نائب صدر جمہوریہ ہند کا سکریٹریٹ

آئی آئی ٹی مدراس میں نائب صدر جمہوریہ کی تقریر کا متن (اختراعی سہولت کے مرکز کا افتتاح) (اقتباسات)

Posted On: 28 FEB 2023 3:41PM by PIB Delhi

فیکلٹی کے ساتھ آئی آئی ٹی مدراس کے ڈائرکٹر، اس امرت کال یعنی آزادی کے 75 ویں برس کے دوران، ایسے سورما تیار کریں گے  جو 2047 میں بھارت کی قسمت بدل دیں گے۔

سابق طلبا کسی بھی ادارے کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں۔ ادارے سابق طلبا کے کاندھوں، ان  کے اعزازات اور ان کے تعاون پر ہی نشو و نما پاتے ہیں۔

آئیے تمام اداروں میں سابق طلبا کی منظم ترقی کے لیے ایک طریقہ کار وضع کریں۔ وہ سابق طلبا ادارے ہماری قوم پرستی، ہماری اقتصادی قوم پرستی اور ہماری ترقی کی رفتار کا خیال رکھیں گے۔

میں چاہتا ہوں کہ یہ عظیم ادارہ ایلومنائی کنفیڈریشن کے ساتھ مل کر کام کرنے والے تمام سابق طلباء کے لیے ایک جدید پلیٹ فارم بنانے میں پیش پیش رہے۔ بہتری کی غرض سے دنیا کو تبدیل کرنے کے لیے دنیا نے اس سے بہتر تھنک ٹینک نہیں دیکھا ہوگا۔

اختراعی مرکز کا افتتاح تغیر پذیر ماحولیاتی نظام اور نئے پروفائل کی نشاندہی کرتا ہے، جس کا بھارت بڑے پیمانے پر دنیا کو اشارہ دے رہا ہے۔

میرے سامنے یہ اجتماع زیادہ متنوع بھارت اور بھارت کی روح کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایک طرح کی توانائی، فعالیت اور مثبت ماحول پایا جاتا ہے۔ میں بھارت کی تقدیر پڑھ سکتا ہوں اور یہ ہمیشہ عروج پر رہے گی۔

مجھے آپ کے ساتھ ایک واقعہ ساجھا کرنے دیجئے۔ جب میں نے راجستھان میں اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا۔ تو گاؤں کا ایک مقامی شخص جو کہ قانون کا گریجویٹ تھا، میرے چیمبر میں آیا۔ وہ رکشے پر آیا تھا اور اب ایک بہت ہی نامور وکیل ہے، لیکن وہ ایک ایسے کنبے سے تعلق رکھتا تھا جو کہ ثقافت کے مالامال ورثے کا حامل تھا۔ اس نے شروعات کرنے سے قبل کبھی کوئی قصبہ نہیں دیکھا تھا، اور اس عظیم کامیاب وکیل کے لیے کتنا خوشگوار لمحہ ہے کہ اس کا بیٹا سول انجینئرنگ کے چوتھے سمسٹر میں ہے جو آئی آئی ٹی مدراس کا ایک طالب علم ہے اور ایک بیٹی بھی ہے جو آئی آئی ٹی مدراس میں ایم ایس سی کے دوسرے سمسٹر میں ہے۔

ہمارے پاس مثبت حکومتی پالیسیوں کا ایک ماحولیاتی نظام ہے جس کے ذریعہ اب ہم اپنی ڈجیٹل صلاحیت سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کے قابل ہیں۔ اور میری پیڑھی کو جس قسم کی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا وہ رکاوٹیں اب موجود نہیں ہیں۔

آئی آئی ٹی مدراس ایک عمدگی کا مرکز ہے، ملک کا اعلیٰ اختراعی ادارہ ہے۔ 620 ایکڑ پر محیط اس کے کیمپس میں پودوں اور جانوروں کی 432 اقسام، تتلیوں کی 50 اقسام اور یہاں تک کہ معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار بلیک پینتھر بھی پائے جاتے ہیں۔

