وزیراعظم کا دفتر

تھامس اور اوبر کپ کے لیے بھارتی بیڈمنٹن ٹیم کے ساتھ وزیراعظم کی گفتگو کا متن

Posted On: 22 MAY 2022 4:04PM by PIB Delhi

نئی دہلی،22 مئی ، 2022/

وزیراعظم  : ہاں شری کانت بتایئے!

شریکانت : جناب، سب سے پہلے بہت بہت شکریہ جناب، آپ نے اپنا اتنے قیمتی وقت سے ہم کو ٹائم لے کر  ہمارے میچ کے فوراً بعد آپ نے کال کر کے ہم سب سے بات کی ہے جناب اور میں بڑے فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ دنیا کا کوئی اور کھلاڑی اس طرح  سے حوصلہ افزائی نہیں کر سکتا جناب، صرف ہمیں جیت کے فوراً بعد آپ سے بات کرنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے جناب۔

وزیراعظم  : اچھا شری کانت یہ بتاؤ، ویسے بیڈمنٹن اور کپتان لوگوں کےدل میں جلدی بیٹھتا نہیں ہے، اب تمہیں کپتان بنایا گیا، اب اتنی بڑی ٹیم، اتنا بڑا چیلنج، کیا لگا آپ کو اس ذمہ داری کو جب آپ کے سامنے آئی  اور اتنا بڑا مقصد تھا تو کیا لگا آپ کو؟

شری کانت : جناب بس اتنا ہی لگا کہ سب اپنا – اپنا بہت اچھا کھیل رہے ہیں جناب۔ بس ٹیم ایوینٹ میں سب کو ایک ساتھ لے کے آنا ہے اور ہمیں سب کو ایک ہو کر کھیلنا ہے اور آخر تک لڑنا ہے جناب۔ اتنا بس ایک چھوٹی – چھوٹی چیز ہے جناب جو ہم سارے کھلاڑی مل کر بات چیت  کر کے، بس یہ کرنا پڑا جناب بس مجھے کپتان ہو کر اتنا بڑا کچھ کرنا نہیں پڑا جناب کیونکہ سب اپنا – اپنا پہلے ہی بہت اچھا کھیل رہے ہیں جناب۔

وزیراعظم : نہیں ، نہیں! سب نے کھیلا تو ہے لیکن یہ معمولی کام نہیں تھا جی۔ آپ بھلے ہی آسانی سے بتا رہے ہیں کیونکہ ایک مرحلہ آنے کے بعد جب لگ رہا ہے کہ سامنے ہے معاملہ، جب آخری اوور میں کرکٹ میں کپتان کی بڑی سب سے زیادہ پرکھ ہو جاتی ہے تو آپ پر دباؤ تو رہا ہوگا۔

شری کانت : جناب مطلب بہت ایک خاصیت  ہے مجھے فائنل میں وہ پورا میچ آخری فیصلہ کن جیتنے والا میچ، میں اصل میں کھیل پایا جناب جو میچ بہت اہم تھا بھارتی کھلاڑی کےلیے فائنل میں وہ در اصل مجھے ایک خاصیت کےساتھ  میں سوچتا ہوں جناب اور بھارت کےلیے ایک موقع تھا میرے لیے اور میں نے بس یہ سوچا کہ میں نے پوری قوت لگا کے میں اپنا سب سے اچھا بیڈمنٹ کھیلنا چاہتا تھا اور میں بس کورٹ میں، جس وقت میں کورٹ میں اترا صرف یہ سوچا کہ مجھے  100 فیصد کھیلنا ہے اور بہترین بیڈمنٹن کھیلنا ہے جناب۔

وزیراعظم : اچھا آپ عالمی درجے بندی میں نمبر 1 رہے ہیں اور ابھی آپ نے تھامس کپ میں سونے کا تمغہ جیتا ہے، ویسے پوچھنا تو نہیں چاہیے کیونکہ ہر کامیابی کی اپنی ایک خاصیت ہوتی ہے، پھر بھی جیسے صحافیوں کی عادت ہوتی ہے ویسا سوال میں اگر پوچھوں کہ ان دونوں میں آپ کس چیز کو زیادہ اہم مانتے ہیں؟

