ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کی وزارت

جناب بھوپیندر یادو نے ایک جانب ترقی جبکہ دوسری جانب آلودگی سے پاک ماحول کے درمیان توازن برقرار کرنے کی ضرورت پر زور دیا


ہمیں ہمیشہ یہ حقیقت یاد رکھنی چاہئے کہ وسائل کا ہمارا استعمال ’شعوری اور باقاعدہ استعمال پر مبنی ہونا چاہئے نہ کہ غیر شعوری اورتباہ کن استعمال‘: جناب بھوپیندر یادو

ہندوستان کے ماحولیات سے متعلق قانون اور پالیسی نہ صرف سلامتی اور تحفظ کے لیے ہیں۔ بلکہ یہ مساوات اور انصاف کے لیے بھی ہیں: جناب بھوپیندر یادو

جناب یادو کا کہنا ہے کہ  ماحولیاتی انصاف اور مساوات اُس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک کہ ماحولیاتی تحفظاتی اقدام کے لیے سب سے زیادہ متاثر ہونےو الے افراد وہ نہیں ہیں جو اس کے ذمے دار ہیں

جناب بھوپیندر یادو کا ’’ماحولیاتی تنوع اور ماحولیاتی فقہ سے متعلق کانفرنس: قومی اور بین الاقوامی پس منظر‘‘ کے مکمل ا جلاس سے خطاب

Posted On: 08 MAY 2022 5:37PM by PIB Delhi

ماحولیات ،جنگلات  اور آب وہوا کی تبدیلی کے وزیر جناب بھوپیندر یادو نے’’ماحولیاتی تنوع اور ماحولیاتی فقہ سے متعلق کانفرنس: قومی اور بین الاقوامی پس منظر‘‘ کے مکمل ا جلاس سے خطاب کیا جو آج موہالی میں چندی گڑھ یونیورسٹی میں منعقد ہوئی۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image001D5GO.jpg

جناب یادو نے موضوع کے تعلق پر زور دیا یعنی’’ماحولیاتی تنوع اور ماحولیاتی فقہ‘‘؛ان ادوار میں جن میں ہم جی رہے ہیں۔ وزیر موصوف نے کہا کہ ماحولیاتی تنوع، ماحولیاتی صورتحال میں اختلافات کے ساتھ مختلف علاقوں کے درمیان قسم کی بناوٹ کا ایک تصور ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ امکانی طور پر تحفظاتی منصوبہ بندی کے لیے اہم ہے۔

To end environmental exploitation at the level of individuals, industries & even governance, PM Shri @narendramodi Ji gave a mantra of ‘L.I.F.E’...

Our utilisation of resources must be based on ‘Mindful and Deliberate Utilisation' not on ‘Mindless and Destructive Consumption’.
pic.twitter.com/WHlvlvJddX

— Bhupender Yadav (@byadavbjp) May 8, 2022

وزیر موصوف نے اجاگر کیا کہ جب آئندہ تین ہفتوں میں دنیا اسٹاک ہوم میں یکجا ہونے کی تیاری کر رہی ہے، ایسے میں ہندوستان اپنی بین الاقوامی عہد کے ضمن میں آگے آگے رہا ہے جو 1972 میں اسٹاک ہوم کانفرنس میں کئے گئے تھے۔ 1972 میں اسٹاک ہوم کانفرنس کے بعد 1974 کا آبی قانون اور 1981 کا فضائی قانون وضع کیا گیا تھا۔انھوں نے بتایا  کہ ہم اِس وقت قومی صاف فضائی منصوبہ (این سی اے پی) کا نفاذ کر رہے ہیں جس کا مقصدمقامی سے لے کر عالمی پیمانہ تک مختلف طرح کی مداخلتوں کے ذریعے ہندوستان کی فضا کو صاف رکھنا ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/IMG-20220508-WA0018SLJR.jpg

جناب یادو نے واضح کیا کہ ریو اعلامیے 1992 کے تحت ہمارے عہد کے مطابق، ہندوستان کے پاس ایک وسیع اور جامع ماحولیاتی اثرات کے جائزے کا عمل ہے۔وزیر موصوف نے زور دے کر کہا کہ آج ہم دنیا کے  اُن چند ممالک  میں شامل ہیں جو حقیقی طور پر حیاتیاتی تنوع سے متعلق کنوینشن کا نفاذ کر رہا ہے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/IMG-20220508-WA00190WR2.jpg

