وزیراعظم کا دفتر

نئی دہلی میں لچت بور فوکن کی 400ویں جینتی کے سال بھر چلنے والے پروگرام کی اختتامی تقریب میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 25 NOV 2022 6:38PM by PIB Delhi

موہان نایوک، لاسیٹ بوڈفوکونور جی، ساری کھو بوسوریا، جویونتی اوپولوکھیے، دیکھور راجدھانی لوئی اوہا، آرو ایات، ہوموبیتو ہوا، آپونالوک ہوکولوکے، مور آنتوریک آبھی بادون، آرو، ہیوا جونائیسو۔

آسام کے گورنر جناب جگدیش مکھی جی، مقبول وزیر اعلیٰ جناب ہیمنتا بسوا سرما جی، مرکز و کابینہ کے میرے ساتھی سربانند سونووال جی،  اسمبلی کے اسپیکر جناب بسوا جیت جی، ریٹائرڈ چیف جسٹس رنجن گوگوئی، تپن کمار گوگوئی جی، آسام سرکار کے وزیر پیجوش ہزاریکا جی، ممبران پارلیمنٹ، اور پروگرام میں شامل، اور ملک و بیرون ملک میں آسام کی ثقافت سے جڑی تمام شخصیات۔

سب سے پہلے میں آسام کی اس عظیم سرزمین کو پرنام کرتا ہوں، جس نے ماں بھارتی کو لچت بورفوکن جیسے بہادر سپوت دیے ہیں۔ کل پورے ملک میں ویر لچت بورفوکن کی 400ویں جنم جینتی منائی گئی۔ اس موقع پر دہلی میں 3 دنوں کے خصوصی پروگرام کا انعقاد کیا گیا ہے۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ اس پروگرام سے جڑنے کا مجھے موقع ملا۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس پروگرام میں شامل ہونے کے لیے بڑی تعداد میں آسام کے لوگ بھی ان دنوں دہلی آئے ہوئے ہیں۔ میں آپ سبھی کا، آسام کے لوگوں کو، اور 130 کروڑ ہم وطنوں کو اس موقع پر  ڈھیروں مبارکباد دیتا ہوں، نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

ساتھیوں،

ہمیں ویر لچت کی 400 جنم جینتی منانے کا  مبارک موقع اس دور میں ملا ہے، جب ملک اپنی آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے۔ یہ تاریخی موقع، آسام کی تاریخ کا ایک  قابل فخر باب ہے۔ میں بھارت کی لافانی ثقافت، لافی شجاعت اور لافانی وجود کے اس  تہوار پر اس عظیم روایت کو پرنام کرتا ہوں۔ آج ملک غلامی کی ذہنیت کو چھوڑ اپنی وراثت پر فخر کرنے کے جذبہ سے بھرا ہوا ہے۔ آج بھارت نہ صرف اپنے ثقافتی تنوع کو سیلیبریٹ  کر رہا ہے، بلکہ اپنی ثقافت کے تاریخی  مرد  و خواتین  کرداروں کو فخر سے یاد بھی کر رہا ہے۔ لچت بورفوکن  جیسی عظیم شخصیات، بھارت ماں کی  امر اولادیں، اس امرت کال کے عزائم کو پورا کرنے کے لیے ہمارے حوصلہ کا باعث ہیں۔ ان کی زندگی سے ہمیں اپنی پہچان کا، اپنی عزت نفس کا احساس بھی ہوتا ہے، اور اس قوم کے لیے وقف ہونے کی طاقت بھی ملتی ہے۔ میں اس مبارک موقع پر لچت بورفوکن کی عظیم شجاعت اور بہاردری کو نمن کرتا ہوں۔

