وزارت خزانہ

سال 22-2021 کے دوران بھارت میں ریکارڈ 315.7 ملین ٹن  غذائی اجناس کی پیداوارہوئی


سال 22-2021 کے دوران بھارت میں ریکارڈ 342.3 ملین ٹن  باغبانی فصلوں کی پیداوارہوئی

پردھان منتری متسیہ سمپدا یوجنا کو 20,050 کروڑ روپے فراہم کئے گئے

یکم جنوری 2023 سے ایک سال کے لئے خوراک کی یقینی فراہمی سے متعلق قومی ایکٹ (این ایف ایس اے) 2013 کے تحت تقریباً 81.35 کروڑ مستفیدین کو مفت غذائی اجناس

تمام ریاستوں ؍ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں ایک ملک-ایک راشن کارڈ (او این او آر سی) اسکیم کو لاگو کیا گیا

زرعی بنیادی ڈھانچے کے لئے 13,681 کروڑ روپے منظورکئے گئے

ای-نیم پورٹل پر 1.7 کروڑ سے زیادہ کسانوں  اور 2.3 لاکھ سے زیادہ تاجروں نے اپنا اندراج کرایا ہے

بھارت میں 500 سے زیادہ اسٹارٹ اپس موٹے اناج کے ویلیو چین میں کام کر رہے ہیں

Posted On: 31 JAN 2023 1:20PM by PIB Delhi

آج یہاں پارلیمنٹ میں خزانہ اور کارپوریٹ امور کی مرکزی وزیر کے ذریعے پیش کئے گئے اقتصادی جائزہ 23-2022 میں کہا گیا ہے کہ  آب و ہوا کی تبدیلی کے چیلنجوں کے باوجود سال 22-2021 میں بھارت میں غذائی اجناس کی پیداوارریکارڈ 315.7 ملین ٹن تک پہنچ گئی۔  مزید برآں، 23-2022 کے پہلے پیشگی تخمینوں کے مطابق ملک میں غذائی اجناس کی کل پیداوار کا تخمینہ (صرف خریف)،  149.9 ملین ٹن لگایا گیا ہے،  جو پچھلے پانچ برسوں  (17-2016 سے 21-2020 تک)  کی اوسط خریف غذائی پیداوار سے زیادہ ہے۔ اقتصادی جائزے کے مطابق پچھلے پانچ برسوں میں دالوں کی پیداوار بھی 23.8 ملین ٹن کی اوسط سے زیادہ رہی ہے۔

 

باغبانی کی مربوط ترقی کے مشن(ایم آئی ڈی ایچ)

اقتصادی جائزے میں باغبانی کو ‘‘اعلیٰ پیداوار والی فصلیں’’ اور ‘‘کاشتکاروں کے لئے بہتر ترقی اور ترقی کے بہتر ذریعہ’’ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ تیسرے پیشگی تخمینہ (22-2021) کے مطابق، 28.0 ملین ہیکٹر اراضی کے رقبے میں 342.3 ملین ٹن کی ریکارڈ پیداوار حاصل کی گئی۔ حکومت نے باغبانی کے 55 کلسٹروں کی نشاندہی کی ہے، جن میں سے 12 کلسٹرس کو کلسٹر ترقیاتی  پروگرام(سی ڈی پی) کے آزمائشی مرحلے کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔ باغبانی کی مربوط ترقی کے مشن (ایم آئی ڈی ایچ  )کو باغبانی کے کلسٹرز کی جغرافیائی مہارت سے فائدہ اٹھانے، پوری سپلائی چین میں ماقبل پیداوار  کی مربوط اور بازار کی قیادت میں ترقی کو فرو غ دینے، پیداوار اور فصل کے بعد کی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لئے  ڈیزائن کیا گیا ہے۔

