امور صارفین، خوراک اور عوامی تقسیم کی وزارت

شوگر سیزن 2022-2021 میں 5000 لاکھ میٹرک ٹن (ایل ایم ٹی) سے زیادہ گنے کی پیداوار


چینی کا شعبہ اب بغیر سبسڈی کے خود کفیل ہے

ایتھنول کی فروخت سے شوگر ملوں / ڈسٹلریز کے ذریعہ2022-2021کے دوران،  20,000 کروڑروپے سے زیادہ کی آمدنی ہوئی

Posted On: 19 JAN 2023 5:36PM by PIB Delhi

سال 2022-2021 ہندوستانی  چینی کے شعبے کے لیے انتہائی اہم تبدیلیوں کا حامل  سیزن ثابت ہوا ہے۔ سیزن کے دوران گنے کی پیداوار، چینی کی پیداوار، چینی کی برآمدات، گنے کی خریداری، گنے کے واجبات کی ادائیگی اور ایتھنول کی پیداوار کے حوالے سے  تمام نئے ریکارڈ قائم کئے گئے۔ سیزن کے دوران ملک میں ریکارڈ 5000 لاکھ میٹرک ٹن(ایل ایم ٹی) گنے کی پیداوار ہوئی جس میں سے تقریباً 3574  ایل ایم ٹی  گنے کو شوگر ملوں نے پلائی کر کے تقریباً 394 لاکھ میٹرک ٹن چینی ( عام شکر) پیدا کی، جس میں سے 36 لاکھ میٹرک ٹن  چینی کو ایتھنول کی پیداوار کی طرف موڑ دیا گیا اور شوگر ملوں نے 359 ایل ایم ٹی چینی پیدا کی۔

شوگر سیزن (اکتوبر-ستمبر) 2022-2021  میں ہندوستان دنیا کے سب سے بڑے پروڈیوسر اور چینی کے صارف کے ساتھ ساتھ برازیل کے بعد چینی کا دوسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ بن کر اُبھرا ہے۔

چینی کے ہر سیزن میں، چینی کی پیداوار تقریباً 320-360 لاکھ میٹرک ٹن(ایل ایم ٹی) ہوتی ہے جب کہ مقامی کھپت 260-280 ایل ایم ٹی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ملوں کے پاس چینی کا بڑا ذخیرہ ہوتا ہے۔ ملک میں چینی کی زیادہ دستیابی کی وجہ سے چینی کی کارخانے سے باہر والی قیمتیں نیچے رہتی ہیں جس کے نتیجے میں شوگر ملوں کو نقدی کا نقصان ہوتا ہے۔ تقریباً 60-80  ایل ایم ٹی  کا یہ اضافی ذخیرہ بھی فنڈز میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے اور شوگر ملوں کی نقدی کی صورتحال  کو متاثر کرتا ہے جس کے نتیجے میں گنے کی قیمت کے بقایا جات جمع ہوتے ہیں۔

1.jpg

چینی کی کم قیمتوں کی وجہ سے شوگر ملوں کو ہونے والے نقد نقصان کو روکنے کے مقصد سے، حکومت ہند نے جون، 2018 میں چینی کی کم از کم امدادی  قیمت (ایم ایس پی) اور چینی کی مقررہ  ایم ایس پی 29روپے/کلوگرام کا تصور متعارف کرایا۔ جس پر نظر ثانی کر کے 14.02.2019 سے 31 روپے/ کلوگرام کر دیا گیا تھا۔

