وزارت دفاع
اندرونی اور بیرونی سلامتی کے درمیان فرق کم کرنے کے لیے، سائبر حملوں اور معلوماتی جنگ جیسے ابھرتے ہوئے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے مربوط بین الاقوامی کوششوں کی ضرورت ہے: نئی دہلی میں 60 ویں نیشنل ڈیفنس کالج کورس کے گریجویٹ افسران سے خطاب کرتے ہوئے رکشا منتری نے یہ بات کہی
اس کے لئے ضروری ہے کہ قومی سلامتی کو ایک اجتماعی صنعت کے طور پر خیال کیا جائے نہ کہ سب کے لئے مفید عالمی نظام کے کھیل کا ایک عنصر سمجھا جائے
جناب راج ناتھ سنگھ کا کہنا ہے کہ ہندوستان ایک کثیر جہتی پالیسی پر یقین رکھتا ہے، نہ کہ ایسے عالمی نظام میں جہاں چند لوگوں کو دوسروں سے برتر سمجھا جاتا ہے
Posted On:
10 NOV 2022 11:20AM by PIB Delhi
رکشا منتری جناب راج ناتھ سنگھ نے سائبر حملوں اور معلوماتی جنگ جیسے ابھرتے ہوئے سیکورٹی خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری سے ٹھوس کوششیں کرنے پر زور دیا ہے۔ وہ 10 نومبر 2022 کو نئی دہلی میں 60 ویں نیشنل ڈیفنس کالج (این ڈی سی) کورس کے کانووکیشن کی تقریب کے دوران ہندوستانی مسلح افواج، سول سروسز کے ساتھ ساتھ دوست بیرونی ممالک کے افسران سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے قومی سلامتی کو وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت والی حکومت کی اولین فوکس قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ ملک کی تمام صلاحیتوں کو صرف اسی صورت میں استعمال کیا جا سکتا ہے جب اس کے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ تہذیب کے پھلنے پھولنے اور خوشحال ہونے کے لیے سیکورٹی انتہائی ضروری ہے۔
جناب راج ناتھ سنگھ نے اندرونی اور بیرونی سلامتی کے درمیان کم ہوتے فرق پر روشنی ڈالی اور کہا کہ بدلتے وقت کے ساتھ خطرات کی نئی جہتیں شامل ہو رہی ہیں، جن کی درجہ بندی کرنا مشکل ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ دہشت گردی جو کہ عام طور پر داخلی سلامتی میں آتی ہے، اب اسے بیرونی سلامتی کے زمرے میں رکھا گیا ہے، کیونکہ ایسی تنظیموں کی تربیت، فنڈنگ اور اسلحہ کی مدد ملک کے باہر سے کی جاتی ہے۔
سائبر حملوں کے لیے اہم بنیادی ڈھانچے کے خطرے کو ایک بڑی تشویش کے طور پر بیان کرتے ہوئے رکشا منتری نے کہا کہ توانائی، ٹرانسپورٹ، پبلک سیکٹر سروسز، مواصلات، اہم مینوفیکچرنگ انڈسٹریز اور باہم منسلک مالیاتی نظام جیسے شعبے ایسے خطرات کا شکار ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ معلومات کی جنگ کسی ملک کے سیاسی استحکام کو خطرے میں ڈالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ سوشل میڈیا اور دیگر آن لائن مواد تیار کرنے والے پلیٹ فارمز کا منظم استعمال عوام کی رائے اور نقطہ نظر کوتشکیل کر رہا ہے۔
روس اور یوکرین کے درمیان جاری تنازع میں معلوماتی جنگ کی تعیناتی سب سے زیادہ واضح تھی۔ پورے تنازعات کے دوران سوشل میڈیا نے دونوں فریقوں کے لیے جنگ کے بارے میں مسابقتی بیانیے کو پھیلانے اور تنازع کو اپنی اپنی شرائط پر پیش کرنے کے لیے میدان جنگ کا کام کیا ہے۔ جناب راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ جنگ کے دوران بیانیہ تبدیل کرنے کی حکمت عملی کے ایک ذریعہ کے طور پر پروپیگنڈہ مہمات کسی بھی طرح سے نئی نہیں ہیں، لیکن بنیادی تقسیمی چینل کے طور پر سوشل میڈیا کی طرف منتقلی کی وجہ سےاس کی پہنچ میں تیزی سے زبردست اضافہ ہوا ہے۔
مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کا حوالہ دیتے ہوئے رکشا منتری نے کہا کہ ’’کہیں بھی ناانصافی ہر جگہ انصاف کے لیے خطرہ ہے‘‘۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ جب کسی بھی خطے کے امن و سلامتی کو خطرہ لاحق ہوتا ہے تو پوری دنیا اس کے اثرات کو مختلف طریقوں سے محسوس کرتی ہے۔ حالیہ یوکرینی تنازعہ نے ظاہر کیا کہ اس کی لہر کے اثرات پوری دنیا کو کس طرح بری طرح متاثر کر سکتے ہیں۔ روس اور یوکرین مل کر دنیا کی گندم اور جو کا تقریباً ایک تہائی برآمد کرتے ہیں، لیکن اس تنازع نے اناج کو 'دنیا کی روٹی کی باسکٹ' سے نکلنے سے روک دیا اور مختلف افریقی اور ایشیائی ممالک میں خوراک کا بحران پیدا ہو گیا ۔ اس تنازع نے دنیا میں توانائی کے بحران کو بھی ہوا دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپ میں تیل اور گیس کی سپلائی کم ہو رہی ہے۔ ہندوستان بھی متاثر ہوا ہے کیونکہ روس-یوکرین جنگ کی وجہ سے بین الاقوامی توانائی کی سپلائی میں خلل پڑا، جس سے توانائی کی درآمد بہت زیادہ مہنگی ہو گئی۔
جناب راج ناتھ سنگھ نے سلامتی کو ایک حقیقی اجتماعی ادارے کے طور پر غور کرنے کی ضرورت پر زور دیا، جو ایک عالمی نظم کو سب کے لیے فائدہ مند بنا سکتا ہے۔ قومی سلامتی کو صفر کا کھیل نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ ہمیں سب کے لیے جیت کی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں تنگ نظری پر مبنی اپنے مفادکی طرف راغب نہیں ہونا چاہئے جو طویل مدت میں فائدہ مند نہیں ہے۔ ہمیں روشن خیالی پر مبنی اپنے مفادات سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے جو جھٹکوں کے لیے پائیدار اور لچکدار ہے۔ رکشا منتری نے مزید کہا کہ جہاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جیسی کئی کثیرالجہتی تنظیمیں سلامتی کے میدان میں کام کر رہی ہیں، وہاں اسے سب کے لیے مشترکہ مفادات اور سلامتی کی سطح تک بڑھانے کی ضرورت ہے۔
کووڈ-19 وبائی مرض کے بارے میں عالمی ردعمل کا حوالہ دیتے ہوئے، رکشا منتری نے کہا، اس نے معلومات کے تبادلے، حالات کے تجزیہ کے ساتھ ساتھ تحقیق، ترقی اور ویکسین کی تیاری میں کثیر القومی تعاون کی فوری ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس نے قومی اور بین الاقوامی سلامتی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ملکوں کے اندر اور اندرون ملک اداروں اور تنظیموں کے درمیان زیادہ افہام و تفہیم، مربوط اور تعاون پر مبنی اقدامات کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا۔
جناب راج ناتھ سنگھ نے کثیر جہتی پالیسی پر ہندوستان کے یقین کی تصدیق کی، جس کا احساس متعدد اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ متنوع مصروفیات کے ذریعے ہوا، تاکہ خوشحال مستقبل کے لیے سبھی کے خدشات کو دور کیا جا سکے۔ انہوں نے اسے واحد راستہ قرار دیا جو مشترکہ ذمہ داری اور خوشحالی کا باعث بن سکتا ہے۔
رکشا منتری نے کہا’’ مضبوط اور خوشحال ہندوستان دوسروں کی قیمت پر نہیں بنایا جائے گا، بلکہ ہم دوسری قوموں کو ان کی مکمل صلاحیتوں کا ادراک کرنے میں مدد کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ ہندوستان ایسے عالمی نظام میں یقین نہیں رکھتا جہاں چند کو دوسروں سے برتر سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے اعمال انسانی مساوات اور وقار کے جوہر سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں، جو اس کی قدیم اخلاقیات اور مضبوط اخلاقی بنیادوں کا ایک حصہ ہے۔ حقیقی سیاست غیر اخلاقی یا عدم اخلاق سے متصف ہونے کے لیے انجیر کا پتا نہیں ہوسکتا۔ بلکہ قوموں کے روشن خیالی پر مبنی مفادات کو اسٹریٹجک اخلاقیات کے فریم ورک کے اندر فروغ دیا جا سکتا ہے، جو تمام مہذب قوموں کے جائز اسٹریٹجک ضرورت کی سمجھ اور احترام پر مبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم کسی بھی قوم کو شراکت دار بناتے ہیں تو وہ خود مختار مساوات اور باہمی احترام کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ رشتوں کو مضبوط کرنا فطری طور پر ہندوستان میں آتا ہے، کیونکہ ہم باہمی اقتصادی ترقی کی سمت کام کرتے ہیں‘‘ ۔
کورس مکمل کرنے کے لیے بیرونی ممالک کے افسران کو مبارکباد دیتے ہوئے جناب راج ناتھ سنگھ نے انھیں ہندوستان اور دنیا کے درمیان ایک پل قرار دیا۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ یہ کورس عالمی سلامتی اور خوشحالی کو بڑھانے کی راہ ہموار کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کورس مکمل کرنے والے افسران نہ صرف مستقبل کے تمام چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اچھی طرح سے لیس ہوں گے بلکہ قومی سلامتی کے دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر قومی طاقت کے تمام عناصر کو ہم آہنگ کرنے کے قابل بھی ہوں گے۔
رکشا منتری نے اس بات کی تعریف کی کہ کس طرح این ڈی سی نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ملک سے آنے والے اسٹریٹجک لیڈروں، مفکرین اور پریکٹیشنرز کی نسلوں کو تیار کرنے میں مقامی اسٹریٹجک سوچ کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ انہوں نے عالمی سلامتی کے منظر نامے میں ہونے والی پیش رفت سے باخبر رہنے کے لیے این ڈی سی کی مسلسل کوششوں کی تعریف کی۔
کنووکیشن کی تقریب کے دوران، 60 ویں این ڈی سی کورس (2020 بیچ) کے 80 افسران کو مدراس یونیورسٹی سے ایم فل کی باوقار ڈگری سے نوازا گیا۔ جناب راج ناتھ سنگھ نے فارغ التحصیل افسران کو سندوں سے نوازا۔ این ڈی سی کا اہم 'قومی سلامتی اور حکمت عملی' کورس، ایک جامع تدریسی ماڈل کا استعمال کرتے ہوئے، 47 ہفتوں کی مدت میں منعقد کیا جاتا ہے۔ مدراس یونیورسٹی کی طرف سے ایم فل کی ڈگری کا ایوارڈ کورس کے دوران رضاکار افسران کے لیے ایک ساتھ چلنے والا پروگرام ہے۔
اپنے خطاب میں، کمانڈنٹ این ڈی سی، لیفٹیننٹ جنرل ایم کے ماگو نے کہا کہ 60 ویں این ڈی سی کورس کے افسران پالیسی سازی اور حکمت عملی کی سطح پر قومی مسائل کے لیے، دونوں پالیسی کی تشکیل اور نفاذ میں ایک بین ضابطہ اور روایت سے انحراف کرنے والے نقطہ نظر کا اطلاق کر سکیں گے۔ انہوں نے این ڈی سی کے متحرک تعلیمی ماحول پر روشنی ڈالی، جس نے اپنے مینڈیٹ کو پورا کرنے کے علاوہ بہت سے کورس کے شرکا کو ڈیفنس اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی؍اصلی تحقیق کرنے کی ترغیب دی ہے۔
اس موقع پر دفاعی سکریٹری جناب گریدھر ارامانے، مدراس یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر (ڈاکٹر) ایس گوری اور دیگر معزز مہمان موجود تھے۔ این ڈی سی کا قیام 1960 میں کیا گیا تھا۔ ملک میں اسٹریٹجک تعلیم کا سب سے بڑا اسکول سمجھا جاتا ہے، یہ وزارت دفاع کے تحت ایک پریمیئر انٹر سروسز اکیڈمک ادارہ ہے، جو ہندوستانی مسلح افواج ، سول سروسز کے ساتھ ساتھ دوشت بیرون ممالک کے سینئر افسران (بریگیڈیئر کے مساوی رینک کے) کی تربیت اور تیار ی کا ذمہ دار ہے۔
*************
ش ح ۔ ا ک، ع ر
U. No.12377
(Release ID: 1874929)
Visitor Counter : 227