مویشی پالن، ڈیری اور ماہی پروری

اقتصادی جائزے کے مطابق ہندوستانی زراعت کے متعلقہ شعبے - مویشی پروری، جنگلات اور جنگلات کی کٹائی کا کام، ماہی گیری اور آبی زراعت بتدریج مضبوط ترقی کے شعبے اور بہتر زرعی  آمدنی کا ایک ممکنہ وسیلہ بن رہے ہیں۔

اقتصادی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ مویشی پروری کے شعبے نے 15-2014سے 21-2020کے دوران 7.9 فیصد کی سی اے جی آر (مستقل قیمتوں پر) میں اضافہ کیا اور کل زراعت جی وی اے (مستقل قیمتوں پر) میں اس کا تعاون 15-2014میں 24.3 فیصد سے بڑھ کر21-2021 میں  30.1 فیصد ہو گیا ہے۔  اسی طرح ماہی پروری کے شعبے کی سالانہ اوسط شرح نمو 17-2016سے تقریباًً 7 فیصد رہی ہے اور کل زرعی جی وی اے میں اس کا حصہ تقریباً 6.7 فیصد ہے۔ ڈیری سیکٹر جو آٹھ کروڑ سے زیادہ کسانوں کو براہ راست روزگار  دیتا ہے، انڈے اور گوشت جیسی مصنوعات کے ساتھ اہم ہے۔ بھارت  دنیا میں دودھ کی پیداوار میں پہلے مقام  پر ہے۔ اسی طرح بھارت انڈے کی پیداوار میں تیسرے اور گوشت کی پیداوار میں آٹھویں مقام  پر ہے ۔

متعلقہ شعبوں کی اہمیت کو سمجھتے ہوئےحکومت نے بنیادی ڈھانچے کو فروغ دینے، پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانے اور بیماریوں پر قابو پانے کے لئے متعدد اقدامات کئےہیں۔ مویشی پروری بنیادی ڈھانچے کے ترقیاتی  فنڈ  تحت 3,731.4 کروڑ روپے کی کل لاگت کے ساتھ 116 پروجیکٹوں کو منظوری دی گئی ہے۔ اس اسکیم کو 15,000 کروڑ روپے کی کل مختص رقم کے ساتھ شروع کیا گیا تھا،  جہاں قومی مویشی پروری مشن ، افزائش نسل کی ترقی اور کاروباری ترقی پر زور دیتا ہے، وہیں مویشیوں کی صحت اور امراض کی روک تھام اسکیم کوجانوروں کے امراض کنٹرول کرنے اور معاشی اور اہمیت کے حامل جانوروں کی بیماریوں پر قابو پانے کے لئے لاگو کیا جا رہا ہے اورمویشیوں  کے امراض کی روک تھام کے قومی پروگرام کوجانوروں کے منھ اور پیر کی بیماریوں اوربروسیلوسس کو کنٹرول کرنے کے لئے لاگو کیا جا رہا ہے۔

پردھان منتری متسیا سمپدا یوجنا (پی ایم ایم ایس وائی) کی کل لاگت 20,050 کروڑ روپے ہے۔ پردھان منتری متسیا سمپدا یوجنا (پی ایم ایم ایس وائی) ، بھارت میں ماہی پروری کے شعبے میں اب تک کی سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس یوجنا کو مال برس 2021 سے مالی برس 2025 تک پورے ملک میں لاگو کیا جائے گا تاکہ ماہی پروری کے شعبے کی پائیدار اور ذمہ دارانہ ترقی کو آگے بڑھایا جا سکے  اور ماہی گیروں، مچھلی پالنے والے کسانوں اور ان کی سماجی و اقتصادی ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔ فشریز اور آبی زراعت کے بنیادی ڈھانچے کے ترقیاتی فنڈ(ایف آئی ڈی ایف)  کے تحت، 17 اکتوبر 2022 تک 4,923.9 کروڑ روپےکی  تجاویز کو منظوری دی گئی ہے اور 9.4 لاکھ سے زیادہ افراد کو براہ راست اور بالواسطہ روزگار کے ذریعے، ماہی پروری اور اس سے منسلک سرگرمیوں میں فائدہ پہنچا ہے۔