صرف ایک سال قبل، سال 2022 کے ماہ جولائی میں، آپ نے ایک منفرد چیز آغاز کیا اور وہ ایک ڈگر سے ہٹ کر سوچنے والا آن لائن کورس تھا۔ اس ملک میں ہمیں واقعی اپنے مسائل کے حل کے لیے ڈگر سے ہٹ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔

اختراعی فکر ہمارے ڈی این اے میں ہے۔ ہمیں اسے صرف حرکت دینی ہے اور اس فکر کو اس ادارے میں فعال بنایا جا رہا ہے۔ 10 لاکھ اسکولوں اور کالجوں کے طلبا تک پہنچنے کے ہدف کے ساتھ اس کا مقصد مجموعی ترقی حاصل کرنا ہے۔ بلا شبہ یہ ہدف حاصل کر لیا جائے گا۔

سدھا گوپال کرشنا کے برین سینٹر کا حوالہ دیا گیا۔ یہ درحقیقت انسانی دماغ کا نقشہ بنانے کا ایک اولوالعزم عالمی منصوبہ ہے۔ ایک مرتبہ پھر، میں یہ بات کہتا ہوں کہ دماغ کی نقشہ سازی انسانیت کے لیے زیادہ سے زیادہ بھلائی کا باعث ثابت ہوگی ۔

مجھے خوشی ہے کہ اس ادارے نے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے ایک پروڈکٹ تیار کیا ہے جو اسے جیومیٹریکل ترقی پر رکھے گا۔ یہ کسی فرد میں جینیاتی تبدیلی کا سبب بننے والے کینسر کی پیشن گوئی کر سکتا ہے۔

اس موضوع سے ہٹ کر، آیئے ہم کوئی ایسا اندازہ نہ لگائیں جو انتخابی نتائج کی پیش گوئی کر سکے اور جو جمہوریت کے احساس کو ختم کر دے گا۔ ایسا کسی نہ کسی قسم کے ایگزٹ پولز اور لوگوں کے یہاں وہاں کہنے کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسے ان لوگوں پر چھوڑ دیا جائے جو اس میدان میں ہیں۔

میں عصری عالمی منظر نامہ ساجھا کروں گا جس میں بھارت ایک روشن ستارہ ہے جس کی دنیا میں ہر کوئی تعریف کرتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں، ہماری معیشت بلا شبہ سب سے زیادہ روشن ہے، ہم سے توقع کی جاتی ہے کہ ہم بہت سی ترقی یافتہ اقوام کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ترقی کریں گے۔

بھارت  ستمبر 2022 میں دنیا کی پانچویں سے بڑی معیشت بنا، جب اس نے ہمارے سابق نوآبادیاتی حاکموں کو پیچھے چھوڑ کر پانچویں سب سے بڑی معیشت کا مقام حاصل کیا۔  مجھے کوئی شک نہیں ہے کہ دہائی کے آخر تک ہم دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائیں گے۔ اور میرے سامنے بیٹھے 2047 کے سورماؤں کے ساتھ ہم ازحد بلندی پر ہوں گے۔

بھارت کا عروج نہ رکنے والا ہے۔ اس کی افزوں رفتار برقرار رہے گی۔ جنوب مشرق اور مغرب میں تناؤ کے حامل عالمی منظر نامے کے باوجود، بھارت کے عروج کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمارا بھارت مواقع کی سرزمین ہے، سرمایہ کاری اور مواقع کی عالمی منزل کی سرزمین ہے۔

اب جب بھارت بولتا ہے، تو دنیا سنتی ہے۔

بھارت کے وزیر اعظم کے ذریعہ دیے گئے دو بیانات پر نظر ڈالیے۔ (اے) بھارت کبھی توسیعی سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہا۔ اور یہ توسیعی سرگرمیوں کا وقت نہیں ہے۔ (بی) جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ دنیا کے مسائل کا حل مکالمے اور سفارتکاری کے ذریعہ نکالا جانا چاہئے۔