پچھلے 5 سالوں سے مرکزی حکومت کی بروقت مداخلت چینی کے شعبے کو 2019-2018 میں مالی پریشانی سے نکال کر 2022-2021 میں خود کفالت کے مرحلے تک مرحلہ وار تعمیر کرنے میں اہم رہی ہے۔ یہ ایک قابل ذکر کامیابی ہے کہ ایس ایس 2022-2021 کے دوران، شوگر ملوں نے  1.18 لاکھ کروڑ  روپےسے زیادہ کا گنا خریدا اور حکومت ہند کی طرف سے مالی امداد (سبسڈی) کے بغیر سیزن کے لیے 1.15 لاکھ کروڑ  روپےسے زیادہ کی ادائیگی جاری کی۔ اس طرح، شوگر سیزن 2022-2021 کے گنے کے واجبات  2,300 کروڑ روپے سے کم ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ گنے کے 98فیصد واجبات کو پہلے ہی کلیئر کر دیا گیا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایس ایس 2022-2021 کے لیے، تقریباً 99.98فیصد گنے کے واجبات کا نمٹارا کر دیا گیا ہے۔

چینی کے شعبے کو ایک خود کفیل ادارے کے طور پر ترقی کرنے کے قابل بنانے کے ایک طویل مدتی اقدام کے طور پر، مرکزی حکومت شوگر ملوں کو چینی کو ایتھنول کی طرف موڑنے اور اضافی چینی برآمد کرنے کی ترغیب دے رہی ہے تاکہ شوگر ملیں کسانوں کو گنے کے واجبات کی بروقت ادائیگی کر سکیں۔ اور ملوں کے اپنے کام جاری رکھنے کے لیے مالی حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ دونوں اقدامات میں کامیابی کے ساتھ، شوگر سیزن 2022-2021 کے بعد سے سیکٹر کے لیے کسی قسم کی  سبسڈی کے بغیر چینی کا شعبہ اب خود کفیل ہے۔

2.jpg

گزشتہ 5 سالوں میں بائیو فیول سیکٹر کے طور پر ایتھنول کی نمو نے شوگر سیکٹر کو کافی مدد فراہم کی ہے کیونکہ چینی کو ایتھنول کی طرف موڑنے سے شوگر ملوں کی مالی پوزیشن بہتر ہوئی ہے جس کی وجہ تیزی سے ادائیگیوں، ورکنگ کیپیٹل کی ضروریات میں کمی اور  ملوں کے پاس  چینی کے اضافی ذخیرے میں کمی  ہے۔ 2022-2021 کے دوران، ایتھنول کی فروخت سے شوگر ملوں/ڈسٹلریز نے  20,000 کروڑ  روپےسے زیادہ کی آمدنی حاصل کی ہے جس نے کسانوں کے گنے کے واجبات کی جلد ادائیگی میں بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔

گڑ/چینی پر مبنی ڈسٹلریز کی ایتھنول کی پیداواری صلاحیت بڑھ کر 683 کروڑ لیٹر سالانہ ہو گئی ہے اور پیٹرول میں ایتھنول کی ملاوٹ (ایف بی پی) پروگرام کے تحت  2025  تک 20 فیصد ملاوٹ کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے پیش رفت جاری ہے۔ نئے سیزن میں، چینی کی ایتھنول کی طرف منتقلی  36 ایل ایم ٹی سے بڑھ کر 50  ایل ایم ٹی  تک متوقع ہے جس سے شوگر ملوں کو تقریباً 25,000 کروڑ روپے کی آمدنی ہوگی۔ ایتھنول کی ملاوٹ  کے پروگرام نے زرمبادلہ کی بچت کے ساتھ ساتھ ملک کی توانائی کی حفاظت کو بھی مضبوط کیا ہے۔ 2025 تک، 60 ایل ایم ٹی سے زائد اضافی چینی کو ایتھنول  میں منتقل کرنے کا ہدف ہے، جس سے چینی کی زیادہ ذخیرہ کاری  کا مسئلہ حل ہو جائے گا، اس کی نقدی کی صورت حال  میں بہتری آئے گی۔ اس طرح ملیں کسانوں کے گنے کے واجبات کی بروقت ادائیگی میں مدد کریں گی اور دیہی علاقوں میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گی۔