جناب یادو نے کہا کہ ہندوستان میں ناگویا پروٹوکول کے تحت تجزیہ اور فائدے کی شراکت کو فعال کردیا ہے اور میرا پختہ یقین ہے کہ  حیاتیاتی تنوع سے متعلق فیصلہ سازی کی موثر طاقت مقامی برادریوں کے پاس ہونی چاہئے۔انھوں نے مزید کہا کہ  اس کے نتیجے میں آج 275000 حیاتیاتی تنوع کی انتظامیہ کمیٹی ہندوستان کے ہر ایک گاؤں اور مقامی ادارے میں فعال ہے۔

جناب یادو نے کہا کہ ہمارے وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی دور اندیش قیادت کے تحت گذشتہ پانچ برسوں میں حکومت نے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کو جمہوری بنانے کا کام کیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ یہ فخر کی بات ہے کہ ہر مقامی ادارے میں ایک منتخب ادارہ ہے جو لوگوں کی حیاتیاتی تنوع کے رجسٹر (پی بی آر) کی شکل میں اپنی حیاتیاتی تنوع کا انتظام کرتا ہے اور اسے دستاویزاتی شکل دیتا ہے اور جہاں ہمارے معاشرے کے انتہائی دبے کچلے زمرے کو ایک با وقار زندگی فراہم کرنے کا ہمارا نظریہ مرکزی توجہ کا باعث ہوتا ہے۔

وزیر موصوف نے کہا کہ گلاسگو میں سی او پی 26 میں ،ہندوستان کا پنچ امرت خاص طور پر اس کے غیر روایتی توانائی کی صلاحیت کو 2020 تک 500 گیگا واٹ پہنچانے کے بامقصد اعلانات سے یہ مزید ثابت ہوتا ہے کہ پیرس معاہدے کے درجہ حرارت سے متعلق اہداف کو حاصل کرنے کی تئیں ہماری حصہ رسدی اہم ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ  اس کامیابی کی بہت بڑی اہمیت ہے جب ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہندوستان  کے ماحولیاتی قانون اور پالیسی نہ صرف سلامتی اور تحفظ کے لیے ہے-بلکہ یہ مساوات اور انصاف کے لیے بھی ہے۔

ماحولیاتی انصاف کے بارے میں بات کرتے ہوئے جناب بھوپیندر یادو نے کہا کہ اس تصور کی بنیاد اس عقیدے پر رکھی گئی ہے کہ ماحولیاتی کے تحفظ کے لیے ایک غیر مناسب بوجھ اُن لوگوں کے کندھوں پر نہیں پڑنا چاہئے جو لوگ اس مسئلے کے ذمے دار نہیں ہیں۔ ماحولیاتی انصاف اور مساوات اُس وقت تک نہیں ہوسکتے اگر ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات کے ذریعے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے افراد ، وہ افراد نہیں ہیں جو اس کے ذمے دار ہیں۔ یہ عالمی اور مقامی دونوں طرح سے لاگو ہوتا ہے: ہندوستان کا فی کس کاربن کا اخراج، دنیا میں سب سے کم (دوٹن) کے مابین ہے لہٰذا مغربی صنعتی ممالکوں کو آب وہوا کی تبدیلی سے مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ مالیاتی بوجھ برداشت کرنا چاہئے۔

جناب یادو نے مزید کہا کہ ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کی سرکردہ قیادت میں ہندوستان میں پائیدار طرز زندگی اور ماحولیاتی انصاف کا تصور دیا، جن میں سے دونوں  کو پیرس معاہدے کی تمہید میں  جگہ دی گئی ہے۔ آئی پی سی سی کے ورکنگ گروپ III کی رپورٹ میں ہندوستان کے مساوات سے متعلق اس زور پر مزید توجہ مرکوز کی گئی ہے کہ اسے ماحولیاتی ایکشن اور پائیدار ترقی میں تمام سطحوں پر  لاگو کیا جانا چاہئے۔

رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے اور وزیر موصوف نے اس کے حوالے سے کہا ’’اقوام متحدہ کی آب وہوا کے ریجیم میں  مساوات ایک مرکزی عنصر رہا ہے جو شفاف شراکت جائزہ لینے میں وقت اور چیلنجوں کے مطابق تبدیل نہ ہوتا ہو‘‘۔ انھوں نے زور دے کرکہا کہ یہ، میرے عزیز دوستوں، ہندوستان کی اِس پوزیشن کو اور زیادہ مستحکم کرتا ہے کہ  مساوات ، اس معاملے میں کسی بھی دیئے گئے موضوع، ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق بین الاقوامی تعاون کی بنیاد ہے۔

انھوں نے مزید بیان کیا کہ ہم اس حقیقت سے انحراف نہیں کرسکتے کہ ہندوستان میں دنیا بھر میں جنگلات پر انحصار کرنے والی برادریوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ ان کی روزی روٹی، ثقافت اور ان کا وجود جنگلات تک رسائی پر منحصر ہے۔ جنگلات کو بچانے کے ہمارے مقصد میں ہم جنگلات میں آباد برادریوں کی اتنی بڑی تعداد کے وجود کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ انھوں نے مزید کہا کہ  یہی وجہ ہے کہ تحفظ کے مشرقی نظریات، جو مقامی افراد کو نظرانداز کردیتے ہیں، جنگلات پر انحصار کرنے والی برادریوں کے حقوق پر سنجیدہ اثرات ڈال سکتے ہیں۔

اسی کے ساتھ ساتھ وزیر موصوف نے کہا کہ ہمارے ساحلی علاقے، دنیا میں ماہی گیروں کی بڑی برادریوں کو روزی روٹی فراہم کرتے ہیں جن کا وجود ساحلی علاقوں کی سالمیت پر منحصر ہوتا ہے لہٰذا ، حالانکہ یہ اہم ہے کہ ساحلی علاقوں میں ماحولیاتی لچکدار بنیادی ڈھانچے تعمیر کرنے پر توجہ مرکوز کی جانی چاہئے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس بات کو یقینی بنانا ہےکہ ان لوگوں پر کوئی منفی اثر نہ ہو جن کی روزی روٹی ساحلوں پر منحصر ہوتی ہے۔

وزیر موصوف نے برسوں سے ماحولیاتی قانون کی لہروں کے بارے میں بھی بات کی جو ترقیات کے لیے ناگزیر بن گئے ہیں۔ معاشرے کو خوشحال ہونا چاہئے لیکن ماحولیات کی قیمت پر نہیں۔ اور اسی طرح ماحولیات کو بھی تحفظ فراہم کیا جانا چاہئے لیکن ترقیات کی قیمت پر نہیں۔ انھوں نے زور دے کرک ہا کہ اس کی اہم ضرورت یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان توازن پیدا کیا جائے یعنی ایک جانب ترقی اور دوسری جانب آلودگی سے پاک ماحول۔

حکومت ہند ایسی جامع پالیسیوں کے ساتھ سامنے آئی ہے جن میں ہمارے مقاصد کے تئیں جامع رسائی ہے۔ مثال کے طور پر ، پروجیکٹ ڈولفن، پروجیکٹ الیفنٹ اور نیشنل ٹائیگر کنزرویشن اتھارٹی جو ایک سپریم ا دارے کے طور پر متعلقہ کی آبادیوں میں اضافہ کرنے کے لیے قابل ستائش کام انجام دے رہی ہیں۔ انسانی زندگی کے معیار کو بہتر بناکر نسلوں کے لیے پائیدار ترقی کے ساتھ ساتھ، قدرت کے ساتھ ہم آہنگی میں رہنا اور زندگی کو معاونت فراہم کرنے والے حیاتیاتی نظام کی صلاحیت کے جاری رکھنے کو برقرار رکھنا اہم ہیں اور یہی زندہ رہنے کی مشرقی منطق ہے۔ یہ ترقیاتی اور ماحولیاتی ضروریات کو مربوط کرنے پر توجہ مرکوز کرتی ہے ۔ جناب یادو نے اجاگر کیا کہ اسی لئے انتظامی اقدامات کے ذریعے پائیدار ترقی اس کا واحد جواب ہے۔

