وزیراعظم کا دفتر

انٹرنیشنل ایکسپو 2023 کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 18 MAY 2023 2:48PM by PIB Delhi

کابینہ میں میرے ساتھی جناب کشن ریڈی جی، میناکشی لیکھی جی، ارجن رام میگھوال جی، لوورے میوزیم کے ڈائریکٹر مینوئل رباطے جی، دنیا کے الگ الک ملکوں کے مہمانان، دیگر معززین، خواتین و حضرات، آپ سب کو انٹرنیشنل میوزیم ڈے کی بہت بہت مبارکباد۔ آج یہاں عجائب گھر کی دنیا کے باکمال لوگ جمع ہیں۔ آج کا موقع اس لیے بھی خاص ہے کہ ہندوستان اپنی آزادی کے 75 سال مکمل ہونے کے موقع پر امرت مہوتسو منا رہا ہے۔

انٹرنیشنل میوزیم ایکسپو میں بھی جدید ٹیکنالوجی سے جڑ کر تاریخ کے مختلف ابواب زندہ ہو رہے ہیں۔ جب ہم کسی میوزیم میں جاتے ہیں تو ہمیں ایسا لگتا ہے جیسے ہمیں گزرے ہوئے زمانے سے، اس دور سے متعارف کرایا جا رہا ہے، ہمارا تعارف کیا جا رہا ہے۔ میوزیم میں جو کچھ نظر آتا ہے وہ حقائق پر مبنی ہوتا ہے، نظر آتا ہے، وہ شواہد پر مبنی ہوتا ہے۔ عجائب گھر میں ایک طرف تو ہمیں ماضی سے ترغیب ملتی ہے اور دوسری طرف مستقبل کے تئیں اپنے فرائض کا احساس بھی ہوتا ہے۔

آپ کا جو موضوع ہے- پائیداری اور فلاح و بہبود، آج کی دنیا کی ترجیحات کو نمایاں کرتا ہے، اور اس پروگرام کو مزید معنویت کا حامل بناتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی کوششوں سے نوجوان نسل کی عجائب گھروں میں دلچسپی مزید بڑھے گی، انہیں ہمارے ورثے سے متعارف کرایا جائے گا۔ میں آپ سب کو ان کوششوں کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

یہاں آنے سے پہلے عجائب گھر میں چند لمحے گزارنے کا موقع ملا، بہت سے پروگراموں میں جانے کا موقع ملتا ہے، سرکاری، غیر سرکاری، لیکن میں کہہ سکتا ہوں کہ من پر اثر ڈالنے والی پوری پلاننگ، اس کی تعلیم اور حکومت بھی اس اونچائی کا کام کر سکتی ہے جس کے لیے بہت فخر ہوتا ہے، ایسا نظام موجود ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ آج کا موقع ہندوستانی عجائب گھروں کی دنیا میں ایک بہت بڑا موڑ لائے گا۔ یہ میرا پختہ یقین ہے۔

ساتھیو،

سینکڑوں سال کی طویل غلامی نے ہندوستان کو یہ نقصان بھی پہنچایا کہ ہمارا بہت سا تحریری اور غیر تحریری ورثہ تباہ ہو گیا۔ غلامی کے دور میں بہت سے مخطوطات، بہت سی لائبریریاں جلا دی گئیں، تباہ کر دی گئیں۔ یہ صرف ہندوستان کا نقصان نہیں ہے، یہ پوری دنیا کا، پوری انسانیت کا نقصان ہے۔ بدقسمتی سے آزادی کے بعد ہمارے ورثے کو بچانے کے لیے جو کوششیں کی جانی چاہیے تھیں وہ کافی نہیں ہوئیں۔

تاریخی ورثے کے بارے میں لوگوں میں شعور کی کمی نے اس نقصان کو مزید بڑھا دیا ہے۔ اور اسی لیے ہندوستان نے آزادی کے امرت کال میں جن ‘پنچ پران’ کا اعلان کیا ہے، ان میں اہم ہے - اپنے ورثے پر فخر! امرت مہوتسو میں ہندوستان کے ورثے کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ہم نیا ثقافتی ڈھانچہ بھی تشکیل دے رہے ہیں۔ وطن عزیز کی ان کاوشوں میں جدوجہد آزادی کی تاریخ بھی ہے اور ہزاروں سال کا ثقافتی ورثہ بھی۔

مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ نے اس تقریب میں مقامی اور دیہی عجائب گھروں کو خصوصی اہمیت دی ہے۔ حکومت ہند مقامی اور دیہی عجائب گھروں کو محفوظ کرنے کے لیے ایک خصوصی مہم بھی چلا رہی ہے۔ ہماری ہر ریاست، ہر علاقے اور ہر معاشرے کی تاریخ کو محفوظ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم 10 خصوصی عجائب گھر بھی تعمیر کر رہے ہیں تاکہ جدوجہد آزادی میں اپنی قبائلی برادری کی شراکت کو ہمیشہ یاد رکھا جا سکے۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہ پوری دنیا میں ایک ایسا منفرد اقدام ہے جس میں قبائلی تنوع کی ایسی جامع جھلک دیکھنے کو ملے گی۔ مہاتما گاندھی جس راستے پر نمک ستیہ گرہ کے دوران چلتے تھے، وہ ڈانڈی راستہ بھی محفوظ ہے۔ اس جگہ پر ایک عظیم الشان یادگار تعمیر کی گئی ہے جہاں گاندھی نے نمک کے قانون کو توڑا تھا۔ آج پورے ملک اور دنیا سے لوگ ڈانڈی کُٹیر تعداد میں دیکھنے کے لیے گاندھی نگر آتے ہیں۔

وہ جگہ جہاں ہمارے آئین کے معمار باباصاحب امبیڈکر کا انتقال ہوا، وہ جگہ کئی دہائیوں سے خستہ حال تھی۔ ہماری حکومت نے دہلی میں 5 علی پور روڈ اس جگہ کو قومی یادگار میں تبدیل کر دیا ہے۔ باباصاحب کی زندگی سے متعلق پنچ تیرتھ، مہو میں جہاں وہ پیدا ہوئے تھے، لندن میں جہاں وہ رہتے تھے، ناگپور میں جہاں انہوں نے دیکشا لی، ممبئی میں چیتیا بھومی جہاں ان کی سمادھی بھی تیار کی جا رہی ہے۔ ہندوستان کی 580 سے زیادہ شاہی ریاستوں کو جوڑنے والے سردار صاحب کا فلک بوس مجسمہ - اسٹیچو آف یونٹی آج  ملک کا فخر بن گیا ہے۔ اسٹیچو آف یونٹی کے اندر ایک میوزیم بھی ہے۔

پنجاب کا جلیانوالہ باغ ہو، گجرات میں گووند گرو جی کی یادگار ہو، یوپی میں وارانسی کا مان محل میوزیم ہو، گوا میں کرسچن آرٹ کا میوزیم ہو، ایسی کئی جگہوں کو محفوظ کیا گیا ہے۔ میوزیم سے متعلق ایک اور منفرد کاوش ہندوستان میں ہوئی ہے۔ ہم نے راجدھانی دہلی میں ملک کے تمام سابق وزرائے اعظم کے سفر اور ان کی شراکت کے لیے وقف ایک پی ایم میوزیم بنایا ہے۔ آج پورے ملک سے لوگ پی ایم میوزیم آ رہے ہیں تاکہ آزادی کے بعد ہندوستان کے ترقی کے سفر کا مشاہدہ کیا جا سکے۔ میں یہاں آنے والے اپنے مہمانوں سے خصوصی درخواست کروں گا کہ ایک بار اس میوزیم کو ضرور دیکھیں۔

ساتھیو،

جب کوئی ملک اپنے ورثے کو محفوظ کرنے لگتا ہے تو اس کا دوسرا پہلو ابھر کر سامنے آتا ہے۔ یہ پہلو دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات میں قربت کا ہے۔ جیسا کہ بھگوان بدھ کے مہاپری نروان کے بعد، ہندوستان نے ان کے مقدس آثار کو نسل در نسل محفوظ رکھا ہے۔ اور آج وہ مقدس آثار نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں بدھ مت کے کروڑوں پیروکاروں کو متحد کر رہے ہیں۔ ابھی پچھلے سال ہم نے بدھ پورنیما کے موقع پر 4 مقدس آثار منگولیا بھیجے تھے۔ وہ مقدس آثار پورے منگولیا کے لیے ایمان کا ایک عظیم تہوار بن گیا۔