ساتھیوں،

انسانی تاریخ کے ہزاروں برسوں میں دنیا کی کتنی ہی تہذیبوں نے جنم لیا۔ انہوں نے کامیابی کی بڑی بڑی اونچائیوں کو چھوا۔ ایسی تہذیبیں بھی آئیں، جنہیں دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ لافانی ہیں، ناقابل شکست ہیں۔ لیکن، وقت کے امتحان نے بہت ساری تہذیبوں کو  شکست دے دی، چور چور کر دیا۔ آج دنیا ان کی باقیات سے تاریخ کا اندازہ لگاتی ہے۔ لیکن، دوسری جانب یہ ہمارا عظیم بھارت ہے۔ ہم نے ماضی کے ان غیر متوقع حالات کا سامنا کیا۔ ہمارے آباء و اجداد نے بیرونی ممالک سے آئے حملہ آوروں کی ناقابل تصور دہشت کو جھیلا، برداشت کیا۔ لیکن، بھارت آج بھی اپنے اسی شعور، اسی توانائی اور اسی ثقافتی امتیاز کے ساتھ زندہ ہے،  لافانیت کے ساتھ زندہ ہے۔ ایسا اس لیے، کیوں کہ بھارت میں جب بھی کوئی مشکل دور آیا، کوئی چنوتی کھڑی ہوئی، تو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی عظیم شخصیت نمودار ہوئی ہے۔ ہماری روحانی اور ثقافتی پہچان کو بچانے کے لیے ہر دور میں سنت آئے، منیشی آئے۔ بھارت کو تلوار کے مور سے کچلنے کا منصوبہ پالے حملہ آوروں کا ماں بھارتی کی کوکھ سے جنمے ویروں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ لچت بورفوکن بھی ملک  کے ایسے ہی بہادر جانباز تھے۔ انہوں نے دکھا دیا کہ سخت گیری اور دہشت کی ہر آگ کا خاتمہ ہو جاتا ہے، لیکن بھارت کی امر جیوتی، جیون جیوتی امر بنی رہتی ہے۔

ساتھیوں،

آسام کی تاریخ، اپنے آپ میں بھارت کے سفر اور ثقافت کی ایک انمول وراثت ہے۔ ہم الگ الگ  خیالات و نظریات کو، سماجوں و ثقافتوں کو،  عقائد و روایات کو ایک ساتھ جوڑتے ہیں۔ آہوم ریاست میں سب کو ساتھ لے کر بنے شیو ساگر شیو دوؤل، دیوی دوؤل اور وشنو دوؤل آج بھی اس کی مثالیں ہیں۔ لیکن، اگر کوئی تلوار کے زور سے ہمیں جھکانا چاہتا ہے، ہماری حقیقی پہچان کو بدلنا چاہتا ہے، تو ہمیں اس کا جواب دینا بھی آتا ہے۔ آسام اور شمال مشرق کی سرزمین اس کی گواہ رہی ہے۔ آسام کے لوگوں نے متعدد بار ترکوں، افغانوں، مغلوں کے حملوں کا مقابلہ کیا، اور حملہ آوروں کو پیچھے کھدیڑا۔ اپنی پوری طاقت جھونک کر مغلوں نے گوہاٹی پر قبضہ کر لیا تھا۔ لیکن، پھر ایک بار لچت بورفوکن جیسے جانباز آئے، اور ظالم مغل سلطنت کے ہاتھ سے گوہاٹی کو آزاد کر وا لیا۔ اورنگ زیب نے شکست کی اس سیاہی کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن وہ ہمیشہ ہمیشہ ناکام ہی رہا۔ ویر لچت بورفوکن نے جو بہادری دکھائی، سرائی گھاٹ پر جو شجاعت دکھائی، وہ مادر وطن کے لیے بے انتہا محبت  کی مثال بھی تھی۔ آسام نے اپنی ریاست کے ایک ایک شہری کو ضرورت پڑنے پر اپنے مادر وطن کی حفاظت کے لیے تیار کیا تھا۔ ان کا ایک ایک نوجوان اپنی مٹی کا سپاہی تھا۔ لچت بورفوکن جیسی ہمت، ان کے جیسی بے خوفی، یہی تو آسام کی پہچان ہے۔ اور اسی لیے تو ہم آج بھی کہتے ہیں – ہونیسانے لوراہوت، لاسی تور کوتھا موگول بجوئے بیر، اتیہاکھے لکھا  یعنی، بچوں تم نے سنی ہے لچت کی کہانی؟ مغل فاتح ویر کا نام تاریخ میں درج ہے۔

