وزارت اطلاعات ونشریات
آئی ایف ایف آئی 53 میں ہندی سنیما میں صنفی حصہ داری پر ایک ماسٹر کلاس کا انعقاد
فلموں کی تخلیقی فیصلہ سازی میں خواتین کی کم موجودگی: پروفیسر لکشمی لنگم
فلم سیٹ پر خواتین کی موجودگی سے مردوں کا برتاؤ خود بخود بدل جاتا ہے: پوشان کرپلانی
صنفی حقوق کے بارے میں بیداری اس پر بات چیت کرنے اور رہنما خطوط پر عمل کرنے سے متعلق ہے: رشمی لامبا
اقتدار میں خواتین بالکل مردوں کی طرح کام کرتی ہیں: پروفیسر شلپا پھڑکے
پنجی، گوا میں چل رہے 53ویں ہندوستانی بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں آج ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے ساتھ ہندی سنیما میں صنفی حصہ داری پر ایک ماسٹر کلاس کا انعقاد کیا گیا، جس میں ’بریکنگ دی اسکرین سیلنگ: جینڈر اینڈ ورک ان ہندی سنیما‘ پر ایک پریزنٹیشن منعقد کی گئی۔ ماسٹر کلاس کے دوران ہندی سنیما میں آن اور آف اسکرین دونوں طرح کے کام اور صنفی حصہ داری پر کوانٹی ٹیٹو ریسرچ اسٹڈی کے ذریعے بنیادی معلومات پیش کی گئیں۔ 35 فلموں کے کل 1930 اداکاروں کا اسکرین پر ان کی صنفی نمائندگی، مختلف صنفی اداکاروں کے ذریعے نبھائے جانے والے کرداروں، ان کے پیشہ اور دیگر پیمانوں کے لیے تجزیہ کیا گیا۔ اسٹڈی میں خواتین ارکان کے لیے فلم سازی کے سب سے مقبول شعبوں، جس سطح پر وہ کام کرتے ہیں اور فلم ایوارڈ جیتنے والی خواتین کی حصہ داری کا بھی پتہ لگایا گیا۔ (پریزنٹیشن دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں)
پینل میں ٹی آئی ایس ایس تحقیقی ٹیم سے پروفیسر لکشمی لنگم، پروفیسر شلپا پھڑکے اور محترمہ رشمی لامبا، قومی ایوارڈ یافتہ فلم تجزیہ کار محترمہ میناکشی شیڈڈے اور مشہور فلم ساز جناب پوشان کرپلانی شامل تھے۔ پینلسٹوں نے ’ہندی سنیما میں صنفی حصہ داری‘ موضوع پر اپنے خیالات کا اشتراک کیا اور مطالعہ کےنتائج شیئر کیے اور ان پر چرچہ کی گئی۔ پینلسٹوں نے ان قدموں پر بھی غور و فکر کیا جو ہندی سنیما ایکو سسٹم کے اندر صنفی تنوع کی کمی کا پیداواری طور پر جواب دینے اور خواتین کی مجموعی حصہ داری بڑھانے کے لیے اٹھائے جا سکتے ہیں۔ ٹی آئی ایس ایس کے طلباء کے ذریعے کیے گئے دو مختصر اے وی/عوامی سروس اعلانات کی بھی اسکریننگ کی گئی اور پر جوش ناظرین کے ذریعے ا س کی خوب پذیرائی ہوئی۔ ایک نے فلم کے سیٹ پر خواتین کے لیے باتھ روم کی سہولیات کی کمی کے بارے میں بات کی اور دوسرے نے سنیما کے ذریعے بنائی گئی خوبصورتی سے متعلق قدامت پسند چیزوں کی تنقید کی۔
پریزنٹیشن دیتے ہوئے، اسکول آف میڈیا اینڈ کلچرل اسٹڈیز کی ڈین، پروفیسر لکشمی لنگم نے کہا کہ ’’خواتین کی موجودگی زیادہ تر پوسٹ پروڈکشن کے مرحلہ میں ہے، جب کہ تخلیقی فیصلہ سازی کے عمل میں ان کی موجودگی نسبتاً کم ہے۔‘‘ انہوں نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی کہ ملک میں گزشتہ 75 برسوں میں صرف چار خواتین ہی مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات ہوئی ہیں، گزشتہ 72 برسوں میں صرف چار خواتین ہی مرکزی فلم سرٹیفکیشن بورڈ (سی بی ایف سی) کی صدر ہوئی ہیں اور گزشتہ 13 برسوں میں محض 29 فیصد خواتین ہی بورڈ کی رکن بنی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس مطالعہ کے مطابق، مردوں اور عورتوں کے پیشہ میں بھی قدامت پرستی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اس مطالعہ کا مقصد فلم صنعت کے ساتھ بات چیت شروع کرنا ہے۔ برابری لانے کے لیے بہت کچھ کیے جانے کی ضرورت ہے۔ کئی فلموں میں جنسیت کی شروعات صرف مردوں کی طرف سے کیے جاتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اور ان میں رضامندی کا کوئی خیال نہیں ہوتا ہے۔ کئی فلمیں رضامندی حاصل کرنے کے لیے اداکاروں کے ذریعے اپنائے جانے والے غیر قانونی طریقوں کو دکھاتی ہیں، جس سے سماج میں غلط پیغام جاتا ہے۔ انہوں نے آگے کہا کہ ’نربھیا‘ کے بعد بہت سارے قانون بدل گئے ہیں اور ایک بڑی تبدیلی ہوئی ہے۔ فلموں کو ان بڑی تبدیلیوں کو درج کرنے کی ضرورت ہے۔
