جل شکتی وزارت
جل شکتی کے مرکزی وزیر نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی آبی کانفرنس میں نمامی گنگے پر پینل بحث میں کلیدی خطاب کیا
این ایم سی جی نے دریائے گنگا میں پانی کے معیار اور حیاتیاتی تنوع کو کامیابی کے ساتھ بہتر کیا ہے: جناب گجیندر سنگھ شیخاوت
Posted On:
25 MAR 2023 2:52PM by PIB Delhi
جل شکتی کے مرکزی وزیر جناب گجیندر سنگھ شیخاوت نے نیشنل مشن فار کلین گنگا (این ایم سی جی) کے زیر اہتمام 23 مارچ 2023 کو اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر، نیویارک میں اقوام متحدہ آبی کانفرنس 2023 کے دوران دریائے گنگا اور اس کے ماحولیاتی نظام کے تحفظ اور بحالی کے لیے 'نمامی گنگا - دریائے گنگا اور اس کے ماحولیاتی نظام کے تحفظ اور بحالی کے لیے ایک مربوط اور جامع نقطہ نظر' کے موضوع پر ایک پینل بحث میں کلیدی خطبہ دیا۔
کلیدی خطبہ دیتے ہوئے، جناب گجیندر سنگھ شیخاوت نے زور دے کر کہا کہ " این ایم سی جی نے گنگا کے کنارے شہروں اور قصبوں میں سیوریج ٹریٹمنٹ کا ایک مضبوط انفراسٹرکچر کامیابی سے تیار کیا ہے جس کی وجہ سے پانی کے معیار اور حیاتیاتی تنوع میں بہتری آئی ہے۔ گنگا کی ڈولفن، کچھوے اور ہلسا مچھلیوں کے دیکھے جانے میں اضافہ ہوا ہے جو صحت میں بہتری کی نشاندہی کرتا ہے۔ 14 دسمبر 2022 کو عالمی یوم بحالی کے موقع پر کناڈا کے مونٹریال میں منعقدہ 15ویں کانفرنس آف پارٹیز (سی او پی 15) کے دوران ایک تقریب میں انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی نظام کی بحالی کےلیے نمامی گنگے مشن کو دنیا کے 10 سرکردہ ماحولیاتی نظاموں میں سے ایک کے طور پر تسلیم کیا گیا۔
جناب شیخاوت نے کہا کہ گنگا کا ہندوستانی تناظر میں ایک خاص مقام ہے کیونکہ یہ ایک مقدس اور قدیم دریا ہے اور 43فیصد آبادی کی ضرورتیں پورا کرتا ہے اور جغرافیائی رقبے کے تقریباً 23فیصد حصے پر مشتمل ہے اور نمامی گنگا مشن 2014 میں دریائے گنگا کی بگڑتی ہوئی صحت اور اس کے کنارے پر شہری کاری کی وجہ سے اس کے ماحولیاتی نظام کے پیش نظر وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں شروع کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ "نمامی گنگا مشن دریائے گنگا کے نرملتا اور اویرالٹا کی بحالی کے لیے ایک مینڈیٹ اور وژن کے ساتھ شروع کیا گیا تھا۔ مزید برآں، اس کا مقصد نہ صرف گنگا کو اس کی قدیم شان میں بحال کرنا ہے، بلکہ مقامی آبادی کو اس کی روایتی حکمت کے ساتھ جڑنے میں بھی مدد فراہم کرنا ہے۔"
جناب شیخاوت نے کہا کہ ہندوستان نے پانی کے شعبے میں 240 بلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے اور وہ دنیا کے سب سے بڑے ڈیم کی بحالی کے پروگرام کو بھی نافذ کر رہا ہے اور ساتھ ہی ملک میں زیر زمین پانی کی صورتحال کو بحال کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ جناب شیخاوت نے نمامی گنگا کو کامیاب بنانے میں عوامی شراکت کی اہمیت پر زور دیا اور دریا کے کنارے رہنے والےا مقامی لوگوں کے تعاون کو تسلیم کیا، جو نمامی گنگے پروگرام کو کامیاب بنانے کے لیےجمع ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ " دریا کے ماحولیاتی نظام کے ساتھ لاکھوں لوگوں کے جڑنے اور بات چیت کرنے کے ساتھ، دریا سے متعلق مسائل پر بیداری میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے" ۔
