سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت

ریسرچ ایجنڈا، سماجی ضروریات اور اوپن سائنس کے موضوع  پر بین الاقوامی ورکشاپ


سی ایس آئی آر-این آئی ایس سی پی آر ہندوستان کی سب سے بڑی سرکاری تنظیم ہے جو سائنس و ٹکنالوجی میں 15 سے زیادہ جرائد  اوپن ایکسیس موڈ کے تحت شائع کرتی ہے: پروفیسر رنجنا اگروال

Posted On: 10 DEC 2022 6:10PM by PIB Delhi

سی ایس آئی آر-این آئی ایس سی پی آر (نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کمیونکشن اینڈ پالیسی ریسرچ) ٹیکنالوجی کے ذریعے دیہی علاقوں میں روزگار  پیدا کرنے اور ہنر مندی کی ترقی کو فروغ دینے میں مصروف عمل ہے۔ لیب کے مختلف آر اینڈ ڈی ڈویژن کے ذریعہ جدیدترین شعبوں پر کام کیا جا رہا ہے۔ سائینٹومیٹرک انسٹی ٹیوٹ کے مضبوط ترین شعبوں میں سے ایک رہا ہے اورسی ایس آئی آر-این آئی ایس سی پی آر(جوکہ  ایک لیبارٹری تھی اورسی ایس آئی آر-این آئی ایس سی پی آر کے ساتھ مل کر این آئی ایس سی پی آر بن گئی) نے اس شعبہ کو ہندوستان میں  پالیسی سازی کے لیے  تحقیق اورمعلومات کے مرکزی شعبہ کے طور پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ الفاظ تھے سی ایس آئی آر-این آئی ایس سی پی آر کی ڈائریکٹر پروفیسر رنجنا اگروال کے جو کے زیر اہتمام ’ریسرچ ایجنڈا، سماجی ضروریات اور اوپن سائنس‘ کے موضوع پر ایک بین الاقوامی ورکشاپ میں خطبہ استقبالیہ پیش کر رہی تھیں۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image001AYZ6.jpg

سی ایس آئی آر-این آئی ایس سی پی آر کی ڈائریکٹر پروفیسر رنجنا اگروال ورکشاپ سے خطاب کر رہی ہیں

پروفیسر اگروال نے اس بات پر روشنی ڈالی کی سی ایس آئی آر-این آئی ایس سی پی آر ملک کا سب سے بڑا سرکاری ادارہ ہے جو مختلف تحقیقی شعبوں میں 15 سے زیادہ جرائد کوعام  رسائی کے انداز میں شائع کرتا ہے کیونکہ اس میں سائنس اور معاشرے کے درمیان خلیج ختم کرنے کے لیے مشہور سائنس میگزین کے ساتھ اشاعت کے لیے کوئی اے پی سی یعنی آرٹیکل پروسیسنگ چارج کی شرط نہیں ہے۔سی ایس آئی آر-این آئی ایس سی پی آر کی نیشنل اوپن پیریوڈیکل ریپوزیٹری (این او پی آر)  ایک آن لائن ریپوزیٹری ہے جو کہ دنیا کے کسی بھی گوشے  سے شائع ہونے والےقدیم  مضامین تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ ۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے اپنے خطاب کا اختتام کیا کہ سی ایس آئی آر-این آئی ایس سی پی آر ’’ایک  کرۂ ارض، ایک خاندان، اور ایک مستقبل‘‘ کے مقصد کے تحت مسائل کو حل کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔

عالمی چیلنجوں نے سائنسی تحقیق پر زور دیا ہے کہ وہ سماجی مسائل پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کے لیے اپنے ایجنڈے کو تیزی سے نئی شکل دیں۔ مختلف ممالک کی ایس ٹی آئی (سائنس، ٹکنالوجی ، اختراعات)  پالیسی سازی اور مالی امداد فراہم کرنے والے اداروں میں اس کی تشکیل نو کو نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ذمہ دار تحقیق اور اختراع،اوپن  سائنس،اوپن انوویشن نئے دور کی چند اہم اصطلاحات ہیں جو مختلف ممالک کی پالیسی بیانات میں جگہ پاتی ہیں۔ اختراعاتی نظام غیر رسمی،  زمینی اور کفایتی اختراعات پر بھی سنجیدگی سے توجہ دے رہا ہے کیونکہ وہ سماجی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مداخلت کرتے ہیں۔ اس ماحول میں مختلف شراکت داروں کے مابین کثیر موضوعاتی تعاملات اہم ہو گئے ہیں۔ پالیسی تعاملات کو ایجنڈے کی نئی شکل دینے اور عمل درآمد کے راستےتیار کرنے کے لیے مزید ثبوت کی ضرورت ہے۔ اس تناظر میں، سی ایس آئی آر-این آئی ایس سی پی آر میں 8 دسمبر 2022 کو ریسرچ ایجنڈا، سماجی ضروریات اور اوپن سائنس کے موضوع  پر ایک بین الاقوامی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس سے ہندوستان اور بیرون ملک کے نامور دانشوروں اور پالیسی سازوں نے خطاب کیا۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image002DBWP.jpg

