وزارت اطلاعات ونشریات
منمن ڈھلیریا کے ذریعہ قلم بند کی گئی فلم’چھو میڈ نا یول میڈ‘(پانی نہیں، گاؤں نہیں) میں ہمالیہ کی بلند ترین گاؤں پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کادستاویز پیش کیا گیا ہے
’چھو میڈ نا یول میڈ‘ جو کہ ’وائسز فرام دی روف آف دی ورلڈ‘ کے نام سے دس حصوں کی سیریز کا انڈیا ایپی سوڈ ہے، اس کا ہندوستانی پریمیئر ہندوستان کے 53ویں بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں انڈین پنورما غیر فیچر فلم کے زمرے کے تحت ہوا۔ آج گوا میں آئی ایف ایف آئی 53میں پی آئی بی کے زیر اہتمام میڈیا اور فیسٹیول کے مندوبین کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے، ڈائریکٹر منمن ڈھلیریا نے فلم کے پیچھے اپنے وژن اور مشن کی وضاحت کی اور بتایا کہ کس طرح موسمیاتی تبدیلی ایک ایسا مسئلہ ہے جو پوری دنیا میں ہر کسی کو متاثر کرتا ہے۔
اس فلم کےعنوان کا لداخی زبان میں مطلب ہے ’’پانی نہیں ، گاؤں نہیں ‘‘ہے۔ فلم کے ذریعہ، ہدایت کار نے ہماچل پردیش کے اسپتی کے زرعی دیہات اور لداخ میں زنسکار کو درپیش پانی کے چیلنجوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔
اپنی ترغیب پر روشنی ڈالتے ہوئے، ڈائریکٹر منمن ڈھلیریا نے بتایا کہ وہ وائلڈ لائف فلم بنانے والی ہیں اور ہمالیہ کے بالائی علاقوں میں رہنے والے لوگوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں خود ہماچل پردیش سے آتی ہوں اور پچھلے 7 سالوں سے میں ا سپتی وادی میں آمد و رفت کرتی رہی ہوں اور یہ خیال منفی 20 ڈگری میں رہنے والی خواتین کی زندگیوں کے عجیب و غریب حالات دیکھ کر شروع ہوا۔ انہوں نے کہا ’’جیسے ہی میں نے اسپتی جانا اور کمیونٹی کے ساتھ رہنا شروع کیا، مجھے احساس ہوا کہ موسمیاتی تبدیلی ہی اس کی اصل وجہ ہے۔‘‘ انہوں نے کہا وہ مسلسل بے ترتیب برف باری اور پگھلنے والے گلیشیئر اور یہ ہندوستان میں پہاڑوں پر بلند ترین واقع گاؤں کی کاشتکار برادریوں کو کیسے متاثر کرتے ہیں، اس موضوع پر توجہ مرکوز کر رہی ہے ۔
اس سلسلے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے، ہدایت کار نے بتایا کہ ’’مجھ سے اینڈریو کے ذریعہ رابطہ کیا گیا تھا جو یورپ میں رہتے ہیں اور اس سیریز کے ایگزیکٹو پروڈیوسر ہیں۔ اسے 'وائسز فرام دی روف آف دی ورلڈ' کہا جاتا ہے اور یہ 10 حصوں کی سیریز ہے، جس میں یہ سیریز کا انڈیا ایپی سوڈ ہے۔ اس کے پروڈیوسر یہاں نہیں آ سکے کیونکہ وہ دوسری سیریز کی تیاری میں مصروف عمل ہیں۔ ہم دوسرے ممالک میں قومی نشریات کر رہے ہیں کیونکہ موسمیاتی تبدیلی قومی سرحدوں سے ماورا مسئلہ ہے۔ ہم روس، کرغزستان، پاکستان میں فلمیں دکھا رہے ہیں اور میں واقعی میں چاہوں گی کہ اس فلم کو ہندوستانی شائقین خاص طور پر ہماچل، اتراکھنڈ اور دہلی سے آگے پہاڑوں کے تمام بالائی علاقوں میں دکھایا جائے جو موسمیاتی تبدیلی کے مسائل سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔
آگے بڑھنے کے اپنے منصوبے کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ہدایت کار نے کہا کہ "ہم سیزن 3 کو بھی مکمل طور پر ہندوستان میں ہی پروڈیوس کرنا چاہیں گے کیونکہ ہمارے پاس بہت ساری کہانیاں اور بہت سے دوسرے کہانی سنانے والے ہیں"۔ منمن ڈھلیریا ایک ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلم ساز ہیں جو جنگلی حیات کے تحفظ، صنفی اور انسانی حقوق پر دستاویزی فلمیں بنانے کے لیے مشہور ہیں۔ ان کی فلمیں نیشنل جیوگرافک، ہاٹ اسٹار اور وائس ورلڈ نیوز پر دکھائی جا چکی ہیں۔
یہ فلم اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ کس طرح وسطی ایشیا میں پامیر سے لے کر جنوبی ایشیا کے قراقرم اور ہمالیہ تک جسے دنیا کی چھت کہا جاتا ہے - جس میں قطبین کے علاوہ کرہ ارض پر برف کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے - موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مسلسل بڑھتی ہوئی شرح سے پگھل رہا ہے۔ ہدایت کار نے فلم کے ذریعہ یہ دکھانا چاہتی ہے کہ کس طرح ان اونچائی والے علاقوں میں قدرتی آفات نے لاکھوں زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ انسانیت کا ایک بڑا طبقہ ان پہاڑوں اور یہاں سے نکلنے والے ایشیا کے چند طاقتور ترین دریاؤں پر منحصر ہے۔
سیزن 1 ایپی سوڈ لنک:https://www.aku.edu/vrw/Pages/season-one.aspx
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ش ح ۔ رض ۔ ج ا (
13011
(Release ID: 1879366)
Visitor Counter : 173