شری کانت: جناب یہ دونوں میرے خواب ہیں جناب کہ عالمی نمبر 1 بننا ہے کیونکہ یہ ہر کھلاڑی کا ایک خواب ہوتا ہے جناب کہ دنیا میں بہتر بننا ہے اور تھامس کپ ایسا ٹورنامنٹ ہے جو ٹیم میں 10 لوگ مل کر ایک ٹیم جیسے بن کر کھیلنا ہے۔ یہ ایک خواب ہے جناب کیونکہ اس کے پہلے بھارت تھامس کپ میں کبھی ہم نے تمغے بھی نہیں جیتے ہیں جناب اور ہم کو اس سال یہ ایک بڑا موقع ملا تھا کیونکہ ہم سب اچھا کھیل رہے تھے۔ تو یہ دونوں خواب ہیں جناب پورا ہوا جناب میرے لیے تو بہت اچھا لگا جناب۔

وزیراعظم : یہ بات صحیح ہے کہ پہلے تھامس کپ میں ہم اتنے پیچھے رہتے تھے کہ ملک میں اس طرح کے ٹورنامنٹ کا ذکر بھی نہیں ہوتا تھا۔ لوگوں کو معلوم بھی نہیں ہوتا تھا کہ کوئی اتنا بڑا ٹورنامنت ہو رہا ہے اور اس لیے جب لوگوں کو خبر پہنچی تو میں نے آپ کو فون پر بھی کہا تھا کہ شاید بھارت میں 4 سے 6 گھنٹے لگیں گے کہ آپ لوگوں نے کیا حاصل کیا ہے۔ اچھا شری کانت میں پورے ملک کی طرف سے آپ کو اور آپ کی ٹیم کو بہت مبارک باد دیتا ہوں کیونکہ دہائیوں بعد آپ نے بھارت کا جھنڈا گاڑا ہے یہ ، یہ کوئی چھوٹا واقعہ نہیں تھا جی۔

شری کانت : آپ کا شکریہ جناب!

وزیراعظم  : ایک کھلاڑی کے طور پر اور اس میں بھی ایک کپتان کے طور پر آخری لمحہ میں کتنا دباؤ رہا ہوگا، اس کا میں اچھی طرح اندازہ لگا سکتا ہوں لیکن بڑے صبر کے ساتھ پوری ٹیم کو ساتھ لے کر آپ نے جو ملک کو فخر حاصل کرایا ہے، میں آپ کو پھر سے ایک بار ٹیلی فون پر تو مبارک باد دی تھی لیکن میں پھر سے ایک بار رو بہ رومبارک باد پیش کر کے خود خوشی حاصل کر رہا ہوں۔

شری کانت : بہت بہت شکریہ جناب!

وزیراعظم  : ذرا کھیل کے بارے میں بتایئے۔ اپنا تجربہ بتایئے۔

ساتوک : ضرور! گذشتہ 10 دن بہت یادگار تھا جناب زندگی میں۔ جیسے ہم نے آن کورٹ میں کھیلا،  آف کورٹ میں بھی بہت اچھی سپورٹ کر رہی تھی پوری ٹیم، بہت یادگار تھا، بہت سپورٹ ملا   سپورٹ اسٹاف سے اور اِدھر سے بھارت سے بھی بہت سپورٹ ملا تھا اور بہت اچھا لگا جناب گذشتہ دنوں۔ اب بھی ہم لوگ اُدھر ہی تھائی لینڈ میں ہی ہیں اب بھی ہم۔ جسم ادھر ہے لیکن دماغ اُدھر ہی ہے وہ لاسٹ پوائنٹ میں جیسے شری کانت بھائی جی تھا آنکھ پر ہی ہے جناب اب بھی تو ہم اس لمحے سے  ابھی تک لطف اندوز ہیں جناب۔

وزیراعظم : رات میں کپتان ڈانٹتا ہوا نظر آتا  ہوگا۔

ساتوک: جناب فائنلس کے بعد سب لوگ میڈل پہن کر ہی سویا جناب۔ کوئی بھی اتارا نہیں۔

وزیراعظم : میں نے کسی کا ٹوئیٹ دیکھا، شاید پرنیہ کا دیکھا۔ پرنیہ وہ لے کر بیٹھا ہے اور کہہ رہا ہے مجھے نیند نہیں آرہی ہے۔ اچھا کھیلنے کے بعد آپ ویڈیو دیکھ کر کے کیا کمی رہی وغیرہ تصدیق کر لیتے ہیں دونوں مل کر۔

ساتوک: ہاں جناب کوچ کے ساتھ بیٹھ کے میچ کےپہلے کل کس کے ساتھ کھیل رہےہیں ان کا گیم پورا تجزیہ کر کے جاتےہیں جناب۔