بدھا کے آثار جو ہمارے پڑوسی ملک سری لنکا میں ہیں، کو بھی بدھ پورنیما کے موقع پر یہاں کشی نگر لایا گیا تھا۔ اسی طرح گوا میں سینٹ کوئین کیتیون کے مقدس آثار کا ورثہ بھی ہندوستان کے پاس محفوظ ہے۔ مجھے یاد ہے، جب ہم نے سینٹ کوئین کیتیون کے آثار جارجیا بھیجے تو وہاں قومی جشن کا ماحول تھا۔ اس دن جارجیا کے بہت سے شہری وہاں سڑکوں پر جمع تھے، وہاں بہت بڑے میلے جیسا ماحول تھا۔ یعنی ہمارا ورثہ بھی عالمی اتحاد کا ذریعہ بنتا ہے۔ اور اس لیے اس ورثے کو محفوظ رکھنے والے ہمارے عجائب گھروں کا کردار بھی مزید بڑھ جاتا ہے۔

ساتھیو،

جس طرح ہم کل کے لیے خاندان میں وسائل کا اضافہ کرتے ہیں، اسی طرح ہمیں پوری زمین کو ایک خاندان سمجھ کر اپنے وسائل کو بچانا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ ہمارے عجائب گھر ان عالمی کوششوں میں سرگرم حصہ دار بنیں۔ ہماری کرہ ارض نے پچھلی صدیوں میں کئی قدرتی آفات کا سامنا کیا ہے۔ ان کی یادیں اور علامتیں آج بھی موجود ہیں۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ عجائب گھروں میں ان علامتوں اور ان سے متعلق تصاویر کی گیلری کی سمت سوچنا چاہیے۔

ہم مختلف اوقات میں زمین کی بدلتی ہوئی تصویر کو بھی پیش کر سکتے ہیں۔ اس سے آنے والے وقت میں لوگوں میں ماحولیات کے بارے میں بیداری بڑھے گی۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس ایکسپو میں گیسٹرونومک کے تجربے کے لیے جگہ بھی بنائی گئی ہے۔ لوگ یہاں آیوروید اور موٹے اناج شری ان سے تیار کردہ پکوانوں کا بھی تجربہ کریں گے۔

ہندوستان کی کوششوں سے آیوروید اور موٹے اناج شری ان ان دنوں ایک عالمی تحریک بن چکے ہیں۔ ہم ہزاروں سال کے اناج اور مختلف نباتات کے سفر پر مبنی نئے عجائب گھر بھی بنا سکتے ہیں۔ اس طرح کی کوششیں اس علمی نظام کو آنے والی نسلوں تک لے جائیں گی اور انہیں امر کر دیں گی۔

ساتھیو،

ان تمام کوششوں میں ہمیں کامیابی اسی وقت ملے گی جب ہم تاریخی چیزوں کے تحفظ کو ملک کی فطرت بنائیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ اپنے ورثے کی حفاظت ملک کے عام شہری کی فطرت کیسے بنے گی؟ ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں۔ ہندوستان میں ہر خاندان اپنے گھر میں اپنا فیملی میوزیم کیوں نہیں بناتا؟ گھر کے لوگوں کے بارے میں، اس کے اپنے گھر والوں کی معلومات۔ اس میں گھر کے بزرگوں کی پرانی اور کچھ خاص چیزیں رکھی جا سکتی ہیں۔ آج آپ جو کاغذ لکھ رہے ہیں وہ آپ کو عام لگتا ہے۔ لیکن آپ کی تحریر کا وہی کاغذ تین چار نسلوں کے بعد جذباتی ملکیت بن جائے گا۔ اسی طرح ہمارے اسکولوں، ہمارے مختلف اداروں اور تنظیموں کے بھی اپنے عجائب گھر ہونے چاہئیں۔ دیکھیے گا، مستقبل کے لیے کتنا بڑا اور تاریخی سرمایہ تیار ہو گا۔

