وزارت اطلاعات ونشریات
iffi banner

ماسٹر کلاس میں  ’ثقافتی تنوع کی نمائندگی اور نئی منڈیوں کی شناخت‘  پر رِشپ  شیٹی نے کہا :میں ملک گیر –ہندوستانی  فلموں کے تصور پر یقین نہیں رکھتا


ہندوستان ایک زرعی ملک ہے؛ ہماری رسومات، عقائد، طرز زندگی زراعت پر مبنی ہے

آج انسان اور فطرت کے درمیان کشمکش ہے جس کی عکاسی میں نے کانٹارا میں کی ہے

میں  اس منتر پر یقین رکھتا ہوں اگر کوئی فلم زیادہ مقامی اور اپنی جڑوں سے جڑی ہوئی ہے، تو اس کی عالمی اپیل زیادہ ہے

تِرپنویں (53) بین الاقوامی فلم فیسٹیول کے دوران ’ثقافتی تنوع کی نمائندگی اور نئے بازاروں کی شناخت‘ کے موضوع پر ٹی تیاگ راجن کے گفتگو کے دوران رِشپ شیٹی نے کہا کہ ’’بھارت ایک زرعی ملک ہے؛ ہماری رسومات، عقائد، طرز زندگی زراعت پر مبنی ہے۔ نتیجتاً، ہندوستان کے ہر گاؤں کی اپنی ایک رسم ہے جو قدرتی دیوتا پر یقین رکھتی ہے، جو ان کی روزی روٹی کی حفاظت کرتا ہے‘‘۔ اس فیسٹیول کا انعقاد گوا کے پنجی میں کیا جا رہا ہے۔

کنڑ فلم انڈسٹری میں ایک اداکار، ہدایت کار اور پروڈیوسر رشب شیٹی کے پاس متعدد فلمیں ہیں جیسے کہ اُولیداوارو کنڈانٹھے، کِرک پارٹی، کتھا سنگما، رکی، جن کی وجہ سے اُنہیں اُن کے شاندار کام کا سہرا دیا جاتا ہے۔ اُن کی فلم  ’سرکاری ہِریا   پراتھمیکا  شالے، کاسر گوڈو،  کوڈوگے: رَمنّا  رائے نے 66 ویں نیشنل فلم ایوارڈز میں بہترین بچوں کی فلم کا نیشنل فلم ایوارڈ جیتا ہے۔ ریشب شیٹی کی ہدایت کاری میں کانٹرا  تنقیدی طور پر سراہی جانے والی  اُن کی نئی فلم ہے۔ وہ اس کمرشل بلاک بسٹر میں بھی مرکزی اداکار ہیں جس نے باکس آفس کے کئی ریکارڈ توڑے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/rishab-1GDCV.jpg

فلموں میں ثقافتی تنوع کی نمائندگی کرنے کے موضوع پر، جناب شیٹی نے کہا کہ کانٹارا اپنی جڑوں  میں انسانوں اور فطرت کے درمیان جاری کشمکش کا مظاہرہ کرتی ہے۔ یہ فطرت، ثقافت اور افسانے کا امتزاج ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری ثقافتیں اور عقائد کے نظام ہم میں سے ہر ایک میں جڑے ہوئے ہیں۔ یہ فلم ان لوک داستانوں کا نتیجہ تھی جو انہوں نے سنی تھیں اور تمل  ثقافت میں ان کے بچپن  سے سنے گئے اُن کے تجربات کا نتیجہ رہی ہے۔  اس طرح وہ چاہتے تھے کہ فلموں کی  بیک گراؤنڈ موسیقی  فطری طور پر ثقافت کا ہی ایک  روشن مینار ہو۔

اپنی دلچسپیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے، رشب شیٹی نے کہا کہ وہ بچپن سے ہی یکش گان فنکار تھے۔ جب سے انہوں  نے انڈسٹری میں اپنا کام شروع کیا ہے تب سے وہ فلموں میں کمبالا، دیواردھنے، بھوت کولا کی ثقافت کو پیش کرنے کے لیے متوجہ تھے۔انہوں نے کہا کہ’’ تمل ناڈو میں، ہم دیورادھانے کے دوران تمام ذاتوں کی مساوات پر یقین رکھتے ہیں، یہ فطرت اور انسان کے درمیان ایک پل ہے‘‘۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ روزانہ کمبلا کی مشق کرتے تھے تاکہ اسے کنتارا میں انجام دیا جاسکے۔ انہوں نے لوگوں سے درخواست کی کہ وہ کسی ثقافتی عمل کا مذاق نہ اڑائیں کیونکہ عقائد لوگوں کے دلوں کے قریب ہوتے ہیں۔