نیدرلینڈ کی لیڈن یونیورسٹی میں  یونیسکو چیئر  کے ڈاکٹر اسماعیل رافولس کلیدی خطبہ دیتے ہوئے

ڈیپارٹمنٹ آف بایو ٹکنالوجی میں سینئر مشیر ڈاکٹر سنجے کمار مشرانے ورکشاپ کے موضوع کے بارے میں اپنا افتتاحی بیان  دیتے ہوئے کہا کہ اس ورکشاپ کے موضوع میں علم کے تین سمندروں یعنی ببلیو میٹرکس، سائینٹومیٹرکس اور انفو میٹرکس کو یکجا کردیا گیا ہے۔ ڈاکٹر مشرا نے سائنسی تحقیق سے بنی نوع انسان کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کے لیے تحقیق اور تحقیق کے ایجنڈے میں معاشرے ، ممالک اور عالمی سطح پر سماجی ضروریات کو مدنظر رکھنے پر زور دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سائنس ایڈوائزری کا کردار اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ تحقیقی ماحصل کا ہے۔ ایسا دیکھا گیا ہے کہ سائنسی تحقیق عام طور پر شہری اورخوشحال لوگوں کی حامی ہوتی ہے، اس لیے معاشرے پر نئے انداز سے توجہ مرکوز کرنے  نیز سائنس اور معاشرے کے مابین  ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ سائنسی برادریوں کی جانب سے معاشرے کے لیے تحقیق میں پائے جانے والے خلاء کو سمجھنے کے لیے ببلیو میٹرکس اور سائینٹومیٹرکس ٹول کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image003S6LB.jpg

دوسرے سیشن کے مقررین نے’کفایتی اختراعات اور کھلا پن‘ کے موضوع پر توجہ مرکوز کی

سی ایس آئی آر-این آئی ایس سی پی آرچیف سائنٹسٹ اور پالیسی ریسرچ کے ڈین اور اس ورکشاپ کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر سجیت بھٹاچاریہ ایس  ٹی ایس (سائنس، ٹیکنالوجی اور سوسائٹی)، انوویشن اسٹڈیز اور سائنٹومیٹرکس ریسرچ کا ایک مختصر جائزہ پیش کرتے ہوئےنے اپنی بات کا آغاز کیا اور تحقیق کے ان شعبوں کے درمیان مضبوط روابط پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عصری عالمی چیلنجوں نے سائنس و ٹیکنالوجی اور اختراعی ایجنڈا کو سماجی ضروریات اور صارف پر مبنی نقطہ نظر سے تشکیل دینے پر زور دیا۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0049J4Y.jpg

سائنسدان، عملے کے ارکان اور ورکشاپ کے سامعین

نیدرلینڈ کی لیڈن یونیورسٹی میں یونیسکو چیئر، ڈائیورسٹی اینڈ انکلوژن ان گلوبل سائنس سینٹر فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسٹریٹیجیز (سی ڈبلیو ٹی سی)کے ڈاکٹر اسماعیل رافولس نے کلیدی  خطبہ پیش کیا۔ ڈاکٹر رافولس نے پوری انسانیت کے فائدے کے لیے تحقیقی ایجنڈے کے لیے متنوع اور جامع امورکے بارے میں  یونیسکو کی سفارش کا اعادہ کیا۔ انہوں نے اس عام تصور کو پیش کیا کہ تحقیقی ایجنڈا اشرافیہ اور امیروں کا حامی ہے اگرچہ یہ تصور عالمگیر نہیں ہے تاہم بہت حد تک درست ہے۔ انہوں نے مارکیٹ کے تقاضوں سے کار فرما اور چند تنگ تعلیمی اہداف نیز سماجی گروپوں کی ذریعہ حوصلہ پاکر عالمی شمال میں تحقیق کے ارتکاز کو بیان کرتے ہوئے اپنی دلیل کا جوازپیش کیا۔ ڈاکٹر رافولس نے  کہا کہ تحقیقی ایجنڈا اعلی اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں ایس ڈی جی کے اہداف کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہیں۔ شواہدایس ڈی جی کے ساتھ تحقیق کے کم سے کم ترقی پذیر ممالک میں بہتر صف بندی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انہوں نے سائنس تک مزید کھلی رسائی اور زیادہ کھلے انفراسٹرکچر کی ضرورت پر زور دیا تاکہ بنی نوع انسان کو زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو سکے۔ انہوں نے غلط فہمی کو کم کرنے کے لیے سائنس میں شہریوں کی شمولیت کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے  اپنی بات ختم کی۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی کے  مرکز برائےمطالعہ سائنس پالیسی میں ایسوسی ایٹ پروفیسراور فروگلیٹی اسٹڈیز پر ٹرانس ڈسپلنری ریسرچ سینٹر کے کوآرڈینیٹر (لیڈن یونیورسٹی کے ساتھ جے این یو کا مشترکہ اقدام) پروفیسر سرادندو بھدوری نے تحقیق کا ایجنڈا ، اختراع، ضابطہ، اور صارف پر مبنی تحقیق ایک دوسرے سےکیسے متصادم ہےکے موضوع پر اپنی پریزنٹیشن دی ۔ انہوں نے پالیسی سازوں اور شراکت داروں کے مابین کچھ دلچسپ مصروفیات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ معیاری سرٹفیکیٹ فراہم نہ کرنے والی ایجنسیوں کی وجہ سے اسٹوو (چولہا) جیسے مفید اور وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والے آلات کس طرح متاثر ہوتے ہیں۔

