نوجوانوں کے امور اور کھیل کود کی وزارت
azadi ka amrit mahotsav

کشمیر میں ایک مولوی کیسے تھنگ -ٹا کو بچانے کے لیے آگےآئے؟

Posted On: 07 JUN 2022 5:03PM by PIB Delhi

محمد اقبال کو اس وقت ایک غیر معمولی چیلنج کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے نوجوانوں کو جموں و کشمیر میں تھنگ -ٹا کے دلچسپ کھیل کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی۔

اقبال، جو اب ریاست میں ایک معزز کوچ ہیں، نے کہا کہ جب ان کی ٹیم نے کھیلو انڈیا یوتھ گیمز میں حصہ لیا تھا ’’بیس سال پہلے، میں ایک پرائیویٹ ٹرینر تھا اور لڑکوں اور لڑکیوں کو مفت کلاسز کی پیشکش کر رہا تھا‘‘۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image001YOHJ.jpg

کے آئی جی وائی2021- میں جموں و کشمیر تھنگ -ٹا ٹیم کے کوچ محمد اقبال (بائیں) اور جموں و کشمیر تھنگ -ٹا ایسوسی ایشن کے کوچ اور جنرل سیکرٹری اعجاز احمد بھٹ

اس نے انکشاف کیا ’’مقامی لوگوں نے میری کلاسوں میں لڑکیوں کی شمولیت پر اعتراض کیا۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے بہت جارحانہ انداز ردعمل ظاہر کیا اور ہمارے سیشن میں خلل ڈالتے رہے‘‘ ۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image002FQF0.jpg

سری نگر سے تھنگ -ٹا ایتھلیٹ منازہ بلال

لیکن پھر، ایک مقامی مسجد کے سربراہ، جہاں اقبال رہتے تھے، ان کی مدد کے لیے آگےآئے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’مولوی صاحب اور کئی اسکولوں کے پرنسپلوں نے میرے کردار کی تصدیق کی اور مشتعل افراد کو یقین دلایا کہ میں بچوں کی اچھی دیکھ بھال کروں گا، اورآج اب میں یہاں ہوں‘‘۔

اس امرسے مدد ملی کہ لڑکیاں اس کھیل کو پسند کرتی تھیں اور مخالفت کے باوجود ہر ایک اس پر قائم رہنے کا عزم رکھتی تھی۔

برسوں کے دوران، ملی ٹینسی کے سائے میں، محمد اقبال نے ہزاروں بچوں کو تھینگ -ٹا کی طرف راغب کیا، انہیں شدت سے امید تھی کہ وہ انہیں قومی دھارے میں قائم رکھ سکیں گے ۔

اقبال نے فخر سے کہا ’’آج، ان میں سے کئی نوجوان مرد اور خواتین مقامی کوچ ہیں۔ لیکن اس وقت، صرف چند لوگوں کوہی ملک کے مختلف حصوں، یہاں تک کہ دنیا، کوریا سے دبئی تک ایران تک، چیمپین شپ میں شرکت کے لیے سفر کرنے کا موقع ملا تھا، جس سے دوسروں کی حوصلہ افزائی ہوئی‘‘۔

یہ سمجھنا مشکل ہے کہ تھینگ -ٹا ، شمال مشرقی ریاست منی پور میں اپنی ابتدا کے ساتھ، میدانی علاقوں، پہاڑیوں اور وادیوں کو عبور کرتے ہوئے جموں و کشمیر تک کیسےجاپہنچا، جو ہندوستان کے سب سے زیادہ شمالی سرے پرواقع ہے۔

اقبال نے کہا، ’’یہ ایک گھریلو کھیل ہے، ایک ہندوستانی مارشل آرٹ کی ایک شکل ہے اور ہم نے ابھی اس کھیل کو شروع کیا ہے‘‘۔

اقبال نے مزیدکہا۔ ’’میں اس وقت صرف ایک اسکول کا لڑکا تھا اور فوری طور پر اس کی طرف کھینچا چلاگیا‘‘۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس وقت آس پاسکےعلاقے میں ایک مقامی ٹورنامنٹ، تھینگ -ٹا کے پھیلاؤ کا محرک بناتھا۔ ’’اس کا اہتمام ہم میں سے چند لوگوں کو تکنیکی چیزوں کو سمجھنے میں مدد کرنے کے لیے کیا گیا تھا اور میں نے جلد ہی خود کو 1999 میں نیشنل گیمز کے لیے منی پور میں پایا‘‘۔

کچھ سال بعد، سمجھدار اور بردبار، جب وہ کوچ بن گئے تو انہیں منی پوری تھینگ -ٹا فیڈریشن کی طرف سے بنیادی اور جدید، دونوں طرح کی تربیت حاصل کرنے کی دعوت ملی۔

آج سری نگر کے مرکز میں 20 سے زیادہ تھینگ -ٹا کلب کھل چکے ہیں۔ ان کے بہت سے سابق شاگرد وہاں نوجوانوں کو تربیت دے رہے ہیں۔

جموں وکشمیر تھینگ -ٹا ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری اعجاز احمد بھٹ کہتے ہیں ’’یہ اب کھیلوں کی روایت کی ایک شکل اختیار کر چکا ہے اور خاندان اپنے بچوں کو تربیت کے لیے ہمارے پاس بھیج کر خوش ہیں‘‘۔

اقبال نے فخر کے احساس کے ساتھ کہا، ’’اب جب کہ لڑکیاں اپنے دفاع کے لیے مارشل آرٹس سیکھنا چاہتی ہیں، تو ان میں سےبہت سی ہماری کلاسوں میں شمولیت اختیار کر لیتی ہیں‘‘۔

*****

U.No.6213

(ش ح - اع - ر ا)   


(Release ID: 1831949) Visitor Counter : 191