ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچے کو بااختیار بنانے کے لیے سال 2015 میں ڈیجیٹل انڈیا پروگرام شروع کیا  تھا۔ میں یہاں ایک لمحے کے لیے رکتا ہوں۔ ایک لمحے کے لیے سوچیں، اگر بھارتی یہ  پروگرام شروع نہ کرتا تو حالات ایسے نہ ہوتے ، براہ راست رقم بھیجنے کا موقع ہی نہ آتا۔ مڈل مین وہاں ہوتے، انسانی مداخلت وہاں ہوتی اور ہم  کووڈ کا سامنا کرنے کے قابل نہیں ہوتے جس طرح کہ ہم نے  حالات کا سامنا کیا۔

خواتین و حضرات، مجھے یہ بتاتے ہوئے بہت فخر ہے کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی امریکہ میں کیرالہ کے باشندوں نے اپنی ترسیلات زر  سے  ریاست کی مجموعی گھریلو پیداوار میں بہت زیادہ تعاون دیا ہے ، یہ تعاون ملک میں سب سے زیادہ ہے۔

  ہمارا آئین ہر کسی کو اظہا رائے کی آزادی فراہم کرتا ہے، لیکن اس میں زیادہ آزادی اظہار رائے کی ہے، جو مقننہ اور ارکان پارلیمنٹ کو دی گئی ہے۔ اگر وہ پارلیمنٹ یا مقننہ میں کچھ کہتے ہیں تو عام شہری انہیں عدالت میں نہیں لے جا سکتے۔ کوئی ہتک عزت نہیں ہو سکتی، کوئی دیوانی مقدمہ نہیں، کوئی فوجداری مقدمہ نہیں، بڑا موقع، بڑا استحقاق ہو سکتا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ یہ ایک بھاری ذمہ داری ہے۔ غلط معلومات کی تجارت نہیں ہو سکتی۔ معلومات کا آزادانہ زوال نہیں ہو سکتا، جوابدہی کا گہرا احساس ہونا چاہیے۔ میں اس پر کام کر رہا ہوں، اس لیے میں نے مقررین سے اس کے بارے میں سوچنے کی استعدا  کی۔ اگر آپ کے پاس کوئی نقطہ ہے، تو آپ حقائق کے ساتھ اس کی پشت پناہی کر سکتے ہیں اور فرش پر کہہ سکتے ہیں۔ آپ محض ایک ڈھیلے ڈھالا تبصرہ نہیں کر سکتے اور لوگوں کی ساکھ کو خراب نہیں کر سکتے یا ملک کو تباہ نہیں کر سکتے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ایک مسئلہ ہے، جہاں ایک صحت مند بحث ہوگی تاکہ ہم آگے بڑھیں۔

  دوستو، ہم  ایک نازک موڑ پر ہیں اور میں کہتا ہوں، اس لیے کہ یہ پہلی بار ہے کہ دنیا بھارت  کی طرف دیکھ رہی ہے۔ دنیا ہماری آواز کی منتظر ہے۔ یوکرین ایک ایسی جنگ ہے جہاں سب نے ہماری طرف دیکھا ہے۔ بھارت کی پالیسیاں اب قومی مفاد پر منحصر ہیں اور دنیا انتظار کر رہی ہے کہ بھارت کا ردعمل کیا ہو گا۔ مجھے آپ کے ساتھ یہ بتاتے ہوئے بے حد خوشی ہو رہی ہے کہ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتیں زیادہ تر مسائل پر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر آگے بڑھ رہی ہیں، ایک صحت مند ماحولیاتی نظام پیدا کر رہی ہیں۔

  لوگوں کی پائیدار بہبود اور ان کے اختیارات کو یقینی بنانے کے لیے، میری یہ دعا ہے کہ ہم سب  متحد ہوجائیں ۔ ہمیں یکجہت ہونا چاہیے۔ ہمیں مل کر کام کرنا چاہیے۔ ہمیں محاذ آرائی کے موڈ میں نہیں رہنا چاہیے۔ اسے بھارتی  آئین کی تمہید کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کام کرنا چاہیے ۔

میں عزت مآب وزیر اعلیٰ اور معزز اسپیکر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اختتام کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے ریاست کیرالہ کے روشن خیال لوگوں کے ساتھ اپنے کچھ خیالات کا اشتراک کرنے کا یہ عظیم موقع فراہم کیا۔ میں جانتا ہوں کہ یہاں موجود ہر شخص اعصاب کا ایک  مرکز ہے اور ان نظریات سے انسانیت کی بہتری کے لیے دور رس نتائج  برآمد ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اس موقع پر جب بھارت جی 20 کی سربراہی کر رہا ہے، موٹو ایک کرۂ ارض ، ایک خاندان، ایک مستقبل ہے- یہ ہماری قدیم تہذیبی اقدار کا احساس ہے۔

  ایک بار پھر، آپ کے صبر کا شکریہ۔

۔۔۔۔

ش ح۔ا س۔  ت ح ۔                                              

U5384



(Release ID: 1926490) Visitor Counter : 161


Read this release in: English , Hindi , Tamil