کامرس اور صنعت کی وزارتہ

ہندوستان آنے والی کئی دہائیوں تک دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی بڑی معیشت رہے گا: پونےکے  ایشیا اکنامک ڈائیلاگ میں مرکزی وزیر پیوش گوئل

Posted On: 25 FEB 2023 3:04PM by PIB Delhi

صنعت و تجارت، کپڑا اور صارفین کے امور، خوراک اور عوامی تقسیم کے مرکزی وزیرجناب  پیوش گوئل نے آج پونے میں ایشیا اکنامک ڈائیلاگ سے خطاب کیا۔ وزیر موصوف  نے اپنے یقین کا اظہار کیا کہ ہندوستان چار سال یا  زیادہ سے پانچ سالوں میں تیسری سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔ انہوں نے کہا  "ہندوستان جس طرح سے ترقی کر رہا ہے اس کے بارے میں میرا اپنا یقین ہے کہ ہم اپنی معیشت کو 2047 تک 35-40 ٹریلین ڈالر کی معیشت کے قریب لے جائیں گے۔ ہر ہندوستانی چاہتا ہے کہ وہ کسی سے پیچھے نہیں رہے۔"

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/Goyal13YI8.jpg

وزیرموصوف  نے صنعت کو پچھلے کچھ سالوں میں کی گئی اصلاحات کے بارے میں ہمارے مضبوط میکرو اکنامک بنیادی اصولوں پر، اپنی کامیابیوں پر فخر کرنے کی تلقین کی اور کہا کہ "ہمیں یقین ہے کہ ہندوستان نہ صرف سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی بڑی معیشت ہے، بلکہ ہم آنے والی کئی دہائیوں تک ایسا ہی  کرتے رہیں گے۔"

وزیر موصوف نے ایشیا کی اپنی مخصوص حرکیات ہیں، جہاں ہمارے پاس ایسی دونوں  معیشتیں ہیں جو جمہوریت ہیں اور جو غیر شفاف اور غیر اصولی ہیں۔ انہوں نے کہا  "پچھلی دہائی یا اس کے بعد، ہندوستان بین الاقوامیت اور  ٹیکنالوجی  نیز کام کرنے کے جدید طریقے کے ساتھ مصروف ہونا چاہتا ہے۔ آج ہندوستان کو 21ویں صدی کا ملک نہیں تو واضح طور پر دہائی کا ملک تسلیم کیا جاتا ہے۔ ہم پہلے ہی دسویں بڑی معیشت سے پانچویں بڑی معیشت میں  شامل ہو چکے ہیں۔ آج ہمارے پاس ایک نوجوان ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ ہے، جسے ہمارا سب سے بڑا اثاثہ تسلیم کیا جا رہا ہے۔

مرکزی وزیر نے کہا کہ روس یوکرین تنازعہ نے ترقی پذیر ممالک سے زیادہ ترقی یافتہ دنیا پر شدید اثر ڈالا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ غذائی تحفظ اور توانائی کے تحفظ کے لیے اور افراط زر، شرح سود اور نمو پر نتیجہ خیز اثرات کے لیے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ممالک پر اس کے  تباہ کن اثرات مرتب  ہوئے ہیں۔

وزیرموصوف  نے یاد دلایا کہ 2019 میں، جب ہندوستان آر سی ای پی گروپ آف نیشن میں شامل ہونے پر بات چیت میں مصروف تھا، آر سی ای پی معاہدے کے ایک حصے کے طور پر ہندوستان کو کیا پیشکش کی جارہی تھی، اس کا مطالعہ کرنے کے بعد  ہمیں احساس ہوا کہ ہم کسی طرح سےپہلے کے مقابلے جدا تھے ۔ انہوں نے کہا "میرے ذہن میں، اس وقت کی حکومت کا آر سی ای پی کا حصہ بننے کا فیصلہ غلط تھا، کیونکہ ہم ایک غیر شفاف معیشت کے ساتھ ایف ٹی اے میں داخل ہو رہے تھے جس میں قانون کی حکمرانی یا اپیل یا جمہوریت کی عدالت نہیں تھی۔ یہ معاہدہ ہندوستان میں تمام مینوفیکچرنگ کے لیے تباہ کن اثرات مرتب کر سکتا تھا۔