خوراک کی یقینی فراہمی:

اقتصادی جائزے  میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں  خوراک کے بندوبست پروگرام میں  کسانوں سے مناسب قیمتوں پر اناج کی خریداری اور صارفین، خاص طور پر معاشرے کے کمزور طبقات کو سستی قیمتوں پر اناج کی فراہمی، تقسیم اور خوراک کی یقینی فراہمی نیز قیمتوں کے استحکام کے لئے خوراک کے وافر ذخیرے کی دیکھ بھال شامل ہے۔ حکومت نے ایک حالیہ فیصلے میں خوراک کی یقینی فراہمی سے متعلق قومی ایکٹ (این ایف ایس اے) 2013 کے تحت تقریباً 81.35 کروڑ مستحق افراد کو یکم جنوری 2023 سے ایک سال کے لئے مفت اناج فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مزید براں  غریبوں کے مالی بوجھ کو دور کرنے کےلئے حکومت کے ذریعے این ایف ایس اے  اور دیگر فلاحی اسکیموں کے تحت خوراک کی رعایت پر  اس مدت میں 2 لاکھ کروڑروپے سے زیادہ خرچ کیا گیا ہے۔ خریف مارکیٹنگ سیزن (کے ایم ایس)،  22-2021 کے دوران، 532.7 لاکھ میٹرک ٹن کے تخمینہ ہدف کے مقابلے میں 581.7 لاکھ میٹرک ٹن ((ایل ایم ٹی) چاول کی خریداری کی گئی۔ موجودہ  مالی برس  خریف مارکٹنگ سیزن 23-2022 کے دوران 31 دسمبر 2022 تک مجموعی طور پر 355 لاکھ میٹرک ٹن چاول خریدے گئے ہیں۔

پردھان  منتری غریب کلیان اَنّ یوجنا کے تحت، حکومت نے ریاستوں؍ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو تقریباً 1,118 ایل ایم ٹی غذائی اجناس مختص کیا تاکہ کووڈ-19 کی وبا کے دوران غریبوں کو درپیش مشکلات کو کم کیا جا سکے۔ لوگوں کی خوراک تک رسائی کے عمل کو مزید آسان بنانے کے لئے، حکومت نے 2019 میں شہری پر مرکوز اور ٹیکنالوجی پر مبنی ایک اسکیم کا آغاز کیا ،جسے ایک ملک-ایک راشن کارڈ (او این او آر سی) اسکیم کہا جاتا ہے۔ او این او آر سی نظام راشن کارڈوں کی بین ریاستی اور اندرون ریاست منتقلی کو قابل بناتا ہے۔ فی الحال، قومی؍بین ریاستی  راشن کارڈ کی منتقلی تمام 36 ریاستوں؍مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں لاگو ہے، جو این ایف ایس اے کے کُل مستفیدین میں  100 فیصد احاطہ کرتا ہے۔

موٹے اناج کا بین الاقوامی سال

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مارچ 2021 کے دوران اپنے 75ویں اجلاس میں 2023 کو موٹے اناج  کا بین الاقوامی سال (آئی وائی ایم) قرار دیا۔ بھارت 50.9 ملین ٹن سے زیادہ موٹے اناج کی پیداوار کرتا ہے (چوتھے پیشگی تخمینہ کے مطابق)،جو ایشیا میں موٹے اناج کی کُل پیداوار کا 80 فیصد اورموٹے اناج کی  عالمی پیداوار کا 20 فیصد ہے۔موٹے اناج کی عالمی اوسط پیداوار 1229 کلوگرام فی ہیکٹر ہے، جب کہ ہندوستان کی اوسط پیداوار 1239 کلوگرام فی ہیکٹر ہے۔ موٹے اناج کی غذائیت کی اہمیت کو دیکھتے ہوئےحکومت نے اپریل 2018 میں موٹے اناج  کو غذائی اناج کے طور پر مطلع کیا۔ خوراک کی یقینی فراہمی کے قومی مشن (این ایف ایس ایم) کے تحت، موٹے اناج  کو تغذیہ میں  مدد فراہم کرنے کے لئےمتعارف کرایا گیا ہے۔ 14 ریاستوں کے 212 اضلاع میں 19-2018 سے غذائی اناج پر ایک ذیلی مشن لاگو کیا جا رہا ہے۔ ہندوستان میں 500 سے زیادہ اسٹارٹ اپس موٹے اناج کی ویلیو چین میں کام کر رہے ہیں۔

