نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ

ڈاکٹر ایم ایس رامیا کے یوم پیدائش کی صد سالہ تقریب میں نائب صدر جمہوریہ کی تقریر کا متن (اقتباسات)

Posted On: 01 MAR 2023 3:35PM by PIB Delhi

ڈاکٹر ایم ایس رامیا جی ساری زندگی ایک کرمایوگی رہے، ملک میں تعلیم اور صحت کے منظر نامے کو بدلنے کے لیے' کرتویہ پتھ' پر چلتے رہے۔ ان کے یوم پیدائش کی صد سالہ تقریبات سے وابستہ ہونا ہم سب کے لیے فخر کا لمحہ ہے۔

میں گوکلا ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے چیئرمین، بورڈ آف ٹرسٹیز، رامیا خاندان کے ارکان اور عظیم کرمایوگی اور انسٹی ٹیوشن بلڈر ڈاکٹر ایم ایس رامیہّ کی زندگی اوران کے کارناموں  کو یادکرنے کے لیے یہاں موجود تمام لوگوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ان کی زندگی ہماری تہذیبی اخلاقیات کی عظمت کی  بہترین مثال ہے۔ بہت چھوٹے پیمانے سے شروع کرکے… انہوں نے ایک ہدف مقرر کیا، اسے حاصل کیا اور پھر یہ ان کے سنسکار ہیں کہ ان کے خاندان کے افراد ان کے کام  کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

بغیر تعلیم کے سب کچھ ادھورا ہے۔تعلیم معاشرے کی تبدیلی اور ایک ایکو سسٹم  پیدا کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے جو ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کو بہت عزیز تھا۔

آئین ہند کے معمار، اور ایک عظیم ویژنری ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے ہمارے آیئن کی تمہید میں ان خیالات کو شامل کیا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کے لیے ہم سب کو کام کرنا ہے۔

اس دن، جب ہم امرت کال میں ہیں اور ہم ایک مختلف نوعیت کے ہندوستان کو دیکھ رہے ہیں۔ ہندوستان ایسے عروج پر ہے جیسا کہ پہلے کبھی نہیں تھا اور ہندوستان کا عروج رک نہیں سکتا۔ پوری دنیا اسے تسلیم کر رہی ہے۔

ہمارا ملک دنیا کی بڑی معیشتوں کے لیے سرمایہ کاری اور مواقع کا بہترین مقام  بن چکا ہے۔

ستمبر 2022 میں؛ ہمارے لیےوہ ایک شاندار لمحہ تھا، جب ہندوستان نے کرہ ارض کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ اتنا ہی  ہم نے اپنے سابقہ نوآبادیاتی حکمرانوں کو  بھی پیچھے چھوڑ دیا، ہماری معیشت اب اس برطانیہ سے بڑی ہے جس نے ہم پر طویل عرصے تک حکومت کی ہے۔

حکومتی  کی مثبت پالیسیوں کے ذریعہ ہر سطح پر کئے گئے بصیرت انگیز اقدامات کی بدولت  اس میں شک نہیں کہ اس دہے کے آخر ی تک ہم کرہ ارض کی تیسری بڑی معیشت بن جائیں گے۔

ملک کے سامنے ایک بڑا چیلنج 2047 (اپنی آزادی کی صد سال مکمل ہونےپر ) تک  اپنے آخری اہداف تک پہنچنا ہے۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ جیسے باوقار اداروں اور دیگر مقامات پر  میرے سامنے جو  نوجوان متاثر کن اذہان  ہیں  وہ 2047 میں ہندوستان  کے ویژن کو یقینی بنانے کےلئے واریئرس اور حقیقی گیم چینجر  کے طور پر کام کریں گے۔

اس  سلسلے میں، میں یہاں موجود سبھی سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ  ہندوستانی ہونے پر فخر کریں۔ ہمیں ہمیشہ  اپنے ملک کو اولین  دینی ہی ہوگی۔ ہمیں اپنی کامیابیوں پر فخر ہونا چاہیے۔