وارانسی کے بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو) میں  کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر اور سربراہ ڈاکٹر وویک کمار سنگھ نے کھلی رسائی اور اس کی مختلف شکلوں جیسے گولڈ، پلاٹینم اور ڈائمنڈ کی کھلی رسائی کا ایک جائزہ فراہم کیا۔ انہوں نے ہندوستان میں دستیاب اوپن آرکائیو جیسے کہ انڈیا آر ایکس آئی وی، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کے ذریعہ ای  پرنٹس، آئی سی اے آر کے ذریعہ  کرشی کوش وغیرہ پر روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر سنگھ نے تحقیق کو معاشرے کے لیے قابل رسائی بنانے کی ضرورت پر زور دیا کیونکہ ہندوستان میں علم کی رسائی میں ایک خلا ہے اور ہمیں اس سے نمٹنے کے لیے موثر پالیسی پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔

امریکہ کی پرڈیو یونیورسٹی میں پروفیسر ڈاکٹر کویتا شاہ نے اس بدلتے ہوئے ماحول کا ایک مختصرجائزہ  پیش کیا ، جس کا وہ ہندوستان میں مشاہدہ کر رہی ہیں۔ بنیادی ڈھانچہ، تحقیق کے لیے تعاون اور بہت سے ایسے  ادارے اب ہندوستان میں ہیں جو اعلیٰ تحقیق کے لیے ایک مثبت تبدیلی لا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ موقع طلباء اور محققین سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنی تحقیق کو معاشرے کو درپیش چیلنجوں کے لیے مزید مربوط بنائیں۔

سی ایس آئی آر-این آئی ایس سی پی آرمیں پرنسپل سائنٹسٹ ڈاکٹر مدھولیکا بھاٹی اور بی ایچ یو کے ڈیپارٹمنٹ آف کمپیوٹر سائنس میں پالیس فیلو ڈاکٹر انوراگ قنوجیا نے اس ورکشاپ سے اہم  باتیں سیکھنے پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے اہم دلیل اور کلیدی مسائل پر زور دیا جو مختلف پیشکش کو آپس میں جوڑتے ہیں۔

سی ایس آئی آر-این آئی ایس سی پی آرمیں سائنٹسٹ ڈاکٹر شیو نارائن نشادنے سی ایس آئی آر-این آئی ایس سی پی آر کے سوشل نیٹ ورک کے تجزیہ پر جاری پروجیکٹ کا ایک وسیع جائزہ پیش کیا۔ ڈاکٹر سجیت بھٹاچاریہ کی قیادت میں یہ مطالعہ اور ٹیم جس میں وہ شریک پرنسپل تفتیش کار ہیں اس بات کی تفتیش کر رہے ہیں کہ سوشل نیٹ ورک کے تجزیہ کو مطالعہ کے مختلف شعبوں میں اس کے اطلاق کے لیے وسائل کے مواد کے طور پر کیسے تیار کیا جا سکتا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد تربیت فراہم کرنا اور کھلی رسائی میں تیار کردہ وسائل فراہم کرنا ہے۔

انٹرایکٹو سیشن میں بہت سے سوالات اور تبصرے پیش کیے گئے جن سے ورکشاپ کو مزید تقویت ملا۔ حاضرین میں شامل نوجوان محققین کی ایک بڑی تعداد نے اپنی تحقیق سے متعلق بہت سے اہم مسائل کو اٹھایا اور اس ورکشاپ نے انہیں کھلی رسائی کے بارے میں سوچنے، اپنی تحقیق کو صحیح سمت میں ترتیب دینے وغیرہ کے لیے کس طرح فائدہ پہنچایا، اس پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ ورکشاپ کے اختتام پر، سی ایس آئی آر-این آئی ایس سی پی آرمیں سائنٹسٹ ڈاکٹر۔ سندھیا لکشمنن نے شکریہ کا ووٹ پیش کیا۔ سی ایس آئی آر-این آئی ایس سی پی آرمیں پرنسپل سائنٹسٹ ڈاکٹر کستوری منڈل، نے اس پورے پروگرام کے نظامت کی ذمہ داری انجام دی  اور نوجوان محققین نے نمائندے کے طور پر کام کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

(ش ح ۔ رض  ۔ ج ا  (

13625



(Release ID: 1882420) Visitor Counter : 209


Read this release in: English , Hindi , Tamil , Telugu