محنت اور روزگار کی وزارت
ملبوسات فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور
Posted On:
19 DEC 2022 1:23PM by PIB Delhi
محنت اور روزگار کے وزیر مملکت جناب رامیشور تیلی نے آج لوک سبھا میں ایک تحریری جواب میں بتایا کہ روزگار اور بے روزگاری سے متعلق اعداد و شمار 18-2017 سے اعداد و شمار اور پروگرام کے نفاذ کی وزارت کے ذریعہ کئے گئے متواتر افرادی قوت جائزے (پی ایل ایف ایس) کے ذریعے جمع کیے گئے ہیں۔ ان جائزوں کی مدت اگلے سال جولائی سے جون تک ہے۔ تازہ ترین دستیاب سالانہ پی ایل ایف ایس رپورٹس کے مطابق، 15 سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد کے لیے معمول کی حیثیت پر متوقع ورکر پاپولیشن ریشو (ڈبلیو پی آر 21 - 2020) کے دوران بڑھ کر 52.6 فیصد ہو گیا ہے جو20 - 2019 میں 50.9 فیصد تھا۔ معمول کے مطابق ملبوسات پہننے والے کپڑوں کی صنعت میں کام کرنےوالے افراد کا 20-2019 اور21-2020 کے دوران فیصد حسب ذیل رہا :
صنعت میں عام طور پر کام کرنے والے افراد کی فیصد تقسیم - پہننے والے ملبوسات کی تیاری (فیصد میں)۔
سال
|
مرد
|
خواتین
|
کل میزان
|
2019-20
|
1.44
|
3.72
|
2.08
|
2020-21
|
1.44
|
4.00
|
2.20
|
ذرائع: ایم او ایس پی آئی، پی ایل ایف ایس
مندرجہ بالا اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملبوسات کی مینوفیکچرنگ صنعت میں 20- 2019 کے مقابلے میں 21 - 2020 کے دوران روزگار میں اضافہ ہوا ہے۔
بھارتی حکومت نے فیکٹریوں سے متعلق قانون ، 1948 نافذ کیا ہے جو مذکورہ ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین کارکنوں سمیت کارکنوں کو پیشہ ورانہ تحفظ ، صحت اور بہبود فراہم کرتا ہے۔ ملبوسات سے متعلق فیکٹریوں سمیت کام کی جگہوں پر مزدوروں کے پیشہ ورانہ تحفظ کے لیے مخصوص دفعات تجویز کی گئی ہیں۔ فیکٹریز ایکٹ، 1948 اور اس کے تحت بنائے گئے قواعد متعلقہ ریاستی حکومتوں کے ذریعے چیف انسپکٹر آف فیکٹریز/ڈائریکٹوریٹ آف انڈسٹریل سیفٹی اینڈ ہیلتھ کے ذریعے نافذ کیے جاتے ہیں۔ ہالانکہ خواتین کارکنوں کے کام کی جگہ سے متعلق شکایات کے اعداد و شمار اِس وزارت کے ذریعہ بنیادی طور پر برقرار نہیں رکھ ےجاتے ہیں۔
حکومت نے کام کی جگہ پر خواتین کی جنسی ہراسانی (روک تھام، ممانعت اور ازالہ) ایکٹ، 2013 (ایس ایچ ایکٹ) بھی نافذ کیا ہے جس کا مقصد خواتین کو ان کی کام کی حیثیت سے قطع نظر کام کا محفوظ اور سازگار ماحول فراہم کرنا ہے۔ مذکورہ ایکٹ ہر آجر/تنظیموں پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ خواہ وہ نجی یا سرکاری شعبے میں 10 یا اس سے زیادہ افراد کو ملازمت دے رہے ہوں، جنسی ہراسانی کی شکایات موصول ہونے کے لیے اندرونی کمیٹی (آئی سی) تشکیل دیں۔ اسی طرح، ریاستی حکومت کو ہر ضلع میں مقامی کمیٹی (ایل سی) تشکیل دینے کا اختیار ہے جو 10 سے کم کارکنان رکھنے والی تنظیموں کی ان شکایات کو وصول کرے گی جو شکایات خود آجروں کے خلاف ہیں۔
حکومت نے کووڈ - 19 عالمی وباکے دوران اس سلسلے میں متعدد اقدامات کیے ہیں۔ حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ اس کے ادارے جیسے کہ ون اسٹاپ سینٹرز (اوایس سیز) ، یونیورسلائزیشن آف ویمن ہیلپ لائن (ڈبلیو ایچ ایل) ، اجولا ہومز، سوادھار گرہ، چائلڈ کیئر انسٹی ٹیوشنز، چائلڈ لائن (1098)، ایمرجنسی رسپانس سپورٹ سسٹم (112) کام کرتے رہیں۔ اور مدت کے دوران خواتین کو مدد فراہم کرنے کے لیے دستیاب رہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران، قومی کمیشن برائے خواتین (این سی ڈبلیو) نے بھی پریشانی کا سامنا کرنے والی خواتین کی مدد کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ش ح۔ ش ر۔ت ح۔
U- 14025
(Release ID: 1884767)