نائب صدر کی حیثیت سے میں نے بیرون ممالک میں سفر کیا ہے۔  مغربی بنگال کے گورنر کے طور  پر  میں نے  ڈیولپمنٹ دیکھے ہیں۔ ملک نے جو کچھ حاصل کیا ہے  دوسرے اس کے بارے سوچ بھی نہیں سکتے اور نہ ہی تصور کرسکتے ہیں۔

مثال کے طور پر کووڈ کو لے لیں جو نوع انسانی کے لیے ایک چیلنج تھا۔ یہ ہر ایک  جغرافیائی خطے کے لیے ایک غیر امتیازی چیلنج تھا اور ہمارے پاس اپنی 1.4 بلین کی آبادی کے لحاظ سے ایک مشکل کام تھا۔ لوگ پریشان تھے ’’بھارت کا کیا بنے گا‘‘  اور اب لوگ پوچھ رہے ہیں’’بھارت نے یہ کیسے کیا؟ انڈیا نے اتنی کامیابی سے کیسے حاصل کی؟" 220 کروڑ ویکسینیشن کی خوراکیں تمام شہریوں کو مفت فراہم کی گئیں اور  اس پورے کام کی  ڈیجیٹل میپنگ کی گئی۔

دوستو، ایسا  کام مغرب میں بھی نہیں ہوا  ہے اور کی وجہ  ہمارے عوام، ہماری پالیسیاں اور ہماری قیادت کا وژن رہا  ہے۔

کبھی کبھی  مجھےحیرانی ہوتی ہوں اور میں نوجوانوں اور دانشوروں اور صحافیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ان کامیابیوں پر غور کریں، دنیا حیران  ہے، ترقی کا ایسا ایکو سسٹم  جو بنیادی ڈھانچے کی ترقی، ٹیکنالوجی کی ترقی، تعلیم اور صحت  کے شعے میں  ترقی کی وجہ بنا  ہے۔

ہم کچھ لوگوں کو اپنے عوام کی مشقت کے ذریعہ حاصل کئی گئیں کامیابیوں  کو داغدار کرنے، ان کم کرنے آنکے اور ان کو نیچا دکھانے کی اجازت  کیوں دیں؟ میں آپ کو اس کے بارے میں سوچنے کی دعوت دیتا ہوں۔

ہمارے عظیم ادارے اب پروان چڑھ رہے ہیں لیکن اگر ہم ماضی کے بارے میں تحقیق کریں  اور تاریخی تناظر میں دیکھیں تو ہندوستان عالمی ذہنوں کے ساتھ مشہور ترین تعلیمی اداروں کا گھر تھا۔ نالندہ، تکشیلا، ولبھی، وکرم شیلا  جیسے ادارے ہندوستان میں ہی  ہوئے ہیں ۔

یہ انتہائی اطمینان بخش لمحہ ہے کہ ویژری  ڈاکٹر ایم ایس رامیا نے ایک ایسا  ادارہ  قائم کیا  اور  اس  کے زیر سایہ  کئی  ادارے  فروغ پا رہے ہیں۔  اس  سے یہ ایک بات ظاہر ہوتی ہے  کہ ہم اپنی ماضی کی شان کو دوبارہ حاصل کرنے کے راستے پر  گامزن ہیں۔ یہ وقت کی بات ہے، 2047 تک معیشت، تعلیم، صحت اور دیگر سماجی پیمانوں میں ہم دنیا کی رہنمائی کر رہے ہوں گے۔

یہ سال خاصا اہم ہے۔ ہندوستان  جی 20 کا صدر ہے اور اس کا اثر ہر جگہ محسوس کیا رہا ہے۔ ہم نے بنگلور شہر سمیت مختلف شعبوں میں کئی ممالک کی قیادت کو دیکھا ہے۔

