زراعت اور کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کی وزارت

زراعت مرکزی وزیرنریندر سنگھ  تومر نےانڈونیشیا میں جی- 20 کے مختلف اجلاس کے دوران اپنے خطاب میں ہندوستان کا نقطہ نظر پیش کیا


ہندوستان زراعت اور خوراک کے نظام کو درپیش پائیداری کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تیار ہے، حکومت نے کئی اقدامات  بھی کیے ہیں:جناب تومر کا بیان

حکومت ہند چھوٹے اور حاشیہ پرر ہنےوالے کسانوں کے فائدے کے تئیں پرعزم ہے : مرکزی وزیر زراعت کا بیان

Posted On: 28 SEP 2022 11:46PM by PIB Delhi

زراعت اور کسانوں کی بہبود کے مرکزی وزیر جناب نریندر سنگھ تومر نے ہندوستان کا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے آج  انڈو نیشیا کے شہربالی میں جی- 20 کانفرنس کے مختلف اجلاس سے خطاب کیا۔ جناب تومر نے کہا کہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں حکومت ہند ،زراعت اور خوراک کے نظام کو درپیش پائیداری کے چیلنجوں سے نمٹ رہی ہے اور ان مسائل سے نمٹنے کے لیے کئی اہم اقدامات کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہند چھوٹے اور معمولی  درجے کےکسانوں کے فائدے کے تئیں پر عزم ہے اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے کئی اہم اسکیمیں چلائی جارہی ہیں۔

جی- 20  کی میٹنگ کے دوران،موافق اور پائیدار زراعت اور خوراک کے نظام تیار کرنے کے موضوع پر، جناب  تومر نے کہا کہ ہندوستان کسانوں کو معلومات ، ٹیکنالوجی اور منڈیوں تک رسائی کو بہتر بنا کر موجودہ اور مستقبل کے بحران کا جواب دینے کے قابل بنائے گا۔ ہندوستان چھوٹے اور حاشیہ پر رہنے والے کسانوں کے گروپوں کو  منظم کرکے، زرعی بنیادی ڈھانچے میں زرعی اسٹارٹ اپس  اور سرمایہ کاری کو فروغ دے کر، دنیا کا سب سے بڑا فصل بیمہ پروگرام شروع کرکے اور زراعت کے ڈیجیٹائزیشن کو آسان بنانے جیسی مختلف سرگرمیاں انجام دے کر اپنے کسانوں کی معاشی حالت اور ان کی خوشحالی کو آگے بڑھانے کے لیے  عہد بستہ ہے ۔ انوویشن ان اڈپٹیو زرعی پروجیکٹ کو قومی سطح پر شروع کیا گیا ہے، جس کا مقصد آب و ہوا کے لیے اسمارٹ  زراعت کے طور طریقوں کو فروغ دینا ہے۔

 

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/IMG-20220928-WA00766BWM.jpg

 