بہترین دفاع حکمت عملی پر مبنی تیاری ہے اور معاشی تیاری کے بڑے پہلوؤں میں سے ایک اقتصادی قوم پرستی ہے۔ ہمیں اپنے لوگوں کو تھوڑا سوچنے سمجھنے اور معاشی قوم پرستی کا خیال رکھنے کی ترغیب اور حوصلہ فراہم کرنا ہوگا۔

دیوالی کے دیپ اور پتنگ، باہر سے آنے چاہئیں کیا؟ اور پٹاخے تو یہیں بن سکتے ہیں؛ (کیا ہمیں دیوالی کے لیے مٹی کے دیے اور پتنگیں دیگر ممالک سےدرآمد کرنے چاہئیں؟)

میں 1989 میں پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوا تھا اور مجھے مرکزی وزیر بننے کا موقع حاصل ہوا تھا۔ اس لیے میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ ہم 20 پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت چلا رہے تھے۔ اس کے بعد تین دہائیوں تک مرکز میں مخلوط حکومتیں رہیں۔ لیکن 2014 میں ایک تاریخی لمحہ آیا۔ بھارتی سیاست میں کایہ پلٹ تبدیلی رونما ہوئی اور ملک میں تین دہائیوں کے بعد واحد پارٹی کی حکومت آئی۔ یہ وہ وقت تھا جب چیزیں مختلف سمت میں چلنا شروع ہوئیں، قابلیت کے لحاظ سے، جامع ترقی کے رجحان نے زور پکڑا اور 2019 میں اسی انتخابی یقین کی دوبارہ تصدیق ہوئی۔

بھارت کی ترقی کا خاکہ اب کاغذ پر نہیں ہے۔ یہ اب ایک عملی زمین پر ہے ۔ اگر ہم عالمی اقتصادی عدد اشاریے کو دیکھیں تو ہم نے 40 پوزیشنوں کی جست لگائی ہے اور اس کی عکاسی پیٹنٹ کی تحقیق اور فائلنگ سے ہوتی ہے جس کے بارے میں یہ ادارہ دیگر کے مقابلے میں زیادہ واقفیت رکھتا ہے۔ بھارت کے پاس 80,000 سے زائد اسٹارٹ اپ اداروں  کے ساتھ تیسرا سب سے بڑا اسٹارٹ اپ ماحولیاتی نظام ہے اور یہاں دنیا میں یونی کارنوں کی تیسری سب سے زیادہ تعداد پائی جاتی ہے۔

میں آپ کو بتاتا چلوں کہ دنیا میں ترقی بعض اوقات اہرام کی شکل میں ہوتی ہے، یعنی شہری مراکز کو ترقی کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ وہ اضلاع جو پیچھے رہ گئے تھے، یعنی توقعاتی اضلاع، جہاں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اپنی تقرری سے گریز کرتے تھے، وہ اضلاع ترقی کی بدولت، اب تقرری کی پسندیدہ جگہیں بن چکے ہیں۔ میں آئی آئی ٹی مدراس کی قابل اعتماد کارکردگی کو نوٹ کرتے ہوئے بے حد خوش اور مطمئن ہوں، اس کا انکیوبیشن سیل تقریباً 40,000 کروڑ روپئے کی مجموعی قدرو قیمت کے ساتھ 300 سے زیادہ اسٹارٹ اپ اداروں کی میزبانی کر رہا ہے۔