بنگلور شہر، نوجوان ذہنوں کی مثبت نشوونما کا مرکز، اختراعات کو مکمل آزادی دیتا ہے، جو کہ ایک نادر موقع ہے۔ اس ملک کی تاریخ میں کبھی ہندوستان کی آواز اس طرح پہلے کبھی نہیں سنی گئی  جیسی اب سنی جا رہی ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نے پچھلے ایک سال میں دو خیالات پیش کئے۔ یہ خیالات ہمارے ہزاروں سال کے فکری عمل سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ایک گزشتہ سال کے شروع میں تھا : یہ توسیع  پسندی کا دور نہیں ہے۔ ہندوستان شاید واحد ملک ہے جس نے تاریخی طور پر کبھی توسیع پسندی کا سہارا نہیں لیا۔ اور اس سال کا دوسرا واقعہ اور دنیا نے  بھی جسے سراہا وہ یہ ہے کہ  جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ مذاکرات اور سفارت کاری ہی واحد راستہ ہے۔

اس تناظر میں، میں سب سے، خاص طور پر نوجوان ذہنوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں ۔ اب ہمارے پاس ایک ایسا ایکو سسٹم  ہے جس میں  ہر نوجوان ذہن کو اپنی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے اور کامیابیاں حاصل کرنے کی اجازت ہے۔

اپنے نوجوان دوستوں کے لئے میں اپنا ایک مشورہ دوں گا: کوئی ٹیشن نہ رکھو، کوئی  تناؤ نہ کرو۔ مسابقتی منظر نامے سے پریشان نہ ہو۔ اس ڈر سے  کوشش کرنے میں ہچکچاہٹ نہ کریں کہ کوئی  غلطی ہو سکتی ہے۔غلطیوں بغیر کوئی بھی بڑی کامیابی نہیں ملتی۔

میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ ایک ذہین شخص نوع انسانی کے ساتھ سب سے بڑی ناانصافی   ایسے کام کے ذریعہ کر سکتا ہے، جو ہماری ترقی میں رکاوٹ ڈالے، وہ یہ ہے کہ  شاندار خیال رکھتے ہوئے بھی اس پر عمل نہ کرنا۔

مجھے اس میں  کوئی شک نہیں کہ ہمارے ڈی این اے میں کچھ منفرد ہے، ہمارے ڈی این اے میں اختراع، تحقیق، انٹرپرائز، انٹرپرینیورشپ ہے اور ہمیں یہی کرنا ہے۔ آج دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں، ہندوستان کی عقل کی طاقت دیکھ  سکتے ہیں، دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے۔

جب میں نے اپنا کیرئیر شروع کیا اور ایک وکیل بنا تو مجھے لائبریری کے لیے بینک سے 6000 روپے کا قرض حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑی۔ میں اس بینک مینیجر کا شکر گزار ہوں جس نے مجھے میری لائبریری کے لیے بغیر سیکیورٹی کے 6000 روپے دیے۔ آج آپ کو صرف ایک خیال کی ضرورت ہے، اور فنڈز کوئی مشکل نہیں ہیں۔

ہمارے اسٹارٹ اپس، یونیکورنز کو دیکھیں، وہاں کی جانے والی سرمایہ کاری کو دیکھیں اور یہ سب کچھ ہمارے نوجوان ذہنوں نے بنایا ہے۔ ہم عالمی رہنما ہیں۔

یہ سب اس لیے ممکن ہے کہ اب ہمارے پاس ایک ایسی حکومت ہے جو بڑا سوچتی ہے، بڑے کام کرتی ہے، اپنے انسانی وسائل پر یقین رکھتی ہے اور اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔

چونتیس سال بعد ملک میں ایک انقلابی قدم اٹھایا گیا  اور مجھے بھی اس میں حصہ لینے کا موقع ملا کیونکہ میں اس وقت ریاست مغربی بنگال کا گورنر تھا۔  اور وہ تھی نئی تعلیمی پالیسی- 2020۔