مختلف فصلوں کی موسمیاتی لچکدار اقسام کی ترقی کے ذریعہ کسانوں کو فائدہ پہنچانے  کی خاطر جناب تومر نے کہا کہ ہندوستان سخت آب و ہوا اور موسمیاتی حالات کے ساتھ ساتھ ان کی غذائیت کی قیمت کے لیے باجرے کیمطابقت کو برداشت کرتے ہوئے باجرے کی کاشت کو فروغ دے رہا ہے۔باجرے کی ان خصوصیات کو تسلیم کرتے ہوئے، اقوام متحدہ نے  ہندوستان کے مشورے پر سال 2023 کوباجرے کا بین الاقوامی سال قرار دیا ہے۔ خوراک کے تنوع کو فروغ دینے کے لیے،جناب تومر نے باجرے کے استعمال کو فروغ دینے کی پہل کے لیے سب سے تعاون کی درخواست کی ہے جو کم وسائل کے ساتھ اگایا جاسکتا ہے۔جناب تومر نے کہا کہ ہندوستان کو اپنے قدرتی وسائل کے تحفظ کے لیے ایک بڑا قدم اٹھانا چاہیے۔ جناب تومر نے کہا کہ آئندہ چیلنجوں کے پیش نظر ہندوستان بڑے پیمانے پر نامیاتی اور قدرتی کھیتی  کے طور طریقوں کو فروغ دے رہا ہے۔ زرعی پیداوار میں  ٹھوس اضافے، خوراک کے نقصانات کو کم کرنا اور خوراک کی عالمی سپلائی چین کو مضبوط طریقوں سے بڑھانا ناگزیر ہے۔ آئیے ہم سب مل کر اپنے چھوٹے اور حاشیہ پر رہنے والے کسانوں کی مناسب آمدنی کو یقینی بنانے کے لیے کام کریں۔ ہمیں ایک ساتھ مل کر روایتی علم کو بروئے کار لانا ہے اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز اور بہترین طور طریقوں میں اشتراک  پیدا کرنا ہے، اسے مضبوط بنانا ہے اور زرعی ماحولیاتی نظام کو تبدیل کرنے کے لیے ایک قابل عمل پالیسی ماحول پیدا کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ سب کے لیے سستی خوراک کو یقینی بنانے کے لیے ایک کھلا، موثر اور شفاف زرعی شعبہ ضروری ہے۔

تجارت کے فروغ کے  بارے میں اجلاس کے دوران جناب تومر نے کہا کہ ہندوستان آج زرعی تجارت میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ایک وقت ایسا بھی تھا جب ہندوستان غذائی اجناس کی درآمد کرتا تھا، لیکن اب وزیر اعظم جناب  نریندرمودی کی قیادت میں زرعی شعبے کوکافی مضبوط بنا دیا گیا ہے۔اس ترقی کی وجہ سے، ہندوستان تیزی سے زرعی مصنوعات برآمد کرنے والےاہم ملک کے طور پر ابھرا ہے اور گزشتہ چند سالوں میں، ہندوستان نے زرعی مصنوعات میں تجارتی سرپلس کو برقرار رکھا ہے۔ کورونا وبا کی وجہ سے لاجسٹک چیلنجز کے باوجود، مالی سال 2020-21 کے دوران ہندوستان سے زراعت اور اس سے منسلک مصنوعات کی برآمدات میں مسلسل اضافہ ہواہے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 18 فیصد کی زبردست نمو کو ظاہر کرتا ہے۔ عالمی وبا کے دوران، 2021-22 میں ہندوستان کی زرعی برآمدات 50.21 بلین امریکی ڈالر رہی، جو اب تک کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ جناب تومر نے کہا کہ ہندوستان کی زراعت اور خوراک کی فراہمی کے نظام نہ صرف خود انحصاری تک پہنچے ہیں بلکہ وبائی امراض کے آغاز سے ہی ہندوستان کا تعاون دیگر ممالک کے  ساتھ غیر معمولی رہا ہے اور ہندوستان نے بحران کے اس دور میں دیگر ممالک کو اناج بھیج کران کی  ہر ممکن مدد کی ہے۔ ہندوستان نے واسودھیوا کٹمبکم کے جذبے کے ساتھ وبائی امراض کے دوران ہونے والے نقصانات کو پورا کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔

جناب تومر نے کہا کہ ہمیں  ان بڑے  ملکوں کی غذائی تحفظ کی ضروریات کا حل بھی تلاش کرنا چاہیے جو بڑی آبادی کو کھانا فراہم کرتے ہیں اورانہیں اپنی پالیسیوں  اور پروگراموں اور ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کے تقسیم کے عوامی نظام جیسے امور پر بھی غور کرنا چاہئے ۔ اس میں کم از کم امدادی قیمت پر اناج کی خریداری، پی ڈی ایس سسٹم کے ذریعہ سپلائی اور ذخیرہ کرنے جیسی پالیسیاں شامل ہیں جو غیر یقینی صورتحال کو دور کرتی ہیں اور درمیانی افراد کی ذخیرہ اندوزی کو روکتی ہیں، اس کے علاوہ کسانوں کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے اور انہیں مارکیٹ تک رسائی  فراہم کرنے اور سستی خوراک  کو یقینی بنانے میں مدد کے لیے ایک قابل اعتماد نظام فراہم کرنا بھی ان پالیسیوں میں شامل ہے۔ ترقی پذیر ممالک کو آلات، ٹیکنالوجی اور ماہرین جیسی امدادفراہم کرنی چاہیے تاکہ وہ دنیا کے  دیگر کمزور خطوں کی خوراک کی  یقینی فراہمی میں میں تعاون دے سکیں اور ساتھ ہی ساتھ وافر خوراک پیدا کرنے کے قابل ہونے کے لیے خود کفیل بن سکیں۔ دنیا کے کیلئے خوراک پیدا کرنے والے چھوٹے اورحاشیہ پر رہنے والے کسانوں کو بہتر ذریعہ معاش فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ غذائیت سے متعلق حساس سماجی تحفظ کی اسکیموں کو بڑھایا جائے،کھانے کے نظام کو مضبوط بنانے کے لئے نئی ٹیکنالوجیز متعارف کرائی جائیں اور کھادوں کے موثر استعمال کو فروغ دیا جائے اور پروگراموں کے ذریعہ پائیدار خوراک اور غذائی تحفظ میں سرمایہ کاری کی جائے۔ دنیا بھر میں غذائی تحفظ، اس کی دستیابی اور سستے داموں پر خوراک کو یقینی بنانا ایک اہم مقصد ہے جس کے لیے ہمیں  بھر پورکوشش کرنی چاہیے۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ زرعی تجارت تمام  ملکوں خصوصاً ترقی پذیر ملکوں کویکساں مواقع فراہم کرے اور چھوٹے اور حاشیہ پر رہنے والے کسانوں کی ایک بڑی تعداد کو بھی یکساں مواقع فراہم کرے۔

جناب تومر نے زراعت اورخوراک ویلیو چین میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعہ دیہی معاش کو بہتر بنانے کے موضوع پر اجلاس سے خطاب کیا۔انہوں نے کہا کہ زراعت اور فوڈ ویلیو چین میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی دیہی معاش کو بہتر بنانے میں ایک عصری معاملہ ہے۔ ہندوستان میں زراعت اور خوراک کے شعبے میں موبائل ٹیکنالوجیز کا استعمال اور ریموٹ سینسنگ خدمات اور تقسیم شدہ کمپیوٹنگ کا پھیلاؤ پہلے سے ہی چھوٹے زمینداروں کو تجارت، مارکیٹ، مالیات اور تربیت سے متعلق اپنے ڈیٹا کو اکٹھا کرکے فائدہ پہنچانے والی اصلاحات کا باعث بن رہا ہے۔ ’چوتھا صنعتی انقلاب‘ زراعت کے شعبے میں مثبت نتائج کے لیے تیار ہے۔ بلاک چین، مصنوعی ذہانت، مشین لرننگ، ڈرونز اور انٹرنیٹ آف تھنگز جیسی ٹیکنالوجیز کے استعمال سے کاشتکار گھرانوں کی آمدنی میں اضافہ کرنے کے لیے ایک قابل سازگار ماحول پیدا کرنے کے بے پناہ امکانات ہیں۔ ہندوستان کسانوں کی فیصلہ سازی کی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے ڈیجیٹل تبدیلی کو اپنا رہا ہے، تاکہ وہ خطرات اور تغیرات کا بہتر انتظام کرنے کے قابل ہوں۔ ہندوستان کسانوں کی آمدنی میں اضافہ  کرنےاور اسکیموں کی بہتر نفاذ کے ذریعہ ان کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے مقصد کے ساتھ مربوط ڈیجیٹل زرعی ماحولیاتی نظام کی تعمیر کے ذریعہ ایگری اسٹیک بنانے کی طرف  بھی گامزن ہے۔ انہوں نےایگری اسٹیک کو ابھرتے ہوئے اسٹارٹ اپ کے ساتھ بانٹنے کی تجویز پیش کی، تاکہ کسانوں کے لیے کاشتکاری میں آسانی پیدا ہونےسے سرکاری اور نجی دونوں شعبے مستفید ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان اس سلسلے میں اپنی مہارت کو دنیا کے ساتھ مشترک کر سکتا ہے، خاص طور پر ترقی پذیر اور کم ترقی یافتہ ممالک میں۔