خوراک کی ڈبہ بندی کا شعبہ

اقتصادی جائزے کے مطابق مالی سال 2021 کے اختتام پرپچھلے پانچ برسوں میں،خوراک کی ڈبہ بندی کی صنعتوں کا شعبہ تقریباً 8.3 فیصد کی اوسط سالانہ شرح نمو سے ترقی کر رہا ہے۔ خوراک کی ڈبہ بندی کا شعبہ ہندوستان کی ترقی کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ یہ صنعت اور زراعت کے درمیان مضبوط رابطوں اور تعاملات کو فروغ دیتا ہے۔ زرعی خوراک کی برآمدات کی قدر، بشمول  ڈبہ خوراک کی برآمدات، سال 22-2021 کے دوران بھارت کی کل برآمدات کا تقریباً 10.9 فیصد تھا ۔

اقتصادی جائزے میں کہا گیا ہے کہ اس شعبے کی وسیع  صلاحیت کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت ملک میں خوراک کی ڈبہ بندی کے شعبے کی ترقی  کے مقصد سے مختلف اقدامات کے ساتھ سب سے آگے ہے۔ پردھان منتری کسان سمپدا یوجنا (پی ایم کے ایس وائی) کی جزوی اسکیموں کے ذریعے خوراک کی ڈبہ بندی کے شعبے کی مجموعی ترقی اور فروغ کے لئے 31 دسمبر 2022 تک 677 پروجیکٹ مکمل کئے جا چکے ہیں۔مزید براں غیر منظم شعبے میں انفرادی مائیکرو صنعتوں کی مسابقت کو بڑھانے اور اس شعبے کی باضابطہ کاری کو فروغ دینے کی اسکیم کے لئے31 دسمبر 2022  کی تاریخ تک، 1402.6 کروڑ روپے کی مالیت کے 15,095 قرضوں کی منظوری دی گئی۔ اس اسکیم میں ایک ضلع، ایک پروڈکٹ (او ڈی او پی) طریقہ اپنایا گیا ہے تاکہ پیداوار کی خریداری  ، مشترکہ خدمات اور مارکیٹنگ کی مصنوعات کے استعمال میں پیمانے کا فائدہ اٹھایا جاسکے۔ اب تک 35 ریاستوں؍ مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں او ڈی او پی کے تحت 137 منفرد مصنوعات کے ساتھ 713 اضلاع کو منظوری دی گئی ہے۔ خوراک کی ڈبہ بندی کی صنعت کے لئے پیداوار سے منسلک ترغیباتی (پی ایل آئی ایس ایف پی آئی)، جو مارچ 2022 میں شروع کی گئی تھی، عالمی فوڈ چیمپئن بنانے کے لئے سرمایہ کاری کی ترغیب دینے کے لئے مخصوص اختیار رکھتی ہے۔ اعلی ترقی کی صلاحیت کے حامل شعبے، جیسے سمندری پروڈکٹس، ڈبہ بند پھل اور سبزیاں، اور ‘کھانے کے لئے پوری طرح تیار؍ پکانے کے لیے تیار’ اشیاء امداد اور ترغیبات حاصل کرنے کے اہل ہیں۔

زرعی بنیادی ڈھانچہ فنڈ (اے آئی ایف)