اس تعلیمی پالیسی کا ارتقاء ایک طویل عمل تھا، لاکھوں متعلقین سے ان پٹ حاصل کئے گئے، یہ نئی تعلیمی پالیسی گیم چینجر ہے۔ یہ ہمارے تعلیمی نظام میں انقلاب برپا کردے گی،  یہ اس کو ہنر مندی کے موافق بنائے گی، یہ ہمیں ڈگری پر مبنی کلچر سے دور کر دے گی، یہ ہمیں تعمیری راستے پر ڈال دے گی۔ اس سے شمولیت اور فضیلت کے دوہرے مقاصد حاصل کیے جاسکیں گے۔

پچھلے 8-9 برسوں میں، ہر روز دو کالج اور ہر ہفتے ایک یونیورسٹی قائم کی گئی ہے۔

جب دنیا والوں کو اس بات کا علم ہوا تو وہ حیران رہ گئے۔

چونکہ یہ ایک بہت ہی خاص موقع ہے، میں گوکلا ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے چیئرمین سے ایک خاص اپیل کروں گا۔ براہ کرم قیادت کریں۔ ایک انسانی وسیلہ جسے ہمیں استعمال کرنا چاہیے وہ یہ  ہے  کہ سابق طلباء  سے استفادہ کریں۔ ہمیں ہر ادارے میں سابق طلباء کے کلچر  کو فروغ دینا چاہیے۔ سابق طلباء تنظیمیں معاشرے کو حقیقی معنوں میں واپس دینے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ سابق طلباء نہ صرف ادارے بلکہ پورے شعبے کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ اس لئے  میں اپیل کروں گا کہ سابق طلباء کی انجمن کی ایک کنفیڈریشن  قائم کی جائے اور یہ کام  بنگلور شہر سے شروع کیا جاسکتا ہے۔ سابق طلباء کی انجمنوں کا آل انڈیا کنفیڈریشن جو بہت گہرائی کا ایک تھنک ٹینک ہو گا اور اس سے ہمیں آنے والے مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔

دوستو، ہندوستان عروج پر ہے، لیکن ہم ہندوستانیوں کو اپنا کام کرنا ہے۔

پہلی بار جب سووچھ بھارت کا معاملہ سامنے آیا تو کچھ لوگوں کو عجیب لگا کہ ہمارے ملک کے پی ایم کیا کر رہے ہیں ۔  لیکن اس  خیال نے  کام کیا ۔ اب گاؤں میں ٹوائلیٹ ہیں ۔ ترقی ہوئی ہے اور یہ ایک صنعت بھی بن گئی ہے۔ لیکن میں آپ سے ایک سوال پوچھتا ہوں کہ جو بھی ہندوستانی بیرون ملک گیا ہے اس نے کبھی گاڑی سے باہر کوئی چیز نہیں پھینکی اور ایک وقت تھا جب ہم اپنے ملک میں اسے اپنا حق سمجھتے تھے کہ سڑک ہماری کوڑے دان ہے۔ یہ بدل رہا ہے۔ سڑک پر ہمارا نظم و ضبط کیا ہونا چاہیے، اگر آج یہ بھی ہو جائے، نوجوان بااثر ذہن اس میں ہم تعاون کریں تو  ہندوستان کی تصویر مزید بدل جائے گی۔

جب ہندوستان بولتا ہے تو دنیا سنتی ہے اور دنیا انتظار کرتی ہے کہ ہندوستان کیا کہے گا، کب کہے گا اور کتنا بولے گا۔ بھارت اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے بین الاقوامی میدان میں قدم اٹھا رہا ہے۔

میں بھی آپ سب کے ساتھ اپنا درد بانٹنا چاہتا ہوں۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے ہندوستان کے آئین کو تیار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ تین سال تک آئین ساز اسمبلی میں بحث ہوتی رہی۔ ڈائیلاگ ہوتے رہے، بحث ہوتی تھی، غور و خوض ہوتا رہا ۔ ان کے سامنے مسئلہ بہت پیچیدہ تھا، بہت سے متنازعہ مسائل تھے، لوگ مخالف رائے رکھتے تھے، جس کی وجہ سے مصالحت کرنا مشکل تھا، پھر بھی آئین  ساز اسمبلی میں  کوئی  بھی خلل نہیں ڈالا گیا، آئین  ساز اسمبلی میں کوئی بھی رکاوٹ پیدا نہیں کی گئی، کسی نے بھی  نعرے نہیں لگائے، کوئی بھی ویل میں نہیں پہچا، کسی نے  بھی پلے کارڈ نہیں دکھائے۔ جب ملک کے لیے آئین دینے والوں نے ہمارے لیے اتنا بڑا کام کیا تو اس میں کیا  وجہ ہے کہ ہم ان کی مثال پر عمل نہ کر سکیں۔