وزیراعظم  : چلیے ساتوک اپ کی کامیابی نے نہ صرف یہ ثابت کیا ہے کہ آپ کے کوچ صحیح تھے بلکہ یہ بھی ثابت کیا ہے کہ آپ خود میں ایک بہت اچھے کھلاڑی ہیں اور اچھا کھلاڑی وہ ہے جو اپنے آپ کو کھیل کی ضرورت کے حساب سے تیار کرتا ہے، اس میں ڈھلتا ہے، تبدیلی ہے تو قبول کرتا ہے، تبھی تو وہ حاصل کر سکتا ہے اور آپ نے اس تبدیلی کو قبول کیا ہے۔ اپنے آپ کو بہتر کرنے کےلیے جو بھی ضرورت تھی اور آج اس کا نتیجہ ہے کہ ملک کو فخر ہو رہا ہے۔ میری طرف سے آپ کو بہت مبارکباد ۔ آپ کو آگے بہت کچھ کرنا  ہے، رکنا نہیں ہے۔ اتنی ہی قوت کے ساتھ جٹے رہیے، بہت بہت مبارکباد۔

اناؤنسر : چراغ شیٹی۔

وزیراعظم  : دیکھو چراغ ساتوک نے تمہاری تعریف بہت کر دی ہے۔

چراغ شیٹی : جناب نمستے ، جناب پہلی بات! میں سوچتا ہوں جناب مجھے اب بھی یاد ہے پچھلے سال ہم آئے تھے یہاں پر۔ آپ نے ہم کو اولمپکس کے بعد بلایا تھا، 120 ایتھلیٹس تھے اور سبھی کو آپ نے اپنے گھر پر بلایا تھا اور جو میڈل نہیں جیتے تھے وہ بھی آئے تھے یہاں پر، تو ہمیں کافی افسوس تھا تبھی کہ ہم تمغے  جیت نہیں پائے اپنے ملک کے لیے لیکن ابھی اس بار جب ہم تھامس کپ گئے تھے، ہمیں جنون تھا  یا  ایک جذبہ تھا ، معلوم نہیں کیا تھا کہ کچھ تو کر کے ایک تمغہ تو ضرور لے کے آنا ہے اور شاید ہی ہم نے سوچا ہوگا کہ گولڈ ہوگا، لیکن میڈل تو سوچا ہی تھا تو میں سوچتا ہوں اس سے بڑی خوشی ہم اپنے ملک کے لیے کچھ نہیں دے سکتے، وہ ہی ایک چیز کہنا چاہتا ہوں میں جناب۔

وزیراعظم  : دیکھیے آپ لوگ آئے تھے اس وقت، ان میں سے میں دیکھ رہا تھا کچھ لوگوں کے چہرے بہت لٹکے ہوئے تھے اور آ پ کے ذہن  میں یہ تھا کہ دیکھیے ہم میڈل کے بغیر آگئے۔ لیکن اس دن بھی میں نے کہا تھا کہ آپ کا وہاں پہنچنا وہ بھی ایک میڈل ہے، میں نے اس دن کہا تھا اور آج آپ نے ثابت کر دیا کہ ایک شکست شکست نہیں ہوتی ہے، زندگی میں جیت کے لیے بس حوصلہ چاہیے، جذبہ چاہیے، فتح قدم چومنے کے لیے کبھی کبھی سامنے آکر  کھڑی ہو جاتی ہے اور آ پ نے کر کے دکھایا ہے۔ اچھا چراغ میں نے ساتھی کو تو پوچھا پہلے اور اس نے بتا بھی دیا لیکن آپ دونوں کی جوڑی اور مجھے معلوم ہے کہ ٹوکیو اولمپک  میں آپ کے ذہن میں ایک مایوسی تھی لیکن آج آپ نے اس کی سود سمیت بھرپائی کر دی۔ ملک کی شان کو اور بڑھا دیا اور ایک ٹیم کے طور پر آپ لوگوں نے کوشش کی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اپنے آپ میں لیکن جب کیونکہ اولمپک میں مایوسی کا دن کوئی زیادہ دن نہیں گئے، اتنے کم وقت میں وہ کون سا جذبہ تھا کہ آپ کامیابی حاصل کر کے پھر سے لوٹے ہیں، کیا وجہ ہے؟