جناب تومر نے کسانوں کے مسائل کے ازالے اور کسانوں کو مقامی زبان میں فون پر زراعت اور اسکیموں کے بارے میں تکنیکی معلومات فراہم کرنے کے لیے ’کسان کال سینٹر‘ کی مثال دی۔ انہوں نے نیشنل ایگریکلچرل مارکیٹ (ای این اے ایم) کے بارے میں بھی تفصیل سے ذکر کیا  جو کسانوں کو ان کی پیداوار کی مناسب قیمت دلوانے میں  سہولت فراہم کرتی ہے۔

اختتامی اجلاس میں جناب تومر نے کہا کہ ہندوستان قدیم زمانے سے ہی فطرت کے ساتھ ہم آہنگی سے زندگی گزارنے کی اقدار کی وکالت کرتا رہا ہے اور اس نے ’مشن لائف‘ کا آغاز کیا ہے تاکہ انفرادی طریقوں کو عالمی کلائمیٹ ایکشن بیانیہ میں سامنے لایا جا سکے۔مشن لائف ایک ایسی اسکیم ہے جو سماجی نیٹ ورک کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہے جو آب و ہوا کے آس پاس کے سماجی اصولوں کو متاثر کرتی ہے۔ مشن افراد کا ایک عالمی نیٹ ورک بنانے اور پروان چڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے، یعنی ’پرو-پلینیٹ پیپل‘ (پی3)، جن کی رسائی ماحول دوست طرز زندگی اور اس کے فروغ کے لیے مشترکہ عزم ہے۔پی 3 کمیونٹی کے ذریعہ، مشن ایک خود انحصاری ماحولیاتی نظام بنانے اور اسے تقویت دینے کی کوشش کرتا ہے جو ماحول دوست ہو۔

جناب تومر نے کہا کہ جی-20 ممالک کو پائیدار نظام کے مختلف شعبوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں جی 20 ممالک اور دنیا بھر میں کاشتکاری کو آسان بنانے کے لیے ابھرتے ہوئے ڈیجیٹل ٹولز کا استعمال کرنا ہوگا۔ ہمیں ٹیکنالوجیز کا استعمال کرنا چاہیے اور چھوٹے اورحاشیہ پر رہنے والے کسانوں کو، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے کسانوں کو عالمی سپلائی چین میں حصہ لینے کے قابل بنانا چاہیے۔ باضابطہ سائنسی علم اور مقامی علمی نظام پر بنائے گئے حل کو بھی مربوط کرنے کی کوششیں کی جانی چاہئیں، تاکہ دیہی آبادیوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے محفوظ رکھا جا سکے اور پائیدار آمدنی حاصل کی جاسکے۔ اس طرح خاندانی سطح پر غربت میں کمی ہو گی اور اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ  کہیں بھی بھکمری نہیں ہے۔ جناب تومر نے کہا کہ اس وقت ہندوستان میں ہونے والی زیادہ تر ترقی پائیدار ترقی کے اہداف کے ایجنڈے میں جھلکتی ہے۔ ہندوستان ایس ڈی جیز کے لوکلائزیشن کو لاگو کرکے اپنے عالمی وعدوں کو پورا کرنے کی سمت کام کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم جناب مودی کی  اہل قیادت میں ملک نے گزشتہ 8 سالوں میں بہت ترقی کی ہے۔ جناب تومر نے تمام مندوبین سے درخواست کی کہ وہ  ہندوستان کا دورہ کریں اور ہونے والی مثبت تبدیلیوں کا مشاہدہ کریں۔

 

***********

 

ش ح ۔   ح ا ۔ م ش

U. No.10809



(Release ID: 1863299) Visitor Counter : 187


Read this release in: English , Hindi