نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

حزب اختلاف کے لیڈر  جناب   ملیکارجن کھڑگے کے ذریعہ  13  مارچ 2023 کو اٹھائے گئے پوائنٹ آف آرڈر کا تعین

Posted On: 05 APR 2023 3:18PM by PIB Delhi

راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے لیڈر ذریعہ اٹھائے گئے پوائنٹ آف آرڈر پر آج ایوان میں راجیہ سبھا کے چیئرمین کا بیا ن درج ذیل ہیں۔

1.   ’’ایک بیرونی ملک میں حزب اختلاف کے ایک سینئر لیڈر  کے ذریعے جس بے شرمی کے ساتھ  ہندوستان کی جمہوریت پر حملہ کیا گیا ، ہندوستان کی پارلیمنٹ کی توہین کی گئی‘‘ اس کے لئے  معافی کی مانگ کرنے والے  ایوان کے لیڈر جناب پیوش گوئل کے   بیان کے جواب میں  حزب اختلاف  کے لیڈر جناب  ملیکارجن کھڑگے نے  13 مارچ، 2023 کو ایک پوائنٹ آف آرڈر اٹھایا تھا کہ راجیہ سبھا میں لوک سبھا کے ممبر یا کسی ایسے شخص کے بارے میں جو  راجیہ سبھا کا ممبر نہیں ہے ، کوئی بحث/غور و خوض نہیں کیا جا سکتا ۔

  2. جب کہ ایوان  کے لیڈر جناب  پیوش گوئل نے کسی کا نام نہیں لیا، لیکن انہوں نے ہماری پارلیمنٹ کو داغدار  کرنے والے اور اس پر دھبہ لگانے والے  اپوزیشن کے ایک سینئر لیڈر کے بیرون ملک توہین آمیز بیان  کا سختی سے مواخذہ کیا۔

3. راجیہ سبھا میں  بحث/مباحثہ کی اہلیت سے متعلق پوائنٹ آف آرڈر  زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے حالانکہ پارلیمنٹ  ہمارے  جمہوری سیاسی نظام  میں   سب سے زیادہ  مستند نمائندہ اور ایک مقدس پلیٹ فارم ہے۔ اس  بات پر غور کرتے ہوئے مجھے احساس ہے کہ  ہم  دنیا کی سب سے بڑی  جمہوریت  ہیں اور ہماری جمہوریت ’مدر آف آل ڈیموکریسیز ‘ہیں  اور  یہاں پر  دنیا کی کل آبادی کا تقریباً چھٹا حصہ رہتا ہے۔ ہماری پارلیمنٹ جمہوریت کا مقدس مقام ہے۔

  4. آئین کے آرٹیکل 79 کے مطابق پارلیمنٹ ’صدر اور دو ایوانوں پر مشتمل ہوگی جو بالترتیب ریاستوں کی کونسل اور عوام کے ایوان کے نام سے جانے جائیں گے‘۔ اس صورت حال  کو مدنظر رکھتے ہوئے ’پارلیمنٹ‘ کے بارے میں  اظہار خیال  اور دعوے پر بھی غور کرنا ہوگا۔

5. آئین کا آرٹیکل 105 ’پارلیمنٹ کے ایوانوں اور اس کی کمیٹیوں کے اختیارات، مراعات وغیرہ‘کا ذخیرہ، اراکین پارلیمنٹ کو ’پارلیمنٹ میں اظہار رائے کی آزادی‘ فراہم کرتا ہے اور  اس معاملے میں  استثنیٰ فراہم کرتا ہے کہ  ’’ پارلیمنٹ یا اس کی کسی کمیٹی میں اس کی طرف سے دیئے گئے کسی  بیان یا کسی  ووٹ کے  لئے  کسی   عدالت میں اس کے خلاف  کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی۔‘‘