نئے بھارت کے لئے نیتی آیوگ کی حکمت عملی مناسب اور مؤثر کولڈ چین انفراسٹرکچر کی کمی کو سپلائی کے محاذ پر ایک اہم رکاوٹ کے طور پر نشاندہی کرتی ہے، جس کی وجہ سے فصل کی کٹائی کے بعد بڑے پیمانے پر ہونے والےنقصانات (زیادہ تر خراب ہوجانے والی اشیاء) کا تخمینہ 92,561 کروڑ روپے سالانہ ہے۔ اس  مسئلے سے نمٹنے اور زراعت اور اس سے منسلک شعبے کی ترقی کے امکانات  کو کھولنے کے لئے حکومت نے زرعی بنیادی ڈھانچہ فنڈ (اے آئی ایف) کو متعارف کرایا۔ یہ ایک فنانسنگ سہولت ہے جو 21-2020 سے 33-2032کے دوران فصل کی کٹائی کے بعد کے انتظام کے بنیادی ڈھانچے اور کمیونٹی فارم کے اثاثوں کی تعمیر کے لئے کام کرتی ہے، جس کے فوائد میں 3 فیصد سود کی رعایت اورقرض کی گارنٹی میں شامل ہیں۔ اپنے قیام کے بعد سے، 13,681 کروڑ روپے کی رقم ملک میں زراعت کے بنیادی ڈھانچے کے لئے منظور کی گئی ہے، جس میں 18,133 سے زیادہ پروجیکٹوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان میں 8,076 گودام، 2,788 پرائمری پروسیسنگ یونٹس، 1,860 کسٹم ہائرنگ سینٹرز، 937 چھانٹنےوالی اور معیار بندی کرنے والی اکائیاں ، 696 کولڈ اسٹور پروجیکٹس، 163 تجزیاتی اکائیاں اور تقریباً 3613 دیگر قسم کےفصلوں کی کٹائی کے بعد کے بندوبست پروجیکٹس اور کمیونٹی زراعت کے اثاثے شامل ہیں۔

قومی زرعی منڈی(ای-نیم)

اکتیس (31) دسمبر 2022 کی تاریخ  تک 1.7 کروڑ سے زیادہ کسان اور 2.3 لاکھ سے زیادہ کاروباری افراد ای-نیم پورٹل پر رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔ یہ اسکیم ایک آن لائن شفاف، مسابقتی بولی لگانے کا نظام بنانے کے لئے شروع کی گئی تھی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کسانوں کو ان کی پیداوار کے لئے منافع بخش قیمتیں حاصل ہوں۔ ای۔ نیم  اسکیم کے تحت حکومت متعلقہ ہارڈ ویئر کے لئے مفت سافٹ ویئر اور 75 لاکھ  روپےفی اے پی ایم سی منڈی کی مدد فراہم کرتی ہے، جس میں معیار کی جانچ کے آلات اور سامان اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر جیسے صفائی، درجہ بندی، چھانٹنا، پیکیجنگ، کمپوسٹ یونٹ وغیرہ شامل ہیں۔

اقتصادی جائزے میں کہا گیا ہے کہ زراعت کے شعبے کی کارکردگی ملک میں ترقی اور روزگار کے لئے نہایت اہم ہے۔زراعت کے شعبے میں قرض کی فراہمی کے لئے سستی، بروقت اور جامع طریقہ کار کے ذریعے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ باغبانی کے شعبے پر توجہ اور اس سے منسلک سرگرمیوں کی طرف توجہ نے کسانوں کی آمدنی کو متنوع بنا دیا ہے، جس سے وہ موسمی اثرات سے زیادہ محفوظ رہے ہیں۔  یہ تمام اقدامات اس شعبے کی پائیدار اور جامع ترقی کا باعث ہیں۔

***

ش ح۔  م ع۔ ک ا



(Release ID: 1895018) Visitor Counter : 166