وزارت اطلاعات ونشریات
iffi banner

فاطمہ – انسانی اسمگلنگ پر ایک طاقتور دستاویزی فلم افی 53 میں دکھائی گئی


’’یہ صرف ایک فلم نہیں ہے، یہ میری لڑائی ہے، ایک ذاتی خواب ہے‘‘: فاطمہ خاتون

نئی دلی، 26 نومبر، 2022/ اسمگل کیے گئے جنسی کارکنوں کی بازیابی اور بحالی پر سوربھ کانتی دتا کی ایک دستاویزی فلم فاطمہ کو بھارت کے 53ویں بین الاقوامی فلم فیسٹیول (افی) کے میں دکھایا گیا۔ یہ فلم فاطمہ خاتون کی ہنگامہ خیز زندگی کی کہانی بیان کرتی ہے، جس کی 9 سال کی عمر میں ایک دلال سے شادی ہوئی، 12 سال کی عمر میں ایک ماں والی فاظمہ ، ناقابل تسخیر فاطمہ اب بھارت - نیپال کے سرحدی علاقہ فوربس گنج کے ریڈ لائٹ علاقے میں اسمگل کی جانے والی لڑکیوں کو آزاد کرانے کے لیے لڑ رہی ہے۔

’’افی ٹیبل ٹاکس‘‘ کے سیشن میں میڈیا کے نمائندوں اور مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے، ایک بظاہر جذباتی فاطمہ خاتون نے اپنے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے قریبی اور عزیزوں کی طرف سے چھوٹی عمر میں دھوکہ دہی کی داستان بیان کی۔ اس نے اپنی خانہ بدوش برادری میں لڑکیوں کی نسل پرستانہ جسم فروشی اور دلالوں کے خلاف لڑائی کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے اندرونی طاقت کو تلاش کرتے ہوئے اپنی کوششوں کا ذکر کیا، جسے پہلے 1871 کے کرمنل ٹرائب ایکٹ کے تحت مجرم قرار دیا گیا تھا۔

فاطمہ خاتون نے کہا، ’’میں بے بس ہونے، افسردہ ہونے اور محبت سے محروم ہونے کی وجہ سے خود کو روتا ہوا محسوس کرتی ہوں، لیکن مجھے اپنے آنسوؤں کو صرف ان لڑکیوں کے حوصلے کو برقرار رکھنے کے لیے روکنا پڑتا ہے جنہیں میں بچانے کی کوشش کر رہی ہوں‘‘۔ اس نے 2007 میں ریڈ لائٹ ایریا سے اپنے فرار ہونے کی تفصیلات بتائیں، اور اس کے بعد سے اسمگل کی جانے والی لڑکیوں کو بچانے کی اس کی مسلسل لڑائی جاری ہے۔

فاطمہ نے کہا، ’’میری جدوجہد نظام کے خلاف ہے اور دلالوں، خاندان کے افراد اور بدعنوان اہلکاروں کے گہرے گٹھ جوڑ کے خلاف ہے جو خطے میں اس روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ این جی اوز کی مدد سے ماؤں کی انتھک کنڈیشننگ انہیں ڈھال کے طور پر کام کرنے کے قابل بنانے میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے، اور اپنی بیٹیوں کو ایسے غیر انسانی جرم سے بچاتی ہے۔

فاطمہ خاتون نے مزید کہا ’’مجھے پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ خطرے کی گھنٹی بجانی پڑتی ہے، اور اکثر چھاپوں کے دوران پہلی ضرب مجھے لگتی ہے۔ پھر بھی میں مطمئن ہوں کہ جن لڑکیوں کو میں نے بچایا - کچھ ایچ آئی وی مریض، کینسر سے بچ جانے والی لڑکیاں- اب باعزت زندگی گزار رہی ہیں، اپنی پسند کے پیشوں میں کام کر رہی ہیں اور اپنے خاندانوں کی مدد کر رہی ہیں‘‘۔

ہدایت کار سوربھ کانتی دتا نے لاک ڈاؤن کے دوران ڈیڑھ سال ضائع ہونے اور اضافی اخراجات کی بات کی، لیکن انہیں خوشی ہے کہ ان کی فلم افی جیسے پلیٹ فارم پر جگہ بنا سکی۔

سوربھ نے کہا ’’میں نے کسی اداکار کی خدمات حاصل نہیں کیں کیونکہ پھر یہ سچے واقعات پر مبنی ڈرامہ بن جائے گا - نہ کہ کوئی دستاویزی فلم جسے میں بنانا چاہتا ہوں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدالتوں یا تھانوں کے برعکس، کیمرے کے سامنے تاثرات مختلف ہیں، اور فاطمہ نے اپنی کہانی کیمرے پر بیان کرنے کے لیے مثالی جرأت کا مظاہرہ کیا ہے۔ سوربھ نے مزید کہا، ’’میں فاطمہ کا شکر گزار ہوں کہ وہ اس دنیا کے لیے میرے لیے ایک نئی روشنی ہیں‘‘۔

ڈائریکٹر اداکار جوڑی نے اس موضوع پر آئیڈیاز اور رہنمائی کی غرض سے آنے کے لئے بہت سی این جی اوز اور میڈیا کا شکریہ ادا کیا۔ فاطمہ نے کہا، ’’میں بہت سی لڑکیوں کو اپنی زندگی کا انتخاب خود کرنے کے لیے بااختیار بنا کر اطمینان محسوس کرتی ہوں – اور میڈیا کا شکریہ ادا کرتی ہوں ‘‘۔

سوربھ دتہ نے یہ امید بھی ظاہر کی کہ قانونی اور سیاسی حلقوں میں اہم عہدوں پر فائز افراد ان کی فلم دیکھیں گے اور فاطمہ جیسی کارکنوں کی کوششوں کو تقویت دیں گے۔

 

دستاویزی فلم کا نام: فاطمہ

ڈائریکٹر: سوربھ کانتی دتا

دورانیہ: 59 منٹ

یہاں مکمل ٹیبل ٹاک دیکھیں:

**********                   

ش ح ۔ اس۔ ت ح ۔                                                

U 13016

iffi reel

(Release ID: 1879311) Visitor Counter : 303


Read this release in: English , Hindi , Tamil