خواتین اور بچوں کی ترقیات کی وزارت
بچوں کی شادیوں کی روک تھام کی غرض سے پالیسی پہل قدمی
Posted On:
17 MAR 2023 4:20PM by PIB Delhi
خواتین اور بچوں کی بہبود کی مرکزی وزیر محترمہ اسمرتی زوبن ایرانی نے آج لوک سبھا میں ایک تحریری جواب میں یہ اطلاع فراہم کی ہے۔بچوں کی شادیوں کی روک تھام اور بچوں کی شادیوں سے وابستہ افراد کے خلاف تعزیری اقدامات کی غرض سے حکومت ہند نے پروہبیشن آف چائلڈ میرج ایکٹ 2006 (پی سی ایم اے) نافذ کیا ہے۔
پروہبیشن آف چائلڈ میرج ایکٹ (پی سی ایم اے) کی دفعہ 16 کے تحت ریاستی سرکار کو یہ اختیار دیاگیا ہے کہ وہ ‘‘ بچوں کی شادیوں کی روک تھام کے عہدیدار (سی ایم پی او) کے نام سے معروف ایک عہدیدار یا عہدیداروں کا تقرر کرے۔ ان عہدیداروں کا تقرر پوری ریاست یا ریاست کے کسی مخصوص مقام کے لیے کیا جاسکتا ہے۔ ان عہدیداروں کو نوٹیفکیشن کے مطابق اس علاقے یا کسی مخصوص علاقے کے لیے بااختیار بنایاجائے گا۔ دفعہ 16 میں سی ایم پی اوزکے ذریعے انجام دیے جانے والے کاموں کی تشریح کی گئی ہے۔ جن میں موقع کی مناسب طریقے استعمال کرتے ہوئے بچوں کی شادیوں کی رسموں پر روک تھام، اس قانون کے ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کے خلاف مؤثر طریقے سے قانونی کارروائی کرنے کی غرض سے ثبوت اکٹھا کرنا، کسی مخصوص علاقے کے لوگوں کو یا انفرادی طور پر صلاح دینا کہ وہ اس غیرقانونی کام کو فروغ دینے، تعاون کرنے اور بچوں کی شادیوں کی اجازت دینے میں ملوث نہ ہوں۔بچوں کی شادیوں کے مضراثرات کے بارے میں بیداری پیدا کرنا، بچوں کی شادیوں کے معاملے میں برادری کاحساس بناناوغیرہ شامل ہیں۔یہ حکام، متعلقہ ریاستی سرکاروں اور مرکز کے زیرانتظام علاقوں کی انتظامیہ کے تحت اپنے فرائض انجام دیتے ہیں، جب کہ مذکورہ قانون کے ضابطوں کے نفاذ کی ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ حکومت نے 21 دسمبر 2021 کو پارلیمنٹ میں بچوں کی شادی کی روک تھام سے متعلق ترمیمی بل 2021 کے نام سے ایک بل پیش کیا تھا۔ اس بل کا مقصد خواتین کی شادی کی عمر کو مردوں کے مساوی 21 سال کرنا تھا۔ مجوزہ بل میں اس کے نفاذ یا عمل آوری کے نتیجے میں ہونے والی ترمیمات کرنے کے بھی التزامات کیے گئے ہیں۔ ان میں دیگر باتوں کے علاوہ فریقوں کی شادی کی عمر سے متعلق التزامات بھی شامل ہیں۔ جیسے کہ ‘دی انڈین کرسچیئن میرج ایکت 1872’’، ‘‘دی پارسی میرج اینڈ ڈیوورس ایکٹ1936’’، ‘‘دی مسلم پرسنل لاء (شریعہ)ایپلی کیشن ایکٹ 1937’’، ‘‘دی اسپیشل میرج ایکٹ 1954’’، ‘‘دی ہندومیرج ایکٹ 1955’’ اور ‘‘دی فورین میرج ایکٹ 1969’’ شامل ہیں۔اس بل کو مزید تجزیہ اور معائنہ کی غرض سے تعلیم، خواتین، بچے، نوجوان اور کھیل کود کے بارے میں پارلیمانی قائمہ کمیٹی سے متعلق محکمے کے سپرد کردیاگیا ہے۔