جناب شیخاوت نے نوٹ کیا کہ دریائے ڈینیوب اور دریائے ٹیمز سمیت دنیا کے دیگر ندیوں کی بحالی کے پروگراموں کے مقابلے میں، این ایم سی جی صرف 6-7 سالوں میں کلین گنگا مشن میں مثبت نتائج حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ انہوں نے ہندوستان کے بین الاقوامی تعاون اور شراکت داری کے کردار کو تسلیم کیا اور کہا کہ این ایم سی جی کا کام اب صرف دریاؤں کی بحالی تک محدود نہیں ہے، بلکہ لوگوں کو اقتصادی طور پر دریا کے نظام سے جوڑنا ہے تاکہ نمامی گنگا کو آنے والی نسلوں کے لیے ایک پائیدار ماڈل میں تبدیل کیا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا "وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی رہنمائی میں، ارتھ گنگا کا تصور مقامی برادریوں کو اقتصادی طور پر برقرار رکھنے کے لیے گنگا اور اس کی معاون ندیوں سے جوڑنے کی سرگرمیوں کے ذریعہ ایک نئی جہت دینے کے لیے پیش کیا گیا تھا " ۔
ڈنمارک کے وزیر برائے ماحولیات عزت مآب میگنس ہیونیک نے کہا کہ پانی لاکھوں لوگوں کے لیے ان کی صحت، معیشت، ماحولیاتی نظام، حیاتیاتی تنوع، ثقافت، تاریخ اور مذہب کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے ہندوستان اور ڈنمارک کے درمیان پائیدار اور قابل اعتماد پانی اور ماحول دوست ایجنڈے پر تعاون کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے کہا "پانی زندگی کا ایک ذریعہ ہے، لیکن یہ زندگی کے معیار کے لیے بھی ضروری ہے۔ ہندوستان کے ساتھ شراکت داری ٹیکنالوجی سے بھی بڑھ کر ہے، یہ شہروں، برادریوں، صاف پانی تک رسائی اور ایک ایسی دنیا کی تشکیل کے بارے میں ہے جو بہتر اور زیادہ پائیدار ہو" ۔
انہوں نے کہا کہ 2020 میں، ہندوستان اور ڈنمارک نے پانی کے ساتھ ایک اسٹریٹجک شراکت داری قائم کرنے کے لیے افواج میں شمولیت اختیار کی تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے صاف پانی کو یقینی بنانے کے لیے تعاون کے کلیدی ستونوں میں سے ایک ہو۔ ڈنمارک کو بہترین ٹیکنالوجی سے لیس کرنے اور اپنے آبی شعبے کو بہتر بنانے کے لیے نئے ضوابط شامل کرنے کے ساتھ، اس کا مقصد 2030 تک ڈنمارک کی آب و ہوا کو غیر جانبدار بنانا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ضروری ٹیکنالوجی، صحیح فریم ورک اور اچھی شراکت داری کے ساتھ، ہم مل کر پانی کے ابھرتے ہوئے بحران سے نکل سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت، کاروباری اداروں اور خاص طور پر ممالک کے درمیان اچھا تعاون ضروری ہے۔ نئے حل کے ساتھ آنے اور اپنی کمیونٹی کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے خلاف مزید لچکدار بنانے کے لیے، ہمیں ایک ساتھ آنے اور اپنی اپنی ٹیکنالوجی کا اشتراک کرنے کی ضرورت ہے۔
نمامی گنگا پروگرام کا ایک جائزہ پیش کرتے ہوئے، نیشنل مشن فار کلین گنگا کے ڈائرکٹر جنرل جناب جی اشوک کمار نے ہندوستان کے فلیگ شپ پروگراموں میں سے ایک کے بارے میں بات کرنےپر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اب دنیا کے فلیگ شپ پروگراموں میں سے ایک بن گیا ہے۔ این ایم سی جی کے ڈائریکٹر جنرل نے نمامی گنگا پروگرام کے پانچ اہم ستونوں– نرمل گنگا (غیر آلودہ دریا)، اویرل گنگا (غیر محدود بہاؤ)، جن گنگا (عوامی شراکت)، گیان گنگا (علم اور تحقیق پر مبنی مداخلت) اور ارتھ گنگا (جس میں لوگ اور دریا معیشت کے پل سے جڑتے ہیں) کا ذکر کیا۔