چراغ شیٹی : جناب بنیادی طور پر یہ تھا کہ ہمیں اولمپکس میں جیسے میں نے بولا کہ ہمیں کافی افسوس تھا کیونکہ جس نے ہم کو ، ہم نے جس کو ہرایا وہیں آخر کار جا کے گولڈ میڈل جیتا اور ہم سے ہی ہارے تھے وہ ایک ہی گیم ، باقی کسی سے ہارے نہیں تھے اس کے بعد۔ تو اس بار کچھ الٹا ہوا، ہم ان سے ہارے پری کوارٹر فائنل گروپ  مرحلے میں اور ہم جاکر وہاں پر گولڈ میڈل جیت گئے۔ تو وہ ایک چیز کافی اچھی ہوئی۔ وہ قسمت کا کھیل کہیے یا کچھ کہیے لیکن مطلب ہمیں لفظی طور پر ایک جوش آگیا کہ کچھ نہ کچھ تو کرنا ہےاور یہ صرف میرے اندر  نہیں، ہم 10 لوگ جو یہ بیٹھے ہیں یہاں پر کتنا بھی غم ہو کچھ بھی ہو ہم ایک ساتھ تھے اور مجھے لگتا ہے کہ 10 لوگ ہماری بھارت کی آبادی کو حقیقت میں دکھاتا ہے کہ کچھ بھی ہو ہم لوگ واپس لڑیں گے۔

وزیراعظم  : واہ! دیکھیے چراغ آپ کو اور پوری ٹیم کو میں کہوں گا اور بھی بہت میڈل لانے ہیں۔ اور بہت کھیلنا ہے، بہت کھِلنا بھی ہے اور ملک کو کھیل کی دنیا میں کھینچ کر لے بھی جانا ہے کیونکہ اب بھارت پیچھے نہیں رہ سکتا ہے اور میں چاہوں گا کہ آپ لوگ جو ایک کے بعد ایک کامیابی حاصل کر رہے ہیں ملک کی آنے والی نسل کو کھیل کے لیے راغب کر رہے ہیں آپ اور یہ اپنے آپ میں، میں سمجھتا ہوں کہ بہت بڑی بات ہے تو میری طرف سے آپ کو بہت مبارکباد ہے دوست۔

چراغ شیٹی : آپ کا بہت بہت شکریہ جناب۔

اناؤنسر : لکشیہ سین۔

وزیراعظم  : چلیے لکشیہ کا میں پہلے تو شکریہ ادا کرتا ہوں کیونکہ میں نے اس کو ٹیلی فون پر کہا تھا مبارکباد دیتے وقت کہ بھئی میں تیرے سے بال مٹھائی کھاؤں گا اور وہ آج لے کر کے آیا، تو اس نے یاد رکھا۔ ہاں لکشیہ بتایئے۔

لکشیہ سین : جی نمستے جناب! میں جیسے میں یوتھ اولمپک میں جب میں گولڈ میڈل جیتا تھا تب میں آپ سے ملا تھا اور آج دوسری بار مل رہا ہوں تو میں یہی کہنا چاہوں گا کہ میں ایسے ہی اور تب جب آپ ملتے ہیں تو کافی ہم لوگ حوصلہ افزائی محسوس کرتے ہیں۔ وہ فون کال کے بعد بھی اور جب آپ جب بھی  ملتے ہیں تو میں یہی چاہوں گا کہ میں ایسے ہی بھارت کے لیے میڈل جیتتا رہوں اور آپ سے ملتا رہوں اور بال مٹھائی لاتا رہوں۔

وزیراعظم  : اچھا لکشیہ مجھے بتایا گیا کہ تمہیں فوڈ پوائزننگ ہو گئی  تھی وہاں؟

لکشیہ سین : جی جناب! ہم جب پہنچے تھے جس دن اس دن مجھے فوڈ پوائزننگ ہوئی تھی  تو میں دو دن تک  نہیں کھیل پایا تھا لیکن پھر اس کےبعد میں آہستہ آہستہ جب گروپ مرحلے  کے میچز شروع ہوئے تب تک تھوڑا بہتر محسوس کر نے لگا تھا تو پھر ایک میچ کھیلا تھا پھر ایک میچ میں پھر سے آرام کیا تھا فوڈ پوائزننگ کی وجہ سے۔