6. آئین کا آرٹیکل 121 جج  کی برطرفی کی درخواست کے ساتھ  صدر کو مخاطب کرتے ہوئے  پیش کی جانےوالی کسی  تحریک پر سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے کسی جج کے اپنے فرائض کی انجام دہی کے سلسلے میں پارلیمنٹ میں بحث کی ضابطہ بندی کرتا ہے۔

7. آئینی طریقہ کار اس طرح پارلیمنٹ میں اراکین پارلیمنٹ کے اظہار رائے کی آزادی پر کوئی پابندی یا قدغن نہیں لگاتا۔ درحقیقت، دیوانی یا فوجداری کارروائی سے مستثنیٰ ہونے کی وجہ سے اس کو  مضبوطی اور وسعت ملی  ہے۔

8. آئین کے آرٹیکل 118(1) کے معاملے میں  ’کاروبار کے طریقہ کار اور طرز عمل کو ریگولیٹ کرنے‘ کے لیے تیار کئے گئے رولز 238 اور 238اے،  اس سلسلے موزوں  ہیں۔ رول 238 اے، درحقیقت، لوک سبھا کے رکن کے خلاف راجیہ سبھا میں بحث کے لیے  ضابطہ فراہم کرتا ہے، بشرطیکہ  کسی رکن کی طرف سے کسی دوسرے  رکن یا لوک  سبھا کے کسی رکن کے خلاف ’ہتک آمیز یا مجرم قرار دینے والا  الزام‘ عائد کیا جائے تو  اس کے لئے  چیئرمین کو پہلے سے مطلع کیا جائے۔ اسی طرح  رول238 (v) کے تحت کوئی رکن ’اعلیٰ اختیار والے کسی  شخص‘ کے طرز عمل پر اسی صورت میں اظہار رائے کرسکتا ہے جبکہ   وہ مناسب الفاظ  میں اور ٹھوس  تحریک کی بنیاد پر ہو۔

9. اس طرح رولز  میں موجودہ شرائط چیئرمین کو پہلے سے  اطلاع صرف اسی صورت میں دینے کا مطالبہ کرتی ہیں جب یہ کسی رکن کی طرف سے کسی دوسرے رکن یا لوک سبھا کے رکن کے خلاف ’ہتک آمیز یا مجرم قرار دینے والے  الزام‘ لگانے کی بات ہو اور دوسری صورت میں نہیں۔

10. ’اظہار کی آزادی‘ کا آئینی ’استحقاق‘ اور پارلیمنٹ کے اراکین کو کسی بھی سول یا مجرمانہ کارروائی سے ’استثنیٰ‘، اعلی درجے کی دیکھ بھال، احتیاط اور جوابدہی کا مطالبہ کرتا ہے۔ آزادی کا یہ منفرد استحقاق بھاری ذمہ داریوں کے ساتھ آتا ہے۔  لاپرواہی سے الزامات عائد کرتے ہوئے یا  معلومات کے  غلط استعمال ، اشتعال انگیزیوں اور غلط بیانیوں  یا ایذا رساں بیانات  کے ذریعہ اس استحقاق کی خلاف ورزی کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

11. جمہوریت کے مندر کے تقدس کو مجروح کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ استحقاق پارلیمنٹ کی تذلیل کرنے، آئینی اداروں کو داغدار کرنے والے توہین آمیز بیان دینے یا ناقابل یقین حقائق کی بنیاد کے لاپرواہ الزامات پر مبنی بیانیہ قائم کرنے تک نہیں ہے۔

12. ایوان  کے لیڈر جناب پیوش گوئل نے، جیسا کہ ہدایت کی گئی ، 13 مارچ 2023 کو راجیہ سبھا میں اپنے ذریعہ دئے گئے   ا ن بیانات کی تصدیق کی ہے جس کی وجہ سے حزب اختلاف  کے لیڈر جناب  ملیکارجن کھڑگے نے پوائنٹ آف آرڈر کو اٹھایا تھا۔ الیکٹرانک سمیت دستاویزات جمع کرانے کی ہدایت دی تھی کیونکہ یہ  حزب اختلاف  کے لیڈر کی طرف سے اٹھائے گئے پوائنٹ آف آرڈر کے تعین سے متعلق تھا۔