جناب کمار نے اجتماع کو بتایا کہ پچھلے 8 سالوں میں، تقریباً 5658 ملین لیٹر یومیہ (ایم ایل ڈی) کی ٹریٹمنٹ کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے 183 سیوریج کے بنیادی ڈھانچے کے پروجیکٹوں کو منظوری دی گئی ہے اور تقریباً 5206 کلومیٹر سیوریج نیٹ ورک بچھایا گیا ہے، جن میں سےتقریباً 2175 ایم ایل ڈی کی ٹریٹمنٹ کی گنجائش پیدا کرنے اور تقریباً 4336 کلومیٹر سیوریج نیٹ ورک بچھانے والے 105 پروجیکٹ مکمل ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ، ہندوستان نے ہائبرڈ اینوئٹی موڈ (ایچ اے ایم ) اور ون سٹی ون آپریٹر (او سی او پی) جیسی اختراعات کو اپنایاگیا ہے ، جن کی دنیا بھر میں پذیرائی ہو رہی ہے۔ جناب کمار نے کہا کہ نمامی گنگے پروگرام کے تحت حیاتیاتی تنوع کو پھلنے پھولنے کے لیے اچھا ماحول بنایا گیا ہے جس کا اظہار دریا کے صاف ستھرے حصوں پر گنگا کے ڈولفن کے بڑھتے ہوئے نظاروں سے ہوتا ہے۔
این ایم سی جی کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ کامیابی کے حصول میں سب سے اہم عنصر میں سے ایک مکمل حکومتی نقطہ نظر تھا جس پر وزیر اعظم نے اصرار کیا جس کے لیے فنڈز اور وسائل - مالی، تکنیکی، تجربہ، حکمت، افرادی قوت اور بہت کچھ کے ارتکاز کے ذریعہ مختلف محکموں کے درمیان تعاون کی ضرورت ہے۔ جناب کمار نے کہا کہ جل آندولن افراد، کمیونٹی اسٹیک ہولڈر، غیر سرکاری اداروں ، بین الاقوامی این جی اوز، پنچایتی راج اداروں، بلدیاتی اداروں، اسٹارٹ اپس اور مذہبی تنظیموں کی شمولیت سے جن آندولن بن گیا، کیونکہ گنگا ہندوستانی روایت میں ایک اہم دریا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ضلع مجسٹریٹ کی صدارت میں باقاعدہ اجلاس منعقد کرنے کے لیے ضلع گنگا کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔
جناب کمار نے کہا کہ نمامی گنگے پروگرام کے تحت دکانداروں کی صلاحیت کو بڑھانے، سائٹس پر مزدوروں کے کام کرنے کے حالات کو بہتر بنانے اور ہر پروجیکٹ کی مالیاتی قومی صلاحیت کو بڑھانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ این ایم سی جی نے ایچ اے ایم اور او سی او پی جیسی اختراعات کی حوصلہ افزائی کی، شفافیت کو بہتر بنایا، قریبی نگرانی اور منصوبوں کی جلد تکمیل کو یقینی بنایاہے۔
این ایم سی جی کے ڈائریکٹر جنرل کہا کہ پچھلے تقریباً 12-18 مہینوں میں، ارتھ گنگا مہم کے تحت دریا کے کنارے رہنے والے لوگوں کے ساتھ نرم روابط کے لیے پائپ اور پمپ کے نقطہ نظر سے ایک مثالی تبدیلی آئی ہے۔ قدرتی کاشتکاری اور جوار کی کاشت کاری کو فروغ دیا جا رہا ہے اور ماہی گیری اور دریا پر کھیتی کی جا رہی ہے تاکہ آبی انواع کی تعداد میں اضافہ ہو جس کے نتیجے میں مقامی لوگوں کے لیے روزگار پیدا ہو سکے۔ جلاج جیسے ذریعہ معاش کے ماڈل کو فروغ دیا جا رہا ہے جس کے ذریعے مقامی این جی اوز کو اختراعی سرگرمیاں شروع کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے جیسے ٹورسٹ گائیڈز فراہم کرنا، چھوٹی ندیوں کی سیر، مقامی مصنوعات کی فروخت، ڈولفن کو بچانا وغیرہ جو نہ صرف دریا سے لوگوں کے رابطے کو فروغ دے رہا ہے بلکہ اس میں شامل مقامی برادریوں کی معاشی صورتحال کو بھی بہتر بنا رہا ہے۔
این ایم سی جی کے ڈائریکٹر جنرل نے اپنے خطاب کا اختتام دریاؤں کے کناروں پر واقع 107 شہروں کے ذریعہ دستخط شدہ ریور سٹی الائنس کے اقدام کا ذکر کرتے ہوئے کیا اور کہا کہ اب دریاؤں کے جڑواں ہونے کے ساتھ ساتھ شہروں کو جڑواں بنانے کے لیے بین الاقوامی سامعین تک پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی شراکت داریوں نے ہندوستان کی بہت بڑی مدد کی ہے جس کو حاصل کرنا ناممکن نظر آتا تھا اور اب این ایم سی جی لوگوں کی شراکت کے ذریعہ اسے برقرار رکھنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔
ورلڈ بینک کے گلوبل واٹر پریکٹس کے گلوبل ہیڈ جناب سروج جھا نے دنیا بھر میں دریا کے طاس کے انتظام اور ماحولیاتی نظام کو بحال کرنے کے لیے عالمی بینک کے وژن کا خاکہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان نے ایک جامع ادارہ جاتی فریم ورک فراہم کیا ہے اور حکومت کے تمام اجزاء کو ایک ساتھ لایا ہے، جس سے نمامی گنگے مشن کی کامیابی ہوئی ہے۔ فنانسنگ کے معاملے میں اختراعات دیکھی گئی ہیں جیسا کہ ہائبرڈ اینوٹی ماڈل میں دیکھا گیا ہے جو طویل مدتی فنانسنگ کو راغب کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ زیادہ تر دریا کے نظام خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں آلودہ ہیں اور ماحولیاتی نظام کی منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سےختم ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عالمی بینک بہتر حل فراہم کرنے کے لیے ہندوستان سے حاصل کردہ معلومات کو دوسرے ممالک میں شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ عالمی بینک ہندوستان کے فراہم کردہ ماڈل کی بنیاد پر دنیا کے بڑے حصوں میں دریائی طاسوں پر توجہ مرکوز کرے گا ۔
مزید برآں، انہوں نے مربوط وسائل کے انتظام کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان اس کے لیے ایک شاندار مثال پیش کرتا ہے جیسا کہ ادارہ جاتی اور شعبہ جاتی اصلاحات کے ایک حصے کے طور پر ایک وزارت کے تحت پانی کے مختلف پہلوؤں پر ایک ساتھ آتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی بینک ایسا اقدام اٹھانا چاہتا ہے جس میں پانی کے مختلف اجزاء یعنی پانی کی فراہمی، صفائی ستھرائی، آبپاشی اور آبی وسائل کے انتظام پر واضح توجہ ہو، جس کے لیے دریائی طاس کے انتظام میں جامع سوچ کی ضرورت ہوگی۔ اس سے پانی کو ذخیرہ کرنے، سیلاب کو روکنے، خشک سالی سے نمٹنے اور دریا کے ارد گرد معاشیات پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے اپنے خطاب کا اختتام یہ کہتے ہوئے کیا کہ عالمی بینک دنیا بھر کے ممالک میں کس طرح آگے بڑھ سکتا ہے، ہندوستان اس لحاظ سے ایک بہترین ماڈل پیش کرتا ہے ۔
ہالینڈ کے پانی کے خصوصی ایلچی ہینک اوونک نے کہا کہ پانی مفید ہے اور اس میں سرمایہ کاری کرکے ہم اپنی معیشتوں کی قدر میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ این ایم سی جی ایک متاثر کن کامیابی کی کہانی ہے کہ پانی کے بحران کے چیلنج سے کیسے نمٹا جائے۔ انہوں نے کہا کہ این ایم سی جی امید کی کرن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پانی کے شعبے کو اہمیت دے کر، ہم ایک صحت مند ماحول، اپنے معاشرے میں انصاف، خواتین اور لڑکیوں کے لیے مواقع، لچکدار ماحول، حیاتیاتی تنوع کے نقصان کو روکنے، اور شراکت داری قائم کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دریاؤں کو اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ ہماری سرحدیں کہاں ہیں۔ یہ ہمیشہ وہاں بہتے ہیں، جہاں انہیں بہنا ہے ۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ شراکت داری اس صلاحیت کو آگے بڑھا سکتی ہے جس کی ہمیں پوری دنیا میں پانی کے پائیدار نظام کی تعمیر کے لیے ضرورت ہے۔