ملاوٹ کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے، حکومت شوگر ملوں اور ڈسٹلریز کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے کہ وہ اپنی ڈسٹلیشن کی صلاحیتوں میں اضافہ کریں جس کے لیے حکومت انہیں بینکوں سے قرضے حاصل کرنے میں سہولت فراہم کر رہی ہے  اور اس کام کے لیے بینکوں کی جانب سے وصول کیے جانے والے سود پر 6فیصد یا 50فیصد جو بھی کم ہو، حکومت کی طرف سے سود میں رعایت دی جا رہی ہے۔ اس سے تقریباً  41,000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری ہوگی۔ڈی ایف پی ڈی نے 22.04.2022 سے 12 مہینوں کے لیے ایک ونڈو بھی کھولی ہے تاکہ پروجیکٹ کے حامیوں سے بیجوں کے ذخیرے جیسے اناج (چاول، گندم، جو، مکئی اور جوار، گنے (بشمول چینی، چینی کا شربت، گنے کا رس، بی درجہ کی  سختی والا گڑ، سی درجہ کی سختی والا گڑ)، چقندر وغیرہ سےان کی موجودہ ایتھنول ڈسٹلیشن کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے درخواستیں طلب کی جائیں۔ پچھلے 4 سالوں میں، 233 پراجیکٹ کے حامیوں کو تقریباً 19,495 کروڑ روپے کے قرضے منظور کیے گئے ہیں۔ جن میں سے 203 پراجیکٹ کے حامیوں کو تقریباً 9970 کروڑ روپے کے قرض فراہم کیے جا چکے ہیں۔

سیزن کی ایک اور قابل ذکر بات تقریباً 110 ایل ایم ٹی کی سب سے زیادہ برآمدات ہیں، وہ بھی  بغیر کسی مالی امداد کے، جسے 2021-2020 تک بڑھایا جا رہا تھا۔  معاون بین الاقوامی قیمتیں اور ہندوستانی حکومت کی پالیسی ہندوستانی شوگر انڈسٹری کے اس کارنامے کا باعث بنی۔ ان برآمدات سے ملک کے لیے تقریباً40,000 کروڑ روپے کی غیر ملکی کرنسی کمائی گئی۔ موجودہ شوگر سیزن 2023-2022 میں، تمام شوگر ملوں کو تقریباً 60 ایل ایم ٹی برآمدی کوٹہ مختص کیا گیا ہے، جس میں سے 18.01.2023 تکتقریباً 30  ایل ایم ٹی برآمد کے لیے شوگر ملوں سے حاصل کر لیا گیا ہے۔

بالآخر، 2022-2021 شوگر سیز ن کے اختتام پر، 60 ایل ایم ٹی کا بہترین اختتامی توازن حاصل کیا گیا جو کہ 2.5 ماہ کی گھریلو ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے۔ چینی کو ایتھنول اور برآمدات کی طرف  منتقل کرنا   پوری صنعت کی ویلیو چین کو کھولنے کے ساتھ ساتھ شوگر ملوں کی بہتر مالی حالت کا باعث بنا  جس کے نتیجے میں آنے والے سیزن میں مزید اختیاری ملیں  وجو د میں آئیں۔

ایک اور خاص بات چینی کی ملکی قیمتوں میں استحکام ہے۔ چینی کی ریکارڈ بلند بین الاقوامی قیمتوں کے باوجود، چینی کی گھریلو کارخانے سے باہر والی  قیمتیں مستحکم ہیں اور  32 -35 روپے/ کلو گرام کی حد میں ہیں۔ ملک میں چینی کی اوسط خوردہ قیمت تقریباً 41.50روپے/ کلو گرام ہے اور آنے والے مہینوں میں 37-43روپے/ کلو گرام کی حد میں رہنے کا امکان ہے جو کہ پریشانی کا باعث نہیں ہے۔ یہ حکومتی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ ملک میں چینی ‘کڑوی’  نہیں ہے بلکہ میٹھی ہے۔

*************

 

ش ح ۔س ب ۔ رض

U. No.665

 



(Release ID: 1892390) Visitor Counter : 123


Read this release in: Telugu , English , Hindi , Marathi