وزیراعظم  : یہ کچھ بھی کھانے کی عادت ہے کہ کیا ہے؟

لکشیہ سین : نہیں جناب! وہ ایئرپورٹ پر کچھ غلط کھا لیا تھا اس دن تو شاید اس کی وجہ سے تھوڑا پیٹ خراب ہو گیا تھا لیکن باقی کے جب ٹورنامنٹ آگے بڑھا تو میں اور دن بھر مطلب ایک کے بعد ایک دن بہتر محسوس کرتا جا رہا تھا۔

وزیراعظم  : تو آج ملک میں چھوٹے چھوٹے بچوں کا بھی دل چاہتا ہے کہ ہمیں جانا ہے۔ تو 8 سے 10 سال کے بچوں کےلیے تمہارا کیا پیغام رہے گا؟

لکشیہ سین : جی، جیسے کہ ومل سر نے کہا کہ میں کافی شرارتی تھا اور کافی شرارت کرتا تھا، تو میں خود سے تو یہ کہنا چاہوں گا کہ میں اگر تھوڑا کم شرارت کرتا اور کھیلنے پر توجہ دیتا تو زیادہ اچھا تھا لیکن باقی لوگوں کو میں یہی کہنا چاہوں گا کہ جو بھی کام کریں دل سے کریں اور اپنی پوری توجہ دے کر کام کریں۔

وزیراعظم  : فوڈ پوائزننگ کے بعد جسمانی تکلیف تو ہوئی ہوگی لیکن ذہنی تکلیف تمہیں بہت ہوئی ہوگی۔ کیونکہ کھیل چلتا ہو، جسم ساتھ نہ دیتا ہو، اس وقت تم نے جو توازن قائم کیا ہوگا نا، کبھی آرام سے سوچنا کہ وہ کون سی طاقت تھی ، وہ کون سی ٹریننگ تھی کہ فوڈ پوائزننگ کی وجہ سے ، جسمانی کمزوری کے باوجود کھیل تمہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔ اور تم فوڈ پوائزننگ کی حالت کو بھی پار کر  کے آئے ۔ اس لمحے کو ایک بار پھر یاد کرنا۔ تمہاری بہت بڑی وہ طاقت ہوگی جو تم نے کیا ہوگا۔ دس لوگوں نے کہا ہوگا، فکر مت کرو، سب ہوا ہوگا، لیکن تمہارے اندر بھی ایک طاقت ہوگی۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ، اور دوسرا یہ تمہارا جو نٹ کھٹ پن ہے نہ چھوڑو مت اس کو، وہ تمہاری زندگی کی ایک طاقت بھی ہے۔ اسے جیو، مستی سے جیو۔ چلیے، بہت بہت مبارکباد۔

جی پرنیے، بتایئے میں نے صحیح کہا نہ، تمہارا ہی ٹوئیٹ تھا نا۔

پرنیے : جی جناب،  میرا ہی ٹوئیٹ تھا، جناب۔ جناب یہ ہم سب کے لیے ایک بہت ہی خوشی کا موقع تھا کیونکہ ہم نے 73 سال کے بعد تھامس کپ جیتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بھی زیادہ خوشی کا لمحہ کیونکہ ہم نے آزادی کے 75 سال پورے ہونے کے موقعے پر اپنے ملک کے لیے یہ جیتا ہے۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ ملک کےلیے ایک عظیم تحفہ ہے۔ اور مجھے بہت خوشی ہے۔

وزیر اعظم : اچھا پرنئے، ملیشیا، ڈینمارک، ایسی ایسی ٹیمیں ہیں۔ اور اس کے خراب کوارٹر فائنل اور سیمی فائنل میں فیصلہ کن میچوں میں جیتنے کا دارومدار اور میں سمجھتا ہوں کہ اُس وقت سب کی نظر یں پرنئے پر ہوں گی، کیا رہا ہوگا۔ اس دباؤ میں کیسے اپنے آپ کو سنبھالا اور کیسے جارہانہ نتیجہ دیا۔

