وزارت اطلاعات ونشریات
آپ کو اپنی پہلی فلم اپنے قریبی لوگوں کی سفارش پر مل سکتی ہے، لیکن آپ اپنی صلاحیت کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے: ڈائریکٹر لو رنجن
فلمیں سب سے طاقتور میڈیم ہیں: ڈائریکٹر کبیر خان
نئے فلم سازوں تک رسائی کے لیے جلد ہی ایک موبائل ایپ لانچ کر رہے ہیں: پروڈیوسر مہاویر جین
اقربا پروری کے ٹیگ سے چھٹکارا پانے کیلئے مجھے چار سال لگ گئے: گلوکارہ اننیا برلا
تمام بڑے فلم ساز کبھی نئے فلم ساز تھے: ہدایت کار آنند ایل رائے
افی 53 میں ‘تفریحی صنعت کے بدلتے ہوئے منظر نامے اور اس صنعت میں داخل ہونے کا طریقہ’ کے موضوع پر بات چیت کے ایک سیشن میں شریک ممتاز شخصیات
ہدایت کار لو رنجن نے گوا میں منعقدہ ہندوستان کے 53 ویں بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں ‘تفریحی صنعت کے بدلتے ہوئے منظر نامے اور اس صنعت میں داخل ہونے کا طریقہ’ کے موضوع پر ‘بات چیت کے ایک سیشن’ میں کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ اقربا پروری رشتوں کا بندھن ہے۔ لیکن اب یہ فلم انڈسٹری میں ایک تلخ موضوع بنتا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ کے والدین فلمی صنعت سے تعلق رکھتے ہیں، تو ان کی سفارش آپ کی پہلی یا دوسری فلم میں مدد کر سکتی ہے۔ لیکن اس کے بعد، صرف آپ کی صلاحیت ہی آپ کو کام دلاسکتی ہے۔ فلم انڈسٹری میں بہت سے نئے آنے والوں کو ‘وکٹم سنڈروم’ نامی ذہنی بیماری ہے۔ ہم اس خیال میں پھنس جاتے ہیں کہ ہم اچھے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے برے ہیں۔ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ فلم سازی کو کاروبار سے الگ نہیں کیا جا سکتا
افی 53 میں منعقدہ ‘باہمی بات چیت’ سیشن میں ڈائریکٹر لو رنجن
ہدایت کار کبیر خان ایک دستاویزی فلم ساز کے طور پر اپنے دنوں کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ ان کی پہلی فلم ‘کابل ایکسپریس’ کا افتتاحی سین تھا۔ انہوں نے کہا کہ بالی ووڈ نے میری جان بچائی اور اسی وقت میں نے فیصلہ کیا کہ فلموں سے زیادہ طاقتور کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ میں اپنی کہانیاں سنانے کے لیے وہاں رہنا چاہتا ہوں۔ میں اکثر نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ آپ کی آواز منفرد ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے طلباء سے کہتا ہوں کہ جب میں کوئی فلم دیکھتا ہوں تو مجھے یہ سوچنا پڑتا ہے کہ یہ کام صرف وہی کر سکتا ہے۔
اقربا پروری اور انڈسٹری میں آنے والے نئے لوگوں کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈائریکٹر کبیر خان نے کہا کہ صحیح لوگوں تک پہنچنے میں وقت لگتا ہے۔ میں صرف ایک اسکرپٹ لے کر ممبئی آیا تھا۔ آپ کو ثابت قدم رہنا ہوگا لیکن حقیقت پسندانہ بھی بننا ہوگا۔ اکثر میں ایسے لوگوں سے ملتا ہوں جو چار سے پانچ سال تک ایک خیال پر قائم رہتے ہیں۔ شاید اسکرپٹ کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے؛ شاید اس کا وقت نہیں آیا ہے۔
افی 53 میں منعقدہ ‘باہمی بات چیت’کے سیشن میں ڈائریکٹر کبیر خان
فلمساز مہاویر جین نے متعدد فلمسازوں کو ایک چھتری کے نیچے لایا ہے۔ ان کا مقصد نئے ٹیلنٹ کو تلاش کرنا اور انہیں موقع دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یہ خیال اس وقت آیا جب وہ مختلف فلمسازوں سے ملے جنہوں نے نئے آنے والوں کے لیے کچھ کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم جلد ہی نئے ہدایت کاروں کے لیے فلم سازوں سے رابطہ کرنے کے لیے ایک ایپ لانچ کریں گے۔