کانٹارا میں شیوا کے کردار کے بارے میں جناب  شیٹی نے کہا کہ انہیں بچپن سے ہی ایسا کردار ادا کرنے کا جنون تھا۔ کنٹارا کا خیال دوسرے کووڈ  لاک ڈاؤن کے دوران آیا اور انہوں  نے فلم کی شوٹنگ کرناٹک کے دکشن  کنڑ ضلع میں  اپنے آبائی شہر کنڈا پورہ،  میں مکمل کی۔ فنکاروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ تر نئے ہیں اور بنگلور اور منگلور کے تھیٹر اداکار ہیں۔

کانٹارا کے کلائمیکس میں اپنی شاندار اور زبردست  کارکردگی کے بارے میں بات کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ کلائمکس ضروری ہے کیونکہ یہی وہ چیز ہے جو لوگوں کے ساتھ رہتی ہے۔ فطرت، انسان اور روح کا ہم آہنگ بقائے باہمی وقت کی ضرورت ہے، یہی فلم کا پیغام ہے۔

نئے بازاروں کی شناخت کے بارے میں خیالات کا اشتراک کرتے ہوئے جناب  شیٹی نے کہا کہ آج فلمیں زبان کی رکاوٹ کو عبور کر رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مختلف زبانوں میں ہندوستانی سینما گھر ہیں اور اگر مواد ناظرین سے جڑ جاتا ہے تو فلم کو آل انڈین فلم کے طور پر قبول کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس منتر پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر کوئی فلم زیادہ مقامی اور جڑوں سے وابستہ  ہے تو اس کی عالمی اپیل زیادہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 90 کی دہائی کے آخر میں علاقائی سینما پر مغربی فلموں کا اثر تھا۔ تاہم، آج وہ مقامی ثقافت کو شامل کر رہے ہیں اور تنوع نے انہیں انتہائی ضروری متحرک بنایا  اور بیداری فراہم کی، جسے سامعین نے قبول کیا ہے۔ اپنے خیالات کی تائید کے لیے، انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان بھر میں لوگوں نے زبان کی رکاوٹ کے باوجود کنٹارا کو قبول کیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سامعین مواد کے ساتھ اچھی طرح جڑ سکتے ہیں۔

جناب  شیٹی نے یہ بھی کہا  کہ، جہاں  پہلے لوگوں کو بین الاقوامی فلم فیسٹیولز کا انتظار کرنا پڑتا تھا، آج اوور دی ٹاپ (او ٹی ٹی)  پلیٹ فارمز نے انہیں اس قسم کا مواد دیا ہے ، جس کے لئے وہ کہیں بھی اور کبھی بھی مشتاق رہتے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ او ٹی ٹی  نے موضوع کے مطابق فلموں تک رسائی  اور  اسے دیکھ پانے کی صلاحیت کو  کئی گنا بڑھا دیا ہے، جس سے لوگوں کو ان کی دلچسپی کے مطابق فلموں کا ایک وسیع گل دستہ مل گیا ہے۔

ہدایت کاری اور اداکاری کے بارے میں ان کے خیالات کے بارے میں  پوچھے جانے پر، انہوں نے وضاحت کی کہ ’’ہدایت کاری  میری ترجیح ہے‘‘۔جب اداکار سے فلموں کے لیے ان کے موضوعات کے انتخاب کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’میں معاشرے سے بہت زیادہ جڑا ہوا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری فلموں میں تصورات وہیں سے آتے ہیں‘‘۔

بطور پروڈیوسر، انہوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ اسکرپٹ کی بنیاد پر بجٹ کا فیصلہ کرتے ہیں۔ انہوں نے رائے دی کہ سیٹس، لوکیشن اور فلم سازی کے دیگر سامان پر غیر ضروری اخراجات کی بجائے مواد کو عالمی سطح پر پرکشش ہونا چاہیے۔

اِفّی کے 53ویں  فیسٹیول   میں ماسٹر کلاسز اور بات چیت کے سیشن کا اہتمام ستیہ جیت رے فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ (ایس آر ایف ٹی آئی)، این ایف ڈی سی ، فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا (ایف ٹی آئی آئی)  اور ای ایس جی  مشترکہ طور پر کر رہے ہیں۔ فلم سازی کے ہر پہلو میں طالب علموں اور سنیما کے شائقین کی حوصلہ افزائی کے لیے اس سال ماسٹر کلاسز اور بات چیت پر مشتمل کل 23 سیشنز کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔

***

ش ح۔ ش ت۔ ک ا

iffi reel

(Release ID: 1878772) Visitor Counter : 215