پرنئے : جناب ، کافی زیادہ دباؤ تھا، جناب اس دن۔ خاص طور پر کوارٹر فائنل کے دن۔ کیونکہ مجھے پتا تھا کہ اگر میں یہ میچ ہار جاؤنگا تو ہم کو تمغہ نہیں ملے گا اور لوگوں کو بغیر تمغے کے واپس آنا پڑے گا۔ لیکن وہ جو ٹیم کا جذبہ تھا جناب، پورے ٹورنامنٹ میں اور سبھی کا جو جوش تھا کہ یہ کچھ بھی کر کے ہم کو تمغہ لے کر جانا ہی ہے، تو شروع کے دن سے کافی توانائی دے رہا تھا، پوری ٹیم کو اور خاص طور پر کورٹ کے اندر جانے کے بعد دس منٹ کے بعد مجھے لگا کہ آج تو کچھ بھی کر کے جیتنا ہی ہے۔ اور میرا خیال ہے سیمی فائنل میں بھی یہی صورتحال تھی، جناب۔ بہت زیادہ ہی دباؤ تھا کیونکہ مجھے پتا تھا کہ اگر ہم لوگ فائنلس میں پہنچ گئے تو ہم لوگ ایک گولڈ لے کر آسکتے ہیں۔ تو مجھے وہ جیتنا ہی تھا جناب۔ اور پوری ٹیم کےلیے جناب شکریہ۔ کیونکہ وہ لوگ ادھر تھے مدد کے لیے  اور بہت زیادہ ہی توانائی دی ان لوگوں نے۔

وزیراعظم : دیکھیے پرنئے، میں دیکھ رہا ہوں آپ ایک جنگجو ہیں۔ کھیل سے بھی زیادہ آپ اندر جو ایک فتح کا مجاز ہے نہ وہ سب سے بڑی تمہاری طاقت ہے۔ اور شاید جو تم جسم کی پرواہ کیے بغیر چوٹ لگ جائے، ہو جائے، جو بھی ہو کر دونگا تو اسی کا نتیجہ ہے کہ اندر ایک بہت بڑی توانائی بھی ہے اور جذبہ بھی ہے۔ میری طرف سے آپ کو بہت بہت نیک خواہشات، بہت بہت مبارکباد۔

پرنئے : آپ کا بہت بہت شکریہ جناب !

اناؤنسر : انّنتی ہڈا۔

وزیر اعظم : کیا اننتی، سب سے چھوٹی ہیں۔

اننتی : گوڈ ایویننگ جناب۔

وزیراعظم : بتایئے اننتی۔

اننتی : جناب، سب سے پہلے کیونکہ میں یہاں موجود ہوں اور آج میں بہت خوش ہوں۔ اور جناب مجھے ایک چیز بہت تحریک دے رہی ہے کہ آپ کبھی بھی جو میڈلسٹ ہیں اور جو نان میڈیلسٹ ہیں ان کے درمیان  تفریک نہیں کرتے۔

وزیر اعظم : واہ جی واہ! اچھا اتنی چھوٹی عمر میں اتنی بڑی سینئر لوگوں کی ٹیم میں جانا اور تمہاری ٹیم میں تو اولمپک فاتح بھی رہے ہیں۔ تو کیا  آپ کے دل کو کیا لگ رہا تھا۔ ایسے ہی دب جاتی تھیں، نہیں نہیں میں بھی برابر ہوں، کیا لگ رہا تھا۔

اننتی : جناب، اس ٹورنامنٹ میں بہت کچھ تجربہ ملا اور بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملا۔ اور لڑکوں کی تیم جیتی اور اچھا محسوس بھی ہوا اور یہ بھی سوچا کہ اگلی بار لڑکیوں کی ٹیم کو بھی جیتنا ہے اور تمغہ لانا ہے۔

وزیراعظم : اچھا یہ مجھے بتاؤ یہ ہریانہ کی مٹی میں ایسا کیا ہے جو ایک سے بڑھ کر ایک کھلاڑی نکل رہے ہیں۔

اننتی : جناب، پہلی بات تو دودھ – دہی کا کھانا۔

وزیراعظم : اننتی، یہ میرا اور پورے ملک کا یقین ہے کہ آپ اپنے نام کو ضرور ثابت کریں گی۔  اتنی چھوٹی عمر میں تمہیں موقعہ ملا ہے ، آپ اس کو شروعات مانیں گی۔ بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔ کبھی بھی ، چلو یہاں ہو آئیں، یہ جیت کر آئیں، ایسا ذہن میں کبھی جیت کو داخل ہی ہونے مت دینا۔ بہت کچھ کرنا باقی ہے کیونکہ تمہیں ، تمہارے پاس ایک طویل وقت ہے۔ اور بہت چھوٹی عمر میں تمہیں تجربہ حاصل ہوا ہے۔اور اس لیے اس کامیابی کو پچانا اور آگے پہنچانا ، یہ دونوں چیزیں تمہارے لیے بہت کام آئیں گی۔ اور مجھے پختہ یقین ہے کہ تم اسے کر کے رہوگی۔ میری طرف سے تمہیں بہت بہت نیک خواہشات ہیں۔ بہت بہت مبارکباد۔