راجیہ سبھا کے  چیئرمین کے طور پر  جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں وہ آپ سب کے لیے تشویش کا باعث ہے۔

راجیہ سبھا کے ہر منٹ پر لاکھوں اور کروڑ خرچ ہوتے ہیں۔ خلل ڈال کر آپ حکومتی نظام کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔  راجیہ سبھا حکومت کو جوابدہ رکھنے کا پلیٹ فارم ہے تاکہ ایگزیکٹو کو جوابدہ ٹھہرایا جا سکے۔

ایک عوامی تحریک چلانی ہوگی۔ میں نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں۔ ہم راجیہ سبھا اور پارلیمنٹ میں ایسی  سہولت  فراہم کرانے کے لیے موجود ہیں کہ ملک  صحیح راستے پر بڑھ رہا ہے۔ ہمیں اپنے طرز عمل کو مثال بنانا ہے جس کی ہر کوئی تقلید کر سکے، جس کی ہر کوئی پیروی کر سکے۔

ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے لڑکے اور لڑکیاں خلل پیدا  کریں، ہم نہیں چاہتے کہ وہ نعرے لگائیں، پلے کارڈز دکھائیں اور اس لیے میری آپ سے اپیل ہے کہ ایک ایسا  ماحول پیدا کریں، ایسی  رائے عامہ تیار کریں، ہر دستیاب ذرائع کا استعمال کریں تاکہ ہم اپنے ارکان پارلیمنٹ سے گزارش کر سکتے ہیں کہ جمہوریت کے مندر میں ہمارا طرز عمل  ایسا ہو کہ جس پر ہم  فخر کر سکیں۔ ہمارا طرز عمل ملک کی ترقی کے لیے ہونا چاہیے۔

تعلیم کے مندر میں پڑھائی کے علاوہ اور کیا ہو گا،  جمہوریت کی طاقت کے بارے میں بھی یہی  بات ہے۔ میں یہ خیال  نوجوان ذہنوں کے ساتھ چھوڑ رہا ہوں۔ میرے نوجوان دوستو، میں یہ بہت امید کے ساتھ  یہ کام کر رہا ہوں۔ کیونکہ 2047 میں ہندوستان کیسا ہوگا، ہم میں سے کچھ لوگ اپنی زندگی کی آخری شاموں میں ہوں گے، لیکن آپ اپنی جوانی کے عروج پر ہوں گے،  لگام آپ کے ہاتھ میں ہوگی ،  س لئے 2047 تک  کا ہر سال جب ہندوستان کو   معیشت اور دیگر شعبوں میں ہر پہلو سے عالمی رہنما بننے کی سیڑھی پر چڑھنا ہوگا تو آپ کو بہت محتاط رہنا ہے۔

مجھے یقین ہے کہ میرے نوجوان دوست میری پرجوش اپیل پر غور کریں گے، میری اپیل غیر جانبدارانہ ہے۔ میری اپیل کا تعلق  سیاست سے نہیں ہے۔ میں یہ  اپیل اس لئے کررہا ہوں کہ  ہمارا تعلق ملک کی ترقی  ہے۔ ہم گورننس میں اسٹیک ہولڈر ہیں اور اسی طرح ہم  ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے ذریعہ دیے گئے آئین کی تمہید کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔

جئے ہندی، جئے بھارت!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔ا گ۔ن ا۔

U- 2203

                         



(Release ID: 1903505) Visitor Counter : 191


Read this release in: English , Hindi , Tamil , Kannada