وزیر تجارت نے کہا کہ برسوں سے ہم نے اپنے لوگوں کو چین سے کم قیمت والی غیر معیاری اشیاء کی عادت ڈال کر ہندوستان کے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ  چین کے ساتھ تجارتی خسارہ جو کہ تقریباً 16-15 سال قبل 2 بلین ڈالر سے کم تھا، 2014 تک بڑھ کر 48 بلین ڈالر کے قریب ہو گیا۔ ہم نے چین سے مصنوعات آنے کی اجازت دی جبکہ انہوں نےہندوستان سے ہماری مصنوعات کو جائز یا ناجائز طریقے سے چین جانے سے روک دیا۔ لہذا، جب وزیر اعظم نریندر مودی نے 4 نومبر 2019 کو آر سی ای پی میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا،تو مجھے بڑی راحت کا احساس ہوا اور ملک بھر میں صنعت اور کاروبار کے ہر طبقے، ہر کسان اور ڈیری سیکٹر سے وابستہ ہر فرد نے خوشی کا اظہار کیا۔

وزیر موصوف نے ہندوستانی مصنوعات پر مزید فخر کرنے کے لیے اپنے لوگوں کو بیدار کرنے کی ضرورت پر بات کی۔ جناب گوئل نے کہا "ہندوستان قانون کی حکمرانی، ان کے آزادی کے حق، اظہار رائے کی آزادی میں یقین رکھتا ہے۔ ایشیا میں بہت سے  مختلف معاشی فلسفے ایک ساتھ رہتے ہیں۔ ہمیں مناسب نظام اور مینوفیکچرنگ سسٹم بنانے میں کچھ وقت لگے گا، اور اپنے لوگوں اور کاروباری اداروں کو چین سے آنے والی کم قیمت کم معیار کی اشیا ءکی افیون سے خود کو چھڑانے کے لیے بھی حساس بنانا ہوگا ۔"

مرکزی وزیر نے کہا کہ ہندوستان اب ایک ایسا شراکت دار ہے جس پر دنیا بھروسہ کر سکتی ہے۔  انہوں نے کہا "کووڈ -19بحران کو ایک موقع میں تبدیل کرکے، ہم ہندوستان کے تئیں دنیا کی آنکھیں کھولنے میں کامیاب ہوئے۔ اختراع کرنے اور ویکسین تیار کرنے اور آبادی کو کم قیمت پر تقسیم کرنے  نیز ٹیکہ کاری کرنے کی  ہماری صلاحیت ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ کووڈ-19 کے دوران، ہم نے ایک بھی بین الاقوامی عزم کو  کم نہیں ہونے دیا ۔ ہم ایک تجارتی شراکت دار ہیں جس پر دنیا بھروسہ کر سکتی ہے۔ ہم نے 22-2021 میں اب تک کی سب سے زیادہ برآمدات کی ہیں۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/Goyal2WJBN.jpg

آزاد تجارتی معاہدوں کی بات کرتے ہوئے، وزیر موصوف نے صنعت کے نمائندوں کو بتایا کہ ہم نے دنیا کی تاریخ میں اب تک کا سب سے تیز ایف ٹی اے کیا،  ہند-متحدہ عرب امارات معاہدہ 88 دنوں میں مکمل ہوا ہے۔ انہوں نے کہا "ہم نے آسٹریلیا کے ساتھ ایک تیز ایف ٹی اے بھی مکمل کیا۔ یہی وہ جوش و خروش ہے جس کا مظاہرہ دنیا ہندوستان کے ساتھ کام کرنے کے لیے کر رہی ہے۔ اسرائیل، کناڈا، یورپی یونین، برطانیہ اور جی سی سی کے ساتھ ہمارے مذاکرات جاری ہیں۔ روس اور اس کے ای اے یو  کے  شراکت دار ممالک بھی ہندوستان کے ساتھ تیز رفتار مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔

وزیر موصوف نے آٹو انڈسٹری میں 100 فیصد مقامی ہونے کی ضرورت پر بات کی۔ انہوں نے کہا "ہمیں اپنی گھریلو مینوفیکچرنگ صلاحیتوں کو مضبوط کرنا چاہیے۔ ہمیں مسابقتی اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل ہونا چاہیے اور ہمارے صارفین کو ان صلاحیتوں کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے جو ہم اندھا دھند درآمدات سے کھو رہے ہیں۔"

ایم ایس ایم ای  کو ادائیگی کی  مشکلات پر بات کرتے ہوئے، وزیر موصوف نے کہا کہ بڑی کمپنیاں جو کم قرض لینے کی لاگت سے فائدہ اٹھاتی ہیں، انہیں ایم ایس ایم ای کو فوری طور پر ادائیگی کرنے پر غور کرنا چاہئے تاکہ چھوٹے کاروبار بھی زیادہ منافع بخش بنیں۔