اس نے آئی آئی ٹی طالب علم کو روزگار کے متلاشی سے روزگار پیدا کرنے والے میں تبدیل کر دیا ہے۔ دوستو، میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ جب ہم کارپوریٹ دنیا کو دیکھتے ہیں تو بھارتی ہی سب سے اوپر ہیں۔ اور یہ ڈائریکٹر جیسے فیکلٹی اراکین کی کامیابی کی وجہ سے ہے جو مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں جو صاحب بصیرت  ہیں، جو آپ کے ذریعہ ان کے اذہان میں قوم کی فلاح و بہبود کے لیے اپنے خوابوں اور امنگوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ تو میں ان لوگوں کے سامنے ہوں جنہیں میں 2047 کے سورما قرار دیتا ہوں۔ ہم میں سے کچھ یہ دیکھنے کے لیے آس پاس ہوں گے کہ آپ کیا کر رہے ہوں گے اور کیسی کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے اور دنیا تعریف کی نگاہ سے دیکھ رہی ہوگی۔ ہو سکتا ہے ہم میں سے کچھ یہاں نہ ہوں۔ لیکن میں اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں، دنیا کا کوئی بھی نوجوان انسانی وسائل بھارتی اذہان کا مقابلہ نہیں کر سکتا، اور اس وقت بہترین اذہان میرے سامنے ہیں۔

مجھے ایک نعرہ یاد آرہا ہے جسے 19ویں صدی میں سوامی وویکانند نے مقبول کیا تھا۔ میرا تعلق راجستھان کے ایک ضلع جھنجھنو سے ہے جہاں سوامی جی کو کام کرنے کا موقع حاصل ہوا۔ اور میں ریاست مغربی بنگال کا گورنر تھا جہاں سوامی جی نے متاثر کن حالات بنائے اور میں اپنی اہلیہ ڈاکٹر سدیش کے ساتھ شکاگو گیا جہاں سوامی جی نے دنیا سے اپنا ’’ڈگر سے ہٹ کر ‘‘شاندار خطاب کیا۔ سوامی جی کا پیغام جس کا میں نے حوالہ دیا ہے 'اُٹھ جاگو اور مقصد حاصل کرنے تک مت رکو'۔ درحقیقت یہ کوئی نعرہ نہیں ہے جو سوامی جی کے فکری عمل سے نکلا ہے۔

یہ نعرہ ہماری تہذیبی اقدار میں شامل ہے۔ اگر آپ اس کی ابتدا کے بارے میں پتہ لگائیں گے تو آپ کو یہ اپنشدوں میں مل جائے گا۔ آپ میں سے جو لوگ اس کے بارے میں پڑھنے کے خواہشمند ہیں، میں تمام نوجوان اذہان سے اپیل کروں گا کہ وہ اپنشدوں پر پہلی یا طبعی نظر ڈالنے کے لیے کچھ وقت نکالیں۔ اس سے آپ کا دماغ تیز ہوگا اور معاشرے کی وسیع تر فلاح و بہبود کے لیے حکمت حاصل کرنے میں آپ کو مدد ملے گی۔

دوستو، میں کبھی کبھی پریشان ہو جاتا ہوں کہ ہمیں واضح اشارے کیوں نظر نہیں آتے؟ ہم ایسی آوازوں کو کیوں اجازت دیتے ہیں جو ہمارے نظام کو داغدار کرتی ہیں، ہماری جمہوریت کو داغدار کرتی ہیں، ہماری کامیابی کو داغدار کرتی ہیں۔ ہمیں بھارتی ہونے پر فخر کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنی کامیابیوں پر فخر ہونا چاہیے۔ دنیا تعریف کر رہی ہے اور ہم میں سے کچھ سوال کر رہے ہیں۔

بھارت زمین پر سب سے بڑی جمہوریت اور جمہوریت کی ماں ہے۔ میں تضاد کے خوف کے بغیر کہنے کی جسارت کرتا ہوں، بھارت سب سے زیادہ فعال جمہوریت ہے۔ ہمارے پاس وہ سب کچھ ہے جس میں عظمت اور جمہوریت کا احساس موجود ہے۔

مجھے بتائیں کہ کرہ ارض پر ایسی عدلیہ کہاں ہے جو بجلی کی رفتار سے کام کرتی ہے۔ تلاش کریں، آپ کو کہیں نہیں ملے گی۔ ہماری عدلیہ نے ہماری جمہوریت کو ایک نیا نام دینے کے لیے بجلی کی رفتار سے کام کیا ہے۔ آپ کو کہیں اور مثال نہیں ملے گا۔ اس کرہ ارض پر ایسی حکومت کہاں ہے جو بڑا منصوبہ بناتی ہے، بڑا کام کرتی ہے۔