فلم گولڈ فش کے مشہور ہدایت کار جناب پوشان کرپلانی نے اپنے سیٹ پر خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد کو ایک خوشگوار واقعہ بتایا۔ انہوں نے کہا کہ کیسے سیٹ پر خواتین کی موجودگی نے مردوں کے برتاؤ کو ایک مثبت شکل میں بدلا ہے۔ جناب کرپلانی نے کہا، ’’جب ہم فلم کی ٹیم کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں، تو ہم وقفہ کے لیے بہت سارے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں اور یہ کمیونی کیشن کی لغت بن گیا ہے۔ سیٹ پر گالی دینا گفتگو کا حصہ بن جاتا ہے اور یہ ایک طرح سے بھائیچارہ دکھاتا ہے، لیکن سیٹ پر خواتین کی موجودگی کے ساتھ یہ بدل جاتا ہے۔‘‘ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کلکی کے بچے کے لیے کریچ کا انتظام کیا گیا تھا۔ جناب کرپلانی نے فلم صنعت میں خواتین کے خلاف بدگمانی پر بھی تبصرہ کیا۔ انہوں نے کہا، ’’ایک سنیماٹوگرافر کے طور پر میں جس بھی جگہ گیا، وہ خواتین کے خلاف بدگمانی سے بھرا ہوا تھا۔ میں اس کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا، اس لیے میں نے آزاد سنیما کا انتخاب کیا۔‘‘
کتاب ’وائے لوئیٹر‘ کے مشترکہ مصنف اور ڈاکیومینٹری فلم ’انڈر دی اوپن اسکائی‘ کے شریک کار ہدایت کار پروفیسر شلپا پھڑکے نے اعلیٰ شرح خواندگی ہونے کے باوجود افرادی قوت میں خواتین کی گھٹتی حصہ داری کو نشان زد کیا۔ انہوں نے کہا، ’’اقتدار میں خواتین بالکل مردوں کی طرح کام کرتی ہیں۔ صرف ان کے وہاں ہونے سے بہت فرق پڑے گا۔ یہاں تک کہ عوامی جگہوں پر بھی خواتین دیگر لوگوں کو زیادہ آرام دہ بناتی ہیں۔‘‘
محترمہ رشمی لامبنا نے فلموں میں خواتین رول ماڈل کی اہمیت کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے کہا، ’’میں گینا ڈیوس ادارہ کے ساتھ رضاکاری کیوں کرتی ہوں، کیوں کہ میں ان کےاس منتر میں یقین کرتی ہوں کہ اگر آپ اسے دیکھ سکتے ہیں، تو آپ یہ کر سکتے یں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ وہ اصل میں اس سے متاثر ہے۔ ادارہ صنفی برابری اور مردوں کی قدامت پرستی کا مطالعہ کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی قدامت پرستی میں خواتین کے رول کو بھی دیکھ رہا ہے۔ محترمہ لامبا نے آگے کہا کہ ’’ڈیٹا کا استعمال کرکے، انہوں نے پایا ہے کہ امریکہ میں، خاندانی فلموں کے ساتھ صنفی مضبوطی کو حاصل کیا گیا ہے۔ وہاں لوگ تمام اداکاروں کی پہچان کرتے ہیں اور ہمارا مطالعہ ہندوستان میں اس قسم کی تبدیلی کرنے میں بھی مدد کرے گا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’صنفی حقوق کے لیے بات چیت کرنا اور عمل کرنے کے لیے رہنما خطوط ہونا ضروری ہے۔ نوجوانوں پیشہ وروں کو کیمرے کی سنیمائی زبان سمیت ان تشویشوں پر غور کرنا چاہیے۔‘‘
محترمہ میناکشی شیڈ ڈے، جو کہ مشہور فلم تجزیہ کار کی قومی ایوارڈ یافتہ ہیں، نے کیرالہ میں اداکارہ پر ہوئے حملے کے معاملہ کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے کہا کہ کیرالہ فلم صنعت کی خواتین کی جماعت نے ملزمین کو رول دینے سے منع کرکے انہیں سزا دی ہے۔ موجود سامعین نے اس تحقیق کے نتائج اور خاص طور پر فلم صنعت میں تبدیلی لانے کے ساتھ ساتھ وسیع ثقافتی پالیسیوں کی سطح پر حمایت کا کام کرنے کے لیے اس ڈیٹا کا استعمال کرنے کے طور طریقوں کو لے کر دلچسپ سوال پوچھے۔
*****
ش ح – ق ت – ت ع
U: 12917
(Release ID: 1878731)
Visitor Counter : 212