ساتھیوں،

ہمارا ہزاروں سالوں کا دوام، ہماری شجاعت کا تسلسل، یہی بھارت کی تاریخ ہے۔ لیکن، ہمیں صدیوں سے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم ہمیشہ لٹنے پٹنے والے، ہارنے والے لوگ رہے ہیں۔ بھارت کی تاریخ، صرف غلامی کی تاریخ نہیں ہے۔ بھارت کی تاریخ جانبازوں کی تاریخ ہے،  فتح کی تاریخ ہے۔ بھارت کی تاریخ، ظالموں کے خلاف غیر معمولی شجاعت اور بہادری دکھانے کی تاریخ ہے۔ بھارت کی تاریخ فتح کی ہے، بھارت کی تاریخ جنگ کی ہے، بھارت کی تاریخ قربانی کی ہے،  بھارت کی تاریخ بہادری کی ہے، قربانی کی ہے، عظیم روایت کی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، ہمیں آزادی کے بعد بھی وہی تاریخ پڑھائی جاتی رہی، جو غلامی کے دور میں سازشاً رچی گئی تھی۔ آزادی کے بعد ضرورت تھی، ہمیں غلام بنانے والے غیر ملکیوں کے ایجنڈے کو بدلا جائے، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ ملک کے ہر کونے میں ماں بھارتی کے  ویر، بیٹے بیٹیوں نے کیسے ظالموں کا مقابلہ کیا، اپنی زندگی وقف کر دی، اس تاریخ کو جان بوجھ کر دبا دیا گیا۔  کیا لچت بورفوکن کی شجاعت معنی نہیں رکھتی کیا؟ کیا ملک کی ثقافت کے لیے، پہچان کے لیے مغلوں کے خلاف جنگ میں لڑنے والے آسام کے ہزاروں لوگوں کی قربانی کوئی معنی نہیں رکھتی؟ ہم سب جانتے ہیں کہ ظلم سے بھرے لمبے دور میں ظالموں پر فتح کی بھی ہزاروں کہانیاں ہیں، قربانی کی کہانیاں ہیں۔ انہیں تاریخ کے مرکزی دھارے میں جگہ نہ دے کر پہلے جو غلطی ہوئی، اب ملک اسے ٹھیک کر رہا ہے۔ یہاں دہلی میں ہو رہا یہ پروگرام اسی کی عکاسی ہے۔ اور میں ہیمنتا جی اور ان کی پوری ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں کہ یہ پروگرام دہلی میں بھی کیا۔

ویر لچت بورفوکن کی  شجاعت پر مبنی کہانی، زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے آسام سرکار نے کچھ ہی دن پہلے ایک میوزیم بنانے کا اعلان کیا ہے۔ مجے بتایا گیا ہے کہ ہیمنتا جی کی سرکار نے آسام کی تاریخی شخصیات کے اعزام میں ایک میموریل تیار کرنے کا بھی منصوبہ بنایا ہے۔  یقیناً ہی ایسی کوششوں سے ہماری نوجوان اور آنے والی نسلوں کو بھارت کی عظیم ثقافت کو زیادہ گہرائی سے سمجھنے کا موقع ملے گا۔ آسام سرکار نے اپنے وژن سے  ہر ایک کو جوڑنے کے لیے ایک تھیم سانگ بھی لانچ کیا ہے۔ اس کے بول بھی بہت انوکھے ہیں۔ اوکھومور آکاکھور، اوکھومور آکاکھور، بھوٹا تورا تومی، ہاہاہور ہوکوٹی، پوری بھاکھا تومی، یعنی آسام کے آسامان کا  قطبی ستارہ تم ہو۔  بہادری کی طاقت کی تعریف تم ہو۔ واقعی، ویر لچت بورفوکن کی زندگی ہمیں ملک کے سامنے موجود کئی موجودہ چنوتیوں کا ڈٹ کر سامنے کرنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ ان کی زندگی ہمیں حوصلہ دیتی ہے کہ – ہم ذاتی مفاد کو نہیں، ملکی مفاد کو اعلیٰ ترجیح دیں۔ ان کی زندگی ہمیں حوصلہ دیتی ہے کہ ہمارے لیے اقربا پروری، بھائی بھتیجہ واد، نہیں بلکہ ملک سب سے بڑا ہونا چاہیے۔