گلوکارہ اور اداکار کے طور پر اپنے سفر کے بارے میں پوچھے جانے پر اننیا برلا نے کہا کہ میں ایک ایسے خاندان سے آئی ہوں جو کئی نسلوں سے فلم انڈسٹری میں ہے۔ ایک قدامت پسند خاندان سے آنا، اداکارہ بننا ایک بڑا بدنما داغ سمجھا جاتا تھا۔ مجھے بہت نفرت ملی کیونکہ لوگوں کا خیال تھا کہ میرے والد نے مجھے گلوکارہ بننے کے لیے پیسے دیے ہیں۔ مجھے اپنے آپ کو ثابت کرنے اور میں جو ہوں اس سے پیار کرنے میں مجھے چار سال لگے ۔انہوں نے مزید کہا کہ جب وہ ایل اے میں تھیں،تو انہوں نے اپنی ثقافت کو باہر کے لوگوں کے نقطہ نظر سے دیکھا اور اپنی آواز کو عالمی سامعین تک پہنچانے کے لیے اپنی جڑیں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔
افی 53 میں منعقدہ ‘باہمی بات چیت ’ کے سیشن میں اننیا برلا
فلم انڈسٹری میں ڈیبیو کرنے والے ہدایت کاروں کے ساتھ فلم بنانے کے چیلنجوں کے بارے میں پوچھے جانے پر ہدایت کار آنند ل۔رائے نے کہا کہ یہاں پر موجود تمام بڑے فلم ڈائریکٹرز کبھی نئے ہدایت کار ہوا کرتے تھے۔ میرے خیال میں یہ انڈسٹری ہمیشہ نئے آنے والوں کو خوش آمدید کہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ ملٹی پلیکسز کی آمد سے پروڈیوسرز اور نئے ڈائریکٹرز کے درمیان تعلقات متاثر ہوئے ہیں۔
ان نکات پر سوال کا جواب دیتے ہوئے جن پر نئے آنے والے یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آیا ان کے پاس یو ایس پی ہے یا نہیں ڈائریکٹر آنند ایل رائے نے جواب دیا کہ یہ جاننے کے لیے کہ آپ کو وہاں سے نکل کر اپنا کارنامہ پیش کرنا پڑے گا چاہے یہ آڈیشن ہو یا اسکرپٹ۔ یہ اہم نہیں ہے کہ آپ کسی اور کی طرح ہیں یا نہیں۔ مجھ جیسا اچھا کوئی نہیں ہے۔
ڈائریکٹر آنند ایل رائے نے کہاکہ یہ بہت اہم ہے کہ ہم نئے ٹیلنٹ کی تلاش کریں۔ ہر پانچ سے دس سال بعد ہمیں نئے اداکاروں، اسکرپٹ رائٹرز، ڈائریکٹرز وغیرہ کی کمی محسوس ہوتی ہے۔
اس کے بعد بحث کا رخ اس طرف ہوا کہ آیا پروڈکشن ہاؤسز کے مقابلے اوٹی ٹی پلیٹ فارم نئے آنے والوں کو زیادہ موقع دیتا ہے، اس پر ڈائریکٹر کبیر خان نے جواب دیا کہ مجھے لگتا ہے کہ اوٹی ٹی پلیٹ فارم نئے آنے والوں کے ساتھ پروجیکٹس لینے میں زیادہ جرأت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
اننیا برلا نے اپنی پروڈکشن کمپنی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے لیے یہ ایک بہترین احساس کا پیکر ہے۔ ہمارے پاس ایک مخصوص قسم کا ماڈل ہے جس میں ہم اوٹی ٹی پلیٹ فارم پر جانے سے پہلے اندرونی سطح پر کام کرتے ہیں۔
ڈائریکٹر لو رنجن نے کہاکہ سامعین سبسکرپشن فیس ادا کرنے کے بعد نئے لوگوں کو دیکھنے کے لیے زیادہ متجسس ہوتی ہیں۔ لیکن سچ کہوں تو حالات پچھلے 20 سالوں سے بہت بہتر ہیں۔ سامعین کو بھول جاؤ؛ میڈیا کو نئے آنے والوں کے ساتھ فلم کی کوریج کرنا ایک ڈراؤنا خواب بن جاتا ہے۔ آخرکار یہ صارفین کی ایک مارکیٹ ہے۔ فلمی تجزیہ کار کومل ناہٹا نے گفتگو کے سیشن کی میزبانی کی۔
ماسٹر کلاسز اور بات چیت کے سیشن کا اہتمام ستیہ جیت رے فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ (ایس آر ایف ٹی آئی)، این ایف ڈی سی، فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا (ایف ٹی آئی آئی) اور ای ایس جی مشترکہ طور پر کر رہے ہیں۔ فلم سازی کے ہر پہلو میں طالب علموں اور سنیما کے شائقین کی حوصلہ افزائی کے لیے اس سال ماسٹر کلاسز اور بات چیت پر مشتمل کل 23 سیشنز کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ش ح۔ ع ح۔
(U: 12884)
(Release ID: 1878453)
Visitor Counter : 239