ذرا تصور کریں، 220 کروڑ ٹیکے کی خوراکیں، لوگ ہر طرح کے مسائل کھڑے کر رہے ہوں، غیر معقول طور پر سوچے سمجھے بغیر، ملک پر اعتماد کیے بغیر، پروگرام کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔

لیکن ہم نے کووِڈ کو شکست دی۔ 220 کروڑ ٹیکے کی خوراکیں، اور یہ آپ کے موبائل پر ڈجیٹل طور پر تصدیق شدہ ہیں۔ ترقی یافتہ مغرب سمیت دنیا کا کوئی بھی ملک اس کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔

دیگر مسائل بھی ہیں۔ جب میں پارلیمنٹ کا رکن تھا، بطور رکن پارلیمنٹ، میں کسی کو 50 گیس کنکشن دے سکتا تھا۔ اور اب ضرورت مند گھرانوں کو 150 ملین کنکشن فراہم کر دیے گئے ہیں۔ اس پیمانے کو دیکھیں جس پر عمل ہو رہا ہے۔ پھر بھی ہم لوگوں کو اپنے ترقیاتی اشاریہ پر انگلی اٹھانے کی اجازت دیتے ہیں۔ نوجوان اذہان کو ان سے صحیح حقائق کو سامنے رکھ کر سوال کرنا ہوگا۔ یہ ہمارا ملک ہے، ہماری حصولیابیاں ہیں، ہماری کامیابیاں ہیں۔ ہم ان حصولیابیوں کو ان لوگوں کے ذریعہ کمزور نہیں ہونے دیں گے جو اتنے ترغیب یافتہ نہیں ہیں جتنا کہ ہم میں سے بیشتر افراد ہیں۔

میں نوجوان اذہان کے ساتھ اپنے خیالات ساجھا کروں گا۔

وہ لوگ جو یہاں اور باہر بھی سامعین ہیں اور میرے عہدے کی وجہ سے، میں راجیہ سبھا کا چیئرمین ہوں، بزرگوں کا ایوان، ایوان بالا، وہ ایوان جو مستقل ہے، جسے تحلیل نہیں کیا جاسکتا۔ اب ہمارے لیے ایک ماڈل ہے۔ آئین ساز اسمبلی اور تین سال تک بحث و مباحثہ میں مصروف، کیا آپ نے کوئی خلل دیکھا، کوئی رخنہ اندازی دیکھی، کوئی کنویں کی جانب جا رہا ہے، نہیں؟

اگر ہماری قوم کے معمار ، آئین ساز جو بغیر نعرے لگائے، بغیر کسی ہنگامے کے، کنویں میں جائے بغیر، کرسی کو چنوتی دیے بغیر، آئینی مسائل، متنازعہ مسائل، فطرت کے لحاظ سے انتہائی منقسم نوعیت کے مسائل کا فیصلہ کرتے ہیں، تو  اب ہم ایسا کیوں کریں؟ جمہوریت کا یہ مندر مکالمے، بحث و مباحثے اور غور و خوض کے لیے ہے۔ یہ خلل اور رخنہ اندازیوں کے لیے نہیں ہے۔ لیکن مجھے جس بات پر تعجب ہے، وہ یہ کہ یہ طرز عمل آپ کے ردعمل کو جنم نہیں دیتا۔ میں نے کسی اخبار کے اداریے میں نہیں دیکھا، میں نے دانشوروں اور صحافیوں کو اس پر آواز اٹھاتے نہیں دیکھا، میں نے اس پر عوامی تحریک نہیں دیکھی۔ اس ملک کی عوام ایوان میں خلل کی اجازت کیسے دے سکتی ہے؟

