زراعت اور کاشتکاروں کی فلاح و بہبود کی وزارت

وزیر زراعت، وزیر کھاد اور کرناٹک کے وزیر اعلیٰ کی موجودگی میں ریاستوں کے زراعت اور باغبانی کے وزراء کی قومی کانفرنس کا آغاز


گاؤں میں بیٹھے چھوٹے کسانوں کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کے لیے مل کر کام کریں – جناب تومر

مرکزی حکومت ملک بھر میں کھادوں کی آسانی سے تقسیم کے لیے پرعزم ہے – ڈاکٹر مانڈویہ

زراعت ہماری ثقافت ہے – جناب بومئی

Posted On: 14 JUL 2022 5:30PM by PIB Delhi

کورونا بحران کی وجہ سے اب دو سال بعد ریاستوں کے زراعت اور باغبانی کے وزراء کی قومی کانفرنس کا انعقاد بنگلور میں کیا گیا ہے۔ اس کا افتتاح آج زراعت اور کسانوں کی بہبود کے مرکزی وزیر جناب نریندر سنگھ تومر، کیمیکل اور کھاد اور صحت و کنبہ بہبود کے مرکزی وزیر ڈاکٹر من سکھ مانڈویہ اور کرناٹک کے وزیر اعلیٰ جناب بسوراج بومئی نے کیا۔ ملک میں زراعت اور کسانوں کی ترقی کو یقینی بنانے کی سمت میں اہم، یہ کانفرنس مرکزی وزارت زراعت اور کسانوں کی بہبود کے ذریعہ ’آزادی کے امرت مہوتسو‘ کے تحت منعقد کی گئی ہے، جس میں اہم گفت و شنید ہوگی۔

زراعت اور کسانوں کی بہبود کے مرکزی وزیر مملکت جناب کیلاش چودھری اور محترمہ شوبھا کرندلاجے، کیمیکل اور کھاد کے مرکزی وزیر مملکت جناب بھگونت کھوبا، کرناٹک کے وزیر زراعت جناب بی سی پاٹل سمیت زراعت اور باغبانی کے ریاستی وزراء، مرکزی زراعت سکریٹری جناب منوج آہوجا، فرٹیلائزر سکریٹری محترمہ آرتی آہوجا، ڈی اے آر ای کے سکریٹری اور ڈائرکٹر جنرل، انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ (آئی سی اے آر) ڈاکٹر ترلوچن موہاپاترا، کرناٹک کی چیف سکریٹری محترمہ وندیتا شرما اور مرکزی و ریاستی حکومتوں/ اداروں کے سینئر افسران نے شرکت کی۔

افتتاحی تقریب میں جناب تومر نے کہا کہ زراعت کے شعبے میں مرکزی اور ریاستی حکومتیں مل کر ہر ممکنہ کام کررہی ہیں، پھر بھی زراعت کے سامنے درپیش چیلنجوں کے پیش نظر، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم ان کو حل کریں، اس کے لیے پالیسیاں بنائیں اور ان کو صحیح طریقے سے نافذ کریں۔

انھوں نے کہا کہ ’’ہمارا ملک سب سے بڑی جمہوریت ہے، جہاں نظریاتی، لسانی، جغرافیائی اور موسمیاتی تنوع ہے، لیکن یہ بھارت کی طاقت ہے۔ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ زراعت کے تناظر میں اسے ریاستوں اور ملک کے مفاد میں کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔ زراعت ایک انتہائی حساس شعبہ ہے جو کروڑوں کسانوں سے جڑا ہوا ہے۔ کس طرح مرکز و ریاست مل کر گاؤں میں بیٹھے چھوٹے کسانوں کی زندگی میں تبدیلی لا سکتے ہیں، اس کے لیے بغیر کسی لالچ کے کام کرنا چاہیے۔ وزیر اعظم جناب مودی نے حال ہی میں کہا ہے کہ زمین پر جو کچھ ہو رہا ہے، اسے لیب تک بھی پہنچنا چاہیے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ابھی تک توجہ ’’لیب ٹو لینڈ‘‘ پر مرکوز تھی۔

 

جناب تومر نے کہا کہ ہمارے ملک کو کھاد کی درآمد پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور مرکزی حکومت کی طرف سے کسانوں کے مفاد میں سالانہ تقریباً 2.5 لاکھ کروڑ روپے کی سبسڈی دی جا رہی ہے، تاکہ بیرونی ممالک میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کا بوجھ ہمارے کسانوں پر نہ پڑے۔ لیکن یہ صورت حال ختم ہونی چاہئے۔

جناب تومر نے کہا کہ ’’لہذا کھاد کے شعبے میں بھی اب ہمیں آتم نربھر بننے کی ضرورت ہے، ’میک ان انڈیا‘ کی ضرورت ہے‘‘۔