جناب بھوپیندر یادو نے کہا کہ ماحولیاتی قانون، حالیہ برسوں میں اس کی اپنی ترقی کے باوجود، ابھی تذبذب میں ہے۔ ذمے داری کے تصور کو، قومی اور بین الاقوامی دونوں سطح پر تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ماحولیاتی فقہ ابھی تک مقامی سطح پر آلودگی پھیلانے والوں یا جنگلاتی زندگی کا ناجائز کاروبار کرنے والوں کو سزا دینے پر توجہ مرکوز کرتا ہے جبکہ آب وہوا کی تبدیلی، سمندروں اور فضا کی آلودگی ہمیں ایک ایسا طریقہ کار وضع کرنے پر مجبور کرتے ہیں جو قومی سرحدوں سے باہر دیکھ سکتے ہوں۔ یہ اس حقیقت کے تناظر میں انتہائی اہم ہے کہ اگر وہ مقام ملک کے اندر ہی نہیں ہیں تو  آلودگی پھیلانے والوں کو ذمے دار قرار دینے کے لیے ایک محدود طریقہ کار ہے۔ انھوں نے  مجموعہ کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ کس طرح ہندوستان اُن معاملات پر دنیا کو کارروائی کرنے کے لیے کہہ رہا ہے جو آب وہوا کی تبدیلی کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے حساس اور اہم ہیں۔

سن 2018 میں بھارت نے ’’پلاسٹک آلودگی کو ختم کرنے‘‘ کے موضوع پر عالمی ماحولیاتی دن کی میزبانی کی تھی۔ ہندوستان کے وزیر اعظم نے  پلاسٹک کے واحد استعمال کو ختم کرنے کا عالمی پیمانے پر نعرہ دیا تھا۔ ہندوستان کے اس نعرے نے دنیا بھر میں پلاسٹک آلودگی سے متعلق نمایاں کارروائیوں کے لیے راہ ہموار کی تھی اور اسے ایک تاریخی قرارداد بنا دیا تھا نیز اسے مارچ کے مہینے میں نیروبی میں منعقد یو این ای اے 5.2 میں اختیار کیا گیا تھا۔ جناب یادو نے اس یقین کا اظہار کیا کہ یہ دنیا بھر میں ’’پلاسٹک آلودگی کو ختم کرنے‘‘ ختم کرنے کے سلسلے کو ادارہ جاتی بنایا جائے۔

ایک اور حساس معاملہ جس پر وزیر موصوف نے توجہ مرکوز کروائی وہ فضائی آلودگی کا ہے۔ فضائی آلودگی کا معاملہ  خاص طور پر، قومی راجدھانی خطے دلّی اور ہریانہ، پنجاب، راجستھان اور اترپردیش جیسی دیگر متصل ریاستوں میں ہے۔ ہم اس حقیقت کے بارے میں حساس تھے کہ فضائی آلودگی کا انتظامیہ کبھی بھی جغرافیائی مخصوص نہیں ہوسکتا۔ حکومت نے قومی راجدھانی خطے اور متصل علاقوں میں فضائی معیار کے انتظامیہ کا قانون وضع کیا جس کا مقصد ایک کمیشن کو خطے میں فضائی آلودگی انتظامیہ پر اختیارات کے ساتھ واحد اتھارٹی بنانا تھا۔ یہ قانون اور اس کی رسائی، آلودگی کے انتظامیہ کی فضائی رسائی پر محیط ہے۔ انھوں نے کہا کہ  ایسا اس لئے ہے کیونکہ  ہوا علاقائی اور سیاسی سرحدوں سے باہر سفر کرتی ہے اور ان ریاستوں کے لیے فضائی آلودگی کو ایک مشترکہ فضائی آلودگی کے کنٹرول کی پالیسی کے ذریعے ہی کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔

جناب یادو نے ماحولیاتی مسائل کے ازالے میں اہم رول ادا کرنے پر عدلیہ کی ستائش کی۔ ماحولیات کی صنعتکاری اور تحفظ دو متضاد مفاد ہیں اور عدلیہ کے نظام اور ملک کے حکمرانی کے نظام کے سامنے ان کا معقول ہونا ایک اہم چیلنج ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ہندوستان میں پائیدار تحفظ اور ترقی اور قدرتی وسائل کے انتظامیہ کے لیے، قومی جنگلات کی پالیسی، حیاتیاتی سیاحت کی پالیسی، قومی آبی پالیسی کی شکل میں پالیسیاں ہیں جو مختلف قوانین کے ذریعے موثر طور پر نافذ کی جارہی ہیں۔