اننتی : شکریہ ، جناب۔

جے ججا : گوڈ ایویننگ، جناب۔

وزیراعظم : جے ججا۔

جے ججا : ایک نوجوان کھلاڑی کے طور پر بھارت کے لیے کھیلنا ایک اعزاز ہے۔ آنے والے برسوں میں میں بھارت کا سر فخر سے بلند کروں گا اور اپنے ملک کے لیے مزید تمغے لاؤں گا۔

وزیراعظم : فیملی اسپورٹ کیسا رہتا ہے۔

جے ججا : جناب، پاپا پہلے فزیکل ایجوکیشن ٹیچر تھے تو وہ پہلے ہی کھیلوں میں تھے۔ تو وہ تعاون دیں گے  اچھی طرح  بیڈمنٹن کھیلنے کے لیے ، پہلے گھر پر کورٹ، انہوں نے یہاں ایک کورٹ بنایا تھا، پھر گھر پر کھیلایا۔ اس کے بعد نیشنل ٹورنامنٹ اسٹیٹ کے طور پر میڈل آیا۔ پھر ایسی امید ہو گئی کہ ہم آسکتے ہیں بھارتی ٹیم میں، ایسا ہے۔

وزیراعظم : تو آپ کے کنبے میں سب کو اطمینان ہے۔

جے ججا : جہاں جناب، بہت ہے جناب۔

وزیر اعظم : والد صاحب تمہارے لیے جو محنت کرتے تھے، اب وہ مطمئن ہیں۔

جے ججا : جی۔

وزیراعظم : واہ، دیکھیے  ججا، آپ لوگوں نے جس طرح اوبر کپ میں کھیلا، میں پکا مانتا ہوں ملک اس سے بہت ہی فخر محسوس کر رہا ہے۔ اور آپ نے ، نشانے پر بالکل آپ لوگ ٹکے رہے۔ ٹھیک ہے، آج مناچاہا نتیجہ نہیں ملا ہوگا، لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ آج جو چاہتے ہیں ویسا نتیجہ ملنے والا ہے اور آپ ہی کی ٹیم کو ملنے والا ہے۔ کوئی ار ٹیم آئے گی تو نتیجہ لائے گی، ایسا ہیں کیونکہ آپ نے ایک اچھی شروعات کی ہے۔ آپ نے ملک کی نوجوان نسل کو نئی تحریک ، نئی توانائی سے بھر دیا ہے، اور یہ پچھلی ساتھ دہائیوں میں یعنی سوا سو کروڑ کا ملک ، اتنا انتظار کرنا پڑا۔

سات دہائیوں میں ہمارے کھلاڑیوں کی نہ جانے کتنی نسلیں۔ جس نے بھی بیڈمنٹن کو سمجھا ہوگا اس نے خواب دیکھا ہوگا۔ وہ خواب آپ نے پورا کیا ہے، چھوٹا نہیں کہیں گے اسے۔ اور جب فائنل مقابلے میں میں نے ججا سے بات کی تھی وہاں اور میں محسوس کر رہا تھا کہ آپ کو اندازہ ہی نہیں ہے کہ آپ نے کتنا بڑا کام کیا ہے۔ اور اس لیے میں بار بار کہتا ہوں کہ واقعی آپ نے بہت بڑا کام کیا ہے اور اب تو آپ بھی محسوس کرتے ہوں گے کہ ہاں یار، کچھ کر کے آئے ہیں۔

آپ جن کھیلوں سے وابستہ ہیں اس میں جب اتنی بڑی کامیابی ملتی ہے تب بھارت کا جو کھیلوں کا نظام ہے ، کھیلوں کے لیے جو ثقافت میں ایک نئے ولولے کی ضرورت ہے ، جو ایک خود اعتمادی کی ضروری ہے، جو اچھے اچھے کوچ نہیں کر سکتے، بڑے بڑے لیڈروں کی  ہونہار تقریریں بھی نہیں کر سکتیں، وہ کام آپ کی اس کامیابی نے کر دکھایا ہے۔