ٹیکس دہندگان کا کروڑوں کا پیسہ روزمرہ کی کاروائیوں میں صرف ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ کا مقصد ایگزیکٹو کو جوابدہ بنانا ہے، حکومت کو جوابدہ بنانا ہے۔ اس لیے میں آپ سب سے اپیل کرتا ہوں کہ رابطے کے ہر وسیلے، سوشل میڈیا میں شامل ہوں ، یا ایک ماحولیاتی نظام پیدا کرنے میں مدد کریں تاکہ جمہوریت کے مندروں، پارلیمنٹ اور مقننہ کے تقدس اور پاکیزگی پر کوئی آنچ نہ آئے۔ آئیے وہاں بحث و مباحثے ، مکالمے اور غور و خوض کریں۔ یہ اظہار کے آزادانہ تبادلے کی جگہ ہے۔ مجھے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ مجھے نوجوان اذہان کی حمایت کی ضرورت ہے اور میں جانتا ہوں کہ اگر آپ اسے کرنے کا انتخاب کرتے ہیں تو یہ ایک عوامی تحریک بن جائے گی۔ اور اسی لیے نمائندوں کا احتساب کیا جائے گا۔

اور ہاں، وہ لوگ جو آپ کو وہاں بھیجتے ہیں، وہ لوگ جو کارکردگی کے لیے آپ کی جانب دیکھتے ہیں، وہ خلل یا رخنہ اندازیوں کو منظور نہیں کرتے۔

جمہوریت کے مندر کے تقدس کو برقرار رکھنا میری بدقسمت لیکن آئینی ذمہ داری ہے۔ میں بہت صبر کرنے والا آدمی ہوں۔ میں بہت قائل ہوں لیکن کیا میں بھارتی آئین کو ناکام بنا سکتا ہوں؟ کیا میں آپ کی خواہشات کو ناکام بنا سکتا ہوں؟ کیا میں آپ کا خواب توڑ سکتا ہوں؟ میں آپ کا پیدل سپاہی بنوں گا لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ اس کے لیے آگے بڑھیں۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کی مجھے آپ سے توقع ہے۔

دوسری بات، میں دیکھ رہا ہوں کیونکہ کچھ اداریے لکھے جا چکے ہیں۔ آئین کی دفعہ 105 میں ایک شق موجود ہے جو اراکین کو فوجداری قانونی چارہ جوئی سے تحفظ فراہم کرے گی۔ یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ ایک رکن پارلیمنٹ کچھ بولتا ہے اور آئین کہتا ہے کہ 140 کروڑ لوگ خواہ انہیں تکلیف پہنچے، عدالت نہیں جا سکتے، ہتک عزت کے لیے نہیں جا سکتے، مجرمانہ کاروائی کے لیے نہیں جا سکتے۔ یہ ایک رکن پارلیمنٹ کو اظہار خیال کا استحقاق ہے لیکن کیا یہ استحقاق بغیر ذمہ داری کے، بغیر احتساب کے ہے؟ کیا یہ استحقاق ایوان میں کچھ بھی کہہ دینے کا لائسنس ہے؟ نہیں۔

ایوان کو 140 کروڑ افراد کے وقار کو بچانا ہے تاکہ یہ کسی بھی معلومات، غیر تصدیق شدہ، الزام تراشی، لاپرواہی کے ساتھ ترتیب دیے گئے بیانیے کے لیے اکھاڑا یا کوڑا گھر نہ بن جائے ۔

اس لیے میں نے پرجوش اپیل کی ہے کہ ایوان میں کوئی بھی معلومات ہو سکتی ہے، معلومات کا مکمل بہاؤ اور اظہار ہو گا۔ یہی جمہوریت کا احساس ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ایک شرط بھی ہے۔ آپ کو معلومات کی تصدیق کرنی ہوگی۔ آپ کو معلومات کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے اور اگر یہ غلط ثابت ہوتی ہے، تو ہمارے پاس 'استحقاق کی خلاف ورزی' کے لیے پارلیمنٹ میں نظام موجود ہے۔