ماحول دوست کاروبار کو فروغ دینے کے بارے میں ایک سوال پر، وزیر  موصوف نے کہا کہ اگرچہ ترقی یافتہ دنیا موسمیاتی تبدیلیوں میں سب سے زیادہ شراکت دار ہے، وہ آج ہمیں بتا رہے ہیں کہ کاربن کے اخراج میں صرف 2.5 فیصد حصہ دار ہونے کے باوجود ہمیں کیا کرنا چاہیے۔  انہوں نے کہا "حکومت نے ایک ذمہ دار عالمی شہری کے طور پر موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے پر توجہ مرکوز کی ہے۔ ہم گردشی معیشت کو فروغ دے رہے ہیں تاکہ ہم اپنے فضلے کو ری سائیکل کرسکیں۔ ہم موسمیاتی تبدیلی کے اہداف کو پورا کرنے میں سرفہرست کارکردگی دکھانے والے پانچ ممالک میں شامل ہیں۔ ہم پائیدار ٹیکسٹائل جیسی مصنوعات کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔ ہم نامیاتی کھیتی کو فروغ دینے پر بھی بڑی توجہ مرکوز کر رہے ہیں، مثال کے طور پر، ہم سکم سے زرعی نامیاتی پیداوار کی برآمدات کو فی الحال 8 کروڑ روپے سے بڑھا کر 2030 تک 8000 کروڑ  روپے کرن جا رہے ہیں۔  

امریکہ کے ساتھ ایف ٹی اے سے متعلق ایک سوال پر وزیر  موصوف نے کہا کہ امریکہ میں ایف ٹی اے کی منظوری کے لیے امریکی کانگریس کی منظوری درکار ہے اور امریکہ میں اس پر کوئی دو جماعتی حمایت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا  "اس لیے ایک متبادل فریم ورک کے طور پر  ہند بحر الکاہل  اقتصاد ڈھانچہ کا تصور کیا گیا ہے۔ ہم لچکدار سپلائی چین، ٹیکنالوجی پارٹنرشپ اور بالواسطہ اقدامات کے ذریعہ اپنی معیشت کو کھولنے کے معاملے میں امریکہ کے قریب جانے کی سوچ رہے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ ہماری مسلسل بات چیت ہوتی  ہے۔ اعلیٰ امریکی کارپوریشنوں پر مشتمل ایک بہت بڑا تجارتی وفد ہولی کے دوران امریکی کامرس سکریٹری کے ساتھ ہندوستان آرہا ہے۔ ہم ہندوستان-امریکہ  شراکت داری کو مضبوط بنانے میں بہت زیادہ وقت اور سرمایہ لگا رہے ہیں۔

ایم ایس ایم ای  کی حمایت کے ایک سوال پر، وزیر  موصوف نے نشاندہی کی کہ بڑے کاروباروں کے ارد گرد پورے ماحولیاتی نظام کو دیکھتے ہوئے برآمدات بڑھانے کی کسی بھی کوشش کا  ایم ایس ایم ای پر اثر پڑے گا۔ بالآخر، ہمیں صارفین اور کاروبار کے مفاد میں توازن رکھنا ہوگا۔ ہم مصنوعی طور پر کسی شعبے کی صرف ایک نقطہ تک حمایت کر سکتے ہیں۔ ایم ایس ایم ای ہمیشہ عالمی معیشت کے لیے بہت اہم  رہیں گے۔ اس لیے ایم ایس ایم ای کے ساتھ ساتھ اسٹارٹ اپس اور خواتین کاروباریوں کو مختلف رعایتیں بھی دی جارہی ہیں۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/Goyal3TIGP.jpg

جناب گوئل نے صنعت کو بتایا کہ حکومت نے لوگوں کو بااختیار بنانے کے لیے انقلابی  اصلاحات کی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان میں نوجوان آبادی کی زندگی کی اچھی چیزوں کی خواہش ہندوستانی معیشت کو آگے بڑھائے گی اورہمیں 2047 تک 47 ٹریلین ڈالر کی معیشت بننے میں ہماری مدد کرے گی۔

بات چیت کی ویڈیو یہاں دیکھی جا سکتی ہے: https://www.youtube.com/live/8kDo2JRG3wk?feature=share

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(ش ح ۔ رض  ۔ ج ا  (

2075



(Release ID: 1902450) Visitor Counter : 189


Read this release in: English , Hindi , Marathi , Tamil