13. راجیہ سبھا میں ممبر پارلیمنٹ کے اظہار کی آزادی  کے آئینی استحقاق میں کوئی بھی کمی یا کوالی فکیشن، جمہوری اقدار کے  پھلنے پھولنے کو متاثر کرے گی اور س میں رکاوٹ بنے گی۔

14. جمہوری اخلاقیات اور  اچھی طرح سے  فروغ دی گئیں پارلیمانی اقدار  نے مجھے ایک رکن پارلیمنٹ کے ’’اظہار کی آزادی‘‘ کے اس آئینی حق کو برقرار رکھنے کے حق میں فیصلہ دینے  کے لیے قائل کیا ہے جو کسی قسم کی رکاوٹ کا شکار نہیں ہو سکتا اور یہ صرف ایوان اور  چیئرمین  کے تابع ہے۔

15. ہمارے لیے وقت آگیا ہے کہ ہم ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے ان اہم خیالات کو ذہن میں رکھیں جن کا اظہار انہوں نے آئین  ساز اسمبلی  میں  اپنی آخری تقریر میں  کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’جس چیز نے مجھے بہت پریشان کیا ہے وہ یہ ہے کہ نہ صرف ہندوستان نے اس سے پہلے ایک بار اپنی آزادی کھو ئی ہے، بلکہ اس نے اسے اپنے ہی لوگوں کی بے وفائی اور غداری سے کھو یا تھا۔‘‘ …… لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اگر جماعتیں  ملک سے زیادہ اہمیت اپنے نظریئے کو دیں گی تو ہماری آزادی دوسری بار  بھی خطرے میں پڑ جائے گی اور شاید ہمیشہ کے لیے گنوادی  جائے۔ اس واقعہ سے ہم سب کو سختی سے بچنا چاہیے۔ ہمیں اپنے خون کے آخری قطرے تک اپنی آزادی کا دفاع کرنے کا عزم کرنا چاہیے۔

16. اس اہم پہلو پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بعد میری پختہ  رائے ہے کہ  راجیہ سبھا میں بحث کے دائرے سے باہر کوئی مسئلہ یا فرد نہیں ہوسکتا ہے اور یہ خصوصی طور پر ایوان اور چیئرمین کے ضابطے کے تابع ہے۔ حزب اختلاف کے لیڈر  کی طرف سے جن دو نظیروں پر انحصار کیا گیا ہے ان کا یہاں طے کیے جانے والے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں  ہے۔

17. اس کے علاوہ ایوان کے لیڈر  جناب پیوش گوئل کی طرف سے دستیاب تصدیق شدہ ریکارڈ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اپوزیشن کے ایک سینئر لیڈر کے بیرون ملک بیانات پر معافی مانگنے کا ان کا مطالبہ حقیقت پر مبنی ہے اور ’ہتک عزت  یا مجرمانہ نوعیت کا الزام‘لگانے  کے لئے موزوں  نہیں ہے۔ ایوان  کے لیڈر کی طرف سے پیش کردہ دستاویزات، ہدایت کے مطابق، 13 مارچ 2023 کو راجیہ سبھا میں دیے گئے ان کے بیان  کو ظاہر کرتی ہے، جو حقیقت کی صورت حال کے مطابق ہے۔

18. دوٹوک  طریقے  سے آئینی ضابطوں کے پیش نظر حزب اختلاف  کے لیڈر جناب ملیکارجن کھڑگے کی طرف سے اٹھائے گئے پوائنٹ آف آرڈر کو برقرار رکھنے کے لیے میں خود کو  قائل نہیں کر سکتا اور  بذریعہ ہزہٰ اسے نامنظور کیا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔ا گ۔ن ا۔

05-04-2023))

U-3750

                          


(Release ID: 1913989) Visitor Counter : 136
Read this release in: English , Hindi , Tamil