یہ ٹھیک ہے اوبر کپ میں تھوڑا ابھی اور کرنا باقی ہے، انتظار کریں گے، لیکن جیتنے کا انتظام بھی کریں گے۔ اور مجھے یقین ہے کہ انتظار ہمیں لمبا نہیں کرنا پڑے  گا کیونکہ جو آپ لوگ جا کر کے آئیں ہیں نہ آپ کی آنکھوں میں مجھے وہ جذبہ نظر آرہا ہے اور ہماری خواتین کی ٹیم نے بار بار یہ دکھایا ہے کہ وہ کتنے اول درجے کے کھلاڑی ہیں، کتنے اول درجے کے ایتھلیٹ ہیں۔ اور میں یہ بالکل صاف دیکھ رہا ہوں دوستو، صرف وقت کی بات ہے، اس بار نہیں تو اگلی بار صحیح۔ آپ ہی لوگ فتح یاب ہوکر آنے والے ہیں۔

اور جیسا آپ سب نے کہا کہ آزادی کا امرت مہوتسو چل رہ ہے ، آزادی کے 75 سال ہو رہے ہیں اور اپنی آنکھوں کے سامنے کھیل کی دنیا میں بھارت کا یہ عروج کھیل کے میدان سے نکلا ہوا نوجوان دنیا کے اسٹیج پر طاقت دکھا رہا ہے، تو بھارت کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ کامیابی کی اس بلندی کو چھونا ہر ہندوستانی کو فخر محسوس کراتا ہے۔ اور  اس لیے ایک نئی خود اعتمادی کے ساتھ بھارت کا مجاز ہے – ہاں میں اسے کر سکتا ہوں – یہ مجاز ہے۔ اور جیسے پرنئے نے بتایا تھا، تو میں نے دل میں طے کر لیا تھا ، اس بار تو ہارنا نہیں، پیچھے ہٹنا نہیں ہے۔

یہ جو – ہاں، ہم اسے کر سکتے ہیں جو ہے نا، یہ بھارت میں ایک نئی طاقت بن چکی ہے۔ اور آپ اس کی نمائندگی  کرتے رہتے ہیں۔  اچھا سامنے حریف کتنا ہی طاقتور ہو، مقابلہ کرنے والا ہمارا کتنا ہی طاقتور ہو ، وہ کون ہے ، اس کا ریکارڈ کیا ہے، اس سے زیادہ اہم آج کے بھارت کے لیے خود اپنی کارکردگی ہے، میں یہ مانتا ہوں۔ ہمیں کہاں پہنچنا ہے ، بس یہی جذبہ لے کر ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہے۔

لیکن ساتھیو، آپ سبھی کو ایک بات اوریاد رکھنی ہے اب آپ سبھی سے ملک کی امیدیں بڑھ گئی ہیں۔ ملک آپ کی طرف ذرا زیادہ امیدوں سے دیکھے گا۔ پچھلے کچھ برسوں میں تقریباً ہر کھیل میں بھارت کے نوجوانوں کی عمدہ کارکردگی رہی ہے۔ اس میں بھی گذشتہ سات آٹھ سال میں نئے ریکارڈ بنائے ہیں۔ آج میں صبح ڈیف اولمپکس کے لوگوں سے ملا۔ اتنی بڑھیاں کارکردگی کر کے آئے ہیں ہمارے بچے۔  یعنی بالکل ذہن کو اطمینان ہوتا ہے، مزہ آتا ہے۔

آج کھیل کو لے کر پرانے خیالات بھی بدل رہے ہیں، جیسا آپ سب نے کہا ہے ۔ والدین بھی ہمیں تحریک دے رہے ہیں، مدد کر رہے ہیں۔ والدین کا بھی مقصد بن رہا ہے کہ ہاں، بچے اس میدان میں آگے بڑھیں۔

اس رفتار کو ہمیں جاری رکھنا ہے بس، اس میں ذرا بھی سستی نہیں آنے دینی ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ سرکار آپ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلے گی، باقی سہولتوں  کی جو جو ضرورت ہوگی، وہ بھی پورا کرے گی۔ اب ہمیں رکنا نہیں ہے اب پیچھے مڑ کر دیکھنا نہیں ہے ۔ ہم نے آگے ہی دیکھنا ہے۔ مقصد طے کر کے جانا ہے اور فتحیاب ہوکر آنا ہے۔ میری آپ سب کو بہت بہت نیک خواہشات ہیں۔

بہت بہت شکریہ۔

۔۔۔

ش ح ۔ اس۔ ت ح ۔                                               

U –5726



(Release ID: 1827473) Visitor Counter : 515