میں چاہتا ہوں کہ نوجوان اذہان اسے سمجھیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے صحافی دوست سمجھیں، میں نے کچھ اداریے دیکھے ہیں اور مجھے ان سے تکلیف ہوئی ہے۔ انہیں آئین ساز اسمبلی کے مباحثوں میں جانا چاہیے۔ انہیں عالمی منظر نامہ ضرور دیکھنا چاہیے۔ استحقاق کی خلاف ورزی پر کسی کو پکڑنا اظہار رائے کا گلا گھونٹنا نہیں ہے۔ یہ ایسی معلومات کی ڈمپنگ ہے جس کی توثیق نہیں ہے اور جسے پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم کا غلط استعمال کرتے ہوئے لاپرواہی سے ترتیب دیا گیا ہے۔

میں آپ سب سے اپیل کرتا ہوں کہ اس پر سنجیدگی سے غور کریں۔ میرے دوستو، میں دو آسان باتیں بتاکر اپنی بات ختم کروں گا۔ ہمارے پاس ایک مضبوط عدالتی نظام ہے۔ عزت مآب وزیر اعظم سمیت اعلیٰ اور مقتدر افراد کے لیے چیزوں کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ دو دہائیوں تک اس معاملے پر عدالتی حلقوں میں غور و خوض کیا گیا، ہر سطح پر اس کی مکمل چھان بین کی گئی۔ کرۂ ارض کی سب سے بڑی عدالت، سب سے بڑی جمہوریتوں کی سب سے بڑی عدالت نے بالآخر 2022 میں تمام محاذوں پر فیصلہ سنا دیا۔ لیکن ہمارے اردگرد ایک دستاویزی فلم کے ذریعے ایک بیانیہ ترتیب دیا جا رہا ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اظہار رائے کی آزادی ہے۔ تو کیا آپ اظہار خیال کے نام پر سپریم کورٹ کی نفی کر سکتے ہیں، کیا آپ دو دہائیوں کی مکمل تحقیقات کی نفی کر سکتے ہیں؟ یہ اُلٹی سیاست کھیلی جا رہی ہے۔ جب لوگ سیاست کو دوسرے طریقے سے کھیلنے کا انتخاب کرتے ہیں، تو یہاں کے نوجوان اذہان اور باہر کے دانشوران انہیں چیلنج کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

ایک شریف آدمی ہے جو پیسے کی طاقت کا استعمال کرتا ہے، اس کے کچھ حمایتی ہیں، اس کے کچھ فائدہ اٹھانے والے ہیں، اس کے پاس کچھ مالیاتی طفیلی ہیں اور وہ ہمارے ملک کی جمہوریت کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ میں پریشان ہوں، تکلیف میں ہوں، ایک سمجھدار ذہن ہمارا موازنہ ایک جنوبی ملک، پڑوسیوں سے کیسے کر سکتا ہے؟

اس لیے میں آپ سے اپیل کروں گا کہ اگر آپ کو اس ملک کو 2047 تک لے جانا ہے، بانیوں کے اعتماد کی تصدیق کرنی ہے تو براہ کرم ہوشیار رہیں۔ جو لوگ اس کے ارد گرد سیاست کرتے ہیں ان کا مقابلہ کرنے، غیر جانبدار ہونے کی ضرورت ہے اور انہیں آپ کے منطقی سوال کا سامنا کرنا ہوگا۔

ایک مرتبہ پھر میں یہاں آکر خوش اور مسرور ہوں۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہے جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ مجھے مدراس سے آئی آئی ٹی طلبا کے ایک گروپ کی میزبانی کرتے ہوئے دہلی میں میرے مہمان بننے، اور دہلی اور پارلیمنٹ کو دیکھنے کے لیے بے حد خوشی اور مسرت ہوگی۔

بہت بہت شکریہ

**********

 (ش ح –ا ب ن۔ م ف)

U.No:2168



(Release ID: 1903219) Visitor Counter : 86


Read this release in: English , Hindi , Tamil , Kannada