ملک کے مختلف شہر سٹی میوزیم جیسے منصوبے بھی جدید شکل میں تیار کر سکتے ہیں۔ اس میں ان شہروں سے متعلق تاریخی اشیاء رکھی جا سکتی ہیں۔ ریکارڈ رکھنے کی پرانی روایت جو ہم مختلف فرقوں میں دیکھتے ہیں اس سمت میں بھی ہماری بہت مدد کرے گی۔

ساتھیو،

مجھے خوشی ہے کہ آج عجائب گھر نہ صرف دیکھنے کی جگہ بن رہے ہیں بلکہ نوجوانوں کے لیے کیریئر کا آپشن بھی بن رہے ہیں۔ لیکن میں یہ چاہوں گا کہ ہمیں اپنے نوجوانوں کو صرف میوزیم ورکرز کے نقطہ نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ تاریخ اور فن تعمیر جیسے مضامین سے وابستہ یہ نوجوان عالمی ثقافتی تبادلے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ یہ نوجوان دوسرے ملکوں میں جا سکتے ہیں، وہاں کے نوجوانوں سے دنیا کی مختلف ثقافتوں کے بارے میں جان سکتے ہیں، انہیں ہندوستان کی ثقافت کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔ ان کا تجربہ اور ماضی کے ساتھ وابستگی ہمارے ملک کے ورثے کو محفوظ رکھنے میں بہت کارآمد ثابت ہوگی۔

ساتھیو،

آج جب ہم مشترکہ ورثے کی بات کر رہے ہیں تو میں ایک مشترکہ چیلنج کا بھی ذکر کرنا چاہوں گا۔ یہ چیلنج نوادرات کی اسمگلنگ اور تخصیص ہے۔ ہندوستان جیسے قدیم ثقافت والے ملک سینکڑوں سالوں سے اس سے نبرد آزما ہیں۔ آزادی سے پہلے اور بعد میں بہت سے نوادرات ہمارے ملک سے غیر اخلاقی طریقے سے اٹھائے گئے ہیں۔ اس قسم کے جرائم کو روکنے کے لیے ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا۔

مجھے خوشی ہے کہ آج دنیا میں ہندوستان کی بڑھتی ہوئی ساکھ کے درمیان اب مختلف ممالک نے ہندوستان کو اپنا ورثہ واپس کرنا شروع کردیا ہے۔ بنارس سے چرائی گئی ماں انا پورنا کی مورتی ہو، گجرات سے چوری ہوئی مہیشسورمردینی کی مورتی ہو، یا چولا سلطنت کے دوران بنائی گئی نٹراج کی مورتیاں، تقریباً 240 قدیم نوادرات ہندوستان واپس لائے گئے ہیں۔ جبکہ اس سے پہلے کئی دہائیوں تک یہ تعداد 20 تک نہیں پہنچی تھی۔ ہندوستان سے ثقافتی نوادرات کی اسمگلنگ بھی ان 9 سالوں میں کافی کم ہوئی ہے۔

میں دنیا بھر کے فن کے ماہروں، خاص طور پر عجائب گھروں سے وابستہ افراد سے اس شعبے میں تعاون کو مزید بڑھانے کی اپیل کرتا ہوں۔ کسی بھی ملک کے کسی میوزیم میں ایسا کوئی فن پارہ نہیں ہونا چاہیے، جو وہاں غیر اخلاقی طریقے سے پہنچا ہو۔ ہمیں اسے تمام عجائب گھروں کے لیے اخلاقی عہدبستگی بنانا چاہیے۔

ساتھیو،

مجھے یقین ہے کہ ہم ماضی سے جڑے رہتے ہوئے مستقبل کے لیے نئے آئیڈیاز پر کام کرتے رہیں گے۔ ہم ورثے کو محفوظ کریں گے اور نیا ورثہ بھی بنائیں گے۔ اسی خواہش کے ساتھ، آپ سبھی کا دل کی گہرائیوں سے بہت بہت شکریہ!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔ م ع۔ع ن

 (U: 5262)



(Release ID: 1925204) Visitor Counter : 154