اس کے علاوہ ‘‘پولیس اور پبلک آرڈر’’، بھارت کے آئین کے ساتویں شیڈول کے تحت ریاستی معاملے ہیں۔ امن وقانون کی صورت حال کو برقرار رکھنا، شہریوں کی زندگی اور املاک کا تحفظ، خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم، جن میں بچوں کی شادیوں کی روک تھام بھی شامل ہے، کے خلافف قانونی کارروائی کرنا متعلقہ ریاستی سرکاروں کی ذمہ داری ہے۔ ریاستی سرکاریں، قوانین کے موجودہ قواعد وضوابط کے تحت اس قسم کے جرائم سے نمٹنے کی اہل ہیں۔
اس سب کے باوجود، مرکزی حکومت، بچوں کی شادیوں کے مضر اثرات کو اجاگر کرنے کے مقصد سے، وقتاً فوقتاً بیداری پیدا کرنے سے متعلق مہمات، میڈیا سے متعلق پروگراموں اوررابطہ کاری سے متعلق پروگراموں کا انعقاد کرتی رہتی ہے اور ریاستوں اورمرکز کے زیرانتظام علاقوں کو مشاورت نامے جاری کرتی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ خواتین اور بچوں کی بہبود کی وزارت ‘‘بیٹی بچاو- بیٹی پڑھاؤ’’ (بی بی بی پی) اسکیم کانفاذ کررہی ہے جس کے تحت صنفی مساوات، بچوں کی شادیوں کی حوصلہ شکنی سے متعلق امورکے بارے میں بیداری پیدا کرنا ایک اہم توجہ کا مرکز ہے۔ بچوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق قومی کمیشن (این سی پی سی آر) بھی بیداری پیدا کرنے سے متعلق پروگراموں کا انعقادکرتا ہے اور اس سلسلے میں متعلقہ فریقوں کے ساتھ وقتاً فوقتاً صلاح ومشورہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت ہند نے بحران سے دوچار بچوں کے لیے رابطہ کاری سے متعلق ایک ہنگامی خدمت، یعنی دن رات کام کرنے والے مختصر کوڈ نمبر 1098 کے ساتھ ایک ‘‘چائلڈ لائن’’ متعارف کرائی ہے۔اس خدمت کے تحت پولیس، سی ایم پی اوز اور ضلع کے بچوں کے تحفظ سے متعلق یونٹوں وغیرہ کے ساتھ قریبی اشتراک اور تال میل سے بچوں کی شادیوں کی روک تھام سمیت بچوں کے ضرورت کے مطابق امداد کی کسی بھی اپیل پر فوری طور پر مناسب کارروائی کی جاتی ہے۔
جرائم کے ریکارڈس سے متعلق قومی ادارہ (این سی آر بی) اپنی اشاعت ‘‘کرائم ان انڈیا’’ میں بچوں کی شادی کی روک تھام کے قانون (پی سی ایم اے) 2006 کے تحت اندراج شدہ بچوں کی شادی کے معاملوں کی تعداد کے بارے میں اعداد وشمار مرتب کرتا ہے اور انہیں شائع کرتاہے۔مذکورہ رپورٹ سال 2021 تک کے لیے دستیاب ہے۔ این سی آر بی کو دستیاب اطلاع کے مطابق، سال 2019، 2020 اور 2021 کے دوران بچوں کی شادیوں کی روک تھام سے متعلق قانون 2006 کے تحت درج معاملوں کی تعداد بالترتیب 523، 785 اور 1050 ہے۔ ان میں اترپردیش بھی شامل ہے۔ این سی آربی، خطے کے لحاظ سے اعدادوشمار جمع نہیں کرتا۔ زیادہ تعداد میں معاملوں کےاندراج سے یہ ضروری نہیں کہ بچوں کی شادیوں کے واقعات کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، جب کہ ایسا حکومت کے ذریعہ پہل قدمیوں اور ریاستوں ومرکز کے زیرانتطام علاقوں کے ذریعہ قانون کے بہتر نفاذ کی وجہ سے ایسے واقعات کی رپورٹ درج کرانے کی غرض سے شہریوں میں بڑھتی بیداری کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے۔
*************
ش ح ۔ع م ۔ ج ا
U. No.2971
(Release ID: 1908747)
Visitor Counter : 218