وزیر موصوف نے مزید کہا کہ  ہندوستان میں آئی سی ایف آر ای، ڈبلیو آئی آئی،  ایف ایس آئی، آئی آئی ایف ایم، این ای ای آر آئی جیسے  عالمی درجے کے باوقار تحقیقی ادارے ہیں، جو انٹلیکچوئل اور اکیڈمک مدد فراہم کرتے ہیں اور پالیسی رہنما خطوط اور وقت وقت سے ان میں بہتری کرنے کے عمل میں فعال طور پر ملوث ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں جنگلات میں اضافے اور شجرکاری میں اضافے نیز ٹائیگر، ہاتھی، شیر، گینڈے اور بہت سی دیگر قسموں کی آبادی میں بھی اضافے کا باعث ہوتے ہیں۔

جناب یادو نے اس موقع کو ’’تباہی کے بغیر ترقی‘‘ کی ہندوستان کی ترقیاتی منطق کا اعادہ کرنے کے لیے استعمال کیا۔ انھوں نے مطلع کیا کہ ہم متعلقہ وزارتوں اور محکموں کے ساتھ کام کر رہے ہیں تاکہ اقتصادی ترقی کے تمام شعبوں میں حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کو اصل دھارے میں لایا جاسکے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ حیاتیاتی تنوع کے قانون کو ترمیم کرنے کی تجویز ہے تاکہ مقامی کمیونٹی کے مفادات پر مزید توجہ دی جاسکے نیز حیاتیاتی تنوع کے شعبے میں تحقیق کی حوصلہ افزائی کی جاسکے تاکہ ہم موثر طور پر اور زیادہ کام کرنے کے مقصد کو حاصل کرسکیں۔

افرادی، صنعتی اورگلاسگو میں گذشتہ برس سی او پی 26 میں حکمرانی  کی سطح پر  بھی ماحولیاتی استحصال کو ختم کرنے، وزیر اعظم نرینادر مودی جی نے ‘L.I.F.E’ کا ایک منتر دیا جو ماحولیات کے لیے طرز زندگی کی نمائندگی کرتاہے اور جسے انسانیت اور کرہ ارض کو بچانے کے لیے دنیا کو اختیار کرنا چاہئے۔

جناب یادو نے زور دے کر کہا کہ ہمیں ہمیشہ یہ حقیقت یاد رکھنا چاہئے کہ وسائل کے استعمال کرنے کی ہماری بنیاد باشعور اور جان بوجھ کر استعمال کرنے کی ہونی چاہئے نہ کہ بے شعور اور تباہ کن کھپت کے لیے۔ ہمیں ماحولیات کو تحفظ کرنے کی ضرورت ہے جو نہ صرف مستقبل کی نسل کے لیے ہے بلکہ آج کے دور کی نسل کے لیے ہے۔ کیونکہ ہمارے پاس صرف ایک ہی کرہ ارض ہے اور کوئی کرہ ارض بھی نہیں ہے۔ اب یکجا ہوکر سوچنے کا وقت آگیا ہے۔ وسیع قدرتی حیاتیاتی نظام کی پائیدار فروغ کے لیے وسیع ترین سوچ بچار اور ایسی وسیع ترین رسائی کی ضرورت ہے جس کو باقاعدہ سائنسی حمایت حاصل ہے۔

بھارت کی سپریم کے جج عزت مآب جناب جسٹس سنجے کشن کول، ہوائی کی سپریم کورٹ کے جج عزت مآب جناب جسٹس مائیکل ولسن، پنجاب اینڈ ہریانہ، چنڈی گڑھ کی ہائی کورٹ کے جج عزت مآب جناب جسٹس آگسٹن جارج مسیح، ہندوستان کی سپریم کورٹ کے سابق جج  اور این جی ٹی کے سابق صدر نشین جسٹس سوتنتر کمار ، چنڈی گڑھ یونیورسٹی کے چانسلر جناب ستنام سنگھ سندھو اور دیگر عمائدین اس تقریب کے دوران موجود تھے۔

*****

U.No.5143

(ش ح - اع - ر ا)   



(Release ID: 1823723) Visitor Counter : 191