نینو کھاد کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے جناب تومر نے کہا کہ اسے فروغ دینے میں ریاستوں کا کردار اہم ہے۔ کسانوں کی محنت، سائنس دانوں کی مہارت اور مرکز و ریاستوں کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں زراعت نے بہتر ترقی کی ہے اور یہ عمل مسلسل جاری ہے۔ انھوں نے ریاستوں کے وزراء سے کہا کہ وہ زراعت کی تیز رفتار ترقی کے لیے اپنے دور اقتدار میں بہترین کام کریں۔

 

اس موقع پر مرکزی وزیر زراعت جناب تومر نے ان متعدد موضوعات کا ذکر کیا جن پر اس دو روزہ کانفرنس میں تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ ان میں ڈیجیٹل زراعت، پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا، نیشنل ایگریکلچرل مارکیٹ (ای- این اے ایم) اور فارمر پروڈیوسر آرگنائزیشنز (ایف پی اوز)، پردھان منتری کسان سمان ندھی کو تکمیل کی سطح تک لے جانا، انٹرنیشنل ایئر آف نیوٹریشنل گرین (2023)، ایک لاکھ کروڑ روپے کا زرعی بنیادی ڈھانچہ جاتی فنڈ، قدرتی کاشتکاری کا فروغ، نیو ایج فرٹیلائزرس (نئے دور کی کھادیں) اور آئی سی اے آر کے ذریعہ تیار کردہ نئی ٹیکنالوجیز شامل ہیں۔

کانفرنس میں کیمیکل اور فرٹیلائزر کے مرکزی وزیر ڈاکٹر مانڈویہ نے کھاد کی عالمی صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بھارت کو اسے بڑی مقدار میں درآمد کرنا پڑتا ہے، خام مال بھی بہت مہنگا ہے، اس کے باوجود مرکزی حکومت ضرورت سے زیادہ سبسڈی دے رہی ہے۔ ڈی اے پی پر سبسڈی 2020-21 کے 512 روپے سے بڑھاکر 2022-23 کے خریف موسم کے لئے 2501 روپئے کردی گئی ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے بھارت میں ڈی اے پی کی قیمت سب سے کم ہے۔ ڈاکٹر مانڈویہ نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایات کے مطابق بڑھتی ہوئی لاگت کا بوجھ کسانوں پر نہیں ڈالا جا رہا ہے اور حکومت اس کی آسانی سے تقسیم کے لیے پرعزم ہے، لیکن اب نینو کھاد کے استعمال کو بڑھانے اور اسے ایک مہم کے طور پر ملک بھر میں اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ریاستوں سے تعاون کی درخواست کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کھاد کی دستیابی کے ضلع وار حسابات کو برقرار رکھا جانا چاہئے، تاکہ اس کا مناسب انتظام اور تقسیم کی جاسکے۔ اس بات کی بھی سخت نگرانی کی جائے کہ کسانوں کی کھاد کہیں بھی صنعتوں میں نہ جائے۔ انھوں نے کہا کہ جلد ہی ملک بھر میں ماڈل آؤٹ لیٹس کا آغاز کیا جائے گا۔

کرناٹک کے وزیر اعلیٰ جناب بومئی نے کہا کہ زراعت ہماری ثقافت ہے، زراعت ہمارے ملک کی معیشت کی بنیاد ہے اور بھارتی زراعت کا شعبہ غذائی تحفظ کو یقینی بنا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم جناب مودی کی قیادت میں زراعت کے شعبے میں گزشتہ 8 سالوں میں کئی اہم پالیسیاں بنائی گئی ہیں اور اس سمت میں ٹھوس کام کئے گئے ہیں اور 130 کروڑ سے زیادہ کی آبادی کے باوجود ہمارا ملک غذائی پیداوار کے معاملے میں خودکفیل ہوگیا ہے۔ جناب بومئی نے کہا کہ جو ملک غذائی اجناس کی پیداوار میں خودکفیل ہو وہ خود اعتمادی والا ملک بن جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر کسان زمین سے الگ ہو جائیں گے تو بہت مشکل ہو جائے گی، اس لیے کسانوں کو زمین سے منسلک رکھنا ہوگا اور انہیں مزید مضبوط کرنا ہوگا۔ کسانوں کو معاشی، سماجی اور تعلیمی ہر اعتبار سے مضبوط کرنا ہوگا۔

زراعت کے شعبے میں کرناٹک کی کامیابیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ریاست میں زراعت اور کسانوں کے مفاد میں کئی اسکیمیں نافذ کی گئی ہیں۔ زراعت میں سرمایہ کاری کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے انھوں نے زمین کی صحت کو بڑھانے اور اس کی زرخیزی میں اضافہ کرنے کے لیے کاشتکاری کے بہترین طور طریقوں کو اپنانے پر زور دیا۔ وزیر اعلیٰ نے تعاون کے لیے وزیر اعظم، وزیر زراعت، وزیر کھاد اور مرکز کا شکریہ ادا کیا۔

 

******

ش ح۔ م م۔ م ر

U-NO.7576

 



(Release ID: 1841628) Visitor Counter : 160