وفاقی جرمنی کی وزارت برائے اقتصادی تعاون اور ترقی (بی ایم زیڈ) کی ڈاکٹر تانیہ وورک نے منظم تنظیمی مسئلے کے بارے میں بات کی جس سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ تمام ممالک میں نےپانی کے بحران پر اقوام متحدہ اور عالمی بینک کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیےانہوں نے حکومتوں کے اتحاد کی تجویز پیش کی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک مضبوط ایجنڈے کی فوری ضرورت ہے، ایسے جرات مند سفیروں کی ضرورت ہے جو نظام کے وسیع نقطہ نظر اور اقوام کے درمیان تعاون کی وکالت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ نمامی گنگے کی کامیابی ، دنیا کی ترقی کے لیے ضروری ہے کیونکہ اس سے پتہ چلتا ہے حکومت کی تمام سطحوں پر تعاون پانی کے مسئلے کو حل کرنے میں کس طرح مدد کر سکتا ہے۔علاوہ ازیں ، انہوں نے آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر ماحولیاتی نظام کی تشکیل کے لیے پانی کے بحران کے حوالے سے لیے عالمی نقطہ نظر کی بھی وکالت کی۔
آئی سی پی ڈی آر کی ایگزیکٹو سکریٹری محترمہ برجٹ ووگل نے کہا کہ گنگا جیسے بڑے دریا کے طاس مختلف جغرافیائی اور موسمی حالات، تاریخ، سماجی و اقتصادی حالات، حیاتیاتی اور ابیوٹک خصوصیات کے حامل ہیں۔ تاہم، گنگا جیسے طاس کے ساتھ مماثلت اور ہم آہنگی کی طرح ہی ہمیں دریا کے طاس کی تنظیموں کے درمیان تبادلے اور تعلقات کے لیے اس کا مثبت استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تجربات کے تبادلے کی اہمیت کو اجاگر کیا کیونکہ یہ فنکشنل ادارہ جاتی آپریشن کا ایک حصہ ہے، دریا کے طاس کے انتظام اور متعلقہ نقطہ نظر کو بہتر بناتا ہے، پانی کی مقدار اور خشک سالی کے حوالے سے موسمیاتی تبدیلی، دریا کے طاسوں میں حالات کو بہتر بنانے کے لیے موثر اقدامات کرتا ہے، پانی کی مقدار اور معیار کے بارے میں کشیدگی اور تنازعات کو روکنے کے لیے تعاون کو فروغ دیتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک دوسرے سیکحنے اور موثر نقطہ نظر کو بدلنے سے مربوط ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دریا سے متعلق تنظیموں کے درمیان تجربات کا تبادلہ کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب کا اختتام موسمیاتی تبدیلی، خشک سالی اور پانی کی کمی کے فوری حل پر زور دیتے ہوئے کیا۔
"لہریں: ہندوستان کی پائیدار پانی کے انتظام کی کہانی" کے عنوان سے ایک کتاب کا اجلاس کے دوران جاری کیا گیا ۔ اس کتاب میں پائیدار اور مساوی طریقوں سے پانی کا انتظام کرنے کے لیے ہندوستانی حکومت کی جاری کوششوں کا احاطہ کیا گیا ہےاور ہندوستان نے گزشتہ دو دہائیوں میں جو اہم پالیسیاںاختیار کی ہیں ان اسکیموں اور مشنوں کا ایک تصویری خاکہ بھی اس کتاب میں فراہم کیا گیا ہے۔
ڈنمارک کے وزیر برائے ماحولیات، میگنس ہیونیک، نیشنل مشن فار کلین گنگا کے ڈائریکٹر جنرل، جناب جی اشوک کمار، نیدرلینڈ کے پانی کے خصوصی ایلچی، جناب ہینک اوونک، ورلڈ بینک کے گلوبل واٹر پریکٹس کے گلوبل ڈائریکٹر جناب سروج جھا، ، وفاقی جرمنی کی وزارت برائے اقتصادی تعاون اور ترقی (بی ایم زیڈ) کی ڈپٹی ڈائریکٹر، ڈاکٹر تانیہ وورک اور آئی سی پی ڈی آر کی ایگزیکٹو سیکرٹری، محترمہ برجٹ ووگل دیگر کلیدی پینلسٹ میں شامل تھیں ۔ این ایم سی جی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر (تکنیکی)، جناب ڈی پی متھوریہ نے اس تقریب کی نظامت کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ش ح ۔ رض ۔ ج ا (
3286
(Release ID: 1910831)
Visitor Counter : 132