کہتے ہیں کہ ملک کی حفاظت کے لیے اپنی ذمہ داری نہ نبھا پانے پر ویر لچت نے مومائی کو بھی سزا دی تھی۔ انہوں نے کہا تھا – ’’دیکھوت کوئی، مومائی ڈانگور نوہوئے‘‘ یعنی، مومائی ملک سے بڑا نہیں ہوتا۔ یعنی، کہہ سکتے ہیں کہ کوئی بھی شخص، کوئی بھی رشتہ، ملک سے بڑانہیں ہوتا۔ آپ تصور کیجئے، جب ویر لچت کی فوج نے یہ سنا ہوگا کہ ان کا سپہ سالار ملک کو کتنی ترجیح دیتا ہے، تو اس چھوٹے سے سپاہی کا حوصلہ کتنا بڑھ گیا ہوگا۔ اور ساتھیوں یہ حوصلہ ہی ہوتا ہے جو جیت کی بنیاد بنتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج کا نیا بھارت، ملک پہلے، نیشن فرسٹ کے اسی اصول کو لے کر آگے بڑھ رہا ہے۔

ساتھیوں،

جب کوئی قوم اپنے صحیح ماضی کو جانتی ہے، صحیح تاریخ کو جانتی ہے، تو ہی وہ اپنے تجربات سے سیکھتی بھی ہے۔ اسے مستقبل کے لیے صحیح سمت ملتی ہے۔ ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی تاریخ  کے نظریہ کو کچھ دہائیوں یا کچھ صدیوں تک محدود نہ رکھیں۔ میں آج آسام کے مشہور  نغمہ نگار کے ذریعے تخلیق کردہ اور بھارت رتن بھوپین ہزاریکا کے ذریعے آواز میں پروئے گئے ایک گیت کی دو لائنیں بھی دہرانا چاہوں گا۔ اس میں کہا گیا ہے – موئی لاسیٹے کوئیسو، مولی لاسیٹے کوئیسو، مور ہوہونائی نام لووا، لوئیت پوریا ڈیکا ڈال۔ یعنی، میں لچت بول رہا ہوں، برہم پتر کنارے کے نوجوانوں، میرا بار بار نام لو۔  مسلسل یاد کرکے ہی ہم آنے والی نسلوں کو صحیح تاریخ سے  متعارف کرا سکتے ہیں۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے میں نے بورفوکن جی کی زندگی پر مبنی ایک نمائش دیکھی، بہت ہی متاثر کرنے والی تھی،  تعلیم دینے والی تھی۔ ساتھ ہی مجھے ان کی شجاعت بھری کہانی پر لکھی کتاب  کا اجرا کرنے کا بھی موقع ملا۔ اس طرح کے پروگراموں کے ذریعے ہی ملک کی صحیح تاریخ اور تاریخی واقعات سے  ہر ایک کو جوڑا جا سکتا ہے۔

ساتھیوں،

جب میں دیکھ رہا تھا تو میرے من میں ایک خیال آیا آسام کے اور ملک کے فنکاروں کو جوڑ کر ہم اس پر سوچ سکتے ہیں جیسے چھترپتی شیوا جی مہاراج پر ایک ایک جانتا راجا ناٹک کا تجربہ ہے۔ تقریباً 300-250 فنکار، ہاتھی، گھوڑے  سارے پروگرام میں ہوتے ہیں اور بڑا زبردست پروگرام ہے۔ کیا ہم لچت بورفوکن جی کی زندگی پر ایسا ہی ایک ناٹک پر مبنی تجربہ کر یحں اور ہندوستان کے کونے کونے میں لے جائیں۔ ’ایک بھارت، شریشٹھ بھارت‘ کا جو عزم ہے نا اس میں یہ ساری چیزیں بہت بڑی طاقت دیتی ہیں۔ ہمیں بھارت کو ترقی یافتہ بھارت بنانا ہے، شمال مشرق کو بھارت کی صلاحیت کا مرکزی نقطہ بنانا ہے۔ مجھے یقین ہے، ویر لچت بورفوکن کی 400ویں جنم جینتی ہمارے ان عزائم کو مضبوط کرے گی، اور ملک اپنے اہداف کو حاصل کرے گا۔ اسی خواہش کے ساتھ، میں پھر ایک بار آسام سرکار کا، ہیمنتا جی کا، آسام کے لوگوں کا تہ دل سے شکر گزار ہوں۔ اس مقدس تقریب میں مجھے بھی  ثواب کمانے کا موقع مل گیا۔ میں آپ کا بہت بہت شکر گزار ہوں۔

شکریہ۔

*****

ش ح – ق ت – ت ع

U: 12952



(Release ID: 1878909) Visitor Counter : 116